ڈاکٹر عمرفاروق احرار
تیسری قسط
سابق قادیانی پروفیسرطاہراحمدڈار قادیانیت کے خدوخال سے پردہ سرکاتے ہوئے کہتے ہیں کہ قادیانیت کی ساری عمارت ہی جھوٹ پر قائم ہے۔وہ ہر معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں ۔مثلاً قادیانی اپنی اصل تعداد کبھی نہیں بتائیں گے،بلکہ ہمیشہ اپنی تعداد کو بڑھا چڑھا کر ہی پیش کریں گے۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق رجسٹرڈ قادیانیوں کی تعداد ایک لاکھ 60 ہزار 473 ہے ،چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چوتھے قادیانی خلیفہ مرزا طاہر احمد نے اپنے ہی پیش رو بھائی مرزا ناصر احمد( تیسرے قادیانی خلیفہ) کی بیان کردہ قادیانیوں کی تعداد سے اختلاف کیا اوراُسے ردکردیا۔ 1993 ء میں موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد نے نئے بیعت ہونے والے قادیانیوں کی تعداد 2 لاکھ 64 ہزار 308 بتائی۔ اگلے سالوں میں یہ تعداد ڈبل کرتے گئے۔ جس میں احمدیوں کی اصل تعداد الگ تھی۔ 2020ء میں نئی بیعتوں کی تعداد 2 کروڑ 6 لاکھ بتائی گئی۔ پھراُنہیں یادنہیں رہتا کہ پہلے کیاکیاجھوٹ بول چکے ہیں ،لہٰذا بڑھتی ہوئی بیعتوں کا گراف یک دم نیچے آنے لگتا ہے۔ 2003ء میں 8 لاکھ اور پھر 2005 ء میں یہ تعداد تین لاکھ تک نیچے آ جاتی ہے۔ کُل بیعتوں کی تعداد کا اعلان 16 کروڑ 60 لاکھ ہوا تھا۔2003ء میں مرزا مسرور احمد جب خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے بیعتوں کی تعداد کی تصدیق کرنا چاہی ۔تب میں بھی بیعتوں کی چھان بین کرنے والی ٹیم کا رکن تھا،مگر تحقیق پر مقامی اورضلعی سطح پر سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں بیعت ہونے والے اعلانات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اوراُن بلندبانگ دعووں کی تصدیق نہ ہو سکی ۔جب مقامی سطح پر دروغ گوئی کا یہ عالم ہے تو بین الاقوامی سطح پر اُن کے پیش کردہ اعدادوشمارکی مبالغہ آمیزی کی حقیقت کھل کر واضح ہوجاتی ہے۔دراصل ہوتا یہ ہے کہ جب سالانہ جلسہ ہوتا ہے تو تو یہ جرمنی سے سے لوگوں کو جہازوں میں بھر کر لاتے ہیں اور لندن اور کینیڈا سے چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے بندے لاتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ کو جہاز کا ٹکٹ بھی دیں گے ۔ آپ آئیں اور ہمارے سالانہ جلسہ پر چلیں ۔ اس طرح یہ کرسیاں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حقیقت میں قادیانیوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے ۔تعداد میں اضافہ کے دعوے صرف اعلانات ہی کی حد تک ہیں ۔1974 ء میں جب تیسرے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد سے قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانیوں کی تعداد کے بارے میں سوال کیاتو مرزا ناصر ببانگ دہل صریحاً دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے گئے ۔یحییٰ بختیار کے سوال پر کہ آپ نے بیس سال میں کتنے لوگ احمدی کیے ؟مرزا ناصر احمد کا کہنا تھا کہ کہ ہمارے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے ۔حالانکہ ان کے پاس ان بچوں کابھی ریکارڈ موجود ہے جوبچے لوگوں نے جماعت احمدیہ کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں ، مگرکیا دیدہ دلیری ہے کہ وہ اسمبلی میں دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اور کمال سادگی بلکہ مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں ۔پروفیسر طاہر احمد نے نے اس سوال پر کہ کہ قادیانی جماعت کا ٹارگٹ کیا ہے ؟جواب میں کہا کہ ایک تو قادیانیوں کا سب سے بڑا ہدف صرف مال اکٹھا کرنا ہے۔ مرزا غلام احمد نے لکھا ہے کہ چندہ کے مال کو تجارت میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اب قادیانی فیملی اسی مال سے بزنس کر رہی ہے اور جماعت کے اعلیٰ و کلیدی عہدوں پر مرزا کی فیملی ہی کے لوگ براجمان ہیں ۔کوئی اراضی کہ معاملات ڈیل کرتا ہے اور کسی نے کاروبار سنبھالا ہوا ہے ۔لوگ رکشے اور ٹیکسی چلا کر چند دے دیتے ہیں اور قادیانی لیڈر اس کے بل بوتے پر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے اور پر تعیش زندگی گزارتے ہیں ۔دوسرا انہیں حکومت کے حصول کی دیرینہ تمنا ہے ۔وہ قادیان سے بھی اسی لیے پاکستان آئے تھے، کیونکہ وہ مردم شماری میں اپنی شناخت علیحدہ کر بیٹھے تھے۔ اب وہاں ان کا ٹھہر نا مشکل ہو گیا تھا ۔ اس لیے وہ بھاگ کر پاکستان چلے آئے۔ یہاں آ کر انہوں نے انگریز دور کے اور بعد ازاں سر ظفر اللہ قادیانی وزیر خارجہ کے عہد کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات قادیانیوں کے وسیع اختیارات اور رسوخ سے فائدہ اٹھایا۔ اپنے بھائی بندوں کو مختلف محکموں میں بھرتی کرایا۔ ربوہ (چناب نگر)کے لیے زمین حاصل کی اوراسے اپنے ارتداد کا مرکز بنا لیا۔ پروفیسر طاہر احمد ڈارکہتے ہیں کہ قادیانی جماعت خدائی جماعت نہیں ، بلکہ انگریز کا پیدا کردہ فتنہ ہے۔جس کا مقصد تخلیق اسلام کشی اورمسلمان دشمنی ہے۔ جماعت میں کوئی شرعی نظام رائج نہیں ،بلکہ فرد واحد یعنی خلیفہ کو مطلق العنانیت حاصل ہے ۔موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد کی پیدائش 1950 ء کی ہے ۔ 2003 ء میں اس نے خلافت پر قبضہ کیا۔ ابتدا ہی سے عام قادیانیوں کو دھوکہ میں رکھا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اس کے حکم کی خلاف ورزی خدا کے احکام سے انحراف ہے۔ خلیفہ کے لیے انتخابات نہیں ہوتے، بلکہ خلیفہ سازی میں نئے خلیفہ ہی کی ایک خفیہ طاقت کار فرما ہوتی ہے جو خلیفہ کے حق میں ہاتھ کھڑے کرا دیتی ہے۔ قادیانی جماعت میں وقت کے ساتھ ساتھ مخصوص مفادات کے پیش نظر خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جب1909ء میں مرزا غلام احمد قادیانی مرا تو قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نور الدین کا چناؤ ہوا ،کیونکہ حکیم نور الدین مرزا قادیانی کا بزنس پارٹنر تھا۔ اس لیے قادیانی جماعت کے مخصوص چند لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حکیم نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جائے۔ ورنہ خدشہ ہے کہ جماعت احمدیہ میں انتشار ہوگا اورجماعت ٹوٹ جائے گی اور ہم نے جس مریدانہ کلچر کو رواج دے رکھا ہے، وہ ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا حکیم نورالدین مرزا قادیانی کے نائب کی حیثیت سے سے خلافت کی گدی پر بیٹھ گیا ۔اسے خلیفہ بنانے والی 14رکنی مجلس تھی جو مرزا قادیانی نے خود منتخب کی ہوئی تھی۔ جس میں بعد میں الگ ہو جانے والی جماعت‘‘ لاہوری گروپ ’’کے اراکین کی اکثریت بھی شامل تھی۔ 1914 ء میں حکیم نور الدین کی موت کے بعد خلافت کے لیے مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کا انتخاب ہوا جوانتخاب نہیں ،بلکہ سیدھا ساداقبضہ تھا ،کیوں کہ اس وقت مرزا محمود نے ڈیڑھ دو ہزار بندے لے کریلغار کی ہوئی تھی کہ جیسے قادیان کو فتح کرنا ہے ۔مرزا بشیر الدین نے تمام جماعت کو یرغمال بنا لیا تھا ،کیونکہ قادیانی جماعت کے بڑوں نے مرزا بشیر الدین کے کردار پر اعتراضات اٹھائے تھے اور اسے خلافت کے منصب کے لیے نااہل قرار دیا تھا ۔مرزا بشیر الدین نے اعتراضات کے جواب کے بجائے مولوی محمد علی جیسے سینئرقادیانیوں کے ساتھ انتہائی بد سلوکی کی ۔مرزامحمودکے انتخاب کے مسئلہ پر قادیانی جماعت دوفرقوں میں تقسیم ہوگئی ۔مولوی محمدعلی نے قادیان چھوڑکر لاہورمیں رہائش اختیارکرلی اوراُن کا گروہ لاہوری گروپ کہلایا۔بہرحال دھونس اور دھاندلی سے مرزا بشیر الدین دین نے خلافت پر قبضہ کرلیا ۔مرزا محمود کی نااہلیت کا یہ عالم تھا کہ اسے بیعت لینے کے الفاظ تک یاد نہیں تھے اور اس کے لیے بیعت کے الفاظ دہرانے اور آگے بیعت کرانے والا مولوی غلام سرور شاہ تھا جو ایک افیمی تھا ۔یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ،بلکہ قادیانیوں کی کتاب‘‘ اصحاب احمدیت’’ میں ان کے افیمی ہونے کا لکھا ہوا ہے ۔اس طرح کے منشیات کے عادی اور بدکردار لوگوں کا ایک ٹولہ اکٹھا تھا ۔اب بھی اسی قماش کے لوگوں کو کو ساتھ ملا کر کر قادیانی رائل فیملی اپنے خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے ۔پہلے قادیانی خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کے طریقہ انتخاب کو تبدیل کر دیا گیا۔ جب مرزا بشیر الدین نے دیکھا کہ پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نور الدین کی اولاد خلافت کے حصول کے لیے سٹینڈنگ پوزیشن میں آ گئی تھی تو اس نے سب سے پہلے ان کو جماعت سے نکالا اور اس کے ساتھ ہی آئندہ کے لیے خلیفہ کے طریقہ انتخاب میں تبدیلی عمل میں لائی۔ اس طریقہ کار کے مطابق چند قادیانی جماعتوں کے امیراور خاص الخاص مبلغین و ناظرانِ شعبہ جات کو اِکٹھا کر لیا جاتا جو خلیفہ کو منتخب کرتے یہ ایک فرضی کارروائی ہے۔ورنہ خلیفہ کا انتخاب تو پہلے ہی اندرون خانہ کر لیا جاتا ہے ۔موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد کی جماعت پر گرفت کمزور ہو چکی ہے اسی لیے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر قادیانیوں نے مرزا مسرور احمد کے ‘‘عالمی خلیفہ اسلام’’ہونے کا ٹرینڈ چلایاتھا۔اب جماعت اور خلافت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مریدوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ خلافت کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے ،کیونکہ ان کا کھوکھلا نظام تیزی سے روبہ زوال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ چناب نگر میں جماعت احمدیہ کے محلہ صدر نے نے اپنے ایک ہم مذہب قادیانی کی بیٹی کے ساتھ تعلقات قائم کرلیے تو اس نے مرزا خورشید احمد ناظر اعلیٰ امور عامہ چنا ب نگر کودرخواست دی اور ساتھ ہی ایک لیٹر مرزا مسرور احمد کے نام بھی لکھ دیا کہ محلے کا صدر جو میری بچی کو اپنی بیٹی کہا کرتا تھا ۔اب اس نے میری بیٹی کے ساتھ تعلقات قائم کر کے شادی کر لی ہے اورمجھے ہراساں کر رہا ہے ۔جس پر مرزا مسرور احمد نے مداخلت کی، مگر مقامی جماعت صدر محلہ سے ملی ہوئی تھی ،کیونکہ یہ ہر حالت میں اپنے عہدہ داران ہی کا دفاع کرتے ہیں ۔ اس لیے مرزا مسرورکی مداخلت بھی کام نہ آئی اور مرزا مسرور احمد نے متاثرہ لڑکی کے والد کو اپنے خط میں لکھا کہ نیچے والے عہدیدار میری بات نہیں مانتے ۔یہ قادیانی خلیفہ کی جماعت پر گرفت کی ابتر حالت کا کا کھلا ثبوت ہے۔ جماعت میں ہر طرح کی کرپشن انتہا پر ہے۔ دیکھ لیجیے کہ گزشتہ سالوں میں قادیانی جماعت کے بڑے بڑے مالی سکینڈل منظر عام پر آئے ہیں ۔پانامہ لیکس میں مرزامسروراحمد کی آف شور کمپنیوں اورشیئرزکا شہرہ رہا ہے۔پانامہ پیپرز کی فہرست کے مطابق قادیانی رہنماؤں کی کوئی ایک آدھ آف شور کمپنی نہیں ،بلکہ وہ کئی کئی کمپنیوں کے مالک، یا شیئرز ہولڈر زتھے۔ جن میں مرزا مسرور احمد، مرزا مظفر احمد، مرزا ناصر انعام احمدوغیرہ شامل تھے۔ دو سال پہلے کا واقعہ ہے ہے کہ مقامی سیکرٹری مال چناب نگر نے پچاس ساٹھ لاکھ روپے کا غبن کیا ،لیکن ان کا کا نظام دیکھیں کہ وہ کہتا ہے کہ کہ اگر مجھے انکوائری میں ڈالا گیا تو سب کے نام لے دوں گا اور معاملہ کو دبا دیا گیا ۔مرزا مسروراحمد ستر برس سے زیادہ عمر کے ہو چکے ہیں ۔ ان کے جانشین کی دوڑ ابھی سے جاری ہے ۔اس دوڑ میں میں مرزا مسرور کی سسرالی شاہ فیملی بھی شامل ہے ۔خالد شاہ، محمود شاہ کے لیے ابھی سے تگ و دو اور لابنگ کی جا رہی ہے۔ تمام اہم عہدوں پر مرزا غلام احمد قادیانی کی فیملی کا ہولڈ ہے ۔مثلا ًمرزا خورشید احمد ناظر اعلیٰ چناب نگر مرا تو تو اس عہدہ پر اس کے بھائی مرزا غلام احمد کو بٹھا دیا گیا ۔مرزا غلام احمد کے بعد جب کوئی کارآمد بندہ اس عہدے کے لیے نہ ملا تو انہیں مجبوراً خالد شاہ کو ناظر اعلیٰ بنانا پڑا جس کا تعلق بھی مرزا فیملی ہی سے ہے ۔جب تک قادیانی خودنہیں اٹھیں گے اورمرزافیملی کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آوازبلندنہیں کریں گے۔اُن کا خون اسی طرح نچوڑا جاتارہے گا اورقادیانی لیڈر اُن کی دولت کے سہارے اُن کااستحصال کرتے رہیں گے۔قادیانیوں کا نچلا طبقہ اپنی قیادت سے نالاں ہے۔وہ خواہش کے باوجود قیادت کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔عام قادیانی قادیانیت کی حقیقت کو کیسے سمجھ سکتا ہے ؟ اس پر سوچنے کی اشدضرورت ہے،نیز مسلمانوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ آگے بڑھیں اورقادیانیوں کو دعوتِ اسلام دے کر اُنہیں قادیانی وڈیروں کے نرغے سے نکالیں ۔(جاری)