سید محمد کفیل بخاری
25؍ جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر میں عام انتخابات کے وہی نتائج سامنے آئے جن کا ایک ہفتے سے میڈیا پر چرچا تھا۔یعنی 25؍ جولائی 2018ء کا آموختہ دہرایا گیا۔ 44نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف:25 ،پیپلزپارٹی :11، مسلم لیگ ن :6،جموں و کشمیر پی پی :1اورمسلم کانفرنس :1۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 2افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔
آزاد کشمیر انتخابات میں پرانی روایت برقرار رہی کہ جس کی مرکز میں حکومت اس کی کشمیر میں حکومت ۔ اب آئندہ پانچ سال آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہوگی۔
مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پہلے نمبرپر تھی ۔ لیکن وہ 6نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئی ۔پیپلز پارٹی کے انتخابی جلسے غیر مؤثر تھے لیکن وہ 11نشستوں کے ساتھ حزب اختلاف کی بڑی پارٹی بن کر دوسرے نمبرپر آگئی ۔ تحریک انصاف کے انتخابی جلسے پوری سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود انتہائی پھس پھسے تھے۔لیکن وہ 25 نشستیں حاصل کرکے پہلے نمبر پر آکرحکمران جماعت بن گئی۔
ایک غیر جانب دار تجزیہ نگار اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ نتائج کوئی حیران کن نہیں ہیں۔ 70سال سے پاکستان میں یہی کچھ ہوتاآیا ہے اوراسے ’’جمہوریت کا حُسن‘‘ کہتے ہیں۔
جیتنے اور ہارنے والوں کا وہی پراناروایتی ردِّ عمل سامنے آیاہے ۔تحریک انصاف کے وزراء شیخ رشید ، علی امین گنڈا پور اورفواد چودھری نے کہا ہے کہ :
’’پیپلزپارٹی کی قیادت اپنی شکست تسلیم کرے اور بلاول اپنی پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ دے ۔ مسلم لیگ’’ن‘‘ فوج کی پیداوارہے ،اسے فوج کے خلاف بولنے کی سزا ملی ہے ‘‘۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ :’’دھاندلی اورتشدد کے باوجود پیپلز پارٹی نے 11نشستیں جیتیں‘‘۔
مریم نواز اور لیگی قیادت نے کہاکہ :
’’بدترین دھاندلی ہوئی ، ووٹ چوری ہوا، نتائج تسلیم نہیں کرتے، دھاندلی کے خلاف تحریک چلائیں گے‘‘۔
حکمران جماعت کا بیانیہ تو الیکشن سے پہلے بھی واضح تھا اور نتائج آنے کے بعد اور واضح ہوگیاہے ۔ابھی مزید واضح ہوگا ۔پی ٹی آئی تو آئندہ انتخابات میں وفاق کے ساتھ ساتھ سندھ اور باقی صوبوں میں بھی حکومت بنانے کے دعوے اور عزم کا اظہار کررہی ہے۔اُسے کرنا بھی چاہیے کہ جتنی مضبوط قوت اس کی پشت پر ہے اس کا تقاضابھی یہی ہے ،لیکن افسوس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ’’ ن‘‘ پر ہے جو دھاندلی اور ووٹ چوری کا الزام لگانے کے باوجودپاکستان کی اسمبلیوں کی طرح آزاد کشمیر اسمبلی میں بھی بیٹھنے کے لیے تیار بلکہ بے تاب ہیں ۔اگر 2018ء کے انتخابات کے بعد جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی بات مانتے ہوئے اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھاتے یا پھر تمام اپوزیشن جماعتیں استعفے دے کر پارلیمنٹ سے باہر آجاتیں تو آج یہ بر ے دن نہ دیکھتے ۔دونوں جماعتوں نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چُھرا گھونپااور پل بھر میں اِدھر سے اُدھر ہوگئیں۔دونوں پارٹیوں کے منافقانہ طرزِ عمل نے اُنہیں یہ بُرے دن دکھائے۔ا ن کے ساتھ جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے وہ اسی کی مستحق ہیں۔ مولانافضل الرحمن ایک کہنہ مشق اوردانا سیاست دان ہیں۔وہ کشمیر کی انتخابی مہم میں شریک ہونے کی بجائے وزیرستان میں جے یوآئی کے تاریخی جلسے میں خطاب کرنے چلے گئے ۔25سال بعد مولاناکو وزیرستان میں داخل ہونے کی اجازت ملی ۔ وہ پاکستان کے آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے جے یوآئی کے انتخابی حلقوں میں مسلسل محنت کررہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں انتخابات کا شور شرابہ تو ختم ہوگیا لیکن ساتھ ہی سرکاری حلقوں سے دھیمی سروں میں جو آوازیں سنائی دے رہی ہیں وہ انتہائی خطرناک اور خوف ناک ہیں۔
(1) آزاد کشمیر کے نام سے ’’آزاد‘‘ کا لفظ ختم کر دیا جائے
(2) کشمیر کو پاکستان میں شامل کرکے مستقل صوبہ بنا دیا جائے
(3) ان فیصلوں کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے
یہ آوازیں پاکستان کے 72سالہ حکومتی وریاستی مؤقف اور کشمیری عوام کے حق رائے دہی وآزادی کے منافی ہیں۔ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور حکمران پاکستان کے حال پر رحم فرمائیں۔
متعصب قادیانی افسر کی تعینا تی اور منسوخی:
16جولائی 2021ء کو پنجاب حکومت نے معروف و متعصب قادیانی شوکت مجو کہ کو تحصیل کونسل ضلع میانوالی میں چیف آفیسر تعینات کیا۔ جس پر حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم (سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ وسرپرست جمعیت علماء اسلام) نے 24جولائی 2021ء کو ایک خط تحریر فرماکر ضلع میانوالی کی انتظامیہ سے اس کی تعیناتی منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ نیز تمام دینی حلقوں کو اس مسئلہ پر احتجاجی آواز بلند کرنے کی طرف بھی متوجہ کیا۔
الحمد للّٰہ ملک کی تمام دینی جماعتوں خصوصاً جمعیت علماء اسلام، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام اور پاکستان شریعت کونسل نے خانقاہ سراجیہ کی صدائے حق پر لبیک کہا۔
مجلس احرار اسلام ضلع میانوالی کے امیر جناب عبداﷲ علوی نے بھی ڈپٹی کمشنر میانوالی کو ایک تحریری درخواست کے ذریعے شوکت مجوکہ کی میانوالی میں تعیناتی منسوخ کرنے کامطالبہ کیا۔ محترم صاحبزادہ سعید احمد صاحب اور محترم صاحب زادہ نجیب احمد صاحب نے ہر سطح پرمحنت و کوشش کی۔ ضلع بھر کی دینی جماعتوں اور علماء کرام نے بھر پور صدائے احتجاج بلند کی۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ،حضرت خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم کی دعاؤں اور علماء کی محنت سے انتظامیہ نے عوام کامطالبہ منظور کرکے 26جولائی 2021ء کو شوکت مجوکہ کی تعیناتی منسوخ کردی۔ اﷲ تعالیٰ سب کو جزاء خیر عطاء فرمائے (آمین ثم آمین)