علامہ مولانا محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
دارالندوہ میں پاس شدہ قریش کی قرار داد کے مطابق عمر بن خطاب، تلوار حمائل کرکے گھر سے چلے، راستے میں نعیم رضی اﷲ عنہ مل گئے، پوچھا:
عمر ! کیا پروگرام ہے، آج تمہارے تیور کچھ بدلے ہوئے ہیں؟ کہا عبداﷲ کابیٹا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جس نے لوگوں کو ان کے آبائی دین سے پھیرنے کی مہم چلا رکھی ہے، میں اس کا سر قلم کرنے جارہا ہوں۔ نعیم نے کہا: پہلے تم اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور تمہارے بہنوئی سعید رضی اﷲ عنہ، دونوں، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ چکے ہیں، سیخ پا ہوگئے، فوراً ان کے گھر پہنچے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا قرآن مجید (غالباً سورۂ طہ) پڑھ رہی تھیں۔ بے تحاشا بہن اور بہنوئی کو مارنا شروع کیا۔ بہن کے سر سے خون بہنے لگا، تو اس سے پوچھا: بتاؤ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کو چھوڑتی ہو یا نہیں؟ بہن نے سسکیاں بھرتے ہوئے جواب دیا: فاقض ماانت قاض جو چاہو، کر لو، بادۂ الست کا نشہ وہ نشہ نہیں جو اتر جائے گا۔ اب بھائی کا دل بھر آیا۔ بہن سے کہا: اچھا، جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں مجھے سناؤ۔ انہوں نے اوراق نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ ادھر نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا اللھم اید الا سلام بعمر بن الخطاب کی قبولیت کی گھڑی آچکی تھی، ایمان کی جڑیں، عمر کے دل میں اترنے لگیں، پکارا اٹھے: اشھدان لا الہ اﷲ واشھدان محمد رسول اﷲ وہاں سے اٹھ کر سیدھے بار گاہ نبوت (دارارقم رضی اﷲ عنہ) میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ حضر سعید بن زید حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے چچا زاد بھائی بھی تھے اور برادر نسبتی بھی۔ (سالے بھی اور بہنوئی بھی) صحیح بخاری میں ہے کہ ان کے والد، زید بن عمر وبن نفیل، دین ابراہیمی کے پیرو کار تھے، بت پرستی اور بتوں کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کاگوشت کھانے سے انکاری تھے کہا کرتے تھے بکری کو پیدا اﷲ نے کیا، اﷲ ہی نے زمین سے اس کے لیے خوراک او ر آسمان سے پانی مہیا فرمایا، لیکن تم اسے ذبح غیر اﷲ کے نام پر کرتے ہو، کتنی غلط بات ہے؟
زید کے سامنے کوئی شخص بچی کو زندہ در گور کرنا چاہتا، تو وہ اسے لے لیتے اسے قتل نہ کرو، اس کا خرچ اخراج میرے ذمہ ہے جب وہ جوان ہوجاتی، تو اس لیے باپ سے کہتے اب تم چاہو تو اسے لے جاؤ، ورنہ تو کوئی بات نہیں میں اس کی کفالت کرتا رہوں گا۔ (۱)
حضرت سعید رضی اﷲ عنہ کو گھر میں اس قسم کا ماحول ملا تھا، اس لیے انہوں نے بہت جلد اسلام قبول کرلیا۔ نہ صرف یہ کہ خود مسلمان ہوئے، بلکہ بعد میں عمر جیسے جری انسان کے لیے بھی ہدایت کا باعث بنے۔
غزوۂ بدر کے موقعہ پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ، ابوسفیان کے تجارتی قافلے کا حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا، اس لیے شریک غزوہ نہ ہوسکے، تاہم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں مال غنیمت سے بھی حصہ دیا اور جہاد کے ثواب کی خوشخبری بھی سنائی۔ عہد خلافت راشدہ میں فوجی مہمات میں شامل ہوتے رہے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے انہیں کوفہ میں کچھ اراضی دے دی تھی چنانچہ حضرت سعید رضی اﷲ عنہ وہیں منتقل ہوگئے، مگر وفات، مدینہ کے قریب ان کی مستقل رہائش گاہ پر ہوئی حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے جنازہ کی نماز پڑھائی انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت سعید رضی اﷲ عنہ مستجاب الد عوات تھے۔ اروی نامی ایک عورت نے حاکم مدینہ (مروان) کے پاس ان کی شکایت کی، کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین نا حق لے لی ہے۔ حضرت سعیدرضی اﷲ عنہ نے کہامیں اس کی زمین کیسے لے سکتا ہوں، جب کہ میں نے خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم سے سنا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس نے کسی شخص کی بالشت بھر زمین نا حق لے لی، تو ساتوں زمینوں سے وہ بالشب بھر طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا‘‘۔ مروان نے کہا بس، بس۔ دعوی کے مطابق زمین اسے سے دی او ساتھ ہی بمصداق،
دل ہی تو ہے، نہ سنگ وخشت، درد سے بھرنہ آئے کیوں
ان کے منہ سے بدوعا کے یہ جملے نکلے۔
’’اے اﷲ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اسے اندھا کر دے اور اسی زمین میں اسے موت دے‘‘ دیکھنے والے کہتے ہیں وہ عورت اندھی ہوگئی تھی دیواروں کو پکڑتی پھرتی تھی اور کہتی تھی سعید رضی اﷲ عنہ کی بددعاء مجھے لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ اس زمین کے کنوئیں کے پاس سے گذری، تو اس میں گر کر مرگئی اور وہی کنواں اس کی قبر بنا۔
حضرت سعید بن زیدؓ کے زہد وورع اور صلاح وتقوی کے باعث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی حق میں فرمایا: سعید بن زید فی الجنتہ۔
حواشی
(۱) ابن حجر نے الاصابہ میں کچھ اور بھی تفصیلات دی ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ عامر بن ربیعہ کہتے ہیں، کہ زید سے میری ملاقات ہوئی، تو انہوں نے کہا: میں اپنی قوم کو چھوڑ چکا ہوں، ملت ابراہیمی کا پیرو کار ہوں۔ اب میں نبی آخر الزمان کی آمد کا منتظر ہوں، مگر مجھے امید نہیں ہے کہ میں ان سے مل سکوں! پھر انہوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چند صفات جو علماء اہل کتاب سے سن رکھی تھیں، بیان کیں اور آخر میں کہا: عامر اگر تم ان سے ملو، تو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ بعد میں جب میں مسلمان ہوا تو میں نے زید کے سلام حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہنچائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور ان کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: قدرایتہ فی الجنۃ یسحب ذیولا (اصابہ ص ۵۷۰ج۱) میں نے اسے بہشت میں دیکھا، وہ دامن کو گھسیٹتا پھر رہا تھا۔