تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آیات قرآنی کی صحیح تعداد

مولانا منظور احمد آفاقی
عوام میں مشہور ہے کہ قرآن حکیم کی آیتوں کی تعداد چھے ہزار، چھے سو، چھیاسٹھ ہے۔ چونکہ اس عدد (۶۶۶۶) کو یاد رکھنا انتہائی آسان ہے لہٰذا کسی نے تحقیق کی زحمت ہی نہیں اُٹھائی۔ بیشتر اہل قلم اپنی تحریروں میں چھے کے ہندسے کو چار بار لکھ کر اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، لیکن محققین صحیح تعداد کا کھوج لگاتے اور درست تعداد رقم کرتے ہیں۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر (۱) میں، علامہ سامی ابن محمد السلامہ نے تفسیر ابن کثیر کے مقدمہ (۲) میں، علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ’’فنون الافنان‘‘ (۳) میں، علامہ سیوطی نے ’’الاتقان‘‘ (۴) میں اور علامہ عبدالعظیم زرقانی نے ’’مناہل العرفان‘‘ (۵) میں، قرآنی آیات کی تعداد اور اس میں واقع ہونے والے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔ ان بزرگوں نے لکھا ہے کہ چھے ہزار دوسو کے عدد پر سب علماء وقراء کااتفاق ہے۔ اختلاف صرف دو سو کے بعد کے عدد میں ہے (۶)۔ اس اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب تلاوت فرماتے تو آیات کے آخر پر ٹھہرتے تھے اور کبھی کسی آیت کے درمیان بھی سانس لینے کے لیے ٹھہر جاتے تھے۔ سننے والے (صحابہ کرام) گمان کرتے تھے کہ یہاں پر یہ آیت ختم ہوگئی ہے۔ بعض اوقات مفہوم اور معنی کی مناسبت سے ایک آیت کو دوسری آیت سے ملا کر پڑھ لیتے تھے۔ جس پر سامعین یہ سمجھتے کہ شاید یہ ایک ہی آیت ہے۔ ا ن وجوہات کی بنا پر آیات کی تعداد اور شمار میں اختلاف واقع ہوا تھا، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
آیات کی گنتی پانچ شہروں، مکہ، مدینہ، کوفہ، مصر اور شام کے قراء حضرات کی طرف منسوب ہے۔
(۱) عدد مکی۔ یہ گنتی دو تابعین، مجاہدبن جبر اور ان کے شاگرد عبداﷲ بن کثیر کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات اپنے وقت میں قراء ت او رتفسیر دونوں میں اہل مکہ کے امام تھے۔
(۲) عدد مدنی۔ یہ تعداد ابوجعفریزیدبن قعقاع اور ان کے دامادشیبہ بن نصاح کی طرف منسوب ہے۔ یہ دونوں اپنے زمانے میں اہل مدینہ کے امام تھے۔
(۳) عدد کوفی۔ یہ شمار حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ کے شاگرد ابو عبدالرحمان سلمی کی طرف منسوب ہے۔
(۴) عدد بصری۔ یہ گنتی عاصم بن میمون جحدری تا بعی کی طرف منسوب ہے یہ بزرگ ان چھے ماہرین قرآن میں شامل تھے جنہیں حجاج بن یوسف نے قرآن کے حروف کی تعداد معلوم کرنے کے لیے مقرر کیا تھا ۔
(۵) عدد شامی۔ یہ عدد عبداﷲ بن عامر کی طرف منسوب ہے۔ موصوف حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے شاگرد اوراپنے دور میں اہل شام کے امام تھے۔
(۱) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نزدیک قرآنی آیات کی تعداد، (ایک روایت کے مطابق) ۔۶۲۲۹
(۲) حضرت عبداﷲ بن مسعود اور نافع رضی اﷲ عنہما کے نزدیک ۔۶۲۱۷
(۳) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے نزدیک (ایک روایت کے مطابق)۔ ۶۲۱۵
(۴) عطاء خراسانی کے نزدیک ۔۶۲۱۶ (۵) عطاء بن یسار کے نزدیک۔ ۶۲۰۶
(۶) عدد مکی (مجاہد او رعبداﷲ بن کثیر کے نزدیک)۔ ۶۲۲۰ (۷) عدد مدنی (شیبہ کے نزدیک)۔۶۲۱۴
(۸) عدد مدنی (ابوجعفر کے نزدیک)۔ ۶۲۱۰ (۹)عدد کوفی (مشہور قاری حمزہ زیات کے نزدیک) ۶۲۳۶
(۱۰) عدد بصری (جحدری کی ایک روایت کے مطابق) ۶۲۰۵
(۱۱) عدد بصری (حجدری کی ایک دوسری روایت کے مطابق ۶۲۰۴
(۱۲) عدد بصری (قتادہ کی روایت کے مطابق) ۶۲۱۹
(۱۳) عدد شامی (یحییٰ بن حارث ذماری کے نزدیک) ۶۲۲۶
(۱۴) شام کے شہر حمص والوں کے نزدیک ۔۶۲۳۲
ممکن ہے کہ کچھ قراء کے اقوال درج نہ ہوئے ہوں بہر کیف مجھے جو کچھ مل سکا ہے وہ میں نے لکھ دیا ہے آیات کے اس اختلاف کے بارے میں’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ میں شامل مقالہ’’قرآن‘‘ کا فاضل مصنف لکھتا ہے:
’’آیات کی تعداد میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بعض دفعہ کچھ آیات کے اختتام پر فصل کرتے اور بعض دفعہ وصل فرماتے تھے چوں کہ بعض لوگوں نے فصل کا اعتبار کیا ہے اور بعض نے وصل کا لہٰذا تعداد میں کمی بیشی ناگزیر تھی۔ (۷)
علامہ قرطبی نے ان اقوال کو ذکر کرکے عدد کوفی کے بارے میں لکھا ہے کہ قاری کسائی نے یہ تعداد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب کی ہے۔ گویا علامہ موصوف نے اس تعداد (۶۲۳۶)کو ترجیح دی ہے۔ مولوی ظفر اقبال (ایم، اے) رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ایک مصری نسخہ قرآن (طبع ۱۳۴۲ھ) کو سامنے رکھ کر جو نسخہ قرآن مرتب کیا تھا اس کے دیبا چے میں مصری نسخے کا تعارف (حکومت مصر کی زبانی) درج کیا ہے۔ اس کے اختتام پر لکھتے ہیں۔
’’وَاتبعت فی عد آیاتہ طریقۃ الکوفیین وآی القرآن علی طریقتھم ۶۲۳۶‘‘
(اس مصحف میں) آیات کی تعداد کے سلسلے میں کوفی قاریوں کے طریقے کی پیروی کی گئی ہے۔ ان کے طریقے کی رو سے قرآن کی آیتوں کی تعداد: ۶۲۳۶ ہے۔
حال ہی میں (رمضان ۱۴۳۶؍ جون ۲۰۱۵) طارق اکیڈمی، فیصل آباد نے ’’مطالب الفرقان فی ترجمۃ القرآن‘‘ شائع کیا ہے۔ قرآن حکیم کا یہ ترجمہ برصغیر کے ۱۷ جیّد علمائے کرام نے کیا تھا اور ۱۹۳۵میں طبع ہوکر علمی دنیا میں آیا تھا، پھر عرصہ دراز تک نایاب رہا۔ راقم الحروف کو بھی اس کی تلاش تھی۔ لاہور کے علمی مراکز میں دومقامات پر اس کا کچھ اتا پتا ملا۔ ایک نسخہ’’ ادبستان‘‘ کے مالک عبدالمتین ملک کے پاس تھا اور دوسرا نسخہ پنجاب پبلک لائبریری کے تحت قائم ’’قرآن محل‘‘ میں پایا گیا۔ ان مقامات پر میں نے ان کی فقط زیارت کی تھی، حصول ممکن نہیں تھا۔ پھر جب فیصل آباد میں اس کے دوبارہ شائع ہونے کی اطلاع ملی تو میں نے اسے فورا حاصل کرلیا۔ اس مصحف کے آخر میں قرآنی معلومات پر مشتمل ایک ضمیمہ لاحق کیا گیا ہے جس میں قرآن حکیم کی آیات کی تعداد ۶۲۳۶ لکھی گئی ہے۔
رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ جنوری ۱۹۹۸ء میں راقم الحروف نے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کیا تھا۔ میرے ساتھ میرے ایک عزیز شعیب احمد بھی شریک اعتکاف تھے۔ ایک دن میں نے انھیں دعوت دی کہ آؤ قرآن حکیم کی آیات شمار کریں۔ موصوف نے ایک کیلکولیٹر منگوالیا۔ میں انہیں سورتوں کی آیات کی تعداد بتاتا گیا اور وہ انہیں اس مشین کے حوالے کرتے گئے ایک سو چودہ سورتوں کی آیتوں کی تعداد اس آلے نے یہ بتائی ’’6236۔ اس آیت شماری کے لیے میں نے تاج کمپنی (کراچی) کا مطبوعہ نسخہ سامنے رکھا تھا۔ اس کے بعد میں نے مصر، حجاز مقدس اور ایران کے طبع شدہ مصاحف سامنے رکھے اوران کی آیات کا جائزہ لیا۔ ہر مصحف کی آیتوں کی تعداد یہی ۶۲۳۶ بنتی رہی اور اس میں کوئی ذرا سابھی اختلاف نہ ملا۔ لہٰذا آج علیٰ وجہ البصیرت کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مصاحف میں آیات کی تعداد یکساں ہے اور اختلاف کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا۔ اگلے صفحات میں میں ایک سو چودہ سورتوں اور ان میں موجود آیتوں کی تعداد کا ایک مفصل گوشوارہ درج کر رہا ہوں ۔ اس کا جائزہ لیجئے اور ایک بار ان آیتوں کو آپ خود بھی شمار کرلیجئے۔ اگر میزان ۲۲۳۶ آئے تو فبھا، ورنہ کمی بیشی کی صورت میں راقم الحروف سے رابطہ قائم کیجئے۔
گوشوارہ سُوَروَآیاتِ قرآنی
نمبر سورت
نام سورت

ٓیات
نمبر سورت
نام سورت

ٓیات
۱
الفاتحہ
۷
۲۳
المؤمنون
۱۱۸
۲
البقرہ
۲۸۶
۲۴

لنور
۶۴
۳
آل عمران
۲۰۰
۲۵
الفرقان
۷۷
۴
النساء
۱۷۶
۲۶
الشعراء
۲۲۷
۵
المائدہ
۱۲۰
۲۷
النمل
۹۳
۶
الانعام
۱۶۵
۲۸

لقصص
۸۸
۷
الاعراف
۲۰۶
۲۹
العنکبوت
۶۹
۸
الانفال
۷۵
۳۰

لروم
۶۰
۹
التوبہ
۱۲۹
۳۱

žقمان
۳۴
۱۰
یونس
۱۰۹
۳۲
السجدۃ
۳۰
۱۱
ہود
۱۲۳
۳۳
الاحزاب
۷۳
۱۲
یوسف
۱۱۱
۳۴
سباء
۵۴
۱۳

لرعد
۴۳
۳۵
فاطر
۴۵
۱۴
ابراہیم
۵۲
۳۶

¤ٰسین
۸۳
۱۵

لحجر
۹۹
۳۷
الصافات
۱۸۲
۱۶

لنحل
۱۲۸
۳۸
ص
۸۸
۱۷
بنی اسرائیل
۱۱۱
۳۹

لزمر
۷۵
۱۸

لکہف
۱۱۰
۴۰
المؤمن
۸۵
۱۹
مریم
۹۸
۴۱
حم السجدۃ
۵۴
۲۰
طہ
۱۳۵
۴۲
الشوریٰ
۵۳
۲۱
الانبیاء
۱۱۲
۴۳
الزخرف
۸۹
۲۲
الحج
۷۸
۴۴
الدخان
۵۹
۴۵
الجاثیہ
۳۷
۶۹
الحاقہ
۵۲
۴۶
الاحقاف
۳۵
۷۰
المعارج
۴۴
۴۷
محمد
۳۸
۷۱
نوح
۲۸
۴۸

لفتح
۲۹
۷۲
الجن
۲۸
۴۹
الحجرات
۱۸
۷۳
المزمل
۲۰
۵۰
ق
۴۵
۷۴

لمدثر
۵۶
۵۱
الذاریات
۶۰
۷۵
القیامہ
۴۰
۵۲

لطور
۴۹
۷۶

لدہر
۳۱
۵۳

لنجم
۶۲
۷۷
المرسلات
۵۰
۵۴

لقمر
۵۵
۷۸
النباء
۴۰
۵۵
الرحمن
۷۸
۷۹
النازعات
۴۶
۵۶
الواقعہ
۹۶
۸۰
عبس
۴۲
۵۷
الحدید
۲۹
۸۱
التکویر
۲۹
۵۸
المجادلہ
۲۲
۸۲
الانفطار
۱۹
۵۹

لحشر
۲۴
۸۳
المطففین
۳۶
۶۰
الممتحنہ
۱۳
۸۴
الانشقاق
۲۵
۶۱
الصف
۱۴
۸۵
البروج
۲۲
۶۲
الجمعہ
۱۱
۸۶
الطارق
۱۷
۶۳
المنافقون
۱۱
۸۷
الاعلیٰ
۱۹
۶۴
التغابن
۱۸
۸۸
الغاشیہ
۲۶
۶۵
الطلاق
۱۲
۸۹

لفجر
۳۰
۶۶
التحریم
۱۲
۹۰

لبلد
۳۰
۶۷
الملک
۳۰
۹۱

لشمس
۱۵
۶۸

لقلم
۵۲
۹۲

للیل
۲۱
۹۳

لضحی
۱۱
۱۰۴
الھمزہ
۹
۹۴
الم نشرح
۸
۱۰۵

لفیل
۵
۹۵

لتین
۸
۱۰۶
القریش
۴
۹۶

لعلق
۱۹
۱۰۷
الماعون
۷
۹۷

لقدر
۵
۱۰۸

لکوثر
۳
۹۸
البینہ
۸
۱۰۹
الکافرون
۶
۹۹
الزلزال
۸
۱۱۰

لنصر
۳
۱۰۰
العادیات
۱۱
۱۱۱

للھب
۵
۱۰۱
القارعہ
۱۱
۱۱۲
الاخلاص
۴
۱۰۲
التکاثر
۸
۱۱۳

لفلق
۵
۱۰۳

لعصر
۳
۱۱۴

لناس
۶
$میزان آیات=۶۲۳۶
گزشتہ صفحات میں آپ نے آیات کا جو اختلاف ملاحظہ کیا ہے اس کا تعلق انتہائی اولین زمانے سے ہے یعنی صحابہ کرام اورتابعین کے دور میں آیات کو اسی طرح شمار کیا گیا تھا۔ کسی قاری نے ایک لمبی آیت کو (قراء ت نبوی کی روشنی میں) دو یا تین آیتیں شمار کیا اور کسی دوسرے قاری نے اسے ایک ہی آیت رہنے دیا پھر بعد کے زمانے میں جب یہ قرآنی الفاظ پر نقطے اور اعراب لگائے گئے تو آیات کے نشان بھی ثبت کردیے گئے۔ اس طرز عمل سے آیات کا اختلاف ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا اور تمام مصاحف میں آیات کی تعداد یکساں ہوگئی، لہٰذا ببانگِ دُہل کہا جاسکتا ہے کہ مصاحف میں آیات کی تعداد گزشتہ چودہ سو سال سے ایک جیسی درج ہوتی چلی آرہی ہے اور اس میں کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا۔ شیعہ مکتب فکر کی بعض کتابوں میں اس مضمون کی روایتیں ملتی ہیں کہ قرآن حکیم کی آیتوں کی تعداد سترہ ہزار یا اٹھارہ ہزار ہے۔ اس قسم کی روایتیں موضوع انتہائی ضعیف اور ناقابل استدلال ہوتی ہیں۔ شیعہ علماء ان کی طرف التفات نہیں کرتے بلکہ انھیں رد کرتے ہیں۔ شیعہ مطالعہ میں چھپے ہوئے قرآنی نسخوں میں ایک سو چودہ سورتیں ہوتی ہیں اور آیتوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اہل السنت والجماعت کے مصاحف میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت میرے سامنے ایک ایرانی مصحف ہے جو ۱۴۰۹ھ میں طبع ہوا تھا۔ اس کا موازنہ مصری، حجازی اور پاکستانی مصاحف سے کیا گیا تو سب میں آیات کی تعداد ۶۲۳۶ پائی گئی۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے یقین کامل سے کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی نسخے (خواہ کسی ملک کے بھی ہوں) اختلاف آیات سے پاک ہیں اور ان سب میں آیات کی تعداد یکساں ہے۔
تاہم علامہ شمس الحق افغانی رحمۃ اﷲ اور پروفیسر عبدالصمد صارم رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتب میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حوالے سے آیات کی تعداد ۶۶۶۶لکھی ہے۔ کاش یہ بزرگ اس گنتی کاحوالہ بھی درج کرتے جس روایت (یاروایتوں) میں اس کا ذکر ہے اس کی سند بھی نقل کرتے تاکہ میزان جرح وتعدیل سے ان کی صحت اور سقم کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ان بزرگوں کی کتابوں میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ اگر کوئی صاحب علم ان کا کھوج لگاسکیں تو یہ علوم قرآن کی ایک عظیم خدمت ہوگی۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
حواشی
(۱) تفسیر قرطبی، مقدمہ، ج اوّل، ص ۴۷، طبع بیروت، ۱۹۸۸ء
(۲) تفسیر ابن کثیر، مقدمہ ازقلم علامہ سامی بن محمد السلامہ، ج اوّل، ص ۹۸، طبع دارطیبہ۔
(۳) فنون الافنان، ص۲۴۱ تا ۲۴۴، طبع بیروت، ۱۹۹۷ء
(۴) الاتقان (اردو ترجمہ) ج اوّل، ص ۱۶۵تا ۱۶۷، طبع کراچی،
(۵،۶) مناہل العرفان، ج اوّل، ص ۳۴۳، ۳۴۴،طبع بیروت، ۱۹۸۸ء
(۷) اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب ج ۱۶؍۱، ص ۳۲۸۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.