عطامحمد جنجوعہ
حضرت عمر اور حضرت علی و فاطمہ رضی اﷲ عنہم کے درمیان مزعومہ جھگڑے کا روایتی و درایتی تجزیہ
اہل سنت کا موقف ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے رضا مندی سے سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی بیعت کرلی اور امور حکومت میں مشیرو معاون رہے جبکہ مخالفین کا نظریہ ہے کہ:
’’ابوبکر کی بیعت سے تخلف کرکے ایک گروہ حضرت علی کے پاس جاگزیں ہوگیا۔ عمر نے جاکر اُن کو آواز دی۔ انہوں نے نکلنے سے انکار کردیا۔ عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا نکل آؤ ورنہ میں گھر کو مع گھر والوں کے آگ لگادوں گا جب اُن سے کہا گیا کہ اس گھر میں تو سیدہ فاطمہ بھی ہیں عمر نے کہا مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں دوسرے لوگوں نے تو ابوبکر کی بیعت کرلی مگر علیؓ باہر نہ نکلے‘‘ (ماخوذ اثبات الا مامت ص 281از شیخ محمد حسین النجفی)
ازالہ: محدثین نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت کی ’’سند منقطع ہے اسلم مولیٰ عمر اس واقعہ کے شاہد نہیں ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت میں انھیں اپنا غلام بنایا یہ خلافت ابی بکر سے پہلے کی خبر کیسے دے سکتے ہیں اب انہیں اس واقعہ کی خبر کس نے دی؟ یہ واضح نہیں ہوسکا لہٰذا یہ مرسل ومنقطع روایت ہے۔
(مقالات السنۃ از علامہ غلام مصطفےٰ ظہیر مان پوری ص 563)
چند مزید قابل غور نکات پیش خدمت ہیں :
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ کو فکر تھی کہ آپ کا جنازہ کہیں بلاپردہ نہ اٹھایا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا آپ کی تیمار دار تھیں۔ آپ نے سیدہ کو تسلی دی اور عرض کیا کہ میں نے حبشہ میں باپردہ چار پائی کا طریق دیکھاہے اور حضرت سیدہؓ کے سامنے چار پائی پر چھیر کھٹ بنا کر دکھایا۔ آپ اس پر خوش ہوئیں یہ آخری مسکراہٹ تھی جو خواتین نے خاتون جنت کے چہرہ پر دیکھی۔ آپ کا جنازہ پھر اسی طرح رات کی تاریکی میں اٹھایا گیا۔ اُن کے بارے میں یہ کہنا کہ بیعت سے تخلف کرنے والا گروہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے اُس گھر میں جاگزیں ہوا جس میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بھی موجود تھیں ناقابل یقین ہے۔
پھر یہ روایت ظاہر کر رہی ہے کہ سیدنا عمر ؓکے جانے کا مقصد سیدنا علیؓ کو ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے لے آنا تھا۔ جبکہ اسی میں یہ بھی مذکور ہے سیدنا علیؓ کے سوا گروہ کے دیگر افراد نے تو سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کرلی جبکہ علیؓ گھر سے باہر نہ نکلے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا سیدنا علیؓ کو ساتھ لے کر نہ آنا اور اپنا مقصد پورا نہ کرنا محل تعجب ہے، اسی سے کذب بیانی ظاہر ہے۔
پھر بیعتِ ابوبکرؓ کے وقت مدینہ منورہ میں مہاجر وانصار صحابہ کرام ہی موجود تھے۔ بقول فریق ثانی سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ کے گھر کو (معاذ اﷲ) جلانے کی دھمکی دی تو یہ بات کم از کم اہلِ مدینہ میں تو معروف ومشہور ہوتی۔ وہ مہاجر صحابہ کرامؓ جنھوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر گھر بار چھوڑا، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، پھر آپؐ کے حکم پر قریش مکہ سے برسر پیکار رہے، اگر خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب بیٹی کو معاذ اﷲ دھمکی دی گئی ہوتی تو وہ اس اقدام کا سختی سے ضرور نوٹس لیتے۔
اسی طرح انصار نے جان کا نذرانہ پیش کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا۔ انصار نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک بار اپنے سردار کو خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر جب انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان الا ئمۃ من قریش سنا تو اپنی گردنیں جھکالیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ انصاریوں نے اس کے بعد خلافت کی تمنا نہ کی۔ ایسے جاں نثار مہاجر وانصار کے ہوتے ہوئے حضرت عمر (معاذ اﷲ) سیدہ فاطمہؓ کے گھر جلانے کی دھمکی دیں یا اُن کو ایذاء پہنچائیں اور وہ ڈرکر یا مصلحت کے تحت مزاحمت نہ کریں یہ نا ممکن ہے۔
پھر خاندان بنو ہاشم کے کئی چشم وچراغ موجود تھے جن میں عقیل بن ابوطالب ، سیدنا جعفر بن ابی طالب کے تین جوان بیٹے اور عبداﷲ بن عباس حیات تھے۔ سیدنا عباس بن عبدالمطلب کا سایہ اُن پر تھا۔ انھوں نے اس موقع پر مزاحمت کیوں نہ کی؟ تاریخ میں اُن کی طرف سے کوئی تنازع یا بحث مباحثہ مذکور نہیں۔
امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ خطبہ دینے کے لیے منبر پر کھڑے ہوئے تو حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہا خطبہ دینے سے پہلے اس بات کا جواب دو کہ بیت المال سے ملنے والے کپڑے سے ہماری قمیض نہیں بنی آپ کی قمیض کس طرح بن گئی؟ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے حق مہر کی حد مقرر کرنا چاہی تو ایک ضعیف انصاری عورت نے اس اقدام پر اعتراض کیا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حد مقر ر نہیں کی آپ کو حد مقرر کرنے کا کس طرح حق حاصل ہے؟
خلفائے راشدین کے دور میں احتساب کے اس طرح کے کئی واقعات موجود ہیں لیکن آگ سے جلانے کی اس دھمکی پر مہاجرین وانصار بالخصوص بنو ہاشم کے کسی فرد کی طرف سے باز پرس تک کا ذکر نہ ہونا دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔
میدان جنگ میں سیدنا علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کا نام سن کر لشکر کفار پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا جبکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے (معاذ اﷲ) توہین آمیز رویہ پر حیدر کرار کے بارے میں گمان رکھنا کہ انھوں نے بزدلی کی چادر اوڑھ لی قرین قیاس نہیں۔ فریق ثانی اپنی مجالس میں قصیدہ کے دوران سیدنا علی کو انبیاء کرام تک کا مشکل کشا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سامعین جوش میں آکر نعرہ حیدری یا علی مدد کہہ کر پکارتے ہیں۔ چند منٹ نہیں گزرتے کہ سیدہ کائنات کی مظلومیت اور سیدنا علی کی بے بسی پر مصائب شروع ہوجاتے ہیں۔ نعرہ حیدری لگانے والوں میں آہوں اور سسکیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ یہ نظریہ دروغ گورا حافظہ نباشد کے مصداق ہے۔ حضرت عمر کے سامنے بزدل بنا کر پیش کرنا فاتح خیبر کی شجاعت وعظمت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔
سیدنا علی نے زندگی کی قسم کھا کر کہا ،شیخ شریف رضی نے نقل کیا ہے
’’وَلَعَمْرِیِ مَاعَلَیَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالفَ الْحَقَّ وَخَابَطَ الْغَیِّ مِنْ اِدِّنٍ وَلاَ اِیْھَانٍ، فَاتَّقُوْا ﷲَ عِبَادَاﷲِ وَفرُّوْا الَی اﷲِ مِنَ اﷲِ وَامْضُوْا فِیْ الَّذِیْ نَھَجَہٗ لَکُمْ وَقُوْمُوْا بِمَا عَصَبَہٗ بِکُمْ فَعَلِیٌ ضَامِنٌ لِفَلَجِکُمْ آجِلاً وَاِنْ لَمْ تَمْنَحُوْہٗ عَاجِلاً‘‘(نہج البلاغہ: جز۱ ؍۴۲؍۴۳خطبہ نمبر ۲۴)
’’مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا۔ اﷲ کے بندو! اﷲ سے ڈرو اور اس کے غضب سے بھاگ کر اس کے دامن رحمت میں پناہ لو، اﷲ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلو اور اس کے عائد کردہ احکام کو بجالاؤ (اگر ایسا ہو تو) علیؓ تمہاری نجات اخروی کا ضامن ہے ، اگرچہ دنیاوی کامرانی تمہیں حاصل نہ ہو۔‘‘ (نہج البلاغہ مترجم اردو: ۱۴۸، ۱۴۹، از مفتی جعفر حسین مطبوعہ لاہور)
اگر سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حق تلفی کی ہوتی یا عمر رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے توہین آمیز رویہ اختیار کیا ہوتا تو سیدنا علی اُن کے خلاف ضرور مزاحمت کرتے۔ درحقیقت سیدنا عمر کی زبان یا ہاتھ سے کوئی توہین آمیز واقعہ رونما نہیں ہوا وہ تو اس طرح رحماء بینھم کی عمدہ تعبیر تھے کہ سیدنا علی نے حضرت عمر کو دامادی کے شرف سے نوازا۔
ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی ( م ۳۲۹ھ) نے نقل کیا ہے:
’’عَنْ ھِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ اَبِی عَبَدِ اﷲِ (عَلیہ السَّلَامُ) قَالَ لَمَّا خَطَبَ اِلَیْہِ (عمر) قَالَ لَہٗ اَمِیْرُ الْمؤمِنِیْنَ: اِنَّھَا صَبِیَّۃٌ قَالَ: فَلَقِیَ الْعَبَّاس فَقَالَ لَہٗ مَالِیْ اَبِیْ بَأَسٍ؟ قَالَ وَمَاذَاکَ؟ قَالَ خَطَبْتُ اِلَی ابْنِ اَخِیْکَ فَرَدَّنِیْ فَأَتَاہٗ الْعَبَّاسُ فَأَخْبَرَہٗ وَسَأَلَہٗ اَنْ یَجْعَلَ الْاَ مْرَ اِلَیْہٖ فَجَعَلَہٗ اِلَیْہٖ‘‘
(فروع کافی: ۱۳۳۸، کتاب النکاح، باب تزویج ام کلثوم)
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے ان کی صاحبزادی کا رشتہ طلب کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ ابھی چھوٹی بچی ہے۔پھر حضرت عمرؓ،عباسؓ بن عبدالمطلب کو ملے ان سے کہا کہ کیا مجھ میں کوئی عیب ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیابات ہے؟ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں نے آپ کے بھتیجے سے ان کی لڑکی کارشتہ طلب کیا ہے۔ انھوں نے میری بات کو لوٹا دیا ہے اور رد کردیا ہے…… پھر حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ کے پاس آئے ان کو تمام ماجرا بیان کیا اور حضرت علیؓ کو کہا کہ اس عزیزہ کے نکاح کی اجازت کا معاملہ آپ میرے سپرد کردیں۔ پس حضرت علیؓ نے یہ کام حضرت عباسؓ کے حوالے کردیا(تاکہ وہ سر انجام دے دیں) (بحوالہ ارشادعلی ص ۶۸،۶۹ از مولانا محمد عبدالحمید تونسوی)
مولانا محمد صدیق فیصل آبادیؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انصاف کی نگاہ ڈالیں کہ سبائی ہاتھ اس میں کسی طرح کام کر رہے ہیں۔ ام کلثوم کے نکاح کا تو اقرار کیا ہے لیکن ہاتھ کی صفائی سے حضرت علیؓ کی مجبوری کا اظہار کیا ہے۔ کہ گویا آپ نے بصورت اکراہ و مجبوری اس نکاح کا معاملہ حضرت عباسؓ کے ہاتھ دے کر اپنی جان چھڑائی ہے۔ شیعہ دوستوں کے لیے اس نکاح کا انکار تو ناممکن ہے لیکن ابن سبا کی سنت پر چل کر عجب راہ اختیار کی گئی ہے کہ گویا سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی بچے واہ سبحان اﷲ‘‘ (مقالات صدیقی ص ۱۹، مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد)
قاضی نور اﷲ شوستری (م 1019ھ) نے لکھا ہے :
’’ اگر نبی دختر بہ عثمان داد، ولی دختر بہ عمر فرستاد‘‘ (مجالس المومنین بحوالہ ارشاد علیؓ ازمولانا عبدالحمید تونسوی )
اگر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی (عثمان رضی اﷲ عنہ )کو دی تو ولی (سیدنا علیرضی اﷲ عنہ ) نے اپنی بیٹی عمر(رضی اﷲ عنہ) کو دی۔
ام کلثومؒ بنت سیدہ فاطمہؓ کا حضرت عمر فاروقؓ سے نکاح اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بیعت ابوبکرؓ کے دوران سیدنا علیؓ اور سیدنا عمرؓ کے مابین کسی قسم کا دل شکن و ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا وہ ایک دوسرے کے ہمدارد خیر خواہ تھے، سیدنا عمر فاروقؓ اپنے عہد خلافت میں جنگ روم میں خود جانے کے لیے تیار ہوئے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے درج ذیل مخلصانہ مشورہ دیا:
وَمِنْ کَلَامٍ لَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَقَدْ شَاوَرَہٗ عُمَرُ بْنُ اَلْخَطَّابِ فِی الْخُرُوْجِ اِلٰی غَزْوِ الرُّوْمِ بِنَفْسِہٖ۔ وَقَدْتَوَکَّلَ اﷲُ لِاَ ھْلِ ھٰذَالّدِیْنَ بِاِعْزَازِالْحَوْزَۃِ وَسَتْرِالْعَوْرَۃِ وَالَّذِیْ نَصَرَ ھُمْ وَھُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَمْتَنِعُوْنَ ’’حَیٌّلا یَمُوْتُ‘‘۔ اِنَّکَ مَتٰی تَسِرْ اِلیٰ ھَذَا الْعَدوِّ بِنَفْسِکَ فَتَلْقَھُمْ بِشَخْصِکَ فَتُنْکَبْ لَاتَکُنْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ کَانِفَۃٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلاَ دِھَمْ۔ لَیْسَ بَعْدَکَ مَرْجِعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْہِ فَابْعَثْ اِلَیْھِمْ رَجُلاً مُجَرَّبًا وَاحْفِزْ مَعَہٗ اَھْلَ الْبَلَآءِ وَالنَّصحَۃِ فَاِنْ اَظْھَرَ اﷲُ فَذَاکَ مَاتُحِبُّ وَاِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی کُنْتَ رِدْءً الِلنَّاسِ وَمَثَابَۃً لِّلْمُسْلِمِیْنَ۔
جب حضرت عمر ابن خطاب نے غزوہ روم میں شرکت کے لیے حضرت علی سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: اﷲ نے دین والوں کی حدوں کو تقویت پہنچا نے اور ان کی غیر محفوظ جگہوں کو (دشمن کی) نظر سے بچائے رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے وہی خدا (اب بھی) زندہ وغیرفانی ہے کہ جس نے اس وقت ان کی تائید ونصرت کی تھی جبکہ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ دشمن سے انتقام نہیں لے سکتے تھے اور ان کی حفاظت کی جب وہ اتنے کم تھے کہ اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے تم اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاو میں پڑگئے تو اس صورت میں مسلمانوں کے لیے دُور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہوگی کہ اس کی طرف پلٹ کر آسکیں۔ تم ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کار کردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اﷲ نے غلبہ دے دیا تو تم یہی چاہتے ہو اگر دوسری صورت (شکست) ہوگئی تو تم لوگوں کے لیے ایک مدد گار اور مسلمانوں کے لیے پلٹنے کا مقام ہوگے۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو ص۳۶۸،۳۶۹خطبہ ۱۳۲، از مفتی جعفر حسین )
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر کو رِدءً ا لِلناس اور مثابۃ للْمسلمین (لوگوں کے لیے ایک مدد گار اور مسلمانوں کے لیے پلٹنے کا مقام ) کے القاب سے نوازنا والہانہ خوشگوار تعلقات کی عکاسی اور رحماء بینھم کی عمدہ تعبیر ہے۔