ڈاکٹر عمرفاروق احرار
قسط نمبر2
پچاس سال تک قادیانیت میں زندگی گزارنے والے پروفیسر طاہراحمدڈارکہتے ہیں کہ
‘‘جماعت احمدیہ نے بظاہرمذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے،مگر یہ کوئی مذہبی گروہ نہیں ،بلکہ ایک لمیٹڈ فرم ہے ۔ جس کے مالی اور اور سیاسی مقاصد ہیں ۔مرزا غلام احمد کی فیملی کے لوگ پرتعیش زندگی گزارتے ہیں ۔ان کے کروڑوں کے فارم ہیں ۔ بلند و بالا کوٹھیاں ہیں ۔ چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہیں ۔ ان کا کوئی روزگار نہیں ہے، لیکن ان کی عیاشی اور لائف سٹائل کا بنیادی ذریعہ چندہ ہے ۔افریقہ کے ملک گھانا میں قادیانیوں کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے ۔مختلف فارمز وہاں پر بنائے گئے ہیں ۔ قادیانیوں کا موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے گھانا ہی میں آٹھ سال تک قیام پذیر رہا ہے ۔ربوہ( چناب نگر) میں ان کا یہ لائف سٹائل اور لگژری لائف نہیں تھی ۔یہ سب سیٹ اپ بیرون ممالک میں بنائے گئے ہیں ۔بیرونی ملکوں میں انہوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ۔ تاکہ اگر پاکستان میں حالات ان کے خلاف ہو جائیں تو وہ وہاں بھاگ جائیں ،لیکن یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں چلے جائیں گے،لیکن وہ قادیان میں کبھی نہیں جائیں گے، کیوں کہ وہاں عیش و راحت کے سامان میسرنہیں ہیں ۔ قادیانی جماعتیں ساری دنیا سے چندہ اکٹھا کرتی ہیں اور پھر وہ سارا چندہ لندن میں بھجوایا جاتا ہے ہے۔ درحقیقت یہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے جو چندہ بالخصوص پاکستان سے جاتا ہے۔ وہ بہت سے ذرائع سے ہو کر جاتا ہے اور لندن میں جاکرجمع ہوتا ہے ۔جہاں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اب اسے کس محفوظ مقام مثلا ًانڈیا یا پانامہ میں منتقل کیا جائے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ منی لانڈرنگ کا بانی کون ہے تو میرا جواب ہوگا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے جو نوٹوں کو دو حصوں میں کاٹ کر آدھے نوٹ کوایک لفافہ میں اور دوسرا آدھا نوٹ دو سرے لفافہ میں ڈلوا کر بذریعہ ڈاک منگوایا کرتا تھا۔ یہ اپنے وقت کی منی لانڈرنگ تھی۔ اب موجودہ خلیفہ کا اپنا سٹائل ہے ۔یہ جو سارے منی لانڈرنگ کے کے موجد ہیں ۔یہ سارے اس مافیا کا حصہ ہیں جو کہ عام قادیانیوں کو بہکا کر ان سے اسلام کے نام پر دولت ہتھیاتے ہیں اورپھر اُسے اپنی عیاشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اس نام نہاد اسلامی گروہ سے کوئی بندہ پوچھے کہ پندرہ بیس کروڑ کی گاڑیاں خود رکھی ہوئی ہیں اورعام لوگوں کو سادگی کا درس دیتے ہو ،کیا اسی کا نام منافقت نہیں ہے ؟ قادیانی جماعت میں چندہ کی 50 سے زیادہ اقسام ہیں جو عام احمدیوں پر عائد ہیں ۔ پہلا چندہ عام کہلاتا ہے ۔جس کی ادائیگی ہر احمدی پر لازم ہے۔ جس کی شرح ہر احمدی کی آمدن پر چھے فی صد بنتی ہے ۔چاہے وہ رکشہ چلاتا ہے یا اس کے پاس پراڈو ہے۔ لوگوں کو بلیک میل کرکے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ جماعت کو دیں ۔ چندئہ عام کا سالانہ بجٹ 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ پھر‘‘ تحریک جدید’’ کا چندہ ہے۔ (یاد رہے کہ‘‘ تحریک جدید ’’کی تنظیم کو کو مرزا بشیر الدین نے نے مجلس احرار اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے لیے1934ء میں قائم کیا تھا۔)تحریک جدید کے چندہ کا سال اکتوبر میں مکمل ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ وصیت کا چندہ بھی چلتا ہے ہے جو آمدن اور جائیداد پر دس فیصد ہوتاہے ۔مرزا غلام احمد نے ایک خواب دیکھا تھا ۔جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب‘‘ حقیقۃ الوحی’’ میں کیا ہے، کیونکہ انہیں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ والد فوت ہو جائیں گے اور ساری زندگی میں نے کچھ کیا نہیں ۔ اب ان کے بعد کیا کروں گا ۔‘‘حقیقۃ الوحی’’ میں اسی کے متعلق لکھا ہے کہ جب والد کی کی وفات قریب آئی تو مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ یہ ذریعہ معاش جو ہے یہ تو والد کی زندگی تک ہے ۔پنشن اورجو انعام و اکرام انگریز سے ملتا تھا وہ بھی اسی وقت تک ملے گا۔جب تک والدزندہ ہے۔ مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ پھر مجھے الہام ہوگیا ‘‘الیس اللہ بکاف عبدہ’’پھر پیسے آنے شروع ہو گئے ۔ہفتہ میں تین لاکھ روپے اکٹھے ہوگئے ۔اب میرا یہاں پر سوال ہے اُن احمدی دوستوں سے کہ جن کے ساتھ میں 50 سال رہا ہوں کہ جب مرزا صاحب لکھ رہے ہیں کہ مجھے اپنے ذریعہ معاش اور آرام کی فکر تھی تو یہ چندے جو ہم دیتے ہیں تو کیا یہ مرزا صاحب یا ان کی فیملی کا ذریعہ معاش ہے ،یا خدا کا حکم ہے ۔یا تو مرزا صاحب اپنی آمدن کے آنے کی وجہ یہ بتاتے کہ اس کے بعد ان کی کوئی لاٹری نکل آئی، یا کوئی کام لگ گیا تھا۔حالانکہ جو آمدن ہو رہی تھی وہ تو چندو ں کا سلسلہ تھا۔ ایسا ہی مرزا صاحب کا ہندوؤں کے مقابلے میں ‘‘ براہین احمدیہ’’ نامی کتاب کی اشاعت کا اعلان تھا ۔جس کے لیے ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے انہیں چندے ارسال کیے تھے ۔کتاب کی اشاعت کا اعلان بھی چندوں کی آمدن کا ذریعہ بنا۔ 1905 میں میں جب مرزا غلام احمد نے دیکھا کہ میرا وقت قریب ہے اور اب اپنی اولاد اور خاندان کے لیے مستقل ذریعۂ آمدن مہیا کر جاؤں ۔ تاکہ ان کا ذریعہ معاش کا سلسلہ چلتا رہے ۔تب انہوں نے چندئہ وصیت کا سلسلہ شروع کیا ۔ جس کے لیے انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں خواب میں ایک جگہ(بہشتی مقبرہ) دکھائی گئی ہے۔ جس میں دفن ہونے والا جنتی ہو گا اور پھر مرزا قادیانی نے اس میں دفن ہونے والوں کے لئے کچھ شرائط بیان کیں ۔ ان میں سے ایک شرط ساری زندگی مختلف قسم کے چندوں کی ادائیگی اور پھر اپنی کُل منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کا دس فیصدحصہ قادیانی جماعت کے نام کر دینا بھی تھی۔ مرزا قادیانی نے ‘‘بہشتی مقبرہ ’’میں دفن ہونے والوں کے لیے اپنے رسالہ ‘‘ضمیمہ الوصیۃ ’’میں جو شرائط لکھی ہیں ۔ ان میں جو سب سے آخری شرط ہے ،اس میں مرزا صاحب لکھ رہے ہیں کہ میرا خاندان ان شرائط سے مستثنیٰ ہوگا اور جو شخص اس استثناکے بارے میں اعتراض کرے گا، وہ منافق ہوگا ۔یہ ان لوگوں کے لیے اطلاع ہے ،جنہوں نے رسالہ ‘‘الوصیۃ’’کو غور سے نہیں پڑھا، یا سرے سے پڑھا ہی نہیں ہے ۔مرزا غلام احمد نے مزید لکھا ہے کہ جو اس نظامِ وصیت میں شامل نہیں ہوتا ،خواہ وہ چندہ دیتا بھی ہے، یعنی جو عام چندہ دیتا ہے۔ وہ منافق لوگ ہیں ۔ خبیث لوگ ہیں ۔مومن وہی ہیں جو 1/10کی وصیت کرتے ہیں ۔یہ تھا وصیت کا دھندہ۔قادیانیوں کے لیے چار چندے دینا لازم ہیں :چندئہ عام ،تحریک جدید، وقف جدید اور تنظیم (‘‘انصارالاحمدیہ’’،‘‘ خدام الاحمدیہ’’، لجنہ وغیرہ)کا چندہ۔چھوٹے بچے ‘‘اطفال الاحمدیہ’’ میں چندہ دیتے ہیں ۔میرے پاس ایک خاندان کی جو چھ افراد پر مشتمل ہے ،ایک لسٹ ہے جو بیک وقت چھبیس چندے دے رہاہے ۔یہ چندے جذباتی سطح پر لوگوں کو بلیک میلنگ سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔چندے مختلف ناموں سے موسوم ہیں : مثلا ًحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین اور مرزا قادیانی کے بیٹوں کے نام سے چندہ۔جب کوئی قادیانی چندہ دینے سے انکار کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کمال ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا چندہ نہیں دیں گے ۔حیرت ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے نام پر چندہ نہیں دیں گے۔ اس طرح یہ حیلوں بہانوں سے چندے وصول کرتے ہیں ۔ جب رمضان المبارک آتا ہے تو لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو لوگ یک مشت سو فیصد پیشگی چندے ادا کر دیں گے تو اُن کے ناموں کی لسٹ حضور یعنی مرزا مسرور احمد کے پاس جائے گی اور آپ کا دعائیہ فہرست میں نام آجائے گا ۔حضور آپ کے لیے دعا کریں گے۔ یہ پیسے نکلوانے کا ایک جذباتی و استحصالی طریقہ ہے۔ یہ سب وہ چندے ہیں جو باقاعدہ ہیں اور لازمی واجب الادا ہیں ۔چھوٹے بچوں کے لیے ننھے مجاہد کے نام سے چندہ لازم کیا گیا ہے۔ کمانے والا ایک ہے اور وہ چندے دس بندوں کے دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع ہیں ، جن پر جماعت احمدیہ چندے بٹورتی ہے ۔ان چندوں کے احتساب کے لیے جماعت احمدیہ میں اندرونی طور پر ایک نام نہاد آڈٹ سسٹم بنایا گیا ہے، لیکن جماعت کے کسی فرد کو اُن پر انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ خلیفہ ہر قسم کے احتساب سے ماورا ہوتا ہے۔ جماعت قادیانیوں سے چندے وصول توکرتی ہے، مگر مقامی علاقائی مسائل میں وہ حاصل شدہ چندوں میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرتی ،بلکہ عبادت گاہوں کی تعمیر،یا فلاحی کاموں کے لیے بھی مقامی جماعت اور کارکنوں ہی کو الگ سے فنڈ جمع کرانے پڑتے ہیں ۔ہیومنٹی کے نام پر عبادت گاہوں کی تعمیر کے علاوہ فلاحی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنا سراسر جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور یہ سب لوگوں سے پیسے حاصل کرنے کے حیلے بہانے ہیں ۔ اگر کسی غریب احمدی کو امداد کی ضرورت ہو تو سب سے پہلے وہ درخواست لے کر اپنے حلقے کے صدر کے پاس جاتا ہے۔ پھر امیر شہر ،پھر امیر ضلع کے پاس اور ایک سے دوسرے کے پاس جاتے جاتے اس بیچارے کا کباڑا ہو جاتا ہے اوراس کی عزت نفس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔میں نے خود شیخوپورہ کے ایسے غریب قادیانیوں کی فہرست دیکھی ہے جو باقاعدہ مسلمانوں سے زکوٰۃ لیتے ہیں ،لیکن مجبوراًجماعت احمدیہ کو چندہ بھی دیتے ہیں ۔ جماعت خود کسی غریب کی مدد نہیں کرتی۔ وہ بے چارے تومسلمانوں سے زکوٰۃلے کر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور جماعت کے عتاب سے بچنے کے لیے اسے چندہ بھی دیتے ہیں ۔ان کا ماٹو لوفار آل(Love for all) دراصل لو فار مال ہے ۔میں نے مرزا ئی مبلغ مبشر کاہلوں سے سوال کیا تھا کہ آپ قادیان میں تقریرکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ چندے دو،تبلیغ کرو اور چلو جنت میں ۔ بھلا یہ کس شریعت کا معاملہ ہے ۔جس کی آپ سب لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں تو وہ بہت شرمندہ ہوئے اور ہنستے ہنستے باہر نکل گئے ۔ان چندوں سے حاصل شدہ آمدن کس کے استعمال میں جاتی ہے اورکون اس بے حساب دولت سے فائدہ اٹھارہاہے۔اس کی تفصیل الگ ہے ۔(جاری)