شیخ راحیل احمد مرحوم ……قسط: ۱
مرزا غلام اے قادیانی کی یوں تو ہر بات نرالی تھی، بڑی دور کی کوڑیاں لاتے تھے، اور ایسی ایسی دلیلوں اور تاویلوں کو جوڑ کر، اور حوالوں کو توڑ مروڑ کر اپنی بات پیش کرتے تھے کہ بھان متی نے کہیں کی اینٹ اور کہیں کارو ڑالے کر کیا کنبہ جوڑا ہوگا۔ مرزا صاحب کا دعویٰ مہدی اور مسیح مو عود کا تھا، اور جس مقام کا دعویٰ ان کا تھا اس کے لیے نہ صرف تمام ارکان اسلام کو بجالانا فرض تھا۔انھوں نے اس فرض پر کتنا عمل کیا، اس مختصر مضمون میں یہ جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
قرآن کریم میں حج کے بارے میں ارشاد ہے کہ ’’لوگوں پر فرض ہے اﷲ کے لیے خانہ کعبہ کا طواف کریں۔ جس کو وہاں تک راہ مل سکے اور جونہ مانے (اور باوجود قدرت کے حج نہ کرے) تو اﷲ تعالیٰ سارے جہان سے بے نیاز ہے‘‘۔ (آل عمران، آیت ۹۷)۔
حدیث شریف میں حج کے متعلق آیا ہے کہ ’’ہم سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا………… انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے، انہوں نے عرض کیا، کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم جانتے ہیں کہ جہاد سب نیک عملوں سے بڑھ کر ہے۔ تو ہم جہاد کریں، آپ نے فرمایا نہیں عمدہ جہاد حج ہے مبرور ہو‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب المناسک ،حدیث نمبر ۱۴۳۰)۔
مرزا غلام اے قادیانی کے دعویٰ بلکہ متفق علیہ احادیث بھی موجود ہیں کہ مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔ مرزا صاحب سے جب بھی سوال کیا جاتا کہ آپ نے حج نہیں کیا، احادیث کے مطابق آپ کو حج کرنا چاہیے، پہلے تو مرزا صاحب نے احادیث کے بارے میں قدم بہ قدم شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن جب اس سے بھی کام نہ بنا تو حدیث کا سوال ختم کرنے کے لیے کہہ دیا کہ میرے دعوے کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ میری وحی ہے (اور مرزا صاحب اپنی وحی کو قرآن کریم کے مقابل ؍برابر سمجھتے تھے) اور مزید فرمایا کہ ہاں جو حدیث میری (یعنی مرزا صاحب) وحی کے مطابق ہے اس کو ہم پیش کردیتے ہیں اور مرزا صاحب یہ کہتے ہوئے بالکل بھول جاتے ہیں کہ جس مقام کا دعویٰ وہ کر رہے ہیں، اس مقام اور دعوے کے بارے میں یعنی عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، اور مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور حج کے مو قع پر لوگ ان کو طواف کرتے ہوئے پہچانیں گے، محض او رمحض احادیث سے ہی ثابت ہے اور مسلمان اگر مہدی علیہ السلام کے منتظر ہیں تو احادیث نبو ی صلی اﷲ علیہ وسلم کی روشنی میں، نہ کہ مرزا صاحب کی خود ساختہ وحی کی روشنی میں۔
اب مرزا صاحب کے جوابات پڑھئے اور سرد ھینے کہ حج کیوں نہیں کیا؟
٭ ……مرزا صاحب اپنی کتاب، ایام الصلح، میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح موعود کے حج پر جانے کی حدیث موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی حدیث کی اہمیت کم کرنے کے لیے دجل سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اگر بمو جب نصوص قرآنیہ وحدیثیہ پہلا فرض مسیح موعود کا حج کرنا ہے نہ دجال کی سرکوبی تو وہ آیات اور احادیث دکھلانی چاہئیں تا ان پر عمل کیا جائے‘‘۔ (ایام الصلح/رخ جلد ۱۴/صفحہ ۴۱۶)۔ اب آپ دیکھیں ایک طرف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ میرے دعویٰ کو حدیث سے کوئی تعلق نہیں، اس کی بنیاد میری وحی ہے، دوسری طرف جو حدیث ان کی وحی کے مطابق نہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہے، اور جس حدیث میں مہدی علیہ السلام کے آنے کی خبر دی گئی ہے اسی میں یہ بھی موجود ہے کہ لوگ ان کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے پہنچانیں گے۔ اس کے باوجود بھی مرزا صاحب کو نہ نظر آئے تو ان کی نیت کا فتور ہے۔
٭…… پھر سوال کرتے ہیں کہ ’’آپ اس سوال کا جواب دیں کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو کیا اوّل اس کا فرض ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو دجال کے خطرناک فتنوں سے نجات دے یا یہ کہ ظاہر ہوتے ہی حج کوچلا جائے ‘‘۔ (ایام الصلح، رخ جلد ۱۴،صفحہ ۴۱۶) ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ مسیح موعود نے اپنی زندگی میں دجال کو شکست دے دی، اس کو ختم کردیا؟ اس کا جواب ہمارے قادیانی دوست یہ دیتے ہیں کہ ’’تین سو سال کے عرصہ میں فتح نصیب ہوگی‘‘ اس کے جواب میں پھر یہ سوال ہے کہ تمام احادیث تو مسیح موعود کی زندگی میں ہی دجال کے خاتمہ کی بات کر رہی ہیں، دوسرے اگر ہم یہ بات مان بھی لیں تو اب دجال کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک سوپچیس سال ہوگئے ہیں مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو، اس عرصہ میں کیا دجال کی طاقت کا تیسرا حصہ تباہ ہوگیا ہے؟ چلو اس کو بھی چھوڑوکیا دجالیت کا سوواں حصہ بھی ختم ہوا ہے؟ جواب اگر نہیں میں ہے اور یقینا نہیں میں ہے تو مرزا صاحب اور ان کی جماعت نے جو تیر ایک سوپچیس سال میں چلا لیے ہیں وہی تیر آئندہ بھی چلائیں گے! لیکن مسیح موعود کے بارے میں خو دان کا حج کرنااور رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضہ پر جانا احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے یا نہیں؟ اگر لکھا ہے تو کیا مرزا صاحب حج پر گئے؟
٭…… مرزا صاحب اسی کتاب میں اور اسی صفحہ پر (حوالہ مندرجہ بالا) لکھتے ہیں کہ ’’ہمارا حج تو اس وقت ہوگا جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آکر طواف بیت اﷲ کرے گا‘‘ اب مرزا صاحب کا دجل کھل گیا، کہ احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے قریب دجال کا خروج ہوگا اور کوشش کرے گا کہ حرمین شریف میں داخل ہو اور وہ مشرق سے مدینہ کی طرف چلے گا لیکن اﷲ تعالیٰ کے فرشتے حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے مامور ہوں گے اور وہ دجال کو داخل نہیں ہونے دیں گے اور دجال تو بہ نہیں کرے گا بلکہ مسیح موعود کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ لیکن مرزا صاحب ان احادیث کے برخلاف خود ساختہ خیالات پھیلا کر دجل سے قادیانی لوگوں کو بے وقوف بنا گئے۔ چونکہ مرزا صاحب خود اپنے دعوؤں اور ان کے لیے دجل سے پُر دلیلوں اور تاویلوں کو دجل اور جھوٹ سے پھیلاتے رہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک کذاب اور خود ساختہ نبی کو دجال کی طرح حرمین شریفین میں داخل نہیں ہونے دیا۔
٭…… مرزا صاحب اسی صفحہ پر (حوالہ مندرجہ بالا) لکھتے ہیں ’’یہ مسئلہ کچھ باریک نہیں صحیح بخاری سے اس کا حل مل سکتا ہے اگر رسول اﷲ کی یہ گواہی ثابت ہو کہ پہلا کام مسیح موعود کا حج کرنا ہے تو بہر حال ہم حج کو جائیں گے۔ ہر چہ بادا باد‘‘۔ کوئی شخص کیسے مسیح موعود بن سکتا ہے جب کہ اس نے تمام ارکان اسلام ہی ادانہ کیے ہوں، کیا اﷲ تعالیٰ اتنا مجبور ہے کہ ایک شخص کو احیاء اسلام کے لیے دنیا میں بھیجتا ہے مگر اس کے لیے حالات پیدا نہیں کرتا کہ وہ تمام ارکان اسلام ادا کرسکے؟ اور جو شخص خود اسلام پر مکمل طور پر عمل پیرا نہیں وہ دوسروں کے لیے حکم کیسے بن سکتا ہے؟ دوسرے مرزا صاحب کا دعویٰ مہدی موعود کا بھی ہے اور مہدی رضوان اﷲ علیہ کو تو بمطابق سچے نبی کی پیشگوئیوں کے خانہ کعبہ میں پہچان کر اس کی بیعت کرنی تھی۔ اور اس کا مطلب ہے کہ دعویٰ مہدی کا غلط ہے۔ اگر ایک دعویٰ غلط ہے تودوسرے خود بخود غلط ہوگئے!
پھر ایک مرتبہ حج پر نہ جانے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل ہے ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں، بہت سے خنزیر مرچکے ہیں اور بہت سخت جان ابھی باقی ہیں، ان سے فرصت اور فراغت ہولے‘‘۔ (ملفوظات احمدیہ جلد ۵ ،صفحہ نمبر ۲۶۴مرتب منظور احمد قادیانی، بحوالہ تجزیہ قادیانیت، صفحہ ۴۲، مصنف مولانا محمد اقبال رنگونی، مانچسٹر، برطانیہ)۔ مرزا صاحب نے قتل خنزیر والی حدیث پر بھی مختلف آراء دیں ہیں، جن میں کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاقتلِ خنزیر کے حوالے سے مذاق اڑایا گیا ہے، اور کبھی سانسیوں، چماروں کی موج کروائی گئی ہے، اور اب خود مرزا صاحب بہ نفس نفیس خنزیر کو مارنے والے سانسی چمار بننا پسند کر رہے ہیں تا کہ حج پر نہ جانے کا کوئی جواز دے سکیں۔ ذرا مرزا صاحب کے ایک ساتھی کی روایت بھی پڑھ لیں ’’میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مراد مرزا غلام اے قادیانی، ناقل) اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کے لیے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سور مارنے کے لیے گئے ہیں پھر وہ لوگ حیران ہوکر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے او ر باہر سؤروں کا شکار کھیلتا پھرتا ہے پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہوسکتی ہے جو اس قسم کا کام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے۔ یہ الفاظ بیان کرکے آپ بہت ہنستے تھے یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجاتا تھا‘‘۔ (سیرت المہدی /جلد ۳،صفحہ ۲۹۱تا ۲۹۲مصنف مرزا بشیر احمد ایم اے، پسر مرزا قادیانی)۔ اس پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں، یہ تحریر ہی اپنے اوپر تبصرہ ہے۔ مرزا صاحب اپنے اندر کے سؤر کو تو مار نہیں سکے، اسلام کے لیے کون سے سؤروں کو مارا ہے یا مارنا تھا؟
پھر ایک بار سوال کیا گیا کہ آپ حج پر نہیں گئے تو مرزا صاحب جواب دیتے ہیں ’’تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کرکے ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں گے اور ہمارے مرید ہوجائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کرآتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات /جلد ۹/صفحہ ۳۲۴)۔ یعنی نہ نومن تیل ہوگا اور نہ را دھانا چے گی۔ اب کوئی یا کچھ اشخاص اس کام میں لگ جائیں کہ پوری امت مسلمہ کے علماء کرام کا ڈھونڈو اور ان سے بلا چون وچرا مرزا صاحب کی اجرائے نبوت پر مہر لگواؤ اور ساتھ ہی درخواست لکھو اؤ کہ حضور مرزا صاحب خدا کے لیے ہم پر احسان کرو اور حج کر آؤ۔ جب آؤ گے تو ہم سب با جماعت مرزا جی پر ایمان لے آئیں گے۔ اگر ہم مرزا صاحب کا تمام کلام چھوڑ دیں، صرف یہی ایک حوالہ سامنے رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ، حدیث نبوی کے ارشاد سے بچنے کے لیے ایک بیہودہ انسان، ایک جھوٹا نبی کیسی کیسی بیہودہ اور نامعقول، تجاویز، تاویلات اور بہانے ڈھونڈ سکتا ہے۔ صرف اسی ایک حوالے پر مزید بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن یہاں مرزا صاحب کے حج پر نہ جانے کے عیارانہ، ملحدانہ بہانوں کا ذکر کر رہے ہیں، اس لیے تفصیلی تبصرہ کسی اور موقع پر وما توفیقی الا باﷲ۔ آپ خود دیکھ لیں کہ کیا ایک ایسا شخص جو نعوذ باﷲ بروز محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کیا یہ جواب اس کے شایان شان ہے؟
مرزا غلام اے قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم، اے جن کو مرزا صاحب نے قمر الا نبیاء کا خطاب دیا ہوا تھا، مرزا صاحب کی سیرت پر تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ میں مرزا صاحب کے حج پر نہ جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے تو مرز ا صاحب کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ حج کرسکتے، دوسرے وہ تبلیغ اسلام میں ایسے مشغول رہے کہ فرصت نہ ملی، اور تیسرے بعد میں مرزا صاحب کے خلاف فتوؤں کی وجہ سے ان کے لیے سفر محفوظ نہیں تھا۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ان تینوں اعتذارات میں سے ایک بھی عذر خود بیان نہیں کیا بلکہ او پر دیئے گئے حوالوں سے ثابت ہے کہ ان کے جواب ہمیشہ مختلف لیکن بے بنیاد ہوتے رہے ہیں، اس لیے مرزا صاحب اپنے دیئے ہوئے جوابات/ بیان کے مقابلے پر ان کے بیٹے کے دئیے ہوئے جواب کی کوئی مسلمہ حیثیت نہیں۔
لیکن اس کے باوجود اگر کسی قادیانی بھائی کو اسی جواب پر اصرار ہے تو وہ ان باتوں کا جواب دیں: پہلی بات کہ اگر مرزا صاحب کی مالی حیثیت ایسی نہ تھی تو وہ براہین احمدیہ میں دس ہزار روپیہ کا چیلنج کہاں سے دے رہے تھے؟ اور اپنے آپ کو رئیس قادیان کیسے لکھتے تھے؟ اگر ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ کنگلے تھے تو کیا اسلام کے نام پر دس ہزار کا چیلنج دینا اور اپنے کو کتاب کے ٹائیٹل پر رئیس قادیان لکھنا اور ظاہر کرنا دھوکا نہیں تھا؟ کیا ایک دھوکے باز مسیح آپ کو قبول ؟
دوسرا عذر تبلیغ اسلام میں مشغول تھے، مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک اﷲ کی اطاعت، دوسرے انگریز حکومت کی تابعداری۔ اور ان خیالات کو پھیلانے میں ساری عمر لگے رہے، اور مرزا صاحب کے اپنے بقول وہ لگاتار ایک لمبا عرصہ (۲۰ سال سے زائد) تمام عرب وعجم میں یہ خیالات پھیلاتے رہے۔ تو وہاں جاکر ذاتی طور پر کیوں نہیں یہ خیالات پھیلانے کی کوشش کی؟ حج کے موقع پر آپ کی ایک تقریر کروڑوں مسلمانوں کو انگریزی حکومت کا خیر خواہ بنا دیتی، کیونکہ بقول مرزا صاحب کے وہ خدا کی طرف سے مقرر کر دہ مہدی اور مسیح تھے، اور وہیں لوگوں نے ان کو پہچاننا تھا؟ لوگ بھی پہچان لیتے اور پوری دنیا میں ایک بار ہی پیغام پہنچ جاتا؟
تیسرے راستے محفوظ نہیں رہے، مولویوں کے فتویٰ کی وجہ سے، تو مرزا صاحب کا الہام ہے کہ میں قتل کے منصوبوں وغیرہ سے بچایا جاؤں گا، بلکہ یہ بھی الہام /وحی ہے کہ جو تجھ پر حملہ کرے گا میں اس پر حملہ کروں گا۔ اب اس سے بہتر کون ساوقت تھا اپنے الہام کی سچائی ثابت کرنے کا۔
پھر مرزا صاحب کی وحی ہے کہ خدا نے ان کو کہا ہے کہ جو تیرا ارادہ ہے وہ میرا ارادہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب نے حج کا ارادہ کیا یا نہیں؟ اگر نہیں کیا تو مسیح موعود تو کیا صحیح مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے۔ اور اگر ارادہ کیا اور پورا نہیں ہوا تو کیا خدا پر بہتان نہیں باندھا کہ اس نے ان کے ارادہ کو اپنا ارادہ کہا ہے؟ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ جھوٹ بولا ہے یا شیطانی الہام تھا اس لیے پورا نہیں ہوا۔
اور ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مجھے طاقت دی گئی ہے کہ میں جس کام کو کہوں ہوجا، وہ ہوجائے گا۔ اب یہ بتائیں کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی موقع تھا کہ وہ اس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئی پورا کرنے والے بن جاتے؟ اگر اس موقع پر کن فیکون کی طاقت نہیں دکھائی تو اس سے بہتر اور کون سا موقع تھا؟ کیا کہیں اور کسی کام میں یہ طاقت دکھائی تو بتائیں۔
(جاری ہے)