علامہ مولانامحمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
چشم فلک نے یہ نظارہ ایک اور صرف ایک ہی دفعہ دیکھا ہوگا کہ چوبیس لاکھ مربع میل کا فرماں رواں، اپنے ایک صوبائی دارالحکومت کے دورے پر روانہ ہوا ہے۔ جلو میں نہ خدم، نہ حشم، نہ باڈی گارڈ، نہ اور کوئی کروفر، صرف ایک غلام ہمراہ ہے اور سواری کے لیے ایک اونٹ، فرماں روائے مملکت اور اس کا غلام باری باری سوار ہوتے ہیں۔ طرفہ تماشایہ کہ جب صوبائی دارالحکومت قریب آتا ہے تو سوار ہونے کی باری غلام کی ہے۔ وہ بصد منت اپنے مالک سے عرض کرتا ہے کہ اب آپ ہی سوار ہوئیے، مگر وہ اس کی پیش کش کو ٹھکرا دیتا ہے۔ اپنے وقت میں کرۂ ارض کا سب سے بڑا حکمران ہے، مگر بدن پر پیوند لگا ہوا کرتہ ہے۔
یہ ہیں خلیفۂ راشد دوم، سیدنا عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ جب خلیفۃٔ المسلمین کی گذر بسر کا یہ حال ہے، تو اس کے وقت میں عمال سلطنت کس قماش کے ہوں گے؟ یقینا وہ بھی اسی طرز طریق کے پابند ہوں گے۔
سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ گورنر ہاؤس تشریف لے گئے، تو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے صوبائی گورنر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے مسکن میں صرف ایک ٹوٹی ہوئی پلنگڑی، ایک تلوار اور ایک ڈھال، یہ تھی کل کائنات متمدن علاقہ میں متعین حاکم کے اثاث البیت کی، سچ ہے، جو پیغمبر اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہوں:
مالی وللدنیا وما انا الا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکھا
مجھے دنیا سے کیا تعلق، میری مثال تو اس سوار کی سی ہے، جو سائے کے لیے ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا، پھر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔
ان کے تربیت یافتگان،عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ جیسے نہ ہوں تو اور کیسے ہوں گے؟
حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ عنہ قریش کے عالی نسب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی تلقین وتبلیغ پر مشرف با سلام ہوئے دو مرتبہ حبشہ کو اور پھر مدینہ منورہ کو ہجرت کی۔ ایک اﷲ سے رشتہ جوڑ لینے کے بعد باقی سب سے توڑ لیے تھے۔ بادۂ تو حید سے سرمستی کا یہ عالم تھا کہ بدر کے میدان میں ان کا والد سامنے آگیا، آپ ؓ طرح دیتے رہے مگر وہ نہ ٹلا، تو ایک ہی وار سے اس کاکام تمام کردیا(۱)۔ تمام غزوات میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے احد کے روز، زرہ کی کڑیاں، آنحضرت کے رخسار مبارک میں کھب گئیں، ان کو نکالتے ہوئے حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہکے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے۔ وقتاً فوقتاً حضور اقدس ان کی ماتحتی میں سرایا بھی بھیجتے رہے۔ عہد صدیقی اور فاروقی میں انہوں نے نہایت گراں قدر جنگی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی بجائے امیر مقرر فرمایا۔ شامی فتوحات انہی کی قیادت میں ہوئیں ۔
۱۸ھ میں شام کے علاقہ میں ایک وبائی بیماری پھوٹ پڑی، جس میں بہت سے صحابہؓ کی جانیں چلی گئیں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ نے بھی اسی بیماری (طاعون عمواس) میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
حضرت ابوعبیدہؓ کا امتیازی وصف، امانت داری ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لکل امۃ امین وامین ھذہ الا مۃ ابوعبیدۃ بن الجراح
ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن جراح ہے۔
نجران کے نصاریٰ، جب مباھلہ کے لیے آمادہ نہ ہوئے، تو جزیہ ادا کرکے ماتحتی میں رہنا منظور کرلیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی، کہ کسی دیانت دار آدمی کو ہم پر مقرر فرما کر ہمارے ساتھ بھیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں تمہارے ساتھ ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا، جو حد درجہ امانت دار ہے۔ کئی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اس حکم کی فضیلت حاصل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کو کھڑا ہونے کا حکم دیا اور انہیں روانہ فرما دیا۔ (صحیح بخاری وغیرہ)
سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ کے یہی فضائل اور محاسن تھے، جن کی بناء پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں عشرہ مبشرہ میں شامل فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ابوعبیدۃ بن الجراح فی الجنۃ (ابو عبیدہ جنت میں ہیں) رضی اﷲ عنہ وارضاہ
حواشی
(1) ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسے قطع رحمی پر محمول کرے، مگر حقیقت ہے کہ یہی ایک کارنامہ، حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ کی اتنی بڑی منقبت ہے، جس کے برابر دوسری کوئی فضیلت شاید ہی ہو۔ درج ذیل آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ پڑھئے:
لَاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَو کَانُوْا آبآءَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَھْمُ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُم۔ْ اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلْوُبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ۔ اُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلآ اِنَّ حِزَبَ اللّٰہِ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ
وہ لوگ جو اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں تم انہیں نہیں دیکھو گے کہ اس شخص سے دوستی رکھتے ہوں جو اﷲ اور اس کے رسول کا مخالف ہے، اگرچہ وہ ان کے باپ دادا، بیٹے یا بھائی یا کنبے کے لوگ ہوں، یہی لوگ ہیں کہ اﷲ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور اپنے غیبی فیض سے ان کی تائیدکی ہے۔ وہ انہیں ایسی بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے وہ اﷲ کی جماعت ہے۔ سن لو، اﷲ کی جماعت ہی کامیاب ہوگی۔