فرید اﷲ مروت
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی 6پھوپھیاں تھیں جو عبدالمطلب بن ہاشم کی اولاد تھیں۔ (1)عاتکہ (2) امیمہ (3) بیضاء (4) برہ (5) صفیہ(6) ارویٰ۔ ان میں حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا بالا تفاق ایمان لائیں ۔یہ حواری رسول حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہ کی والدہ تھیں۔
نام ونسب
آپ کا نام صفیہ رضی اﷲ عنہا ہے اور نسب جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے وہی ان کا ہے۔ کیونکہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی اور عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔
نکاح
زمانۂ جاہلیت میں ابوسفیان بن حرب کے بھائی حارث بن حرب سے ان کی شادی ہوئی۔ جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، حارث کی وفات کے بعد آپ عوام بن خویلد کے نکاح میں آئیں۔ ان سے تین لڑکے ہوئے، زبیر، سائب،عبدالکعبہ۔
اسلام وہجرت
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھیوں میں سے صرف انہیں کے اسلام لانے پر مورخین کا اتفاق ہے۔ گو حضرت ارویؓ اور حضرت عاتکہ ؓ وغیرہ کو بھی ابن سعد نے اسلام لانے والوں کے ذیل میں لکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ سوائے ان کے عماتِ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم میں دوسروں کا اسلام لانابالیقین ثابت نہیں ہے۔ ابن اثیرؒ کا فیصلہ بھی یہی ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جو ان کے شرف وامتیاز میں بہت کچھ اضافہ کرتی ہے۔
ہجرت کے متعلق صرف اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہجرت کی۔ ابن سعد نے اس ذیل میں جو کچھ لکھا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ھَاجَرَتْ اِلیَ لْمَدِیْنَۃِ
عام حالات
آپ رضی اﷲ عنہا کئی غزوات میں شریک ہوئیں۔ غزوۂ خندق میں ان کا استقلال نسوانی جرأت کی حیرت انگیز مثال ہے۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مجاہدین کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایک قلعہ میں جس کو اُطلم اور فارغ بھی کہتے ہیں، ٹھہرا دیا اور حضرت حسان رضی اﷲ عنہ (مدّاح رسول صلی اﷲ علیہ وسلم) چونکہ اپنی پرانی تکلیف کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کر سکتے تھے لہذا ان کو خواتین کی حفاظت کے لیے متعین کردیا۔
یہ موقع ایسا تھا کہ عورتیں تنہا تھیں صرف حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کی موجودگی چنداں مفید نہ تھی۔ اس لیے یہودیوں نے میدان خالی دیکھ کرمسلمانوں کی مشغولیت سے فائدہ اُٹھانا چاہا۔ چنانچہ ایک یہودی قلعہ کے دروازہ تک پہنچ گیا، اور کان لگا کر باتیں سننے لگا کہ موقع پائے تو حملہ کرے۔ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے دیکھا لیا۔ چونکہ طبیعت کی دلیر تھیں۔ اس لیے فوراً حضرت حسان رضی اﷲ عنہ سے بولیں ’’اُتر کر اس کو قتل کر ڈالو‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں اس قابل ہوتا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نہ ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سے قبل حضرت حسان رضی اﷲ عنہ ایک مرض میں مبتلا رہ چکے تھے۔ جس کی وجہ سے جسمانی کمزوری کے علاوہ دل بھی اتنا ضعیف ہوگیا تھا کہ اس قسم کی جرأت نہ کرسکے۔ اور معذوری ظاہر کرنے لگے بہر حال حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کی جرأت اس جواب سے کم نہ ہوئی۔ اُٹھیں اور ایک خیمہ کی چوب اُکھاڑ کر اس جاسوس کے سر پر اچانک وار کیا۔یہودی اس کے صدمہ سے جانبرنہ ہوسکا۔ اب یہ حضرت حسان رضی اﷲ عنہ سے مخاطب ہوئیں کہ جاؤ اور اس کا سرکاٹ کر قلعے کے نیچے یہودیوں میں پھینک آؤ، حضرت حسان نے اس کی تعمیل کی۔اس عمل سے یہودیوں کو یقین ہوگیا کہ قلعہ پر حملہ کرنا خطرہ سے خالی نہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کچھ فوج مسلمانوں کی متعین ہے۔
جنگ اُحد، جنگ خندق سے پہلے ہوئی تھی۔ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہ جنگ اُحد میں بھی شریک ہوئیں۔ اور اس موقع پر بھی اپنی جرأت کی قابل رشک مثال قائم کردی۔ عفان ابن مسلم کی روایت ہے کہ مسلمان کفار کی کثرت سے گھبرا کر آمادہ فرار تھے۔ اور ایک طرح کی شکست ہوچکی تھی۔ اس حالت میں حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے آئیں۔ اور لوگوں کو مار مار کر روکتی تھیں اور غصہ میں کہتی جاتی تھیں، تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھاگتے ہو۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ کو بلا کر ہدایت فرمائی کہ یہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کی نعش نہ دیکھنے پائیں کیونکہ نعش کی حالت بہت خراب ہے اور کسی طرح اس قابل نہ تھی کہ ایک عورت اور وہ بھی ماں جائی بہن دیکھ کر ضبط کرسکے۔ حضرت زیبر رضی اﷲ عنہ بہ تعمیل ارشاد ان کے پاس آئے اور کہا ’’اماں! رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کو واپس ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ بولیں ’’کیوں؟ مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ میرے بھائی کو مثلہ کیا گیا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ یہ مجھے پسند نہیں تاہم میں ضرور صبر کروں گی اور ان شاء اﷲ ضبط سے کام لوں گی‘‘۔ حضرت بیر رضی اﷲ عنہ نے جو کچھ سنا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیان کردیا۔ یہ سن کر آپ نے اجازت دے دی۔ پھر حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہ اپنے سگے بھائی کی لاش پر آئیں، جسم کے ٹکڑے اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر اتنا ضبط کیا کہ کچھ نہ بولیں اور صرف انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ کر دعائے مغفرت مانگنے لگیں۔ جب یہ چلی گیں۔ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ دفن کیے گئے۔
فضل وکمال
صاحبِ دّرِّ منثور لکھتے ہیں: ’’وہ ایک فصیح شاعرہ تھیں۔ اور تمام عرب کے نزدیک قول، فعل حسب نسب اور بزرگی کے لحاظ سے خاص امتیاز کی مالک تھیں‘‘۔
جب عبدالمطلب کی وفات ہوگئی تو حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنی بہنوں اور بنی ہاشم کی عورتوں کی ایک مجلس میں، جس میں ہر ایک نے اپنے فوت شدہ سردار کو یاد کیا اور ان کی تعزیت میں شعرپڑھے حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہ کے مرثیے کے بعض اشعاریہ ہیں:
أَرِقْتُ لِصَوْتِ نَائحِۃٍ بِلَیْلٍ عَلیَ رَجُلٍ بِقَارِعَۃِ الصَّعِیدِ
فَفَاضَتْ عِنْدَ ذَلِکُم دُمُوعِی عَلَی خَدِّی کَمُنْحَدِدِ الْفَرِیدِ
عَلیَ رَجُلٍ کَرِیمٍ غَیْرٍ وَغْلٍ لہَُ الْفَضْلُ الْمُبِینُ عَلیَ الَبِیدِ
عَلیَ الْفَیَّاضِ شَیْبَۃَ ذِی الْمَعَالیِ أَبِیکِ الْخَیْرِ وَارِثِ کُلِّ جُودِ
صَدُوقٍ فیِ الْمَوَاطِنِ غَیْرِ نِکسٍ وَلاَشَخْتِ الْمَقَامِ وَلاَ سَنِیدٍ
طَوِیلِ الْبَاعِ أَرْوَعَ شَیْظَمِیٌ مُطَاعٍ فیِ عَشِیرَتِہِ حَمِیدٍ
رَفِیعِ الْبَیْتِ أَبْلَجَ ذِی فُضُولٍ وَغَیْثِ النَّاسِ فیِ الزَّمَنِ الْحَرُودِ
کَرِیمٍ الْجَدِّ لَیْسَ بِذِی وصُومِ یَرُوقُ عَلَی الْمُسَوَّدِ وَالمَسُودِ
عَظِیمِ الْحِلْمِ مِنْ نَفَرٍ کِرَامٍ خَضَارِمَۃٍ مَلَاوِثَۃٍ أُسُودٍ
فَلَوْ خَلَدَ امْرُؤٌ لِقَدِیمِ مَجْدٍ وَلَکِنْ لَا سَبِیلَ اِلَی الْخُلُودِ
لَکَانَ مُخَلِّدًا أُخْرَی اللَّیَالِی لِفَضْلِ الْمَجْدِ وَالْحَسَبِ التَّلِیدِ
’’میں رات کو ایک نوحہ کرنے والی کی آواز سے رواٹھی جو قارعۃ الصعیدمیں ایک مرد کریم پر رو رہی تھی اور اس حال میں میرے آنسو مسلسل موتیوں کی طرح رخساروں پر بہنے لگے ایسے مرد کریم کی (وفات پر) افسوس کرتے ہوئے، جو بیہودہ نہ تھا اور اس کی بزرگی دور دور عیاں تھی وہ عالی خاندان کشادہ ابرو صاحب فضائل اور قحط سالی میں لوگوں کے لیے ابر تھا پس کاش انسان اپنی قدیم بزرگی کی وجہ سے ہمیشہ رہتا، لیکن ہمیشگی کی کوئی صورت نہیں اگر ایسا ہوتا تو اپنی فضیلت اور قدیم شرافت کی وجہ سے بہت زمانہ تک زندہ رہتا‘‘۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر جو مرثیہ کہا ہے اس کے چند شعر یہ ہیں:
وَکُنْتَ یَارَسُوْلَ اﷲِ کُنْتَ رَجَاءَ نَا وَکُنْتَ بِنَابَرَّا وَّلَمْ تَکُ جَافِیًا
وَکُنْتَ رَحِیْمًا ھَادِیَّا وَمُعَلّمًا لِیَبْکِ عَلَیکَ الْیَوْمَ مَنْ کَانَ بَاکِیا
فَدَی لِرَسُوْلِ اﷲِ اُمِّیْ وَخَاْلَتِیُ وَعَمِیّ وَخَالِیْ ثُمَّ نَفُسِیْ وَمَالِیَا
فَلَوْاَنَّ رَب النَّاسِ اَبْقَی نَبِیَّنَا سَعَدْنَاوَلٰکِنْ اَمْرُہٗ کَانَ مَاضِیًا
عَلَیُکَ مَنَ اللّٰہِ السَّلَامُ تَحیَّۃً وَاَدخَلتَ جَنَّاتٍ مِّنَ الْعَدنِِ رَاضِیًا
G’’یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپؐ ہماری امید تھے آپؐ ہم پر احسان کرتے تھے ظالم نہ تھے آپؐ رحم دل، رہبر اور معلم تھے آج ہر رونے والے کو آپؐ پر رونا چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر میری ماں، خالہ چچا اور ماموں قربان ہوں پھر میں خود اور میرا مال بھی۔ کاش کہ خدا ہمارے نبی کو زندہ رکھتا تو ہم کیسے خوش قسمت تھے مگر اس کا حکم ہو کر رہنا تھا۔ آپؐ پر اﷲ کی طرف سے سلام ہو اور آپؐ جناتِ عدن میں داخل ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ میں ایک شعر حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے مرثیہ کے متعلق نقل کیا ہے۔ جس سے ان کی بلاغت وقدرت کلام کا اندازہ ہوتا ہے اس شعر میں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہتی ہیں۔
اِنَّ یَوْمًا اَتیٰ عَلَیْکَ لَیَوْمٌ کُوِّرَتُ شَمْسي وَکَانَ مُضِیئًا
µ’’آج آپؐ پر وہ دن آیا ہے جس میں آفتاب سیاہ ہوگیا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ روشن تھا۔‘‘
بقول بعض مؤرخین حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا سے چند احادیث بھی مروی ہیں مگر یہ قول پایۂ تحقیق کو نہیں پہنچا۔
وفات
73سال کی عمر میں بزمانۂ خلافت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ ہجرت کے بیسویں سال حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے وفات پائی۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔