شیخ راحیل احمد مرحوم آخری قسط
اب جب یہ جوابات بھی لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکے اور مرزا صاحب پر بار بار یہ اعتراض وارد ہوا تو احساس ہوا کہ لوگوں کے اعتراض کا شافی جواب نہیں دیا گیا، اب اس کو خدا کے حکم کی خلاف ورزی قرار دے دیا اور ساتھ ہی حسب عادت (جوکہ جماعت کی اب نا قابل تبدیل دفاعی اسٹریٹجی بن چکی ہے کہ مرزا صاحب تو دور کی بات، خلیفہ کو بھی چھوڑو، جب ان کے کسی مربی (عالم) پر بھی اعتراض کرو گے تو وہ بھی بجائے اس اعتراض کا عقلی یا کسی اور دلیل سے جواب دے، فوراً جواباً حضرت سرور کونین رسول پاک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بھی عیسائیوں یا یہودیوں کا کیا ہوا اعتراض سامنے رکھ دیں گے)۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر الزام جوڑ دیا کہ مکہ میں انہوں نے تیرہ سال حج نہیں کیا۔ اب ذرا یہ جواب ان کے اپنے الفاظ میں بھی پڑھ لیجئے۔ ’’مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ مرزا صاحب حج کیوں نہیں کرتے فرمایا:
’’کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اوّل رکھی ہے ا س کو پس انداز کرکے دوسرا کام شروع کر دیوے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عام لوگوں کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہوتی۔ وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی سے ہر ایک امر کو بجالاتے ہیں۔ اگرچہ تمام شرعی احکامات پر عمل کرتے ہیں مگر ہر ایک حکم کی تقدیم وتاخیر الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں۔ اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گویا خدا کے حکم کی مخالفت کرنے والے ٹھہریں گے۔ اور من استطاع الیہ سبیلا۔ (آل عمران، ۹۸) کے بارے میں حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ’’ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج ساقط ہے‘‘۔ حالانکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہوتی ہیں۔ مامورین کا اوّل فرض تبلیغ کا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۳ سال مکہ میں رہے آپ نے کتنی مرتبہ حج کئے تھے؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا‘‘۔ (ملفوظات جلد ۵،صفحہ ۳۸۸)۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرزا صاحب کا کوئی الہام یا وحی ایسی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے ان کو حج پر جانے سے روکا ہو؟ (کیونکہ مرزا صاحب نے حج نہیں کیا) یا کم ازکم تاخیر کرنے کا ہی کہا ہو؟ دوسری بات کہ مرزا صاحب نے اپنے فیصلہ کی بنیاد میں حجج الکرامہ کی اوپر دی گئی آیت قرآنی کی تشریح بھی بیان کی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا مرزا صاحب حجج الکرامہ میں لکھی ہوئی باقی باتوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں؟ اور اب مرزا صاحب کی یہ بات کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۳ سال مکہ میں رہے اور ایک دفعہ بھی حج نہیں کیا، ہوسکتا ہے کہ مرزا صاحب یا ان کی جماعت کے پاس اس دعوے کا کوئی حوالہ ہو لیکن اہم بات، یہ فقیر درِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم، مرزا کے جس دجل اورفریب کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس وقت تک حج کے باقاعدہ احکامات ہی نازل نہیں ہوئے تھے اور یہ حکم مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔
اور میری سمجھ کے مطابق خدا تعالیٰ نے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ اسی لیے ایک بار فرض حج کے لیے فرمایا تاکہ قیامت تک آنے والی امت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ صاحب ثروت کو تو نہیں فرق پڑتا لیکن کم استطاعت والوں کو مبرا بھی کر دیا، ورنہ اگر زیادہ کا حکم ہوتا تو زیادہ مرتبہ حج کرنا پڑتا۔ اسی طرح نمازوں کے باقاعدہ احکامات بھی مدینہ منورہ میں ہی نازل ہوئے تھے۔ اگر مرزا صاحب کی دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر کل کو نمازوں کے لیے بھی کوئی یہی عذر پیش کردے گا کہ مکہ معظمہ میں نمازیں ادا نہیں بھی کی جاتی رہیں۔ کہ تبلیغ پہلے ہے اور نمازیں بعد میں، اگر انسان اس طرح کی تاویلیں کرنی شروع کردے تو کوئی بھی رکن نہیں بچتا تو پھر تبلیغ کس بات کی اور کیا کرو گے؟ لے دے کے ایک ہی تبلیغ رہ جاتی ہے جو قادیانی قیادت اور ان کے چیلے چانٹے کر رہے ہیں وہ بھی اپنی ہی جماعت کو! اور وہ ہے چندہ، چندہ، چندہ۔
نماز کے ساتھ یاد آیا کہ قادیانی نمازوں پر بظاہر بڑا زور دیتے ہیں لیکن اسی (۸۰) فیصد نمازوں میں ڈنڈی مارتے ہیں اور جب بھی کوئی جلسہ یامیٹنگ وغیرہ ہوتی ہے تو نمازیں جمع کرلیتے ہیں اور جمع بھی ظہر کے ساتھ عصر کی، مغرب کے ساتھ عشاء کی کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مرزا صاحب نے کہا ہے کہ آج کل حج پرجانے والوں کی نمازیں ساقط ہوتی ہیں؟ اور پہلے قادیان پھر ربوہ، اب لندن میں جو انہوں نے اپنے جلسہ میں شمولیت کو حج کا نعم البدل قرار دیا ہے وہاں پر جانے والوں کی نمازیں اگر ساقط ہوتی ہیں یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر جلسہ کا حکم بھی بند کرو اور اگر جواب نہ میں ہے تو جس طرح جلسہ پر جانے والوں کی نمازیں ساقط نہیں ہوتیں تو حج پر جانے والوں کی بھی نہیں ہوسکتیں۔
مرزا صاحب اور ان کی اولاد نے مرزا صاحب کے حج نہ کرنے کے جو بھی جواز پیش کئے وہ ہر عقلمند ایک نظر میں ہی دیکھ لیتا ہے کہ مرزا صاحب اگر مسلمان تھے تو انہوں نے توفیق ہونے کے باوجود حج نہ کیا اور اوپر سے عذر بھی بے تکے پیش کئے اور اس کہاوت کو سچ ثابت کردیا کہ عذر گناہ، بدتر ازگناہ۔
اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے خدا کے نام پر بہتان باندھا کہ خدا نے ان کو مجدد، محدث، مثیل مسیح، پھر مسیح موعود (اور نہ جانے کیا کیا بلا) بنایا نیز ان کو وحی کی، نبی اور رسول کہا۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ جس حیثیت میں بھی، جس معاملہ میں بھی اور جب بھی مرزا صاحب نے تحدی سے کوئی پیشگوئی کی خدا نے وہ کبھی پوری نہ ہونے دی۔ اس لیے کہ وہ خدا پر اپنی وحی، نبوت ورسالت کا بہتان باندھ رہے تھے۔ اسی طرح حج کے معاملے میں بھی اﷲ تعالیٰ نے ہی ان کے منہ سے ایسے بے تکے جواب نکلوائے اور ان کے خانہ کعبہ کو دیکھنے کے بھی اسباب پیدا نہ ہونے دیئے اور ان کے دل اور دماغ پرمہر لگا کر ایسے بے تک جواب نکلوا دئیے تاکہ یہ کاذب نبی اور اس کے کذب کو لے کر چلنے والے اپنے دعوے کی کا ذبیت کو چھپائے نہ چھپا سکیں اور ہر پہلو سے ان کا کذب بار بار تا قیامت ظاہر ہوتا رہے۔
مرزا قادیانی نے نہ صرف خود حج نہیں کیا بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر میں دوسروں کو بھی حج سے روکتے رہے،مرزا صاحب کی تحریر آپ کے سامنے ہے پڑھیے اور سر دھنیے:
’’دیکھو حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے مگر واپسی ایسی حالت میں مشکل۔ بہت ہیں جو وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں۔ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت ان کو نہیں ملتی۔ قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں، وہاں کے فیوض سے محروم ہوتے ہیں اپنی بدکاریوں کی وجہ سے اور پھر الزام دوسروں پر دھرتے ہیں۔ اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ رہا جاوے تاکہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو اور صدق پورے طور پر نورانی ہو جاوے‘‘۔ (الحکم، جلد ۷، نمبر ۱۰، صفحہ ۳،۴۔۱۷مارچ ۱۹۰۳ء۔ملفوظات، جلد ۵،صفحہ ۱۷۷)۔
اگر ہم اوپر دیئے گئے حوالہ کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کریں تو یہ ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے لیکن مختصراً چند نکات پیش کرتا ہوں:
محبت اور خلوص کے ساتھ حج پر جانا آسان ہے اور واپسی پر بجائے ان میں بہتری کے جانے والی حالت میں بھی مشکل ہے۔
بہت ہیں یعنی کافی ہیں جو بجائے با مراد ہونے کے نامراد ہوکر، اور بجائے نرم دل کے سخت دل ہوکر آتے ہیں۔
وہاں ان کو ایمان کی حقیقت نہیں ملتی۔
یہ تو تھی مرزا صاحب کی لن ترانی، اب ذرا یہ بھی پڑھ لیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ ایمان کی حقیقت حج پر ملتی ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا: میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے، جو کوئی اﷲ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور شہوت اور گناہ کی باتیں نہ کرے۔ تو وہ ایسا پاک ہوکر لوٹے گا جیسے اس دن پاک تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب المناسک /حدیث نمبر ۱۴۳۱)
حج پر روحانی پھل کو نہیں کھاتے بلکہ ان روحانی پھلوں کے چھلکے (قشر) سے آگے ان کو کچھ نہیں آتا۔
حج کے فیوض حاصل کرنے کی بجائے بدکاریاں کرکے آتے ہیں اور پھر ان بدکاریوں کا الزام دوسروں پر رکھتے ہیں۔
حج کے فوائد اٹھانے کے لیے صرف اسلام کی تعلیم کافی نہیں بلکہ پہلے کسی مامور کو ڈھونڈو، اس کے پاس کچھ عرصہ رہو تب حج پر جانا فائدہ مند ہوگا۔ یہاں مرزا صاحب کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس آکر رہو اور وقت گزارو۔ پیسے مرزا صاحب کو دے دو اور پھر بجائے حج کے، یہ سمجھتے ہوئے اپنے گھر واپس چلے جاؤ کہ مرزا صاحب کی صحبت میں حج کا ثواب مل گیا ہے۔ ایسی کئی مثالوں میں سے شہزادہ عبداللطیف کی مثال ہی کافی ہے کہ کابل سے حج کرنے نکلے، مرزا جی کے پاس آئے اور پھر حج پر جانے کی بجائے کچھ عرصہ گزار کر افغانستان لوٹ گئے اور وہاں جاتے ہی ملک اور دین سے غداری کے الزام میں سنگسار ہوئے۔
مرزا قادیانی کا کہنا ہے کہ ’’لوگ معمولی او رنفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ (یعنی قادیان میں، ناقل) نفلی حج سے زیادہ ثواب ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر، کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام ،رخ جلد ۵،صفحہ ۳۵۲)۔یعنی حج قادیان میں بھی ہوسکتا ہے؟
مرزا صاحب کا یہ شعر بھی اس بات کی تائید کرتا ہے:
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درثمین ،صفحہ ۵۷)
اب سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس آکر انسان کیا حاصل کرتا ہے اور سلوک کی کون سی منازل طے کرتا ہے۔ ان ساری باتوں کا مختصر اور جامع جواب مرزا صاحب کی اپنی تحریریں ہی دے رہی ہیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’میں اس جگہ اس بات کا اظہار بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہیں وہ سب کے سب ابھی اس بات کے لائق نہیں کہ میں ان کے متعلق عمدہ رائے کا اظہار کرسکوں۔ بلکہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں جن کو میرا خدا وند جو میرا متولی ہے مجھ سے کاٹ کر جلنے والی لکڑیوں میں پھینک دے گا۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ اوّل ان میں دلسوزی اور اخلاص بھی تھا، مگر اب ان پر سخت قبض وار دہے اور اخلاص کی سرگرمی اور مریدانہ محبت کی نور انیت باقی نہیں رہی۔ بلکہ صرف بلغم کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دئیے جائیں۔ وہ تھک گئے اور درماندہ ہوگئے اور نابکار دنیا نے انہیں اپنے دام تزویر کے نیچے دبالیا‘‘۔ (فتح اسلام ،رخ جلد ۳،صفحہ ۴۰)۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوزان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مردار کی طرف‘‘۔ (براہین احمدیہ، حصہ پنجم ،رخ جلد، ۲۱؍ صفحہ ۱۱۴)۔ واضح ہو کہ یہ کتاب سنہ ۱۹۰۷ء میں یعنی مرزا صاحب کی وفات سے پچھلے برس طبع ہوئی۔
اس پر ایک انسان یہی تبصرہ کرسکتا ہے کہ مرزا صاحب جن لوگوں سے عزت پاتے تھے، جن پر رئیسوں کی طرح عیش کرتے تھے اور جائیدادیں بنائیں، انہی لوگوں کی بڑی تعداد کو مردار کی طرف دوڑنے والا کتا قرار دے رہے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے احسان فراموش کوہی ’’جس تھالی میں کھائے اسی میں تھو کنے والا‘‘ کا خطاب بر حق ہوگا یا نہیں؟ یا پھر جو لوگ اس الزام کو تسلیم کر رہے ہیں سادگی کی وجہ سے ان کو کیا یہ مشورہ دینا جائز نہیں ہوگا کہ تم اچھے انسان ہو اور یہ خطاب واپس کرکے ان کی طرف لوٹ آؤ جو تمہیں ان شاء اﷲ انسان ہی سمجھیں گے۔
اور ہزار باتوں کی ایک بات، مرزا صاحب اپنی کتاب ازالہ اوہام کے حصہ اول( روحانی خزائن کی جلد ۳،صفحہ ۲۱۱)، میں خود لکھتے ہیں کہ:
’’مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دجال مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکے گا‘‘
اور میرے خیال میں مرزا صاحب نے اپنے بے بنیاد دلائل، بیہودہ تاویلات حق کو چھپانے والے غلط طریق اختیار کرکے اپنے آپ کو اگر اصلی نہیں تو اس معہود دجال کا چھوٹا بھائی ضرور ثابت کردیا ہے، اس لیے بھی وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوسکے۔
فاعتبر وا یا اولی الا بصار
ہماری اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قادیانیوں کو مرزا صاحب کے دجل، چالبازیوں جھوٹ ،تحریفات، تاویلات کو حقیقی طور پر سمجھنے میں مدد دے اور مرزائی مکڑی کے جال سے نکلنے کی توفیق دے اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اور مرزا کی تعلیم کے فرق کو کھلے طور پر واضح کرے اور ان کو واپس صحیح دین میں لائے، آمین۔