ترجمہ و ترتیب: مولوی محمد نعمان سنجرانی
مئی کی اکیس تاریخ، صبح دو بجے اسرائیل کی گیارہ روزہ جارحیت جنگ بندی کے ذریعے ایک وقفے تک پہنچی۔ یہ گیارہ روز فلسطینی مظلوموں نے انتہائی ترقی یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس بد نہاد دشمن کی سرکشی و تعدی کے سامنے جس طرح گزارے وہ صبر و ثبات کی ایک نئی داستان ہے۔ جب تک صرف اسرائیل ہی ظلم کے اقدامات کر رہا تھا’’عالمی برادری‘‘ اور ’’اسلامی دنیا‘‘ بحیثیت مجموعی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی۔ جیسے ہی فلسطینی مزاحمت نے جوابی رد عمل کے اقدام کرنا شروع کیے تو پوری دنیا میں جنگ بندی اور دونوں فریقوں میں امن و امان کی دہائیاں دی جانے لگیں۔ اس بار اسرائیل کی غاصبانہ حکومت سے خطا یہ ہوئی کہ اس نے فلسطینی اسلامی مزاحمت کو اپنی طاقت و قوت کے اسباب و آلات کے تکبر میں بالکل مٹا ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا، چنانچہ جنگ بندی کے ہر مطالبے اور قیام امن کی ہر دہائی کو اسی رعونت کے ساتھ مسترد کیا جاتا رہا جو ہمیشہ سے اہلِ استکبار و استبداد کا خاصہ رہا ہے۔ اسرائیل کی غاصبانہ ریاست کو اپنے آہنی گنبد نامی اینٹی راکٹ دفاعی نظام پر بہت بھروسہ رہا ہے، جو حملہ آور راکٹوں اور میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہوا میں ہی نشانہ بنا کر تباہ کر دیتا ہے۔ لیکن اس بار پھر ابابیلوں سے ہاتھیوں کو پسپا کرنے پر قدرت رکھنے والے ہمارے رب قدیر جل جلالہ نے اہلِ استکبار کی رعونت کو خاک میں ملایا اور فلسطینی اسلامی مزاحمت کے کئی راکٹ اسرائیلی آئرن ڈوم (آہنی گنبد) دفاعی نظام کو چھیدتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں اپنے اہداف تک جا پہنچے۔
شوال کے مہینے میں احد کا مبارک غزوہ پیش آیا تھا، جس کے قدسی صفت شہیدوں نے اپنے خون کی تعطیر سے نامِ رسالت و نبوت سے وفا کی ایسی مہک پھیلائی تھی جو آج تک مدھم ہونے نہیں پائی۔ ہمارے آقا و مولا سید الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان پاک شہیدوں کو زندگی بھر فراموش نہیں فرمایا، آپ متعدد بار دامانِ احد میں واقع ان کے مقابر پر تشریف لے جاتے اور ان کے لیے خاص دعائیں فرماتے، حتی کہ روایات میں آتا ہے کہ حیاتِ طیبہ کے آخری خطبے میں جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے قابلِ فخر اصحاب سے الوداعی باتیں اور وصیتیں فرمائیں اور دل کی باتیں کہہ چکے تو فرمایا کہ آؤ ایک بار پھر احد کے وفا کیش شہیدوں کا جنازہ پڑھ لیں، اور پھر آپ نے آخری باراحد کے شہدا کا جنازہ پھر سے با جماعت ادا فرمایا ۔ اب کے بھی شوال کا مہینہ ہے۔ ہم اپنے ہادی و شفیع سیدنا ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں آپ ہی کی معراج کی مقدس زمین کے پاک طینت شہیدوں کو یاد کرتے ہیں۔ ذیل میں صرف ان نقصانات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اسرائیلی جتھوں کی گیارہ روزہ جارحیت میں بری و بحری و فضائی بمباری میں مظلومانِ غزہ و مغربی کنارہ کو اٹھانے پڑے۔
شہدا: اسرائیلی بمباری جو امریکی ساختہ ہوائی جہازوں ، سمندری کشتیوں اور زمینی محاصر افواج کی طرف سے کی گئی اس کے نتیجے میں 232 فلسطینی شہریوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جن میں 65 بچے، 39خواتین اور 17 عمر رسیدہ افراد شامل تھے۔
زخمی: غاصبانہ فوجوں کے میزائلوں نے 1900سے زائد فلسطینی شہریوں کو زخم آلود کیا۔ جن میں سے 90کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے۔ فلسطین کی وزارتِ صحت کی اطلاع کے مطابق ان زخمیوں میں 560 بچے، 380 خواتین اور 91 معمر افراد شامل ہیں۔
بے گھر افراد: اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام فلسطین بے گھر اور مہاجر افراد کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم انروا (UNRWA) کے اعلان کے مطابق اسرائیلی غنڈہ گرد فوجوں کے میزائل حملوں نے 75 ہزار سے عام فلسطینی شہریوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ جن میں سے 28ہزار سات سو افراد اس بین الاقوامی تنظیم (انروا) کے سکولوں اور دفتروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ جب کے باقی افراد فلسطین ہی کے دوسرے علاقوں میں اپنے عزیز و اقارب کے ہاں پناہ گزین ہیں۔ ان بے گھر افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے مساکن و بیوت کو بمباری کے ذریعے بالکل زمین سے ملا دیا گیا، اور وہ بھی ہیں جو بمباری سے بچنے کے لیے اپنا گھر پہلے ہی چھوڑ کر نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے۔
عبادت گاہیں: عبادت گاہیں اور مساجد بھی غاصبوں کی وحشت سے نہیں بچ سکیں۔ چنانچہ 3 مسجدیں کلی طور پر منہدم کی گئیں۔ اور ان مساجد کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ 40مساجد اور ایک عیسائی گرجا گھر کو شدیدنقصان پہنچا ہے۔
مکانات کا انہدام: حکومتی اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی آبادی میں واقع 1447 رہائشی یونٹ وحشی اسرائیلی حملہ آوروں نے بالکلیہ ڈھا دیے ۔ جبکہ 13ہزار ایسے مکانات وغیرہ ہیں جن کی عمارت کو اس جنگ میں نقصان پہنچا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مکانات میں نقصان کی مقدار مختلف درجوں پر ہے۔
اسرائیلی غنڈوں کی فوجوں نے 205 مکانات، فلیٹس ٹاورز، رہائشی اور دفتری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اپارٹمنٹ کپملیکس کو سرے سے تاراج کیا ہے۔ جبک 33 صحافتی تنظیموں کے دفاتر کو بم سے اڑا دیا گیا ہے۔ بہت سی دیگر تنظیموں او ر شہری محکموں کے دفاتر کو مختلف درجے کے نقصانات وغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔
غزہ میں حکومتی اطلاعات کے دفتر کی اطلاعات کے مطابق (جو کہ حماس یعنی اسلامی مزاحمت کے زیر انتظام و ترتیب چلتا ہے)اب تک 75سرکاری یا پبلک عمارتوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ان عمارتوں میں مختلف خدمات فراہم کرنے والے محکموں کے دفاتر کے علاوہ تھانے اور سکول وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اسی اثنامیں 68سکول اور ہسپتال یا ابتدائی طبی امداد کے مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ کچھ تو بذات خود ہدف بنائے گئے اور کچھ ارد گرد ہونے والی بمباری کی وجہ سے تباہی کا نشانہ بنے ہیں۔جبکہ 490 زرعی زمینوں ، جانوروں کے فارموں، پانی کے کنووں اور آب پاشی کے انتظامات وغیرہ کو اس جنگ میں اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
معاشی اور اقتصادی عمارتیں: اسرائیلی غاصبانہ افواج نے 300 سے زائد اقتصادی و تجارتی اور صنعتی مراکز پر حملہ کیا۔ سات فیکٹریاں سرے سے مٹا دی گئیں جبکہ 60 سیاحتی پوائنٹس کو شدید نقصانات پہنچائے گئے ہیں۔
بنیادی تعمیراتی ڈھانچہ: اسرائیلی حملہ آور فوج نے اس جارحیت کے دوران سڑکوں اور بنیادی تعمیراتی ڈھانچے کو بطور خاص اپنا ہدف بنائے رکھا۔ بہت سے ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں کہ پہلے اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک رہائشی عمارت یا کئی منزلہ تعمیر پر بمباری کی اور پھر اس کی طرف آنے والی سڑک کو دونوں طرف سے بمباری کر کے نا قابلِ استعمال بنا دیا تا کہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ وغیرہ بھی زخمیوں اور شہداء کی مدد کے لیے نہ آ سکیں۔چنانچہ سڑکیں، پانی کی لائنیں اور سیوریج کے جال کو نشانہ بنائے جانے کے نتیجے میں شدید نقصانات پہنچے ہیں۔
بجلی کا نظام: بجلی کے بند و بست کے شعبے میں اسرائیلی حملوں نے غزہ کے 13 گرڈ سٹیشن کو نشانہ بنایا، اسی طرح بجلی کی 9مرکزی لائنیں ان حملوں کے نتیجے میں منقطع ہو گئیں اور بجلی کی سپلائی بر قرار نہ رہ سکی۔
ذرائع مواصلات: حکومتی شماریات کے بیان کے مطابق 454کاریں یا ذرائع نقل و حمل مکمل طور تباہ ہوئے ہیں یا شدید نقصانات کا شکار ہو کر نا قابلِ استعمال ہو چکے ہیں۔
ذرائع اتصال و رابطہ: روابط و کمیونیکیشن کے شعبے میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ فراہم کرنے والی 16 کمپنیوں کو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اپنی خدمات فراہم کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہونا پڑا۔
غزہ کے حکومتی ذرائع کے مطابق یہ نقصانات جنگی نتائج کے ابتدائی تخمینے سے سامنے آئے ہیں اور حتمی نہیں۔ کیونکہ حملوں کا نشانہ بننے والی تمام تعمیرات خصوصا زیر زمین آب رسانی اور سیوریج وغیرہ کی لائنوں کو پوری طرح دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے بھی کے حملوں کا شکار ہونے والے بعض علاقوں تک رسائی دشوار گزاری کی وجہ سے پوری طرح نہیں ہو پائی ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں بنیادی طور پر نیو یارک ٹائمز، العربیہ اور دیگر عربی و انگریزی مصادر سے مدد لی گئی ہے۔ مضمون کی بنیادی ترتیب ’’الجزیرہ‘‘ عربی کی ویب سائٹ سے ماخوذ ہے۔