تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

غزوہ اُحد میں پہنچنے والے نقصان کی حکمتیں

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ
حق جل و علانے غزوہ احد کے بیان میں واذ غدوت من اھلک تبویٔ المؤمنین مقاعد للقتال (۱) سے ساٹھ آیتیں نازل فرمائیں، جن میں سے بعض آیات میں مسلمانوں کی ہزیمت وشکست کے اسباب اور علل اسرار اور حکم کی طرف اشارہ فرمایا جو مختصر تو ضیح کے ساتھ ہدیہ ناظرین ہیں۔
(1) تاکہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ کے پیغمبر کا حکم نہ ماننے، ہمت ہار دینے اور آپس میں جھگڑنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْ نَھُمْ بِأذْنِہٖ حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْأَ مْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَراکُمْ مَّاتُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُرِیْدُ الْاٰ خِرَۃَ ثُمَّ صَرَ فَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنکُمْ وَاﷲُ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْمُؤْ مِنِیْنَ (۲)
’’اور تحقیق اﷲ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا جبکہ تم اﷲ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے اور آپس میں جھگڑنے لگے اور حکم عدولی کی بعد اس کے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری محبوب چیز یعنی فتح ونصرت تم کو دکھا دی، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض خالص آخرت کے طلب گار تھے پھر اﷲ تعالیٰ نے تم کو ان سے پھیر دیا،یعنی شکست دی تاکہ تمہارا امتحان کرے اور تمہاری اس لغزش کو اﷲ تعالیٰ نے معاف کردیا اور اﷲ تعالیٰ اہل ایمان پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔‘‘
(2) اور تاکہ پکے اور کچے کا اور جھوٹے اور سچے کا امتیاز ہو جائے اور مخلص اور منافق، صادق اور کاذب کا اخلاص اور نفاق، صدق اور کذب ایسا واضح اور روشن ہوجائے کہ کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔
اﷲ تعالیٰ کے علم میں اگر چہ پہلے ہی سے مخلص اور منافق ممتاز تھے لیکن سنت الٰہیہ اس طرح جاری ہے کہ محض علم الٰہی کی بناء پر جزا اور سزا نہیں دی جاتی۔ جو شئے علم الٰہی میں مستور ہے جب تک وہ محسوس اور مشاہدنہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ثواب اور عقاب مرتب نہیں ہوتا۔
در محبت ہر کہ او دعوی کند                      صد ہزاراں امتحان بروے فتد
گر بود صادق کشد بار جفا                           ور بود کاذب گریزد از بلا
عاشقاں را درد دل بسیار می باید کشید            جور یار و غصۂ اغیار می باید کشید
Í(محبت کے ہر دعوے دار کو لاکھوں امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر سچا ہوا تو جفا کا بوجھ اٹھا لے گا، اور اگر جھوٹا ہوا تو آزمائش سے بھاگے گا۔ عاشقوں کو بہت دردِ دل برداشت کرنا ہوتا ہے، محبوب کا ناز اور غیروں کا غصہ برداشت کرنا ہوتاہے)
(3) اور تاکہ اپنے خاص محبین اور مخلصین اور شائقین لقاء خدا وندی کو شہادت فی سبیل اﷲ کی نعمت کبریٰ اور منت عطمیٰ سے سرفراز فرمائیں جس کے وہ پہلے سے مشتاق تھے اور بدر میں فدیہ اسی امید پر لیا تھا کہ آئندہ سال ہم میں سے ستر آدمی خدا کی راہ میں شہادت حاصل کریں گے۔ اس نعمت اور دولت سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں ہی کو نواز تا ہے ظالموں اور فاسقوں کو یہ نعمت نہیں دی جاتی ، قال تعالیٰ۔
وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الّٰذِینَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآءَ وَاللّٰہُ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ
’’اور تاکہ اﷲ تعالیٰ مومنین مخلصین کو ممتاز کردے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اﷲ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے‘‘۔
(4) اور تاکہ مسلمان اس شہادت اور ہزیمت کی بدولت گناہوں سے پاک اور صاف ہو جائیں اور جو خطائیں ان سے صادر ہوتی ہیں وہ اس شہادت کی برکت سے معاف ہوجائیں۔
(5) اور تاکہ اﷲ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو مٹادے۔ اس لیے کہ جب خدا کے دوستوں اور محبین اور مخلصین کی اس طرح خونریزی ہوتی ہے تو غیرت حق جوش میں آجاتی ہے اور خدا کے دوستوں کا خون عجیب رنگ لے کر آتا ہے، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جن دشمنان خدا نے دوستان خدا کی خونریزی کی تھی وہ عجیب طرح سے تباہ اور برباد ہوتے ہیں۔
دیدی کہ خون ناحق پروانہ، شمع را

Cچندان اماں نداد کہ شب را سحر کند
Ó(تم نے دیکھا کہ پروانے کے خونِ ناحق کرنے کی سزامیں شمع کو اپنی رات صبح میں تبدیل کرنے کی مہلت بھی نہ ملی)
وَلِیُمَحِّصَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ(۳)
’’اور تاکہ اﷲ تعالیٰ مومنین کامیل کچیل صاف کردے اور کافروں کو مٹادے‘‘۔
(6) اور تاکہ معلوم ہوجائے کہ اﷲ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں، کبھی دوستوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کرتے ہیں اور کبھی دشمنوں کو غلبہ دیتے ہیں۔
وَتِلْکَ الْأَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (۴)
’’اور ان دنوں کو ہم لوگوں میں باری باری پھیرتے رہتے ہیں‘‘۔
مگر انجام کار غلبہ دوستوں کا رہتا ہے والعاقبۃ للمتقین اس لیے کہ اگر ہمیشہ اہل ایمان کو فتح ہوتی رہے، تو بہت سے لوگ محض نفاق سے اسلام کے حلقہ میں آشامل ہوں، تو مومن اور منافق کا امتیاز نہ رہے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کون ان میں سے خاص اﷲ کا بندہ ہے اور کون ان میں سے عبدالدینار والدرہم ہے۔
اور اگر ہمیشہ اہل ایمان کو شکست ہوتی رہے تو بعثت کا مقصد (یعنی اعلاء کلمۃ اﷲ) حاصل نہ ہو۔ اس لیے حکمت الٰہیہ اس کو مقتضی ہوتی ہے کہ کبھی فتح ونصرت ہو اور کبھی شکست اور ہزیمت ہو تاکہ کھرے اور کھوٹے کا امتحان ہوتا رہے ۔ قال تعالیٰ :
مَاکَانَ اﷲُ لِیَذرَ الْمُوّْمِنِیْنَ عَلیٰ مَآ أَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ (۵)
’’اﷲ تعالیٰ مومنین کو اس حالت پر نہیں چھوڑنا چاہتے۔ یہاں تک کہ جدا کردے نا پاک کو پاک سے اور انجام کا رغلبہ اور فتح حق کو ہو۔‘‘
(7) نیز اگر ہمیشہ دوستوں کو فتح ہوتی رہے اور ہر معرکہ میں ظفر اور کامیابی ان کی ہمر کاب رہے تو اندیشہ یہ ہے کہ کہیں دوستوں کے پاک وصاف نفوس طغیان اور سرکشی اور غرور واعجاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ (۶)
اس لیے مناسب ہوا کہ کبھی راحت اور آرام ہو اور کبھی تکلیف اور ایلام، کبھی سختی اور کبھی نرمی کبھی قبض اور کبھی بسط۔
چونکہ قبضے آیدت اے راہرو           آن صلاح تست آیس دل مشو
چونکہ قبض آمد تو دروے بسط بین          تازہ باش وچین می فگن بر جبین
1(اے راہ رو! جب تنگی سے دو چار ہو تو مایوس نہ ہو کیونکہ اس میں تیرافائدہ ملحوظ ہے، جب تنگی آئے تو اس میں کشادگی سمجھ، ترو تازہ رہ اور ماتھے پر بل نہ ڈال)
(8) اور تاکہ شکست کھا کر شکسۃ خاطر ہوں، اس وقت حق جل وعلاء کی طرف سے عزت اور سربلندی نصیب ہو، اس لیے کہ عزت ونصرت کا خلعت ذلت اور انکساری ہی کے بعد عطا ہوتا ہے کما قال تعالیٰ:
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّأَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ (۷)
’’اور تحقیق اﷲ تعالیٰ نے بدر میں تمہاری مدد کی در آنحالیکہ تم بے سروسامان تھے‘‘۔
وقال تعالیٰ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْأَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَ تُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا (۸)
’’اور جنگ حنین میں جب تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈالا تو وہ کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی‘‘۔
حق جل شانہٗ جب اپنے کسی خاص بندے کو عزت یافتح اور نصرت دینا چاہتے ہیں تو اول اس کو ذلت اور خاکساری اور عجز اور انکسار ی میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ نفس کا تنقیہ ہو جائے اور اعجاب اور خود پسندی کا فاسد مادہ یکلخت خارج ہوجائے، اس طرح ذلت کے بعد عزت اور ہزیمت او رشکست کے بعد فتح ونصرت اور فنا کے بعد بقاء عطا فرماتے ہیں۔
عارف رومیؒ فرماتے ہیں
بس زیادتہا درون نقصہاست      مر شہیدان را حیات اندر فناست
مردہ شو تا مخرج الحی الصمد            زندہ زین مردہ بیرون آورد
آن کسے را کہ چنیں شاہے کشد        سوئے تخت و بہترین جاہے کشد
نیم جان بستاند و صد جان دہد            آنچہ درو ہمت نیاید آن دہد
3(نقصانوں میں بے تحاشا اضافے پوشیدہ ہیں، شہیدوں کی تو زندگی ہی اس فنا میں چھپی ہوئی ہے۔تو مردہ بن جا تا کہ الحی الصمد تجھے اس مردہ سے زندہ نکالے، کہ اس کا کام ہی مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کو برآمد کرنا ہے۔ جو ایسے شاہ کو موت دیتا ہے وہ اس کو تخت اور بہتر رتبے کی طرف کھینچتا ہے، آدھی ادھوری روح کو نکال لیتا ہے اور سو جانوں والی روح عطا فرماتا ہے، بلکہ ایسی ایسی نعمتیں دیتا ہے جو خیال میں بھی نہیں سماتیں)
(9) اور تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ بدون مجاہدہ عظیم اور بغیر ریاضت تامہ کے مراتب اور درجات عالیہ کا دل میں خیال باندھ لینا مناسب نہیں۔ کما قال تعالیٰ :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْ خُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّبِرِیْنَ (۹)
’’ کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے مجاہدین کا اور صابرین کا امتحان نہیں لیا‘‘۔
(10) اور تاکہ تمہارے پاک نفوس دنیا کی طرف میلان سے بالکلیہ پاک اور منزہ ہوجائیں اور آئندہ سے کبھی بھی دنیائے حلال (یعنی مال غنیمت) کے حصول کا خیال بھی دل میں نہ آنے پائے کہ ہمارے رسول کے حکم کے خلاف مال غنیمت کو دیکھ کر پہاڑ سے نیچے کیوں اترے، ہم نے اس وقت تمہاری اس فتح کو شکست سے اس لیے بدلا ہے کہ تمہارے قلوب آئندہ کے لیے دنیائے حلال (یعنی مال غنیمت) کی طرف میلان سے بھی پاک اور منزہ ہوجائیں اور دنیائے دوں کا وجود اور عدم تمہاری نظر میں برابر ہوجائے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
فَاَ ثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَ نُوْا عَلیٰ مَافَاتَکُمْ وَلَا أَصَابَکُمْ وَاﷲُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (۱۰)
’’پس اﷲ تعالیٰ نے تم کو اس مال غنیمت کی طرف مائل ہونے کی پاداش میں غم پر غم دیا تا کہ آئندہ کو تمہاری یہ حالت ہوجائے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے، اس پر غمگین نہ ہو اور نہ کسی مصیبت کے پہنچنے سے تم پریشان ہو اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘۔
یعنی اس وقتی ہزیمت اور شکست میں ہماری ایک حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ تم زہد اور صبر کے اس اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ جاؤ کہ جہاں دنیا کا وجود اور عدم نظروں میں برابر ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حق جل شانہٗ کا دوسری جگہ ارشاد ہے
مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْأَ رْضِ وَلَا فِیْ أَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبِ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرٌ لِّکَیَلاَ تَأَ سَوْا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَ حُوْا بِمَآ اٰتٰاکُمْ وَاﷲُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (۱۱)
’’نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں یا تمہارے نفسوں میں مگر وہ پہلے ہی سے لوح محفوظ میں مقدر ہوتی ہے اور تحقیق یہ امر اﷲ کے نزدیک بالکل آسان ہے اور مصائب کے نازل کرنے میں اﷲ کی حکمت یہ ہے کہ تم صبر میں اس درجہ کامل ہوجاؤ کہ اگر دنیا کی کوئی چیز تم سے فوت ہوجائے تو اس پر غمگین نہ ہوا کرو اور دنیا کی جو چیز اﷲ تم کو عطا کرے تو تم اس دنیا کی چیز کو دیکھ کر خوش نہ ہوا کرو اور اﷲ تعالیٰ کسی اترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
دنیا کے آنے سے دل کا خوش نہ ہونا اور دنیا کے جانے سے دل کارنجیدہ نہ ہونا یہ زہد اور صبر کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ حق جل شانہٗ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا کہ معرکہ احد میں صحابہ کو جو یہ غم دیا گیا کہ فتح کو شکست میں بدل دیا اس میں اﷲ کی ایک حکمت یہ ہے کہ آئندہ سے صحابہ کے دل میں دنیا کے فوت ہونے کا کوئی غم نہ ہوا کرے اور دنیا کا وجود اور عدم ان کی نظروں میں برابر ہوجائے او رہر حال میں قضاء الٰہی پر راضی او ر خوش رہنا، منافقین اور جہلاء کی طرح خدا وند ذوالجلال سے بدگمان نہ ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کیوں نہ فرمائی، محب مخلص کی شان تو یہ ہونی چاہیے۔
زندہ کنی عطائے تو              ور بکشی فدائے تو
جان شدہ مبتلائے تو             ہر چہ کنی رضائے تو
ماپروریم دشمن و یا می کشیم دوست       جرأت کسے کہ جرح کند در قضائے ما
(تو زندہ کر دے تو تیری عطا ہے، اور اگر موت دے دے تو ہم تجھ پر فدا ہوں، جب جان تیری محبت میں مبتلا ہو گئی تو جو بھی تو فیصلہ کرے ہمارے لیے وہ رضا ہے۔ اگر دشمن کو پالیں یا دوست کو فنا کردیں، کسے جرأت کہ ان فیصلوں میں جرح کر سکے)
(11) نیز یہ واقعہ آپ کی وفات کا پیش خیمہ تھا جس سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ اگرچہ اس وقت تم میں سے بعض لوگوں کے بمقتضائے بشریت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی خبرسن کر پاؤں اکھڑ گئے، چونکہ اس کا منشاء معاذ اﷲ بزدلی اور نفاق نہ تھا بلکہ غایتِ ایمان واخلاص اور انتہائی محبت وتعلق تھا کہ اس وحشت اثر خبر کی دل تاب نہ لاسکے اور اس درجہ پریشان ہوگئے کہ میدان سے پاؤں اکھڑ گئے، اس لیے حق تعالیٰ شانہٗ نے تمہارا یہ قصور معاف فرما دیا۔
وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللّٰہُ ذُوْفَضْلٍ عَلیَ الْمُؤَمِنِیْنَ (۱۲)
’’اور اﷲ تعالیٰ تو ایمانداروں پر بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے‘‘۔
لیکن آئندہ کے لیے ہوشیار اور خبر دار ہو جاؤ کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے دین اور آپ کی سنت اور آپ کے جادۂ استقامت سے نہ پھر جانا۔ آپ کی وفات کے بعد کچھ لوگ دین سے پھر جائیں گے جس سے فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ تھا۔
اور مقصود تنبیہ ہے کہ آپ ہی کے طریق پر زندہ رہنا اور آپ ہی کے طریق پر مرنا، محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اگر وفات پاجائیں یا قتل ہو جائیں تو ان کا خدا تو زندہ ہے اور یہ آیتیں نازل فرمائیں:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ أَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰ أَعْقٰبِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلیٰ عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہِ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ (۱۳)
’’اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول ہی تو ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر گئے، پس اگر آپ کا وصال ہوجائے یا آپ شہید ہوجائیں تو کیا تم دین اسلام سے پھر جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل واپس ہوجائے تو وہ ہرگز اﷲ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور عنقریب اﷲ تعالیٰ شکر گزاروں کو انعام دے گا۔
چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یمن کا قبیلہ ہمدان مرتد ہونے لگا تو عبداﷲ بن مالک ارحبی رضی اﷲ عنہ نے قبیلہ ہمدان کو جمع کرکے یہ خطبہ دیا۔
یامعشر ھمدان انکم لم تعبدوا محمدا علیہ السلام انما عبد تم رب محمد (علیہ السلام) وھو الحی الذی لا یموت غیر انکم اطعتم رسولہ بطاعۃ اﷲ واعلموا انہ استنقذکم من النار ولم یکن اﷲ لیجمع اصحابہ علی ضلالۃ۔۔۔
’’اے گروہ ہمدان! تم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ رب محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی عبادت کرتے تھے اور رب محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) حی لایموت ہے۔ ہاں تم اﷲ کے رسول کی اطاعت کرتے تھے تاکہ رسول کی اطاعت اﷲ کی اطاعت کا ذریعہ بن جائے اور خوب جان لوکہ اﷲ تعالیٰ نے تم کو اپنے رسول کے ذریعے آگ سے چھڑایا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ آپ کے اصحاب کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔
اور یہ شعر کہے۔
لعمری لئن مات النبی محمد

لما مات یا ابن القیل رب محمد
’’قسم ہے میری زندگی کی کہ اگر نبی اکرم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پاگئے تو آپ کا پرور دگار زندہ ہے اے سردار کے بیٹے۔
دعا الیہ ربّہ فاجابہ

7فیا خیر غوری و یا خیر منجد
›ان کے پروردگار نے ان کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی، آپ نے اپنے رب کی دعوت کو قبول کرلیا۔ سبحان اﷲ حضور پر نور صلی اﷲ علیہ وسلم غور ونجد (بلند وپستی )کے رہنے والوں میں سے سب سے افضل اور بہتر تھے‘‘۔ (۱۴)
غزوہ احد میں فتح کے بعد ہزیمت پیش آجانے کی حکمت اور مصلحت پر اجمالی کلام
حسبِ وعدہ خداوندی شروع دن میں مسلمان کافروں پر غالب رہے، مگر جب اس مرکز سے ہٹ گئے جس پر اﷲ کے رسول نے کھڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور مال غنیمت جمع کرنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اتر آئے تو جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور فتح شکست سے بدل گئی۔ بارگاہ خداوندی میں محبین مخلصین اور عاشقین صادقین کی ادنیٰ ادنیٰ بات پر گرفت ہوتی ہے۔ حق جل شانہٗ کو یہ ناپسند ہوا کہ اس کے محبین مخلصین صحابہ کرام اﷲ کے رسول کے حکم سے ذرہ برابر عدول کریں۔ اگرچہ وہ عدول کسی غلط فہمی اور بھول چوک سے ہی کیوں نہ ہو، نیز عاشق صادق کے شانِ عشق کے یہ خلاف ہے کہ وہ دنیا کی غنیمت کے جمع کرے، جس غنیمت کو جمع کرنے کے لیے صحابہ پہاڑ سے اترے تھے اگرچہ وہ دنیائے حلال اور طیب تھی فکلوامما غنتم حلالاطیبامگر صحابہ جیسے عاشقین صادقین کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ خداوند ذوالجلال کے بغیر اجازت اور اذن کے اس حلال وطیب کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔
موسیا آداب داناں دیگرند

5سوختہ جانان روانان دیگرند
·خداوند مطلق اور محبوب برحق نے اپنے محبین مخلصین کی تنبیہ کے لیے وقتی طور پر فتح کو شکست سے بدل دیا کہ متنبہ ہوجائیں کہ غیر اﷲ پر نظر جائز نہیں اور علم ازلی میں یہ مقدر فرما دیا کہ وقتی طور پر اگرچہ شکستہ خاطر ہوں گے مگر عنقریب فتح مکہ سے اس کی تلافی کردی جائے گی اور آئندہ چل کر قیصرو کسریٰ کے خزائن ان کے ہاتھوں میں دے دئیے جائیں گے۔ مقصود یہ تھا کہ محبین مخلصین کے قلوب دنیائے حلال کے میلان سے بھی پاک اور خالص بن جائیں، اسی بارہ میں حق شانہٗ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اﷲُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْ نَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَ مْرِوَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآأَرَاکُمْ مَّاتُحِبُّوْنَ مِنْکُم مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰ خِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاﷲُ ذُوْفَضْلِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۵)
’’اور تحقیق اﷲ نے تم سے جو فتح کا وعدہ کیا تھا وہ سچ کر دکھایا، جس وقت کہ تم کفار کو بتائید خداوندی قتل کر رہے تھے، حتیٰ کہ (وہ سات یانو آدمی جن کے ہاتھ میں مشرکین کا جھنڈا تھا) وہ سب تمہارے ہاتھ سے مارے گئے یہاں تک کہ جب تم خودسست پڑگئے او ر باہم حکم میں اختلاف کرنے لگے اور تم نے حکم کی نافرمانی کی، بعد اس کے کہ اﷲ نے تمہاری محبوب اور پسندیدہ چیز (یعنی کافروں پر غلبہ وفتح) کو تم کو تمہاری آنکھوں سے دکھلادیا۔ تم میں سے بعض تو وہ تھے کہ دنیا (غنیمت) کی طرف مائل ہوئے اور بعض تم میں سے وہ تھے جو صرف آخرت کے طلب گار اور جویا تھے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے تم کو ان سے پھیردیا اور حاصل شدہ فتح کو ہزیمت میں بدل دیا تا کہ تم کو آزمائے اور صاف طور پر ظاہر ہوجائے کہ کون پکا ہے اور کون کچا اور البتہ تحقیق اﷲ تعالیٰ نے تمہاری یہ غلطی بالکل معاف کردی۔ (لہٰذا اب کسی کو اس غلطی پر طعن وتشنیع بلکہ لب کشائی بھی جائز نہیں۔ اور خدا تعالیٰ تو معاف کردے اور یہ طعن کرنے والے معاف نہ کریں) اور اﷲ تعالیٰ مومنین مخلصین پر بڑے ہی فضل والے ہیں۔ ‘‘
ان آیات میں حق جل شانہٗ نے یہ بتلادیا کہ یکبارگی معاملہ اور قصہ منعکس ہوگیا کہ لشکر کفار جو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو رہا تھا اب وہ اہلِ اسلام کے قتل میں مشغول ہوگیا، اس کی وجہ ایک تویہ ہوئی کہ تم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے بعد عدول حکمی کی اور تم میں سے بعض لوگ دنیائے فانی کے متاع آنی (مال غنیمت) کے میلان اور طمع میں کوہ استقامت سے پھسل پڑے جس کاخمیازہ سب کو بھگتنا پڑا اور بعض کی لغزش سے تمام لشکر اسلام ہزیمت کا شکار بنا۔
انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
مگر بایں ہمہ خداوند ذوالجلال والا کرام کے عنایات بے غایات اور الطاف بے نہایات مسلمانوں سے منقطع نہ ہوئے کہ باوجود اس محبت آمیز عتاب کے بار بار مسلمانوں کو تسلی دی کہ تم نا امید اور شکستہ خاطر نہ ہونا۔ ہم نے تمہاری لغزش کو بالکل معاف کردیا ہے، چنانچہ ایک مرتبہ عفوکا اعلان اس آیت میں فرمایا ولقد عفا عنکم واﷲ ذوفضل علی المومنین اور پھر اسی رکوع کے آخر میں مسلمانوں کی مزید تسلی کے لیے دوبارہ عفو کا اعلان فرمایا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ اِنَّمَا اسْتَزَ لَّھُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَاکَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اﷲُ عَنْھُمْ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ (۱۶)
’’تحقیق جن بعض لوگوں نے تم میں سے پشت پھیری جس روز کہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں، سو جزایں نیست اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اعمال کی وجہ سے شیطان نے ان کو لغزش میں مبتلا کردیا اور خیر جو ہوا سو ہوا، اب البتہ تحقیق اﷲ تعالیٰ نے ان کی لغزش کو بالکل معاف کردیا۔ تحقیق اﷲ تعالیٰ بڑے بخشنے والے اور حلم والے ہیں۔ ‘‘
حق جل شانہٗ نے صحابہ کرام کے اس فعل کو لغزش قرار دیا استزلَّھم الشیطن کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اور لغزش کے معنی یہ ہیں کہ ارادہ تو کچھ اور تھا مگر غلطی اور بھول چوک سے بلا ارادہ اور اختیار قدم پھسل کر راستہ سے گرگیا۔
اشارہ اس طرف ہے کہ یہ جو کچھ ہوگیا وہ لغزش تھی جان بوجھ کر تم نے نہیں کیا اور خیر جو کچھ بھی ہوگیا اس کو ہم نے اپنی رحمت اور حلم سے معاف کردیا۔ تم کو تو معافی کی اطلاع دے دی کہ تم ملول اور رنجیدہ اور نا امید ہوکر نہ بیٹھ جانا اور تمہاری معافی کا اعلان ساری دنیا کو اس لیے سنا دیا کہ دنیا کو یہ معلوم ہوجائے کہ حق جل شانہ کی عنایت بے غایات کس طرح اصحابِ رسول پر مبذول ہیں اور کس کس طرح ان کو چنددر چند تسلیاں دی جا رہی ہیں تا کہ قیامت تک کسی کو یہ مجال نہ ہوکہ صحابہ کرام کی شان میں لب کشائی کرسکے۔
جب حق تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا اور اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا تو اب بلا سے کوئی ان کو معاف کرے یانہ کرے ان سے راضی ہو یانہ، خدا کے عفو اور رضا کے بعد کسی عفو اور رضا کی ضرورت نہیں۔ رضی اﷲ عنھم ورضواعنہ۔
غزوہ بدر میں فدیہ لینے پر جو عتاب نازل ہوا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ خدواند ذوالجلال کے دشمنوں کے قتل کے بارے میں پال کرنے کے بجائے مال ومنال کو کیوں ترجیح دی۔
اسی طرح غزوہ احد میں دنیوی مال ومتاع (مال غنیمت) ہی کی طرف میلان کی وجہ سے عتاب ہوا۔ مگر بعد میں معاف کردیا گیا۔
غزوہ احد کی ہزیمت کے اسرار وحکم کے بیان کے بعد :
حق تعالیٰ شانہٗ نے حضرات انبیاء سابقین کے صحابہ ربانیین کا عمل بیان فرمایا کہ خدا کی راہ میں ان کو طرح طرح کی تکلیفیں اور قسم قسم کی مصیبتیں پہنچیں، لیکن انہوں نے نہ ہمت ہاری اور نہ دشمنوں کے مقابلہ میں عاجز ہوئے۔ نہایت صبر اور استقلال کے ساتھ اﷲ کے دشمنوں سے جہاد میں ثابت قدم رہے۔
مگر بایں ہمہ اپنی شجاعت اور ہمت، صبر واستقامت پر نظر نہیں کی بلکہ نظر خدواند ذوالجلال ہی پر رکھی اور برابر خدا سے گناہوں کے استغفار اور ثابت قدم رہنے کی دعا مانگتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو دنیا اور آخرت میں اس کا صلہ مرحمت فرمایا۔ قال تعالیٰ :
وَکَأَ یِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قَتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ أَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانَوْا وَاﷲُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ وَمَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلاَّ أَنْ قَالُوْا رَبَّناَ اغْفِرْلَنَا ذُنُوْ بَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ فَاتٰھُمُ اﷲُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الاٰ خِرَۃِ وَاﷲُ یُحِبُ الْمُحْسِنِیْنَ (۱۷)
’’اور بہت سے پیغمبروں کے ساتھ مل کر خدا پر ستوں نے کافروں سے جہاد وقتال کیا لیکن ان مصیبتوں کی وجہ سے جو ان کو خدا کی راہ میں پہنچیں نہ توسست ہوئے اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دشمنوں سے دبے اور اﷲ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور ان کی زبان سے صرف یہ قول نکل رہا تھا کہ اے پروردگار ہمارے گناہوں کو اور ہماری زیادتی کو معاف فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافر قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔ پس اﷲ نے ان کو دنیا کا انعام اور آخرت کا بہترین انعام عطا فرمایا اور اﷲ تعالیٰ نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘

حواشی
(۱)……۳:آل عمران: ۱۲۱ (۲) ……۳: آل عمران ۱۵۲ (۳) ……۳: آل عمران: ۱۴۱
(۴) ……۳:آل عمران: ۱۴۰ (۵) ……۳: آل عمران: ۱۷۹ (۶) …… افضل البشر بعد الا نبیاء بالتحقیق سیدنا ومولانا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وارضاہ سے جب یہ عرض کیا گیا کہ آپ اکابر صحابہ اور حضرات بدریین کوعہدے کیوں نہیں عطا فرماتے تو یہ ارشاد فرمایا اری ان لا تدنسھم الدینا میں یہ چاہتا ہوں کہ دنیا ان حضرات کو مکدر اور میلانہ کردے۔ غالباً یہ روایت حلیۃ الا ولیاء میں ہے یا کسی اور کتاب میں ہے مجھے اس وقت حوالہ یاد نہیں آرہا واﷲ اعلم۔
(۷)……۳: آل عمران: ۱۲۳ (۸) ……۹: التوبہ: ۲۵ (۹) ……۳: آل عمران ۱۴۲
(۱۰) ……۳: آل عمران: ۱۵۳ (۱۱) ……۵۷: الحدید: ۲۲ (۱۲)……۳:آل عمران: ۱۵۲
(۱۳) ……۳:آل عمران: ۱۴۴ (۱۴)…… ابن حجر، الا صابہ (۴۹۳۵) ج ۲: ص ۳۶۵، حسن الصحابہ فی شرح اشعار الصحابہ ج۱: ص ۳۱۲ (۱۵) ……۳: آل عمران: ۱۵۲ (۱۶) ……۳: آل عمران: ۱۵۵
(۱۷) ……آل عمران: ۱۴۶

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.