نام کتاب :اشاریہ ہفت روزہ خدام الدین(پہلاحصہ 1955تا1970) مرتب:صلاح الدین فاروقی ٹیکسلا
ضخامت: ۵۶۸صفحات قیمت :درج نہیں ناشر:القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ
اس وقت برصغیر پاک وہند سے متعدد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ یہ جرائد ادبی، نیم ادبی، سیاسی، مذہبی و سماجی ا ور دیگر موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اور ان کو ایسے باکمال مدیروں کی خدمات حاصل ہیں کہ انھوں نے اپنی ذہانت، بصیرت اور فکر سے رسائل و جرائد کی صحافت کوبلند مقام عطا کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج کے تحقیق کاروں اور محققوں کو بھی قدیم رسائل و جرائد سے استفادے کی ضرورت پیش آتی ہے۔بعض رسائل و جرائد کی اہمیت تو کتابوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ایک محقق یا مؤرخ کے لیے ان رسائل کے مکمل شماروں تک رسائی اور اُس کے بعد اس میں ہزاروں اہلِ علم کی تحریروں کو دیکھنا ناممکن ہے۔اس کا واحد حل ان رسائل کے اشاریوں کی ترتیب و تدوین اور ان رسائل کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن ہے۔ کیونکہ صرف اشاریہ ہی ایک فرد کی صحیح رہنمائی اور رہبری کر سکتا ہے اور کئی دن،مہینوں یا برسوں کی تحقیق و جستجو کے باوجود نہ ملنے والے مواد کی تلاش چند منٹو ں میں کی جا سکتی ہے۔ بیشتر اوقات رسا ئل میں مضامین ادھر ادھر بکھرے پڑے ہوتے ہیں اور ایک عام قاری کی رسائی نہیں ہوپاتی کہ فلاں مصنف کی کتاب یا ان کا مضمون کس جگہ اور کہاں مل سکتاہے۔ اس پریشان کن صورتِ حال سے بچنے میں صرف اور صرف اشاریہ ہی ہماری رہنمائی کر سکتاہے۔
اشاریہ سازی جہاں ایک علمی اور تحقیقی کام ہے وہاں یہ ایک مستقل فن بھی ہے۔ اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کا ادراک سب سے پہلے اورینٹل کالج میگزین کے فاضل مدیر مولوی محمد شفیع مرحوم کو ہوا۔بعد ازاں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور آج اہم رسائل کی اشاریہ سازی کا عمل باقاعدگی سے جاری ہے۔ اشاریوں کی موجودگی میں محقق سینکڑوں رسائل و اخبارات کے ہزاروں صفحات کی ورق گردانی سے بچ جاتا ہے اور اپنا قیمتی وقت اپنے تحقیقی کام میں صرف کرسکتا ہے۔اشاریے سے محنت اور اخراجات کی بھی بچت ہوتی ہے اور مطلوبہ مواد کی تلاش میں پیش آنے والی الجھن سے بھی اشاریے کی وجہ سے بچا جا سکتا ہے۔محققین اشاریہ کی مدد سے اپنی تحقیق کا نہ صرف استناد کرتے ہیں بلکہ انھیں اپنی تحقیق میں ان سے حد درجہ معاونت بھی ملتی ہے،اور ایک ایسی حوالجاتی دنیا کا دروازہ کھل جاتاہے جو محقق کے خوابوں کی تعبیر سے آباد ہوتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’اشاریہ ہفت روزہ خدام الدین (پہلا حصہ 1955تا1970)‘‘:صلاح الدین فاروقی ٹیکسلاکی مرتب کردہ ہے ،جس میں 1955ء سے لے کر1970ء تک کے مضامین ونگارشات وغیرہ کی اشاریہ سازی کی ہے۔’مرتب نے اشاریہ سازی کے جدید اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر یہ کتاب ترتیب دی ہے۔ ’’ ہفت روزہ خدام الدین ‘‘تقریباً پون صدی سے علمی دُنیا کو اپنی دینی، علمی، اَدبی اور تحقیقی نگارشات سے فیض یاب کرہا ہے۔ ماہانہ رسائل کی بہ نسبت ہفت روزہ رسائل کی اشاریہ سازی زیادہ دقت طلب کام ہے۔موصوف نے پھر بھی محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے ہفت روزہ خدام الدین کا اشاریہ مرتب فرماکر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ۔
امید ہے کہ اُن کا یہ اشاریہ علمائے کرام، راہ نوردانِ علم ،محققین،مصنّفین،کے لیے جہاں رہنمائی کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی ،وہیں پر ان حضرات کے لیے کسی ’’نعمت‘‘ سے بھی کم نہیں ہے۔ہفت روزہ خدام الدین کا اشاریہ علمی، تاریخی، تحقیقی اورادبی اعتبار سے ایک قابل قدر اور لائق ستائش کارنامہ ہے جو کہ ہر بڑی لائبریری کی ضرورت ہے۔ اﷲ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اورمحققین کے لیے نفع بخش بنائے ۔ (مبصر: حافظ اخلاق احمد)
نام کتاب: تحریکِ ختم نبوت تالیف: ڈاکٹر محمد عمر فاروق صفحات: ۵۷۲ قیمت: ۱۰۰۰ روپے
ملنے کا پتا: بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان 03008020384
عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کی اساس ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے تحفظ کے لیے کئی سو صحابہ نے اپنی جانیں نچھاور کرکے جھوٹے نبیوں کا قلع قمع کیا۔ دور صحابہ میں سب سے گھمسان کی جنگیں اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑی گئیں۔ یمامہ کی جنگ اس حوالے سے معروف ہے،اس جنگ میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے جس بے جگری سے دادشجاعت دی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تاریخ اسلام میں جب بھی حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی نے سر اٹھایا اسے کچل دیا گیا، یہی اصل علاج ہے۔ برصغیر پر انگریزی تسلط کے دوران مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو انگریز کی اسے بھر پور سرپرستی حاصل رہی۔ اسے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانانِ برصغیر ۱۸۵۷ء کی ہولناکیوں کو جھیل کر ناطاقتی کی کیفیت میں تھے۔ اس کے باوجود وقت کے جید علماء نے اس نئی نبوت کے فتنے کے خلاف اپنی توانائیں صرف کیں، علمی تعاقب کیا، سادہ لوح مسلمانوں کو ارتداد سے بچانے کے لیے قریہ قریہ شہر شہر جلسے منعقد کیے۔ خصوصاً قادیان اور گرد و نواح میں اپنی سرگرمیوں سے مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔
یہ تمام سرگرمیاں منتشر اور بکھری ہوئی تھیں، اکثر انفرادی کوششیں تھیں۔ مجلس احرار اسلام وہ جماعت ہے جس نے امیر شریعت حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی قیادت میں بحیثیت جماعت مرزائیت کے تعاقب کا فریضہ سنبھالا۔ مجلس احرار اسلام کے شعبہ تبلیغ ’’تحریک تحفظ ختم نبوت‘‘ کاباقاعدہ قیام ہوا۔مبلغین کوتیار کیاگیا۔ قادیان میں، جہاں مرزائیوں کا پینٹاگان تھا، مجلس احرار اسلام نے باقاعدہ دفتر کھول کرمنظم طریقے سے کام کا آغاز کیا۔
یہ بات تاریخی معنویت رکھتی ہے کہ حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کو امیر شریعت کا لقب دے کر تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کے لیے منتخب کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریک تحفظ ختم نبوت کو باقاعدہ چندہ دے کر اس میں شمولیت فرمائی اور اسے نجات اخروی کا ذریعہ جانا۔ مرزائیت کے تعاقب کے لیے مجلس احرار اسلام کو حضرت مولانا قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیو بند،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا احمد سعید دہلوی، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اﷲ تعالیٰ جیسے اکابر علماء کی تائید و سرپرستی حاصل رہی جب کہ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد حیات،مولانالال حسین اختر،مولاناعبدالرحمٰن میانوی،مولاناخلیل الرحمٰن لدھیانوی،مولانامفتی عبدالقیوم پوپلزئی،صاحبزادہ مولانا فیض الحسن، مولانا عبدالغفار غزنوی، مولانا عبیداﷲ احرار، مولانا عنایت اﷲ چشتی رحمہم اﷲ جیسے جید علماء اور جی دار خطیب اس قافلہ احرار کے رکن تھے۔
مولف کتاب جناب ڈاکٹر محمد عمر فاروق اپنے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
’’تمام مورخین کا اس حقیقت پر اتفاق ہے کہ بحیثیت جماعت قادیانیت کے تعاقب اور تحفظ ختم نبوت کے لیے عوامی سطح پر ملک گیر خدمات انجام دینے کا اعزاز مجلس احرار ہی کو حاصل ہے۔ اس لیے جب تک احرار کی بپا کردہ برصغیر کی اس پہلی جماعتی تحریک تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کا مطالعہ نہ کیا جائے اس دور کے مشکل ترین حالات،انگریز کے اسلام دشمن منصوبوں، قادیانیوں کی دین و وطن کے خلاف سازشوں اور مجاہدین ختم نبوت کی بے مثال قربانیوں کا حقیقی ادراک کرنا ناممکن ہے۔‘‘
پانچ سو بہتر صفحات پر پھیلی اور چار سو دو عنوانات میں سمٹی یہ کتاب ایک عہد کی مکمل دستاویز ہے۔ یہ جلد اول ہے جس میں 1931ء سے لے کر1946ء تک کے حالات و واقعات بالتفصیل اور با حوالہ درج ہیں۔ ڈاکٹر عمر فاروق صاحب کے بقول اس کتاب پر کام کا آغاز 1992ء میں کیا گیا۔ اور یہ کتاب 2020ء میں شائع ہوسکی۔ تقریبا تیس برس کی محنت شاقہ اس کتاب پر صرف ہوئی۔ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر نہایت عرق ریزی سے کام ہوا ہے، اس پیہم محنت سے یہ ہوا ہے کہ بے شمار اہم اور نادر واقعات منضبط ہوگئے ہیں جو شاید قدیم اخبارات کے صفحات میں ہی دبے رہ جاتے اور بالآخر کرم خوردہ ہوکر صفحہ ہستی سے ہی مٹ جاتے۔کتاب کی طباعت عمدہ ہے، اعلیٰ کاغذ پر کم فانٹ میں اسے شائع کیا گیا ہے، جس سے اس موضوع پر بیشترمواد ایک ہی جلد میں سمٹ آیا ہے۔
’’تحریک تحفظ ختم نبوت‘‘ کے حوالے سے ہونے والی عملی جدوجہد سے واقفیت اور درست تناظر جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے، چونکہ اس میں تقسیم برصغیر سے پہلے کے حالات و واقعات کا تذکرہ شامل ہے، جغرافیائی لحاظ سے اکثر جن مقامات کا تذکرہ ہے قادیان،بٹالہ،دیوبند،دہلی،سہارنپور وغیرہ…… وہ اکثر انڈیا میں واقع ہیں،اس لیے کسی طور اس کتاب کی اشاعت انڈیا میں بھی ہوسکے تو بہت اچھا ہوگا۔ (مبصر: محمد احمد حافظ)