مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ قسط نمبر ۱۵
بے سمجھ قوم کے لیڈر کی مشکلات:
لیڈری پیغمبری کاجزو اعظم ہے۔ لیڈر کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ کرو تو اعتراض، نہ کروتو اعتراض، کسی کام سے منع کرو تو اعتراض،، نہ کرو تو اعتراض۔ کسی کام سے منع کرو تو شکوہ، کسی کام کے کرنے پر ابھارو تو شکایت۔ یہ زندگی پختہ سیرت کے بغیر بسر نہیں ہوسکتی۔ خدا پر پورا بھروسہ یا اپنے نصب العین پر اعتماد ہو۔ دونوں ہوں تو بہت بہتر…… کوئی نہ ہو تو زندگی تلخ۔ جو ش وہنگامے میں عقل کی بات کہنا اپنے گلے میں خود جوتوں کے ہار ڈالنا ہے۔
چودھری عبدالعزیز نے تعزیہ داروں کو تعزیہ اٹھانے سے باز رکھنا چاہا ۔لیڈری کی ہوا کا رخ بدل گیا۔ سرگوشیوں نے کانوں میں زہر ٹپکانا شروع کیا کہ لیجئے مل گئے، کس سے؟ وزیراعظم سے۔ کھا گئے، کتنا؟ کچھ نہ پوچھو۔ غرض چودھری صاحب پریشان ہوئے گھبرائے گھبرائے پھرے کہ نہیں بھیا بدگمانی نہ کرو۔ بد گمانیاں ایکشن سے دور ہوتی ہیں۔ قربانی معترض کی زبان روکتی ہے۔ جوش کے وقت عقل کی بات کہہ کر وہ جس دلدل میں بھنسے تھے اس سے نکلنے کی ایک ہی صورت تھی کہ جیل کی ہوا کھائیں۔ سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر قدرت کا تماشا دیکھیں۔ معلوم ہوتاہے انھوں نے حالات سے گھبرا کر سلطان پور کے واقعہ کے متعلق ریاستی افسران پر شدید الزامات لگائے اور وزیراعظم کو مفصل چٹھی لکھی ۔ ریاستی نوکر شاہی کے ہاتھ بہانہ آگیا۔اور چودھری صاحب زیر دفعہ ۱۲۲؍ بجرم بغاوت دھرلیے گئے۔ اب زبان طعن رک گئی۔ اور محبت کے آنسو جاری ہوگئے۔ اب پھر ریاست کپور تھلہ کے طول وعرض میں عبدالعزیز زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ میاں سرعبدالحمید وزیراعظم کپور تھلہ بڑے جوڑ توڑ کے آدمی تھے۔ مسلمان ہونے کے باعث ان کے انتظام کے خلاف مسلمانوں میں مؤثر آواز پیدا کرنا آسان نہ تھا۔ مسلمانوں کو مسلمان بن کر مارنا آسان ہے۔ پھر اگر مسلمان افسر ہوشیار بھی ہو تو مسلمان آبادی اپنے مفاد کے خلاف ایسے شخص کے دام میں گرفتار رہنے کو پسند کرتی ہے۔ سلطان پور میں گولی چلنے اور چودھری عبدالعزیز کو گرفتار کرنے سے میاں صاحب موصوف کی ہردل عزیزی میں فرق آگیا۔ یہ موزوں موقعہ تھا سلطان پور کے واقعہ سے فائدہ اٹھا کر عوام کے لیے کسی مستقل رعایت حاصل کرنے کے لیے ہلچل شروع کی جائے۔ سلطان پور کے واقعات بجائے خودکوئی مستقل تحریک نہیں بنے ۔ ایسے ہنگامی حالات سے جو اشتعال انگیز ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے ارباب ظلم کے خلاف کام لیا جاسکتا ہے۔ اور اس طرح ظالم افسران کی ہردل عزیزی کم کرکے اقتصادی اور سیاسی تحریکات کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ ہم نے سلطان پور فائرنگ اور چودھری عبدالعزیز کی گرفتاری سے پورا فائدہ اٹھا کر زرعی مطالبات کو آگے لانے کی کوشش کی۔ ابتداء میں یہ فرقہ وار اور زرعی ملی جلی تحریک کے طور پر عوام کے سامنے آئی۔ ارادہ یہ تھا کہ ابتداایسی ہی رہے اور انتہاخالص زرعی تحریک رہ جائے اور کسانوں میں جتھہ بندی مضبوط کی جائے۔ چنانچہ ان ملے جلے جذبات کو مسلمانوں میں ابھاراگیا۔ بیگووال کے غیرملازم راجپوتوں نے ہمارا ہاتھ بٹایا چونکہ چودھری عبدالعزیز راجپوت تھے۔ اس لیے عصبیت کی بنا پر کچھ اور راجپوت گاؤں بھی متاثر ہوئے آہستہ آہستہ ریاست میں جلسے اور مظاہرے ہونے لگے۔ مجلس احرار جالندھر کے کارکن برابر ریاستی لوگوں کے ساتھ نامہ وپیام کرتے رہے۔ حکومت کی طرف سے تشدد اور لوگوں کی طرف سے سول نافرمانی شروع ہوگئی۔ جہاں جلسہ ہوتا وہاں پولیس جلسے کو منتشر کرتی تھی اور بڑی بے رحمی سے ڈنڈے برساتی۔ اس سے معاملہ ذراآگے بڑھا۔ لوگوں نے جتھہ بند ہو کر شہر کپور تھلہ کے محلات کی طرف فریاد وفغاں کے ساتھ بڑھنا چاہا۔ اس تحریک کو روکنے کے لیے ریاست نے چوکی پہرے بٹھادیئے۔ اور ڈنڈا پولیس نے کسانوں کے سراور کمر کی پورے طورسے تواضع کرنا شروع کی کئی دن تک کسانوں اور پولیس میں کشمکش جاری رہی۔ جالندھر احرار کے متعدد جتھے ریاست کی طرف بڑھتے ہوئے گرفتار ہوئے۔
خدا خوش رکھے مولانا ظفر علی خان بھی عجب بزرگ ہیں۔ آپ جالندھر میں ان دنوں وارد ہوئے جب تحریک بڑھ رہی تھی۔ آپ نے احرار کے سرخ پوشوں کی بجائے نیلی پوش بننے کی لوگوں کو تلقین کرنی شروع کی کچھ وکلاء کے گروہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا مولانا کی سرکردگی میں کچھ وکلاء ہمیں ناکام بنانے کے لیے آمادہ ہوگئے۔ ان تمام حالات پر غور کرنے کے لیے ہم نے جالندھر میں ورکنگ کمیٹی کا اعلان کیا۔ ادھر وکلاء کی جماعت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر اس کے نتائج کے بعد ایکشن یعنی تبلیغ شروع کی ہوئی تھی۔ جالندھر سیالکوٹ نہ رہا تھاکہ لوگ یک جان اور ہم خیال ہو کرہماری رہنمائی قبول کرتے۔ لوگوں کے ذہن میں عجب انتشار پیدا ہوگیا تھا۔ میاں سر عبدالحمید جالندھر کے رہنے والے ہیں ان کے خاندان کا کافی اثر تھا۔ علاوہ ازیں سر موصوف خود بھی ملنسار ہیں۔اس لیے جالندھر کے طبقہ اعلیٰ میں احرار کے خلاف فضا زیادہ مسموم ہوگئی ،میاں سرعبدالحمید نے اس نے پر بازی لگادی کہ جالندھر میں احرار کا پورا اثر پیدا نہ ہونے پائے۔
تحریکات میں جنگ کی طرح خیال رکھنا چاہیے کہ مضبوط Base یعنی مرکز کے بغیر جنگ کا محاذ کمزور ہوجاتا ہے۔ کشمیر کی تحریک کی کامیابی سیالکوٹ کے سرتھی۔ سیالکوٹ کے ایثار سے تمام ہندوستان کے مسلمان متاثر ہوئے تھے۔ اگر سیالکوٹ ریاست کے قرب کے باوجود احرار کا مخالف ہوتا تو احرار کی کشمیر کی یلغار کامیاب صورت اختیار نہ کرتی۔ جالندھرشہر میں امراء تو مخالف تھے ہی ہمیں اس کی چنداں پروانہ تھی۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ امراء کا غریبوں پر باوجود لوٹ کھسوٹ اور انھیں غلام بنائے رکھنے کے اثر ہوتاہے، یہ اثر جالندھر میں نمایاں تھا۔ کسی غریب جماعت کی، جیسے کہ احرار ہے، کامیابی یہ ہے کہ وہ غریبوں کو متاثر کرسکے کہ وہ اوپر کے طبقے سے بے نیاز ہوجائیں۔ اور ان میں نہ صرف طبقاتی شعور پیدا ہو بلکہ ہوسکے تو غریبوں کو جتھہ بند امراء کے خلاف کام میں لایاجائے۔ وحدت انسانی کے تصور اور انسانی برادری میں سب کے برابر ہونے کے خیال میں جوامر مانع ہے وہ یہ ہے کہ غریب امیر کی بات سے متاثر ہوتاہے اور اپنے مفاد کے خلاف اس کے جھانسے میں آیا رہتا ہے۔ امیر ذراہنس کے بلائے تو یہ لب ڈھیلے چھوڑ کر خوشامد پر آتا ہے۔ اس کا اشارہ پاتے ہی غریبوں ہی پر ظلم توڑنے لگتا ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ امراء کے اشارے پر غریبوں کا ایک معتد بہ حصہ ہمارے مخالف ہوچکا ہے۔ جالندھر کے مسلمانوں کو یوں شل بنا کر کے میاں صاحب نے بے پناہ تشدد سے اندرون ریاست کی تحریک کو دبالیا۔ ہماری ورکنگ کمیٹی کے لیے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ ہم پہلے جالندھر کی فضا کو کسی طرح اپنے حق میں بنائیں اور پھر کپور تھلہ کا رخ کریں۔ اگرچہ وکلاء کے ہاتھوں ہماری یہ شکست تھی لیکن ہم نے حالات سے مجبور ہو کر یہ اعلان کردیا کہ ہم اس بنائی ہوئی کمیٹی کے ساتھ تعاون کریں گے اور مسلمانوں کو انتشار سے بچائیں گے ۔ہم یہ جانتے تھے کہ یہ صرف ہمارے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے زبان سے کہتے ہیں کہ ہم سول نافرمانی کریں گے۔ ورنہ وکلاء کی جماعت تو کبھی سول نافرمانی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
عوام کا قاعدہ ہے کہ وہ کام کی حامی بھر نے والوں کی جان کا عذاب ہوتے ہیں۔ جو خاموش بیٹھ جائے اس کا پیچھا نہیں کرتے۔ اب ہمارے اعلان کے بعد یہ ہواکہ سب لوگ کہنے لگے کہ یہ وکیل لوگ کیا خاک سول نافرمانی کریں گے۔ کم بختوں نے یوں ہی احرار سے پلیٹ فارم چھین لیا۔ سپاہیوں کے ہاتھ سے میدان لے کر باتونی لوگ آگے آگئے ہیں۔ اب کپور تھلہ کے مسلمانوں کا اﷲ والی سمجھو رائے عامہ بہت ہی مؤثر حربہ ہے۔ اسی حربے سے یہ لوگ ہمارے خلاف کام لینا چاہتے تھے۔ اب وہ خود رائے عامہ کا شکار ہوکر منہ چھپائے پھرتے ہیں ہمارے اس جالندھر میں ریزولیوشن پاس کر کے آنے کے چارروز بعد ایک وکیل صاحب جوسب سے زیادہ ہمارے مخالف تھا، گھبرایا ہوالاہور آیا کہ تم نے سخت سیاسی چالبازی سے کام لیا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کو سول نافرمانی کا مشورہ دیتے ہیں تو سب سے پہلے خود دھرے جاتے ہیں۔ اگر سول نافرمانی سے بازرکھتے ہیں تو کہیں گے کہ ریاست کا روپیہ کھا کر ایسا کہتے ہیں۔ ہماری جان عذاب میں آگئی ہے۔ میں نے کہا جان برادرتم نے ہماری حالت بھی توچوروں کی سی کردی تھی۔ تمہاری زبان پر جب سنو یہی تھا کہ قومی کارکن سب خائن ہوتے ہیں۔ بھیا اب ہم نے تمہیں میدان دے دیا ہے قوم کو خوب لوٹو، مگر خود بھی سال دوسال کے لیے جیل دیکھ آؤ۔ تم کہا کرتے تھے کہ احرار کے لیے ایسا سودا مہنگا نہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ یہ سستا سودا تم ہی خرید لو۔ یہ ہچکچانے کا وقت نہیں ہم ایک ہاتھ سے قوم کو لوٹتے تھے تم وکیل ہو دونوں ہاتھوں سے لوٹوں۔
ماسٹر تاج الدین کی رہنمائی:
ماسٹر تاج الدین ہماری جماعت میں بڑے جوڑ توڑ کے آدمی ہیں۔ وہ سوکھی مٹی سے محل تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مناسب یہی سمجھا گیا کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے اور مناسب اقدام کے لیے کپور تھلہ ایجی ٹیشن کا چارج ان کو دیا جائے۔ سب سے پہلے انہوں نے جالندھر میں بیٹھ کر روزنامہ جاری کیا روزنامہ بجائے خود تحریک ہوتی ہے۔ وہ اہل تدبرہی نہیں بلکہ اہل قلم بھی ہیں۔ قلم اور تدبر نے ان عناصر کو جو ریاستی حکام کے تشدد سے دب گئے تھے پھر ابھر آنے کا موقع دیا۔ ہندوساہوکاروں نے بھی اس دوران میں جلسے اور مظاہرے کرنے شروع کیے۔اگرچہ یہ لوگ زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں لیکن ریاستی کاروبار میں مؤثر آواز رکھتے ہیں ۔ماسٹر تاج الدین کی تدبیر یہ تھی کہ ہندوؤں کے اس بااثر طبقے کے ایجی ٹیشن کو ہوادی جائے۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، قومیں دیکھا دیکھی تیار ہوتی ہیں ۔ساہوکاروں کو دیکھ کر کاشت کاروں میں بھی جتھہ بندی کا شعور پیدا ہوگا۔ علاوہ ازیں جب کاشت کاراور ساہوکار دونوں مظاہرے کریں گے توریاست کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوگا۔ یہ صورت ایک قوم کی سول نافرمانی سے بھی زیادہ موثر تھی جب تک احرار اور ریاست کے مسلمان کاشت کار تحریک چلاتے تھے پنجاب گورنمنٹ کے افسر میاں سر عبدالحمید کے حق میں تھے۔ اور مجھ سے کونسل میں بے حد کھچے کھچے تھے حتیٰ کہ چیف سیکر ٹری نے چودھری عبدالرحمن خاں ایم۔ایل سی کی معرفت مجھے ملنے کی خواہش کی۔ میں ملا تو مجھے دھمکانے لگے۔ ایسا سلوک اس افسر کی عادت تھی۔ میں جاگیر دار یا خطاب یافتہ نہ تھا۔ میں نے بالکل اسی انداز میں گفتگو کی اور کہا تم لوگ ہمیشہ حکومت کے غرور میں ظالم حکام کی طرفداری کر کے عوام کو کچلتے ہو۔ اس نے کہا کہ ہندو اور سکھ بالکل پر امن ہیں تم نے مسلمانوں کو بھڑ کایا ہوا ہے۔ اس کا جواب ماسٹر صاحب کی تدبیر تھی۔ اگرچہ اپنے خلاف ہندوؤں کے ایجی ٹیشن کو ہوا دینا ظاہر میں عقل کے لیے حیران کن تھا لیکن سیاست سیدھی راہ نہیں کہ سر پٹ گھوڑا دوڑایا جائے۔ اس میں بہت پیچ وخم ہیں یہاں تدبیر اور اسباب کی فراہمی سے تقدیر بنتی ہے۔ تیاریوں سے غافل اور عقل سے فارغ قوم کا خدا پر بھروسہ بے معنی ہے۔ خدا ہمیشہ باتدبیر اور ہوشیار رہ کر کام کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ہماری تدبیروں کے دوعناصر تھے۔ ایک تو جالندھر کے مخالف امراء کے برادر وکلاء کے گروہ کی پوری نگرانی۔ دوسرے ریاست کے ہر عنصر کو مشتعل کرنا خواہ وہ ہندوہوں مسلمان یا سکھ، کاشت کار ہو یا ساہوکار۔ جو بھی ریاست میں شوروشر کرے وہ ہمارا اور ہم ان کے ساتھی تھے۔ شور وشر عوام کی زندگی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ کیساہی شوروشر ہو اس کو عوام کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں ہم متواتر ساہوکارہ ایجی ٹیشن کی حمایت کرتے رہے اور ساتھ ہی میاں دیوان سر عبدالحمید کی حکومت پر ہرطرح زور دیتے رہے کہ ہندو ایجی ٹیشن کو دبائے۔ سب سے مؤثر ذریعہ اخبار تھا۔ جو جالندھر سے ماسٹر جی نے جاری کروایا تھا۔ لوگوں کی زبان سے بات کہلوائی کہ میاں صاحب ساہوکاروں کے دبیل اور صرف مسلمانوں پر شیر ہیں۔ یہ بات میاں صاحب کو کھا گئی۔ انھوں نے جھنجلا کر پھگواڑہ کے ساہوکاروں کو گرفتار کر لیا۔ اب کیا تھا ……پنجاب کا تمام ہندوپریس جو میاں صاحب کی تعریف کرتا تھا ان کے کارٹون شائع کرنے لگا۔ آرٹیکل پر آٹیکل لکھے جانے لگے۔ اورہندو حلقوں میں عام پکار ہوئی کہ یہ شخص دوسرا اور نگ زیب ہے۔ ہندوپریس اورہندو عوام نے احرار اور کاشت کار کی بڑی خدمت انجام دی۔ میاں صاحب کا مسلمان ہونا بھی ریاست میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا باعث ہوا ہے۔ اگر کوئی ایجی ٹیشن ہوتا تھا تو مسلمانوں میں غلط مذہبی جذبہ پیدا کردیا جاتا کہ کیا تم ایک مسلمان وزیر کو برخاست کراکر رہوگے؟
باوجود سلطان پور کے واقعہ ہائلہ کے تمام اسلامی پریس میاں صاحب کے ساتھ تھا۔ لیکن میاں صاحب کی گردش کے دن جو آئے تو سیاست اور زمیندار دونوں میں چل گئی۔ سیاست توخیراپنی مصلحت کی بنا پر میاں صاحب موصوف کا حامی تھا۔ لیکن زمیندار عوام کا حامی سمجھاجاتا تھا۔ زمیندار کے کم سن ایڈیٹر نے اخبار سیاست پر زرِامداد ریاست سے حاصل کرنے کا الزام لگایا ۔سیاست نے چند دن کے بعد مولانا ظفر علی خاں کے صاحبزادے کی دستخطی رسید کا عکس شائع کردیا جس کے ذریعے انہوں نے ایک رقم شکریہ کے ساتھ ریاست مذکور سے وصول پائی تھی۔ اب جو مسلمان اخبار میاں صاحب کی حمایت میں قلم اٹھاتا تھا،وہ ریاست کا اجیر سمجھاجاتا تھا۔ غرض کسی گوشے سے میاں صاحب کے حق میں مؤثر آواز نہ اٹھتی تھی۔اب پنجاب گورنمنٹ پریشان ہوگئی۔ وکلاء اور امراء کاوہ گروہ جو ہمیں خائن کہہ کر اپنا اثر ورسوخ بڑھانا چاہتا تھا۔ ان لوگوں نے ان پر الزام لگایا کہ یہ دولاکھ کی رشوت لے کر رپورٹ دبائے بیٹھے ہیں۔ جالندھر میں جس سے سنو یہی کہتا تھا کہ بھائی احرار غریب تھے کھاتے بھی تو دس بیس ہزار کھاتے یہ کمبخت دولاکھ کھا گئے۔ ہاں بھئی بڑوں کی توندبھی بڑی ہوتی ہے۔
میاں صاحب حکومت ہند کی نظر میں بڑے محترم تھے۔ انگریزی تدبیر کے وہ موثر ہتھیار تھے مگر موجودہ حال میں وہ زیادہ دیر تک ان کو بچانہ سکتے تھے۔ میاں صاحب نے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے چودھری عبدالعزیز کو پانچ سال کی سزا دے دی۔ مسلمانوں میں ان کی اور بھی حمایت کم ہوئی۔ عوام امراء کے ستائے ہونے کے باوجود ان کو تکلیف میں دیکھ کر آنسو بہانے لگتے ہیں اور ان جیسا غریب پاس ہی مرجائے اس کی موت سے بھی متاثر نہیں ہوتے ۔ چودھری عبدالعزیز جیسا میں پہلے بتاچکا ہوں ریاست کے امتیازی خاندانوں میں سے ایک کے فرد ہیں۔ وہ قید ہوئے تو ہر ریاستی غریب مسلمان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ مہاراج کپور تھلہ تمام راجوں مہاراجوں سے مختلف ڈھب کے آدمی ہیں۔ وہ ریاست کے نظم ونسق میں کم حصہ لیتے ہیں۔ وہ سیر سپاٹے کے شائق مرنجاں مرنج سے آدمی ہیں۔ سیر یورپ سے واپس لوٹے تو یہاں لٹیا ڈوبی ہوئی نظر آئی۔ اگرچہ میاں صاحب پر ان کو بڑا اعتماد تھا مگر ان کو سیاسی مصلحت پر قربان کرنا پڑا۔ چودھری عبدالعزیز کی اپیل ریاست کی عدالت عالیہ کے پاس کی گئی۔ میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر نے نہایت قابلیت سے مقدمہ مفت لڑا۔ عدالت کو مقدمہ میں سزا بحال رکھنے کی کوئی گنجائش نظر نہ آئی۔ آخر چودھری عبدالعزیز کو مہاراجہ صاحب نے رہا کر دیااور میاں صاحب وزارت سے الگ کیے گئے۔ احرار کے نظریے سے ہمدردی ظاہر کی او راس اسمبلی کی نوعیت اور حیثیت پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی کے تقرر کا اعلان ہوا جس کے ممبر چودھری عبدالعزیز بھی بنائے گئے۔ اب مناسب یہ سمجھا گیا کہ قدرے انتظار کیا جائے اور اس کمیٹی کی سفارشات کو دیکھا جائے۔ آیا اس کے ذریعے کوئی حقیقی قوت ملتی ہے یا نہیں؟
خدا نے ہمارے کارکنوں میں اخلاص کے ساتھ بے پناہ عزم دیا ہے میں نے ماسٹر تاج الدین کو کام کے لحاظ سے محنتی چیونٹی، تدبر کے لحاظ سے دشمن کو تاروں میں الجھا مارنے والی مکڑی پایا۔ اے کاش سب احرار کارکن بے مصرف زندگی سے باز رہیں۔ باتیں بنانے کو گناہ سمجھیں۔ محنت کو زندگی کا جو ہر سمجھیں۔ زور بازو سے روزی کمائیں۔باقی وقت قوم کی تعمیر میں صرف کریں۔ ہم کیسے مسلمان رہ گئے ہیں۔ دنیا کا تختہ الٹنے اور کائنات کا نقشہ بدلنے کے لیے پیدا ہوئے تھے، غلام ہیں اور دوسروں سے ڈرنا ہمارا کام ہے۔ ایک صاحب تدبر اور صاحب عزم اگر ریاست کپور تھلہ کا حلیہ درست کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم سب کی مشترکہ قوت اور محنت ہندوستان کی تقدیر کو نہ بدل دے اور یہاں غریب عوام کی حکومت نہ قائم کردے۔ کیسی قابل شرم بات ہے کہ اس انقلابی دور میں ہم اپنے ہمسایہ سے مرعوب ہورہے ہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے اس لیے کہ ہماری غفلت کی زندگی تھی جو ہم نے بسر کی۔ غافل قوموں کو انقلابات میں ان کی غفلت کی اور عدم تیاری کی سزا ملتی ہے۔ فرانسیسی قوم وہی سزا بھگت رہی ہے۔ آج مسلمان بھی کہتے ہیں کہ فلاں قوم کے پاس بڑااسلحہ ہے، کیا ہوگا۔ ضرور کچھ ہوگا اور وہی ہوگا جو غافل قوموں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ مسلمان نوجوان سن لیں کہ غافل قوم کی سزا اٹل ہے۔ وہ جنھیں سمجھنے او رسوچنے کی قابلیت دی گئی ہے، وہ خوب جان لیں قیامت کی گھڑی سر پر کھڑی ہے غفلت کی سزا رسوائی کی موت ہے۔ ہندوستان کی جماعتوں نے دعووں کے مطابق کام نہیں کیا ۔ ہندوستان کے مسلمان سرمایہ داروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی محض تخریبی اعتراضات کی زندگی ہے۔ وہ بھی قوم کے ساتھ سزا بھگتیں گے۔ وہ احرار کارکن جو دفتروں اور گھروں میں بیٹھے بلند خیالات میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان تھک کارکن کی بے تاب روح جسم میں نہیں رکھتے یہاں تو قوم کے ساتھ مل کر سزااٹھائیں گے ہی مگر آخرت میں بھی رسواہوں گے۔ قوم کے خیالات کوسمجھ کر ایک منٹ غافل بیٹھ جانے والا آخرت کی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ میں مانتاہوں کہ بیس برس سے ہم احرار غربت کی چکی میں پیسے جارہے ہیں، باوجود اس کے میں مسلمانوں کی عدم تیاری میں اپنی جماعت کو مورِ دِالزام ٹھہراتا ہوں۔ بے شک ہمیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم یہ مشکلات ایسی زیادہ نہیں جن سے احرار کارکن عہدہ برآنہ ہو سکیں۔ جن پر مشکلات کم ہیں میں ان ہی کو زیادہ غافل دیکھتا ہوں۔ ایک ماسٹر تاج الدین نہیں ہزاروں ماسٹر تاج الدین جماعت میں موجود ہیں۔ ان کی تھوڑی سی غفلت نے مسلمانوں کے بڑے کام بگاڑے ہوئے ہیں۔ہماری بے ہمتی نے ہماری تحریکات کو شہروں میں محدود کر رکھا ہے اور شہروں کے عوام کے دلوں پر بھی پوراقبضہ نہیں۔ اس پر بھی ہم اپنے کام سے مطمئن ہیں؟ چھوڑ و اور جماعتوں اور لوگوں کو وہ جماعتیں اوپر کے طبقے کی نمائندہ ہیں۔ ان کی سرگرمی کا حلقہ محدود ہے مگر احرار ۹۹ فی صد غریب لوگوں پر مشتمل اسلامی آبادی کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے ابھی ایک فی صدی غرباء تک بھی اپنا پیغام نہیں پہنچایا۔ امراء ہمارے خالص اسلامی نصب العین سے بیزار ہیں۔ وہ لوگ جتنا ہم سے بیزار ہوں ہم پر خدا کی رحمت، لیکن کیا غریب احرار دوستو! اتنا سوچو گے کہ سب غریبوں تک پہنچنا، ان کو نئی زندگی اور سچی زندگی کا پیغام دینا کیاتمہارا کام نہیں؟ تم تو اس قیامت کی گھڑی میں کچھ غافل سے ہو؟ کس اونچے مقام پر چڑھ کر تمہیں پکاراجائے کہ تم سن کے بے تاب ہو جاؤ اور آتش بجاں مجاہد کی طرح مستعد ہو کر کام کے لیے میدان میں نکلو؟
کشمیر اور کپور تھلہ:
کشمیر کی تحریک میں اگرچہ ہم نصب العین کے حصول میں ناکام رہے لیکن اس نصب العین کومدنظر رکھ کر کام کرنے والی جماعت وہاں موجود ہے لیکن کپور تھلہ میں ہمارا کام برباد ہوچکا ہے۔ ہم نے بڑی غلطی کھائی جو چودھری عبدالعزیز کو ریاستی کمیٹی میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے تعاون اور اعتماد کی سپرـٹ پیدا ہوگئی۔ یہ سپرٹ کمزوروں کے لیے مرض مہلک ہے؟ جب زیردست ہوں تو زبردست سے گلو خلاصی کرانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہی دانشمندی ہے۔ اگر بین الاقوامی مطلع تیرہ وتارنہ ہوتا اور اس سے بلا خیز بجلیاں تڑپتی نظرنہ آتیں تو شاید احرار کو اس ادھورے کام کو پورا کرنے میں جلدی کرنا ہوتا ۔
لیڈر سینما سٹاروں کی طرح تب تک ہر دل عزیز رہتے ہیں جب تک وہ لوگوں کی نظروں میں آتے رہیں۔ جہاں فلم پرانا ہوا اور نئی فلموں میں نئے ایکٹر آگئے پہلے فلم سٹاروں کا ستارہ غروب ہوا۔ کبھی کوئی بھولے سے بھی یاد نہیں کرتا۔سیاسیات میں آکر گھر بار کی ساری مصروفیتیں چھوڑنا پڑتی ہیں۔ ورنہ سارا کیا برباد ہوجاتا ہے۔ اگر ایک آدھ سال لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو لوگ لیڈر کو بھول جاتے ہیں۔ اس لیے جو سیاسیات میں آئے اور پالیٹٹکس کو اوڑھنا بچھونا بنائے، اگر ساتھ گھر کی مصروفیتیں بھی لگی رہیں۔ تو یہ امراء کا پالیٹٹکس ہے یا غریب احرار مزدوروں کی مجبوری۔ جس کو ذرا کشایش حاصل ہے اس کی کام سے ایک لمحہ علیحد گی جماعت کی ہردل عزیزی میں کمی کرنے کے برابر ہے۔ ہم سب نے اور چودھری عبدالعزیز نے اپنی مصروفیتوں اور ریاست کی آئینی کمیٹی میں شمولیت کے باعث ریاست کپور تھلہ کے کام کو نظر انداز کرکے بڑی بھاری ذمہ داری اپنے سرلی۔ جالندھر کی مجلس احرار کو اپنے ضلع اور ریاست دونوں کی تنظیم کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
ریاست کے عوام کا بھی اس میں کچھ قصور ہے۔ مہاراج بہادر خواہ کتنے شریف کیوں نہ ہوں وہ ریاست کے سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی تب تک نہیں کرسکتے جب تک عوام میں جان نہ آئے اور جب تک مضبوط جتھ بندی کر کے حکومت کے افسروں کے تشدد کا مقابلہ نہ کریں۔ رئیس تو خود ان عمال کے دست نگر ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی رئیس کی شخصی عزت کے علاوہ اگر لوگوں کے دل میں زیادہ جذبہ عقیدت ہوگا، تو یہ ان کے اپنے مفاد کے خلاف بات جائے گی۔
جب مہاراج نے چودھری عبدالعزیز کو رہا کر کے میاں صاحب کو چلتا کیا تو ریاستی عوام کی عقیدت بڑھ گئی یہی عقیدت ان کو پھر غافل کرنے کا باعث ہوئی یہی حکمران کی ساحری ہے جو جاگنے والوں کو سلادیتی ہے اورلوگوں کو آقاکا غلام بنائے رکھتی ہے۔
بہر حال اب تو زمانہ وہ آگیا ہے جب ایجی ٹیشن یا تحریکوں کا سوال کم ہے نظام مضبوط کر کے آگے آنے کا وقت ہے غافل قومیں ماری جائیں گی۔ ہوشیار محنتی اور اسباب فراہم کرنے والی قومیں دنیا میں زندہ رہیں گی۔ جوبزدل جان بچائے گایا کام سے جی چرائے گا وہ اپنی ماں بہنوں کی عزت پر ہاتھ ڈالے گا۔
(جاری ہے)