سید یونس الحسنی بخاری مرحوم
کئی دنوں سے ہوا کی دستک تو سن رہا تھا
میرا تیقّن کہ دھوپ نگری میں سبز موسم اتر رہا ہے
میری دعا باریاب ہو گی
محبتوں کی
ہمیشگی کی
حیاتِ تازہ کی آرزو کی
نزار موسم میں برکھا رُت کی
مجھے یقیں تھا کہ میرا دلبر
گلیمِ فقر و غنا لپیٹے
جلال و عظمت کے راستوں پر نکل پڑے گا
کلامِ حق کی فصاحتوں سے
عدوِ دیں کو بھسم کرے گا
وہ اپنے جذبِ نہاں کی شمشیرِ پرُ چشم سے
منافقت کا سرِ تکبر قلم کرے گا
مگر یہ معلوم اب ہوا ہے….
ہوا نے دھوکہ دیا تھا مجھ کو
میری دعائیں تو مر چکی ہیں
گلاب فصلیں اجڑ چکی ہیں
محبتیں تو بچھڑ چکی ہیں
حیاتِ تازہ کی آرزوئیں بکھر چکی ہیں
اجل کے پیغام بر کو دیکھو
وہ میرے گھر کی اک اور عظمت، اک اور رونق کو لے گیا ہے
میرا برادر نئے جہاں کو چلا گیا ہے
گواہی لے کر
گواہی دے کر
کہ اس کا ایمان سب سے اعلٰی
عظیم تر ہے
میرے مرّبی اے میرے محسن، عطائے محسن
میں تیرے کرم کی کہانیاں کس طرح سے لکھوں!
میں تیری شب خیزیوں کی باتیں سناؤں کیسے؟
میں اپنا احوال کس سے چھیڑوں؟
بدن تو زندہ ہے روح لیکن
فغاں بہ لب ہے
میں کیسے کہہ دوں وہ شخصِ رعنا یہاں نہیں ہے
کہ میرے بس میں تو کچھ نہیں ہے!!