نوراﷲ فارانی
شاہ جیؒ کو بچپن ہی سے شعر وادب سے گہرا تعلق وربط تھا۔آپ کو بچپن میں شاد عظیم آبادی جیسے منجھے ہوئے شاعر کی شعر وادب سے معمور مجالس میں بیٹھنے اور استفادہ کرنے کا موقع ملا۔اس سے آپ کے ادبی ذوق کو جلا ملی۔اور شعر وادب سے ایک گونہ مناسبت پیدا ہوئی۔شعر وادب کے رموز واوقاف سے شناسائی ہوئی۔خود فرماتے تھے کہ:
’’ نانی مرحومہ سے اردو بول چال میں صحت پیدا کی۔ شاد عظیم آبادی کی ادبی شہرت کا آغاز تھا، وہ زبان ومحاورہ کی سند وتحقیق کے لیے اکثر نانی اماں سے مشورہ کرتے اور مستفیض ہوتے تھے۔ہم (شاہ جی) شاد کی صحبتوں میں رہ کر زبان وبیان میں اتارو ہوگئے اور ذہانت وذکاوت کے فطری انعام نے طبیعت میں چار چاند لگا دیئے۔(1)‘‘
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
’’وہ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی وہم سخنی کے واقعات بڑے کروفخر سے بیان کرتے جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہل زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ع
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اور یہ غلط نہ تھا‘‘۔(2)
جس گھر سے وقت کا عظیم شاعر اردو محاورے کی اصلاح لیتا ہو۔ اس گھرکا مکین بچہ کیوں نہ شاعر وشعر شناس ہو۔
برصغیر پاک وہند کے بڑے بڑے اساتذہ سخن آپ کی مجلس میں حاضر ہونے اور آپ کے سامنے اپنا کلام پیش کرنے میں سعادت سمجھتے۔ اور شاہ جی کی داد کو دولت ہفت اقلیم شمار کرتے۔ اور آپ کی شعر شناسی وسخن فہمی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ آپ نے خود بھی ایک زمانہ میں طبع آزمائی کی۔ آپ کے مختلف اشعار نعت منقبت،نظم وغزل، قطعات طنز وتفنن کا ایک مختصر مجموعہ ’’سواطع الالہام‘‘کے نام سے 1955ء کو شائع ہوکر علمی ادبی حلقوں میں ذوق وشوق سے پڑھا گیا ہے۔
شاہ جیؒ کی سخن فہمی کے بارے میں علامہ انور صابری لکھتے ہیں:
’’کفایت قرآن، تفہیم دین اور اسرار سیاست سے واقفیت تامہ کے ساتھ ادب وفن پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔محاس ومعائب دونوں پر عبور حاصل تھا۔(3)‘‘
ماہر القادری کاشمار اپنے دور کے معروف شعراء میں ہوتا ہے،ان کو بھی شاہ جیؒ کی مجلس میں اپنے اشعار سنانے اور داد وصول کرنے کی سعادت حاصل تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’داد دینے کا انداز والہانہ تھا۔میں نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی صحیح اور معقول داد دیتے ہوئے دیکھا ہے۔(4)‘‘
احمد ندیم قاسمی نے شاہ جیؒ کی شعر شناسی کا انتہائی عمدہ اور بلند الفاظ میں تذکرہ کیا ہے ارقام فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے ارباب سیاست اور زعمائے دین میں شاہ جی سے بڑا شعر شناس کبھی نہیں دیکھا۔اگر ایک بہت بڑا شاعر ہونا بہت بڑی سعادت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا شعر شناس ہونا بھی کم سعادت نہیں ہے۔اور شاہ جی اتنے بڑے شعر شناس تھے کہ شاعر کی نفسیات کی گہرائیوں میں اتر جاتے تھے اور شعر کی داد ہمیشہ اس پہلو سے دیتے تھے جو خود شاعر کی نظر میں اس کی متاع عزیز ہوتا تھا۔ اچھا شعر ان کے دل میں ترازو ہوجاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ سعدی وحافظ اور غالب واقبال کے اشعار کو اپنی معجزہ کار تقریروں کی زینت بناتے تھے، وہیں ہم لوگوں کے اشعار کو یہ عزت بخشنے سے گریز نہیں فرماتے تھے۔(5)‘‘
علامہ محمد حسین عرشی امرتسری لکھتے ہیں:
’’ مولوی طبقے میں صحیح ذوق شعر کا کوئی آدمی میں نے ایسا نہیں دیکھا۔6‘‘
حافظ لدھیانوی شاہ جیؒ کے خاص نیاز مندوں میں تھے وہ لکھتے ہیں:
’’شاہ جیؒ شعر کی داد یوں دیتے تھے کہ آنکھوں کی بناوٹ اور ہونٹوں کی سجاوٹ شعر کے حسن کا پتہ دیتی تھی، شعر کے معنی انکے چہرے پر بکھر جاتے تھے۔(7)‘‘
احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، احسان دانش، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، تاثیر، سالک، فیض، ساحر اور حافظ لد ھیا نوی۔ جگر مراد آبادی، عدم وغیرہم کو آپ کی ہمنشینی و بزم آرائی کی سعادت اور آپ سے مراسمِ سخن پروری حاصل رہے۔
اقبال غالب اور حافظ کو خوب ڈوب کر پڑھا تھا۔ان کے کلام کے حوالے سے بڑا جامع تبصرہ فرماتے اور وقیع الفاظ میں ان شعراء کو خراج تحسین پیش فرماتے ان شعراء کے اشعار نوک زبان تھے۔برجستہ اور برمحل استعمال کرتے اپنے دور کے واقعات وحالات کے حوالے سے اکثر اشعار اس خوبی سے استعمال میں لاتے کہ آدمی کو غالب واقبال پر اس دور کے سیاسی شعراء کا گمان تک ہوجاتا۔
پروفیسر خالد شبیر لکھتے ہیں:
’’غالب کے شعر آپ کو خاص طور پر بڑے پسند تھے۔ اکثر وبیشتر اپنی تقاریر اور نجی محافل میں پڑھتے اور کچھ اس انداز سے کہ سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔(8)‘‘
اپنی سیاسی تجربے اور شعر فہمی کے ذوق کی بنا پر دعویٰ کیا کرتے تھے کہ غالب کا آدھے سے زیادہ دیوان سیاسی موضوعات و مفاہیم پر مشتمل ہے۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
(شاہ جیؒ) فرماتے: غالب ہر کوئی پڑھتا ہے میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میں ذرا عام روش سے ہٹ کر پڑھتا ہوں۔یار لوگوں نے اس کی بہت سی شرحیں لکھی ہیں۔ہر کسے را رنگ وبوئے دیگر است، سوچتا ہوں تو میرے سامنے ان کے مطالب کا رخ ہی دوسرا ہوتا ہے۔میرا ذہن خودبخود اس کے اشعار کی گتھیاں کھولتا چلاجاتا ہے۔اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ غالب کا نصف دیوان سیاسی ہے۔ اس نے الفاظ کی ریشمی نقابوں میں نہ صرف اپنے عہد کے دار ورسن اور اپنے زمانۂ ادبار وانحطاط کی تصویریں بنائی ہیں بلکہ اشارات و کنایات میں حالات و واقعات کے دفاتر سمو گیا ہے۔
ایک دفعہ جانے کیا موضوع تھا کہنے لگے بحمداﷲ نفس نے کبھی کوئی جنسی خیانت نہیں کی۔کسی کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا۔کسی کی عصمت کو تاکا نہیں۔ کسی کی عزت کو گھورا نہیں۔ دوسروں کی طرف نگاہ غیر شعوری طور پر اٹھی بھی تو اپنی عزت یاد آگئی۔
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
عمر کے آخری برسوں میں عموماً غالب ہی کے اشعار پڑھتے اور سر دھنتے تھے۔ گوان کے حافظہ پر بیسیوں اساتذہ سخن کے کلام کی راہیں کشادہ تھیں لیکن غالب کے ذکر پر فرماتے ظالم نے دل چیر دیا ہے۔
شیخ حسام الدین ملتان گئے تو بان کی چٹائی پر بیٹھے پان بنارہے تھے۔کہنے لگے رات غالب نے کئی گھنٹے بے چین رکھا۔ ہائے کس دن کے لیے کہہ گیا تھا:
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
سبحان اﷲ! (آبدیدہ ہوگئے)۔‘‘(9)
شورش کاشمری مزید لکھتے ہیں:
’’غبار خاطر چھپ کر سامنے آئی تو شاہ جی کے حافظے کی بے شمار گرہیں کھل گئیں۔مولانا آزاد نے کسی خط میں لکھا ہے کہ عمر کے ابتدائی دنوں میں جو کتابیں پڑھی تھیں ان کے ضروری مقامات بقید صفحہ وسطر حافظے میں محفوظ ہیں۔شاہ جی بھی حافظے کے اسی مقام سے گزرنے لگے۔ان دنوں برصغیر کے فسادات کازمانہ تھا۔گھر یا دفتر میں مجلسیں لگاتے اور اپنے بچپن، لڑکپن اور ابتدائی ایام جوانی کے حافظہ پر نقش اشعار سناتے۔ سعدی، حافظ، نظیری، غالب، غنیمت کنجاہی، غنی کاشمیری، عنصری،شہیدی، ابوطالب حکیم آملی،رومی، گرامی…… غرض ایک خزاینۂ گرانمایہ تھا کہ اس کا ڈھکنا اٹھا دیا ہو۔اور اشرفیوں کاڈھیر لگ رہا ہو۔غالب کی فارسی شاعری کے ایسے ایسے نوادرات کھٹ سے چلے آتے تھے کہ جی جھوم جھوم جاتا تھا۔
اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ پڑھا۔
اے ہم نفساں، آتشم از من بگریزید
ہر کس کہ شود ہمرہ ما دشمن خویش است
پھر اس کو پلٹایا:
گریزد از صف ما آنکہ مرد غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ مانیست
اور تب مسلمانوں کے اجتماعی مزاج کاذکر کرتے ہوئے گونج اور گرج کے ساتھ پڑھا۔ ’’ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں‘‘یعنی:
بوئے گل، نالۂ دل، دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا‘‘(10)
حافظ لدھیانوی تحریر فرماتے ہیں:
’’شاہ جی غالب کی شاعری کو سراہتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ’’ غالب تو جنت ہے اپنے ذوق کو کیا کروں اس سے کم درجے کا شاعر میرے مذاق سخن پر پورا ہی نہیں اترتا‘‘
شاہ جی کو غالب کے فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار یاد تھے۔جب کبھی اس گل کدے کا دروازہ کھولتے تو انجمن مہک مہک جاتی۔گل تازہ کا حسن اور خوشبو دیدہ ودل کو منور کرجاتا‘‘۔(11)
ریاض رحمانی لکھتے ہیں:
ایک تقریر کے دوران ختم نبوت کے موضوع پر دلائل دے رہے تھے کہ غالب کایہ شعر آپ کی زبان پر آگیا۔
حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھادوکہ سمجھائیں گے کیا
فرمانے لگے کہ:علوم ومعارف کاسارا خزانہ توحضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لٹا کر جاچکے اب کوئی نیا نبی آئے بھی تو کیا کرے گا اور کیا کہے گا؟اس کے پاس بتانے کو کیا ہوگا؟۔
ریاض رحمانی لکھتے ہیں:
’’یقین فرمائیے کہ ہم غالب کے پرستاروں اور اس کے کلام کو سمجھنے کے دعویداروں میں خود کو شمار کرتے ہیں،مگر غالب کے اس شعر کی جو تشریح شاہ جی نے کی اس پر ہم ششدر رہ گئے۔‘‘ (12)
عبدالمجید سالک کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی کتاب ‘‘وے صورتیں الٰہی‘‘ میں شاہ جی سے ملاقات کے احوال میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
اس کے بعد(شاہ جیؒ) ہمیں قیام گاہ پر لے گئے وہاں خوب محفل جمی باتوں باتوں میں فرمایا ’’دو کتابیں ہمیشہ میرے پاس رہتی ہے۔قرآن حکیم اور دیوان غالب لیکن اوپر قرآن حکیم رہتا ہے اور نیچے دیوان غالب‘‘۔
میں بے ساختہ پکار اٹھا ہاں
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
ہنس پڑے کہنے لگے کیسے چھپے رہے آخر ابن سالک ہو۔ (13)
صوفی نذیر احمد مرحوم(سٹینڈرڈ بیکری ملتان)امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲکے عقیدت مند اور مجلس احراراسلام کے سرگرم کارکن تھے۔اکثر عصر کی نماز کے بعد شاہ جی ؒ کے ہاں تشریف لے جاتے ،کیک بسکٹ ساتھ لے جاتے اور چائے شاہ جیؒ کے ساتھ نوش فرماتے۔ایک دفعہ حسب ِ معمول حاضر ہوئے اور چائے آگئی۔شاہ جی ؒ چائے پیتے رہے اور صوفی صاحب سے مخاطب ہوکر غالب کے شعر میں تصرف کرکے یوں پڑھتے رہے:
’’ابن مریم ہوا کرے کوئی‘‘
کیک بسکٹ دیا کرے کوئی (14)
شاہ جیؒ نے غالب کی زمین میں طبع آزمائی بھی فرمائی ہے۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے، مطلع ہے:
نعرہ از پاکئی داماں می زنم
دست بر پیمانہ پنہاں می زنم
اس کے متعلق (شاہ جیؒ نے)خود فرمایا:
(محرم1367ھ،دسمبر 1947 ہی کا واقعہ ہے) بیماری کے دنوں میں اس فریب خوردہ مخلوق یعنی حضرت انسان کی دو رخی اور دو عملی اور پھر اس پر ادعاء و خود سری کا خیال آگیا کہ اکثر جو کہا جاتا ہے وہ کیا نہیں جاتا! لیکن اس کے باوجود ندامت نہیں ہوتی۔ بلکہ جوں جوں تکبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی مضمون کو میں نے غالب (مرحوم)کی زمین میں ادا کیا ہے، وہ کہتا ہے
زخمہ بر تار رگِ جاں می زنم
تا چہ پنداری کہ دستاں می زنم
شاید پوری غزل ہی ہوجاتی۔لیکن فرصت کہا ں تھی۔ایک بیماری پھر گھر اور باہر کے کام کاج۔بس یہی ایک مصرعہ ہوا۔ اور کچھ نہیں۔‘‘(15)
شاہ جیؒ فرماتے ہیں:
(شوال 1364ھ, اگست 1945ء کا واقعہ ہے) سری نگر (کشمیر) کے ایک ہوٹل میں ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میں تھا خواجہ غلام محمد (جالب، رکن نیشنل کانفرنس) بھی تھے اور ساتھ والے کمرے میں کچھ نوجوان بھی چائے پی رہے تھے اور شعر پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے غالب کا یہ شعر پڑھا، کہ
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
تو میں نے فوراً وہیں ایک پرزے پر لکھ کر نوکر سے کہا کہ یہ کاغذ ان بابو لوگوں کی میز پر رکھ کر چپ چاپ چلے آؤ، کہنا کچھ مت، شعر تھا :
گر ہو دوائے عشق کی تلخی نصیب عقل
بنتی ہے پھر تو بادہ وساغر کہے بغیر
چنانچہ بیرا کاغذ رکھ کر واپس آگیا۔ تو میں نے اپنے کمرے کی کنڈی لگادی۔مجھے معلوم تھا کہ ان سے صبر نہیں ہوگا۔ اور وہی ہوا کہ جیسے ہی انہوں نے کاغذ لے کر پڑھا اور دہرایا، تو مجھے بھی آواز آئی، ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ ہائیں کیا کہا؟اور دو منٹ بعد وہ میرے کمرے کا دروازہ توڑ رہے تھے۔ نوکر گیا تو کہنے لگے کہ بتاؤ اندر کون بیٹھا ہے اور یہ شعر کس نے بھیجا ہے۔ اس نے میرا نام لیا بس پھر کیا تھا،پاگل ہوگئے اور دوڑے ہوئے اندر آکر مجھے چمٹ گئے۔کہ پھر سنائیے میں نے کہا بتاؤ بنتی ہے کہ نہیں۔اب غالب کا جواب ہوا کہ نہیں کہنے لگے جی! پہلے تو نہیں، لیکن اب تو بادہ وساغر کے بغیر بھی بنتی ہے۔ ہم نے آج تک یہ مضمون نہیں سنا۔ ہم حیران ہو رہے تھے کہ آخر یہ کون ہے،کہ جس نے اتنا برجستہ جواب لکھا ہے۔آپ کا نام سنا تو یقین آگیا۔ کہ یہ جواب دہی دے سکتے ہیں۔‘‘(16)
اقبال، رومی،حافظ کی طرح غالب کا کلام بھی خوب ڈوب کر پڑھا تھا، خطابت کے دوران غالب کے اشعار کا برموقع وبرمحل استعمال آپ کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔اپنی بات کو عقلی ونقلی دلائل سے مدلل ومبرھن کرنے کے بعد مزید مستحکم اور ادبی رنگ پیدا کرنے کے لیے غالب اور دیگر شعراء کے اشعار کا اس خوبی کے ساتھ مناسب مقام پر استعمال کرتے گویا وہ شعر اسی ہی مقام اور اسی ہی موقع کے لیے کہا گیا ہے۔آپ کے خطابت کے بے شمار مواقع ایسے ہیں جہاں پر آپ نے برمحل ایک شعر پڑھنے پر رنگ جما کر میلہ لوٹ لیا۔
سیدہ ام کفیل بخاری لکھتی ہیں:
اسی زمانے میں ایک جلسہ میں موتی لال کے بعد اباجی کی تقریر تھی۔سائمن کمیشن کی اصلاحات کے خلاف جلسہ تھا، موتی لال بیرسٹر تھے۔فرماتے جو نکتہ میں سوچتا وہ اسی پر بولنے لگتے۔میں سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ کس نکتہ پر بولوں۔ان کی تقریر اختتام کو پہنچی تو لوگ سائمن کا جنازہ بنا کر جلسہ گاہ میں لے آئے۔فرماتے کھٹ سے میرے ذہن میں غالب کا شعر آیا اور میں نے جنازہ کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرکے اپنی مخصوص لے میں پڑھا۔
ہوئے مرکے ’’تم‘‘ جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
یوپی کے تعلیم یافتہ لوگوں کا اجتماع اور یہ برمحل شعر، جلسہ واہ واہ کے شور سے ایک قیامت برپا ہوگئی۔موتی لال مارے حیرت کے ’’ارے ارے‘‘کرتے رہ گئے اور پھر جو طبیعت کھلی تو کئی گھنٹے تقریر کی۔(17)
فلم انڈسڑی کے کچھ نوجوانوں نے آپ سے ملاقات کی تو دوران گفتگو ان نوجوانوں میں سے کسی نے کہا:
ہم نے آپ کی شخصیت سے جو تاثر اخذ کیا، یہ تھا کہ آپ سے دار ورسن نام کی ایک پکچر کا ہیرو بننے کی خواہش کریں۔ کیونکہ آپ کی صورت حضرت یسوع مسیح سے ملتی جلتی ہے۔‘‘
شاہ جیؒ کھلکھلا کر ہنس پڑے فرمایا:
’’خوب ہے میاں! خود قدوگیسو میں رہو اور ہمارے لیے وہاں بھی دار ورسن؟ اب سمجھ میں آیا کہ غالب کے ہاں ‘‘جہاں ہم ہیں وہاں دار ورسن کی آزمائش ہے‘‘کے معنی کیا تھے۔
ان نوجوانوں نے کہ شاہ جی کی گل افشانیوں سے مسحور تھے رخصت ہوتے وقت شاہ جی کا ہاتھ چومنا چاہا تو ہاتھ کھینچ لیا فرمایادامن پکڑ لیا تو چھڑایا نہ جائے گا۔ (18)
مولانا محمد یاسین لکھتے ہیں:
’’اس عالم کی بے ثباتی اور ناپائیداری حیات کے متعلق حضرت (شاہ جیؒ) کے ملفوظات نہایت دلچسپ اور علمی ہوتے تھے، اس موضوع پر غالب ان کا بڑا معاون ثابت ہوتا، راقم نے مختلف مجلسوں میں اس موضوع پر حسب ذیل اشعار سنے:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
مصرع ثانی کو کچھ اس رنگ سے پڑھتے کہ کائنات کا ایک ایک ذرہ اسیرِ دام خیال ہوجاتا۔
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہرچند کہیں کہ ’’ہے‘‘ نہیں ہے
دوسرے مصرعہ میں جس نفی اثبات کا ذکر ہے اس کے پڑھنے میں ایک عجیب سماں پیدا کرتے۔
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جزو وہم نہیں ہستیء اشیا مرے آگے
یہ حیات دنیوی ان کے نزدیک مرگ کا درجہ رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنے کلام میں بھی اس طرح ذکر کیا ہے۔
مردیم ودر انتظار مرگیم (19)
سید عطاء المؤمن بخاری فرزند امیر شریعت فرماتے ہیں:
اباجی کے آخری دنوں کی بات ہے روزانہ کے معمول کے مطابق سلیمی دواخانہ جانے کے لیے اٹھے پان بنانے لگے۔اکڑوں بیٹھ کر ہتھیلی پر پان رکھا، لوازمات اوپر ڈالے اور پھر پان کو ہتھیلی پہ مروڑنے لگے چورا کرکے منہ میں ڈالتے تھے کہ دانت باقی نہیں رہے۔اچانک پتہ نہیں کیا خیال آیا پان کا چورا کرتے کرتے غالب کا شعر گنگنانے لگے
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
شعر پڑھتے پڑھتے پان کا چورا ہاتھ سے نیچے گرادیا اور پھر ہمیشہ کے لیے پان کھانا ترک کر دیا۔ (20)
بقول شریف کنجاہی شاہ جی نے فرمایا مجھے غالب کا یہ شعر بہت پسند ہے
حیف کہ من بخوں تپم وز تو سخن رود کہ تو
اشک بدیدہ بشمری نالہ بسینہ بنگری (21)
حواشی
1۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاری……سوانح وافکار ص 45 2۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ،سوانح وافکار ص 46
3۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج:1، ص:144 4۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1، ص:502
5۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1، ص:520 6۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1، ص65
7۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1، ص 440 8۔نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج:2،ص99
9۔ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1،ص:65 10۔نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1،ص:66
11۔نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 2، ص:148 12۔نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج:2، ص:424
13۔نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر ج: 1، ص: 521 14۔ نقیب ختم نبوت ملتان، اگست2003ء ص 64
15۔سواطع الالہام ص120 اشاعت1955ء شاہ جی کا شعری مجموعہ
16۔ سواطع الالہام ص 74-75 17۔سیدی وابی ص: 107 ، سیدہ ام کفیل رحمہا اﷲ
18۔سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سوانح وافکار ص:269 19۔نقیب ختم نبوت،امیر شریعت نمبر ج:1، ص:248
20۔نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج:2،ص318 21۔نقیب ختم نبوت امیر شریعت نمبر ج1 ص 570