سید محمد کفیل بخاری
وزیراعظم عمران خان نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’امداد کے بدلے ڈومور کے بجائے امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتے ہیں امریکہ نے امداد کے بدلے ہمیشہ اپنی مرضی کرناچاہی ۔ ہمارا تعاون نا کافی سمجھا۔ پاکستانیوں کے خیال میں ان تعلقات کی بھاری قیمت ادا کی۔نائن الیون کے بعد یہ تعلق برابر کا نہیں تھا۔ پچھلی حکومتوں نے وہ مطالبات بھی پورے کرنے کی کوشش کی جو ممکن نہیں تھے۔ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائے۔ اُن کے خلاف فوجی کار روائی کے سوا منتخب افغان حکومت سے ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ طالبان پر ہمارا اثرورسوخ کم ہوگیا ہے۔ ان سے کہا ہے کہ طاقت کے زور پر کابل فتح نہ کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکی انخلاسے پہلے سیاسی حل نکلے۔
(روز نامہ جنگ ملتان، 26جون 2021ء)
26جون کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم خان نے کہا ہے کہ:
’’امریکی جنگ لڑنا غلطی تھی ہم امریکہ کی جنگ لڑرہے تھے اور وہ ہمیں ہی برا بھلا کہ رہا تھا۔‘‘
(روزنامہ جنگ ملتان 27جون 2021ء )
وزیر اعظم عمران خان نے جن حقائق کا اعتراف کرکے نئی حکومتی پالیسی کا اعلان واظہار کیا ہے وہ خوش آئندہ ہے نائن الیون کے بعد سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے غیر مشروط طور پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا کر وطن عزیز پاکستان کو غلامی کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں آج تک ہم امریکی ’’ڈومور‘‘ کے آگے ڈھیر ہوتے آرہے ہیں۔
1979ء میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد ہونے والی مزاحمتی جنگ طالبان حکومت کے قیام، پھر اس کے خاتمے اور اب امریکہ طالبان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے تک امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو استعمال کیا۔ اب بھی افغانستان سے امریکی فوجوں کے واپسی کے بعد وہاں خانہ جنگی کرانے کی عالمی استعماری سازشیں جاری ہیں۔ تاہم طالبان نے عام معافی کا اعلان کرکے افغان قوم کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ ملانے کا بہترین فیصلہ کیا ہے۔ نتیجتاً اکثر مخالف دھڑوں نے اس پیش کش کو قبول کرکے طالبان کے آگے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ افغانستان کے بیشتر علاقوں پر طالبان ہی قابض ہیں۔ فتح کابل کی مہم جوئی جاری ہے۔ موجودہ افغان حکمران امریکہ کی منتیں کر رہے ہیں اور امریکہ طالبان کے حالیہ ا قدامات پر سر پیٹ رہا ہے۔ جو بائیڈن حکومت نے گزشتہ دنوں پاکستان سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے دیے جائیں۔ پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے انکار کیا اور پھر اُن کی اتباع میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی انکار کردیا۔یقینی بات ہے کہ امریکہ حسب سابق ان اڈوں کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔
طالبان نے کبھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ہمیشہ پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا ذریعہ بنے۔ یہ طالبان ہی کا ظرف ہے کہ پاکستانی ائربیس سے امریکی جہاز اُڑکر اُن پر بم برساتے رہے لیکن انہوں نے پھر بھی پاکستان کے خلاف جنگ نہیں کی۔ ہمیں اپنا مسلمان بھائی قرار دیا۔ البتہ جن مقامی طالبان کو ہمارے اداروں نے تشکیل دیا تھا انہوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اﷲ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے اور حکمرانوں کو ملک وقوم کے حق میں بہتر فیصلے کرنے کی توفیق دے۔
لارڈ طارق قادیانی کا دورہ پاکستان:
برطانوی وزیر مملکت مشہور قادیانی لارڈ طارق گزشتہ دنوں پاکستان کے دور ے پر آئے ۔وہ وزیر اعظم عمران خان اور دیگر اہم سرکاری عہدیداروں سے ملے۔ لارڈ طارق سِکہ بند علانیہ قادیانی ہیں او ربرطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان میں کس مشن پر آئے اور کیا معاملات طے کیے؟ تفصیلات سے قوم بے خبر ہے ۔نام نہاد مجاہد ختم نبوت وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تو انہیں شیلڈ بھی پیش کی ہے۔ معلوم نہیں کہ شیخ صاحب نے لارڈ طارق کو قادیانیوں کی کن خدمات کے اعتراف میں یہ شیلڈ پیش کی، ایک طرف ریاست مدینہ کا دعویٰ اور دوسری طرف سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تعلقات ۔ دوغلہ پن اور دوہرا کردار؟ افسوس صدا فسوس!