جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ قسط نمبر(2)
حالات :
مُحَدَّ ثُ الامّۃ، عدلِ مجسّم شہیدِ تیغِ مجوسیت وسبائیت، امام ثانی، معز الاسلم امام المتقین امیر المومنین سید عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ تعالیٰ عنہ کاسلسلۃ الذہب یوں ہے: سیدنا عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن عبد اﷲ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب۔ امیر المومنین فاروق اعظم حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نویں پشت میں کعب پر جاکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مل جاتے ہیں۔ تقابل اور تبرک کے لیے حضرت رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کا شجرہ طیبہ بھی نقل کیا جاتا ہے۔ پس: محمد رسول اﷲ الہادی الشفیع بن عبد اﷲ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب۔صلی اﷲ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم
سیدنا عمر الفاروق الاعظم قریش کے مشہور قبیلہ بنو عدی میں سے ہیں۔ عدی بن کعب کی اولاد کو بنو عدی کہتے ہیں۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا اُمّ المومنین تھیں، اس وجہ سے آپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر بھی ہیں۔ آپ فصیح وبلیغ، معاملہ فہم خطیب تھے۔ جاہلیت میں بھی آپ سفیر بنا کر بھیجے جاتے تھے۔ کیونکہ آپ بہت بہادر، حاضر جواب اور ذہین تھے۔
بہ وقت قبول اسلام عمر مبارک ستائیس برس کی تھی۔ قرآن پاک کی اکیس آیات آپ کی الہامی رائے کے مطابق نازل ہوئیں۔ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوسرے بڑے وزیر تھے اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ آپ کے بہترین مشیر اور وزیر تھے۔ سفر شام وعراق کے موقع پر آپ نے حضرت علی کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام امیر مقررفرمایا تھا۔ نیز آپ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے داماد بھی تھے۔ سید نا حسن اور حسین کی حقیقی ہمشیرہ سیدہ ام کلثوم بنت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا آپ کے نکاح میں تھیں۔ان کا مہر بوجہ اہل بیت ہونے کے آپ نے چالیس ہزار مقرر کیا تھا۔
آپ حضرات اہل بیت سے بہت محبت رکھتے تھے۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہما کا وظیفہ بدری صحابہ رضی اﷲ عنہم کی طرح پانچ پانچ ہزار مقرر فرمایا تھا۔ جب مدائن کا مال غنیمت مدینہ منورہ پہنچا تو اس میں بیش قیمت چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی تھیں جو آسانی سے چھپائی جاسکتی تھیں مگر دیانت دار مجاہدین اسلام نے وہ سب کی سب امیرلشکر سیدنا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کے حوالہ کردیں اور وہ بیت المال کے خمس (پانچویں حصہ) میں شامل ہوکر مدینہ منورہ پہنچیں۔ یہ مال دیکھ کر حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے تعجب سے فرمایا کہ ’’کیا ہی امانت دار ہے و ہ قوم جس نے یہ مال اپنے امانت داروں تک صحیح وسلامت پہنچا دیا۔‘‘ تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’کہ یا امیر المؤمنین! آپ نے امانت ودیانت اختیار کی۔ تو آپ کی رعیت نے بھی امانت ودیانت اختیار کی اور اگر (خدانخواسۃ) آپ میں خیانت اور بددیانتی ہوتی تو آپ کی رعیت بھی ضرور خیانت کرتی۔ الناس علیٰ دین ملوکھم (لوگ اپنے حاکموں اور بادشاہوں کے دین اور ڈھنگ پر چلتے ہیں)۔ (۱)سبحان اﷲ حضرت علیؓ نے کیا ہی پاکیزہ اصول بیان فرمایا۔ جس میں غور کرنے والے حضرات کے لیے کیا کیا عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور چاہیے کہ ہمارے مدعیٔ اسلام حکمران بھی اس اصول کی طرف توجہ اور دھیان دیں۔
آپ کے عہد خلافت میں چار ہزار چھبیس شہر فتح ہوئے، ملک شام، مصر ،عراق، خراسان، سیستان اور مکران تک کے علاقے آپ کے عہد مبارک میں فتح ہوئے۔ فاتح مکران حضرت حکم بن عمر نے مکران کے بعد سندھ پرحملہ کی اجازت چا ہی مگر آپ نے روک دیا۔ مدت خلافت دس برس چھ ماہ اور عمر مبارک بوقت شہادت تریسٹھ برس تھی۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کے غلام ’’فیروز‘‘ ایرانی مجوسی کے خنجر کے زخم سے بروز ہفتہ یکم محرم ۲۴ھ کو آپ کی شہادت ہوئی اور حجرۂ مبارکہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وار ضاہ! (اس لحاظ سے گنبد خضراء کے سایہ میں آپ کی قبر تیسرا مزار ہے۔ آپ کے بعد دنیائے اسلام کی کوئی بڑی سی بڑی شخصیت حجرۂ نبویہ میں نہ دفن ہوسکتی تھی نہ آج تک دفن ہوسکی ہے نہ ہوسکتی ہے، نہ ہوگی نہ ہوسکے گی۔ تا آنکہ قربِ قیامت میں بہ حکم خداوندی مطابق بشارت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مسیح مقدس سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہا السلام چوتھے آسمان سے زمین پر اتر کر چند برس دنیا میں قیام پذیر رہیں گے اور اپنے فرائض مفوّضہ سرانجام دے کر مدینہ طیبہ میں وفات پائیں گے اور حجرۂ مبارکہ میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جس جگہ بیٹھ کر گھر کے کام کاج کرتی تھیں اور وہ ٹکڑا عہد نبوی سے حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے خالی رکھا گیا ہے، اس ٹکڑے میں اہل اسلام کے ہاتھوں بہ امن وامان مدفون ہوں گے)۔ واضح رہے کہ اس خالی جگہ میں خود حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دفن ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے اس جگہ کا دفن مسیح کے وقت تک یہ طور امانت محفوظ رہنے اور کسی اور کو اجازت نہ دے سکنے کی ان الفاظ میں تصریح فرمائی کہ
:وانی لی بذالک؟ من موضع مافیہ الا موضع قبری وقبر أبی بکر وعمر وعیسیٰ بن مریمترجمہ: بھلا میرے پاس کسی کو اس جگہ دفن ہونے کی اجازت دینے کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے کہ جہاں صرف میرے مزار اور ابوبکر وعمر اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام (والرضوان) کی قبروں کے لیے جگہ مقدر ہوچکی ہے۔ (کنزالعمال: ج۷، ص: ۲۶۸)
اس حدیث مبارک کی روشنی میں اب ان تاریخی روایات کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی جن میں بعض بزرگان اہل بیت کو روضۂ مطہرہ میں خلفاء وحکام بنی امیہ کی طرف سے اجازت دفن نہ دئیے جانے پر سبائیوں کو تو اشتعال ونفرت انگیزی اور فتنۂ بغض و توہینِ اکابرِ اسلام کی آگ بھڑ کانے کا موقع ملتا ہی رہتا ہے۔ لیکن خود ہمارے سُنی کہلانے والے روا داری کے مالیخولیا کے مریض بھی ایسی کچھ باتوں کو پڑھ کر قرآن وحدیث کی طرح (معاذ اﷲ) مقدس سمجھنے لگے ہیں اور بنو امیہ کے فرضی مظالم کی تصدیق اور اثبات میں بے دھڑک پیش کرکر کے انہیں ایک عقیدہ کی شکل دیے جار ہے ہیں۔ حالانکہ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ وحی والہام کے مقابلہ میں تاریخ، سیرت اور قصہ کہانی کی کوئی حیثیت ووقعت نہیں۔ اور نہ ہی ان پر قرآن وحدیث اور فقہ کی طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن خدا غارت کرے کذاب راویوں اور مفاد وموقع پرست جاہل واعظوں اور منافق وفتنہ پر واز یہود منش ذاکروں کو جن کی زبانی زہر چکانی اور عملی نیش زنی وبد کرداری نے امت کے ایک بڑے حصہ کو اپنے ہی دین کا ایک ایسا مسخ شدہ حلیہ دکھا دکھا کر دین کے اصل سر چشموں یعنی کتاب وسنت و صحابہ واز واج مطہرات وخلفاء اسلام اور دیگر اکابرملت ہی سے بدظن کرکے رکھ دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سب مسلمانوں کو فتنہ رافضیت وسبائیت کے ان نا پاک و مفسد برگ وبار کے اثرات سے محفوظ رکھیں اورعہد صحابہ کے اصل اسلام پر خاتمہ نصیب کریں (آمین)
آپ کا حلیہــ:
بڑا سر ،کھلی پیشانی، اونچاناک بڑی بڑی آنکھیں، نگا ہیں تیز عقابی، سرخ وسفید رنگ، دراز قامت، ہجوم مومنین میں سب سے اونچے دکھائی دیتے تھے۔ مضبوط گُندھا ہوا جسم سُتے ہوئے چہرے پر گھنی داڑھی، کناروں سے بڑی بڑی سرخ مونچھیں…… کوئی آدمی اپنے اندر آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کی جرأت نہیں رکھتا۔
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
ابن سعد ،حاکم ، زربن جُیش، واقدی، ابن عمر عبید ابن عمیر سلمہ بن اکوع ،ابن عساکر ابودجاء عطازی آپ کا یہی چہرہ مہرہ بیان کرتے ہیں ۔ (جاری ہے)
حواشی
(۱)عربی کے مقولہ الناس علی دین ملوکھم کاصحیح نمونہ حافظ ابن کثیر نے بیان فرمایا کہ ہے۔ فرماتے ہیں: مؤرخین کا بیان ہے کہ خلیفہ ولیدبن عبدالملک کو تعمیرات کاشوق تھا تو اس وقت لوگوں کا رحجان بھی تعمیرات کی طرف ہوگیا تھا کہ جب بھی آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے تعمیرات کا ہی پوچھتے اور سلیمان بن عبدالملک کو شادیوں کا بہت شوق تھا۔ تو لوگ بھی جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے شادیوں کے ہی تذکرے ہوتے۔ پھر جب (خلیفہ عادل)حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ کاوقت آیا تو آپ کو چونکہ تلاوت قرآن اورعبادت کا بہت شوق تھا تو لوگ بھی آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے کہ تمہارے اور ادکیا ہیں؟ کتنا قرآن روز پڑھتے ہو؟ کل کتنے نفل پڑھے تھے وغیرہ وغیرہ ابن کثیر ج ۹، ص:۱۶۵