پروفیسر خالد شبیر احمد
ملکی سیاسی حالات کو دیکھ کر شورش کاشمیری رحمتہ اﷲ علیہ کا ایک شعر بے اختیار لبوں تک آجاتا ہے:
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھوگھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
سیاست اتنی پراگندہ ہوچکی ہے کہ الفاظ وبیان سے ماورا ہوکے رہ گئی ہے۔ سیاست دانوں میں نہ خوفِ خدا رہا نہ حب الوطنی، کسی مسئلہ پر کوئی اتفاق ہی نہیں ہے۔ ہر مسئلہ نفاق وافتراق کا زاویہ ہے۔ کالاباغ ڈیم کا مسئلہ بھی اس خلفشار کی نذر ہو کے رہ گیا اور اب چینی راہداری کا ۴۶؍ارب ڈالر کا منصوبہ سیاست دانوں کے درمیان نزاع کا موضوعبن چکا ہے۔ اگرآغاز یہ ہے تو اختتام کیا ہوگا؟ سیاسی جماعتیں جب تجارتی ادارے بن کے رہ جائیں تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں،نہ کوئی نصب العین ، نہ عزم، نہ ارادہ سب کچھ دھرے کا دھرے رہ جاتا ہے۔ جمہوری طرزِ حکومت کے جتنے فوائد دوسرے ملکوں میں ہیں یہاں ان میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا اور جمہوریت کے جتنے نقائص ہیں وہ سارے کے سارے ہمارے ملک میں بھوتوں کا ناچ ناچتے نظر آتے ہیں۔
ہم قیام پاکستان سے پہلے مسلمان سیاست دانوں پر نظر دوڑائیں تو دل و دماغ ان کی بہادری، ان کی جرأت، ان کے عزم، ان کے خلوص اور ان کے ایثار کے حضور سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وصف تھا کہ وہ ابہام وتشکیک کا شکار نہیں تھے۔ ایک واضح نصب العین ان کے سامنے تھا۔ جس کے حصول کے لیے وہ پورے عزم کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ کے ہی رکے۔ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان سے پہلے کے سیاست دان جتنے بڑے سیاست دان تھے اتنے ہی بڑے اہل علم بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا حسرت موہانی جو ہندوستان کے پہلے کامل آزادی کا نعرہ لگانے والوں میں سرفہرست تھے وہ جہاں سیاسی رہنما تھے وہیں پر وہ ایک بہت بڑے شاعر ادیب صحافی بھی تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد آزادیٔ ہند کے رہنماؤں میں ایک منفرد حیثیت کے حامل تھے تو علم و فضل و صحافت کے میدان میں بھی انھوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ان کا ’’البلاغ‘‘ ’’الہلال‘‘ جہاں آزادیٔ ہند کا ترجمان تھا وہیں وہ صحافت کے میدان میں اعلیٰ وارفع معیار کا بھی حامل تھا۔ اسی طرح مولانا محمد علی جوہر کا نام اگر آزادی کے حوالے سے ایک روشن استعارہ بن چکا ہے تو دوسری طرف صحافت کے میدان میں ان کا ’’ہمدرد ‘‘اور ’’کا مریڈ‘‘ بھی اس آزادی کے لیے سرگرم کاررہا۔ مولانا ظفر علی خان نے آزادی کے لیے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے صحافت کے میدان میں بھی اپنے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے دلیری کے ساتھ آزادی کے مشن کو نامساعد حالات میں بھی جاری رکھا۔ جب ہمارے ہاں سیاست و صحافت اونچے معیار کی تھی تو پھر انگریز جیسافرعون مزاج حکمران ہندوستان کو ۹۰سال سے زیادہ غلام نہ رکھ سکا اور اسے بوریا بستر یہاں سے اٹھا اپنے ملک سدھارنا پڑنا۔ ہندوستان کیا آزادہوا کہ اقوامِ عالم آزاد ہوگئیں ۔
اب یہاں سیاست ہی نہیں صحافت بھی غیر معیاری ہے۔ کالم نویس ہوں یا پھر الیکٹرانک میڈیا پہ کام کرنے والے ’’اینکر‘‘حضرات سبھی ایک ہیں۔ میں ان نام نہاد صحافیوں اور اینکرز کے ٹی دی پر تبصرے اور تجزیے سنتا اور دیکھتا رہتا ہوں،یہ لوگ بزعمِ خویش اپنے آپ کو نہ جانے کتنے بڑے صحافی سمجھتے ہوں گے۔ مگر ان کی گفتگو، ان کے تبصرے، ان کے تجزیے، علم و تنقیدی صلاحیت، خبریت اور پیشہ ورانہ خلوص سے خالی ہوتے ہیں بلکہ بے پرکی اڑاتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ سن کر معیارِ صحافت پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی ان حضرات نے دین کے حوالے سے بات نہیں کی اور نہ انھوں نے ان رہنماؤں کا تذکرہ کیا ہے جن کی قربانیوں سے ملک آزاد ہوا۔ کہیں پر خلفاءِ راشدین کی اُن خصوصیات کا ذکر نہیں کیا گیا جن خصوصیات کی وجہ سے وہ آدھی دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ ان صحافیوں نے یہاں تک بھی کہا ہے کہ ہم علامہ اقبال کو مصورِ پاکستان نہیں مانتے، پاکستان دین کے نام پر معرضِ وجود میں نہیں آیا۔مسلم لیگ اور قائداعظم تو ایک لبرل اورسیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ ہمیں ماضی کے اقبال سے کوئی سروکار نہیں ہے ہمیں آج کا اقبال چاہیے۔ یہ اینکر حضرات ایک طرف ایک جماعت کے کسی سیاسی لیڈر کو سمجھاتے ہیں تو دوسری طرف اس کی مخالف جماعت کے لیڈر کو بٹھا کر انھیں لڑاتے ہیں، ان کے درمیان جھگڑا کراتے ہیں اور درمیان میں تجارتی اشتہارات کو دکھاتے ہیں۔ گویا ٹی وی کے مختلف چینل سودا بیچنے کے اڈے بن چکے ہیں، ایسے پروگراموں سے بھلا کیا قوم کی فکری و تجزیاتی صلاحیتوں کی تعمیر ہوگی۔عریانی وفحاشی کے یہ اڈے ملک کے نوجوان طبقے پر بری طرح سے اثرانداز ہورہے ہیں، قتل وغارت، جنسی بے راہ روی کو آخری حد تک لے جانے کے ذمہ داریہی لوگ ہیں۔ کیا ایسی سیاست اور ایسی صحافت تجارت نہیں تو پھر اور کیا ہے۔آ ج کل کے کالم نویس ، اینکر حضرات کروڑپتی بن چکے ہیں۔ اگر انھیں قلم فروش کہا جائے تو کیا غلط ہے۔جس طرح سیاست تجارت ہوگئی ہے ویسے ہی صحافت بھی ایک تجارت ہے پھرعلم سیاسیات سے بھی ایسے لوگ بے بہرہ ہیں،انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ریاست اورحکومت میں کیا فرق ہے۔ سیاسی رہنما یہ نہیں جانتے کہ وحدانی طرزِ حکومت اور وفاقی طرز حکومت میں کیا فرق ہے، علم سیاسیات سے بے بہرہ لوگ جب ملکی سیاست پر چھاجائیں تو پھر سیاست کا مزاج کیسے اعتدال پر رہ سکتا ہے۔
اس پہ طرہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک پر ایسا نظامِ سیاست مسلط کر رکھا ہے جو وفاقی بھی ہے او رپارلیمانی بھی ہے جو جمہوریت کے تمام نظاموں میں سب سے مشکل ترین نظام ہے۔ ان سیاست دانوں کو معلوم نہیں ہے کہ جہاں خوشحالی نہ ہو، لوگ سیاسی شعور سے ناآشنا ہوں، اچھی قیادت سے قوم محروم ہو وہاں ایسا مشکل نظام کیسے کامیاب ثابت ہوسکتا ہے۔ ان سیاست دانوں کا یہ حال ہے کہ اٹھارویں ترمیم کر کے آج اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات پر خود پریشان ہیں۔ یہ کراچی کے حالات، رینجرز کے اختیارات کا جو مسئلہ ہے، یہ اٹھارویں ترمیم کا نتیجہ ہے۔ وفاق کو کمزور کر کے حالات کو اتنا خراب کر دیا گیا ہے کہ اب اس کاتدارک سامنے نظر نہیں آتا۔ سندھی سب سے پہلے سندھی ہے، بعد میں پاکستانی اور ایسا ہی حال دوسرے صوبوں کا ہے۔ وہ یکجہتی ، وہ اتفاق، وہ اتحاد کیسے پیدا ہوگا جو قوموں کی ترقی کا باعث ہوتا ہے۔ ملکی دستور جس ملک کے اندر صرف ایک کتاب میں ہی رہ جائے اور اس پر عمل نہ ہورہا ہو وہاں پر حالات ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔ ملک کے سیاست دان خود دستور پر عمل کرانے سے گریزاں ہیں اس لیے کہ دستور پر عمل کرنے سے ان کی اپنی زندگی جو عیش وعشرت میں گزر رہی ہے ناممکن ہوجائے گی ۔ دستور میں تو حاکمیتِ اعلیٰ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اسلامی معیشت اور معاشرت کا تذکرہ ہے، خلافِ شرع قوانین نہیں بن سکتے، جو ہیں انھیں اسلام کے مطابق کرنے کی پابندی ہے، اردو کو قومی زبان بنانے کا بھی ذکر ہے ۔ جب کہ صورت حالات یہ ہے کہ سودی نظام ملک پر مسلط ہے حالانکہ کئی برس پہلے پاکستان کی شریعت کورٹ نے سود کو حرام قرار دے دیا تھا جس کے خلاف اس وقت کی مسلم لیگی قیادت نے اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں کردی تھی اور وہ اپیل آج تک سپریم کورٹ کے کولڈ سٹوریج میں پڑی ہے۔ یہی سبب ہے زنا اور شراب اب ملک کے اندر ایک وبا کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ یہ ہیں وہ حالات جن سے ہمارا واسطہ ہے، ان تمام حالات کے ذمہ دار ہمارے ملک کے سیاست دان ہیں اور پھر دوسرے درجہ میں یہ ملکی نام نہاد صحافت کے دعوے دار ۔
دور تک پھیلتا نفرت کا دھواں ہے کہ جو تھاوقت کی دار پہ دل نوحہ کناں ہے کہ جو تھا
غنچۂ گل خاک بہ سر، نالہ بلب ہے بلبلصحنِ گلشن میں وہی شورِ فغاں ہے کہ جو تھا
عیش و عشرت میں پلے مست یہاں زاغ و زغنلمحۂ زیست یہ انساں پہ گراں ہے کہ جو تھا
پاؤں میں میرے وہی جبر کی زنجیرِ قدیمظلم ہر سمت یہاں رقص کناں ہے کہ جو تھا
مجھ کو دیکھا تو سرِبزم وہ بولے خالدؔیہ وہی شعلہ نفس، شعلہ فشاں ہے کہ جو تھا