امام اہلِ سنت حضرت مولانا سیدابو معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
تمہید:
عید الفطر بھی دیگر امتیازات دینیہ کی طرح ایک عظیم اسلامی شعار ،ایک دوررس اخلاقی نصاب ،ایک مسنون تفریح اور قومی مسرت اور خوشی کامبارک دن ہے، جسے دنیاوالوں کے معمولات کے بالعکس اﷲ نے بجائے ایک تہوار کے عبادت کی اہمیت برقراررکھتے ہوئے اس میں بہ قدر ضر ورت تفریح کی آمیزش کرکے اسلام کی قوت وعظمت کو دوام بخش دیا ہے۔
ہر مرغوب و محبوب شے کے حصول اور عزیز مقصد کے انجام پانے پر جب فطرتاً خوشی نصیب ہوتو دستور ہے کہ اس کے اظہار کی کوئی نہ کوئی صورت اور تدبیر ضرور اختیار کی جاتی ہے ۔ اسلام نے بھی دین فطرت ہونے کی وجہ سے اس معصوم انسانی جذبہ کی پوری قدر کی اور دین فطرت کی قائل امت مرحومہ کی دلداری و عزت افزائی فرمائی ۔ چنانچہ رمضان المبارک کے پاکیزہ مہینے میں مختلف قسم کی شبانہ روز عبادت و ریاضت خوش اسلوبی سے مکمل کرنے پر یکم شوال کے دن چند خاص اعمال پر مشتمل ایک مظاہرہ مسرت و تفریح قانوناً مقرر کردیا ہے ۔
تحفہ عبودیت:
اپنی عزت و وجاہت کے لیے نہیں بلکہ حصو ل اجر و ثواب کی نیت کے ساتھ سچے دل سے دیئے ہوئے عطیہ کو صدقہ کہتے ہیں ۔ اور ’’فطر‘‘ کا معنی ہے ٹوٹنا ، کھلنا ، جدا ہونا۔ تو صدقۃ الفطر کا مطلب ہوا: ماہ صیام کے جدا ہونے ، روزہ کا عمل ٹوٹنے نیز کھانے پینے اور میاں بیوی کے میل جول کی بندش کھلنے پراﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں خلوص قلب سے پیش کیا ہوا ہدیہ تشکر ۔
ہر چھوٹا بڑے کے لیے اور ہر ممنون اپنے محسن و مربیّ اور مرکز عقیدت تک کوئی تحفہ اور عطیہ کسی ذریعہ اور واسطہ کے ساتھ ہی پہنچانے جاتا ہے اور اس عمل کو اپنا فطری اور اخلاقی فرض ، موجب سعادت اور باعثِ خیر و برکت عمل یقین کرتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح فرماں بردار مخلوق جب خالق مطلق اور رب رحیم و کریم کے حضور اپنی بندگی اور توفیق عبادت و ریاضت کی نعمت نصیب ہونے پر اظہار سرور و فرحت کے لیے جبہہ سائی کا ارادہ کرے تو فقراء و مساکین کا معروف طبقہ کہ جن لوگوں کی حالتِ عجز و احتیاج ، پر وردگار کو بڑی محبوب ہے، ان کو اپنا وکیل اور نمائندہ بنا کر بارگاہ صمدیہ کے مناسب ہدیہ نیاز پیش کرنے پر فطرتاً اور قانوناً مامورو مجبور ہوجاتی ہے۔ یہ حاصل ہے صدقۃ الفطر کی قانونی رسم اور شرعی ضابطہ کی ادا ء و تکمیل کا ۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں تازندگی اس روحانی فصل بہارسے دل و دماغ اور جسم و جان کے لیے کسب فیض و نور کا موقع ملتا ہے ۔ ورزقنا اﷲ ابداً ……آمین ! ہم سب کو اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنی چاہیے ۔
زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا نصاب:
ہر آزاد ، عاقل ،بالغ مسلم جوگھر یلو ضروریات کے علاوہ ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے نقد روپیہ یا سونے یا اتنے وزن کے چاندی کے زیور یا اتنی قیمت کے سامان یا جائیداد یا تجارتی مال کا مالک ہو یا اس کے پاس موجود تمام اشیاء میں سے بعض یا سب کا مجموعہ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے یا پھر وہ بجائے چاندی کے ساڑھے سات تولے سونے یا اتنے وزن کے سونے کے زیورات کا مالک ہوتو اس پر زکوٰۃ کی طرح عید الفطر کے دن نماز کا وقت آتے ہی صدقۃ الفطر واجب ہوجاتا ہے ۔ مگر اتنی مالیت پر زکوٰۃ کی طرح سال کاگزرنا ضروری نہیں۔
صدقۂ فطر:
ہر میاں بیوی پر صرف اپنی ذات کی طرف سے اوراپنے بے مال غیر بالغ یا بالغ مگر مجنون اولاد نیزاپنے نوکر اور خادمہ کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے ۔ مال دار بالغ اولاد اور باقی گھر والے اپنا صدقہ خود ادا کریں ۔ البتہ ان کا وکیل بن کر صدقہ و زکوٰۃ وغیرہ ادا کرنا درست ہے اور اگر کسی شخص نے بغیر ایک دوسرے کی اجازت کے ازخود ہی اس کی طرف سے دے دیاتو وہ صدقہ نفلیہ بن جائے گا اور اصل آدمی پر صدقۃ الفطر بدستور واجب رہے گا ۔ اس کو مستقلاً ادا کرنا ضروری ہے۔
عورت شریعت کے مطابق چونکہ اکثر احکام میں مرد کی طرح مستقل شخصیت و حیثیت کی مالک ہے ۔ چنانچہ نقد اور غیر نقدی مال وغیرہ کے جمع اور خرچ میں اس کی ملکیت و حیثیت بھی مستقل ہے ۔ لہٰذا س پر صرف اپنی ذات کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے ، اپنے شوہر اور اولاد کی طرف سے نہیں ! اور اگر گھر میں صرف اس کے خاوند نے صدقہ ادا کیا تو اس سے عورت پر واجب شدہ صدقہ ادا نہیں ہوگا بلکہ اسے بہر حال اپنی زکوٰۃ ،عشراور قربانی کی طرح اپنا یہ صدقۃ الفطر بھی خود ہی براہ راست لازماً ادا کرنا پڑے گا ورنہ وہ گناہ گا ر ہوگی ۔
صدقہ فطر میں پونے دو کلو گندم (احتیاطاًدوکلو )یا گندم کاآٹا یا ساڑھے تین کلو جَو (احتیاطاً چارکلو)یا جَو کا آٹا اور ستو یاچار کلو کھجور یا کشمش یا ان کی قیمت حاضر نرخ کے مطابق دینا واجب ہے ۔فقراء کی ضرورت کے لحاظ سے نقد پیسے دینا اولیٰ اور بہترہے تاکہ وہ غریب خود بھی کچھ خرید کر عید کی خوشی میں براہ راست حصہ دار بن سکے۔
نمازِ عید سے قبل صدقہ فطر اداکرنا افضل اور مستحب ہے اور عید سے ایک دوروز قبل بھی اداکرنا جائز ہے ۔
صدقہ فطر کے مستحق، غیر مستحق :
رشتہ داروں میں حقیقی دادا،دادی،ماں ، باپ،نانا،نانی،بیٹا،بیٹی ،پوتا،پوتی ،نواسہ ،نواسی میں سے کسی کو بھی صدقہ فطر اور زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ایسے ہی شوہر ،بیوی ایک دوسرے کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے ۔اس کے علاوہ دیگر محتاج ومسکین عزیز واقارب میں سے سوتیلے دادا، دادی ،سوتیلے ماں، باپ ،حقیقی چچا ،چچی ،پھوپھا،پھوپھی ،ماموں ،ممانی،خالو،خالہ ،حقیقی بھائی ، بہن ،بھتیجا ،بھتیجی ،بھانجا ،بھانجی ،اپنے سسر ،ساس،سالہ،سالی اور بہنوئی سب کو زکوٰۃو عشر کی طرح صدقۃ الفطر دینا جائز ہے ۔
سادات قریش کی پانچ شاخوں کو صدقہ فطر سمیت تمام صدقات واجبہ ، زکوٰۃ و عشر دینا جائز نہیں ۔
حضور اکے ارشاد کے مطابق تمام صدقات ،محمد اور آل محمد اکے لیے حلال نہیں۔ سادات بنو ہاشم کی پانچ شاخیں یہ ہیں (۱)آل علی (۲)آل عباس (۳) آ ل جعفر (۴) آل عقیل (۵)آل حارث (حضور اکے سب سے بڑے سوتیلے چچا حارث بن عبدالمطلب کی اولاد)
عید کے دن مسنون اعمال :
(۱)شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا(۳) مسواک کرنا(۴) حسب استطاعت کپڑے پہننا (۵) خوشبو لگانا (۶)صبح کو جلدی اٹھنا (۷) عیدگاہ میں جلدی جانا(۸) عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا۔ کھجوریا چھوارے کے طاق دانے کھانا مستحب ہے(۹)نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (۱۰)عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا (بہ عذرِ شرعی شہر کی مسجد میں پڑھنا ) (۱۱)ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا(۱۲)عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اللّٰہ اکبر ، لاالہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا ۔( سواری کے بغیر پیدل عیدگاہ جانا )
نمازِ عید کے احکام:
نماز عید کا وقت طلوع آفتاب یعنی اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ اور زوال سے پہلے تک رہتا ہے ۔ نماز عید سے قبل کوئی بھی نفل نماز گھر یا مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے ۔ یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں ۔ نماز عید سے پہلے نہ اذان کہی جاتی ہے ، نہ اقامت ۔ یہ خلاف سنت اور بدعت ہے ۔
طریقہ نماز :
دورکعت نمازعید واجب مع چھے تکبیرات زائد ہ کی نیت کرکے امام کے ساتھ پہلی تکبیر پر ہاتھ باندھ کر سبحانک اللّٰھم آخر تک پڑھ لیں ۔ پھر دوسری اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں اور چوتھی تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں ، اب امام سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر پہلی رکعت مکمل کرے گا ۔ دوسری رکعت میں امام جب فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھ لے تو اس کے ساتھ تینوں تکبیرات میں ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں اورچوتھی تکبیر پر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع کرلیں ۔ پھر باقی ارکان سمیت نماز پوری کرلیں ۔ بعد از نماز حسبِ دستور دعا بھی مانگ لیں ۔
خطبات ِ عید:
نمازکے بعد دو خطبات سنت ہیں ، انہیں خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے ۔
جبری معانقہ و مصافحہ :
خطبہ کے بعد امام کو مصلّیٰ سے ہٹ کر ایک طرف ہوجانا چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے منتشر ہوجائیں ، اسی طرح نمازیوں کا ایک دوسرے کو یا امام کو سلام اور مصافحہ و معانقہ کرنا اور عید کی مبارک باد دینا بھی ثابت نہیں ۔ گردنیں پھلانگنا ، جلدی اور تیزی سے لپکنا اور جبری معانقہ و مصافحہ ، سلام اور مبارک باد دینے کی کوشش کرنا قطعاً غلط اور خلافِ سنت اور بدعت ہے ۔ اس غیر مسنون عمل سے بچنے کی سعی کرتے رہنا چاہیے ۔