مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ (بارہویں قسط )
قومیں نہیں ہار ا کرتیں:
جیلوں میں بندہو کر کیا ہم ہار گئے بے شک افراد ہار جاتے ہیں۔ قومیں جلدی نہیں ہارا کرتیں ہاں مٹ جاتی ہیں۔ مناسب لیڈر شپ،ِ دل لگتا پروگرام، قوم کی زندگی کا سامان ہے۔ ہم نظربند ہوگئے ہیں، نہ ہم ہارے نہ مسلمان ہارے۔ کشمیر میں ہماری جنگ کی نوعیت کیا تھی؟ قابو یافتہ امراء طبقے اور اس کے ایجنٹوں سے غریبوں کی گلوخلاصی ہم نے ہندو مسلمان کے امتیاز کو نگاہ میں نہیں رکھا۔ لیکن ہندو کشمیر میں چند وجوہات سے اپنے آپ کو مسلمان سے برتر سمجھتا ہے۔ راجپوتوں کا طبقہ ہے جو خون اور نسل کے اعتبار سے اپنے آپ کو حاکم گروہ تصور کرتاہے دوسرا عام ہندو جو مسلمان سے چھوت کرنے کے باعث اپنے آپ کو فائق قیاس کرتا ہے۔ اس لیے ہم نے تو اپنی طرف سے غریب عوام کے لیے جنگ لڑی ہے۔ لیکن ریاست کا ہندو اپنے آپ کو عوام میں سے نہیں سمجھتا۔ بلکہ حاکم گروہ کا جزو قیاس کرتا ہے۔ اس لیے جب تک ہندو کے ذہن میں ایک بنیادی انقلاب نہ آجائے، تب تک ریاست کشمیر میں عوام کا مسئلہ اور غریب کا سوال ہے۔ اگرچہ جوش و سرگرمی میں ہندو کیا نیشنلسٹ مسلمان نے بھی ہم کو فرقہ پرست کہہ دیا۔ ہم خوش ہیں کہ کشمیر میں حقیقی مسئلہ ہی مسلمان کا ہے صرف وہ ہی مخاطب ہونے کا مستحق ہے۔ وہاں غریب ہندو اس مزاج کاہے کہ وہ مسلمان کو دبائے رکھنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ پس یہ دو ذہن ایک تحریک میں منسلک نہیں ہوسکتے۔ خصوصاً جب احرار آواز بلند کریں گے توہندو گھبرا جائے گا۔ اس لیے نہیں کہ احرارہندوعوام کے دشمن ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم ہر طبقاتی ذہن کے مخالف ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوغریب بھی مسلمان سے اچھوت کا سابرتاؤ کرکے ایک برتری کا ذہن پیدا کر چکا ہے احرار عوام کے اس ذہن کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
تاریخ عالم میں ایک اناریہ قوم ہے جس کوآریہ قوم کے ہاتھوں ہار ہوگئی۔ اناریہ یعنی اچھوتوں پر دو طرح سے حملہ ہوا ایک تو آریاؤں نے قوت بازو سے انھیں مغلوب کیا، پھر مذہب کے ذریعے ان پر اپنی قومیت کو قائم کیا۔ ان کو یقین دلایاگیا کہ تم اپنے کرموں کے پھل کے باعث اچھوت ہو، بجز رذیل پیشوں پر قانع رہنے کے تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ پس دنیا میں سوائے ہندوستان کے اچھوتوں کے کوئی قوم شکست پر راضی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں پر مدت سے اچھوتوں کا ساسلوک جاری ہے۔ مگرمسلمانوں نے باوجود اقتصادی بدحالی کے ابھی ہار نہیں مانی ۔ اگرچہ خود مسلمانوں کے اندر ذات پات کے پجاری پیدا ہوگئے ہیں اور سادات نے برہمنوں کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ پھر بھی نبی اُمی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے صدقے عوام کابیشتر حصہ اخوت و مساوات کا دل دادہ ہے۔ ہندوؤں کی نادانستہ یادانستہ کوششوں کے باوجود اچھوت کی زندگی بسر کر نے پر راضی نہیں ہوا۔
بعض آزاد خیال مسلمان قدرتی طور پر متوقع ہیں کہ غریب ہندو اور غریب مسلمان مل کر احرار کی وساطت سے آزاد ی وطن کے کام میں لگ جائیں۔ مگر وہ احرار کی ابتدائی مشکل کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ہندو عوام مسلمانوں کو اچھوت سمجھتے ہیں۔ کہتری اورمہتری کے موجودہ ذہن کی موجودگی میں اتحاد عمل کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ ہندوستان میں کسی مشتر کہ پلیٹ فارم نہ ہونے کی ساری ذمہ داری ہندوؤں کے اس افسوس ناک ذہن پر ہے جس کو وہ ہزاروں سال سے کمال احتیاط سے پر ورش کررہا ہے پس کشمیر میں ہماری جنگ کی نوعیت زبردستوں سے زیر دستوں کی گلوخلاصی تھی۔ مگر وہاں کاہندو غریبوں کا حامی ہونے کے بجائے حکام کا ساتھی تھا اس لیے وہ ہمار امخاطب نہ تھا۔
جیل میں چلے جانے سے صر ف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم پسپا ہونے پر مجبورہوئے ۔ ابھی ہم برٹش امپیریلزم کی ٹکر کے نہیں مگر ہم نے شکست قبول نہیں کی۔ حالیہ واقعات ثابت کریں گے کہ احرار نہ ہندوستان میں اچھوت رہنے پر قانع ہیں نہ امراء اور امپیریلزم سے شکست قبول کرنے والے ہیں۔ غلامی کا درجہ بھی بُرا ہے مگر اچھوت بن کر بسر کرنا اور بھی بُرا ہے۔ احرارامپیریلزم اور امراء کے اس لیے دشمن ہیں کہ یہ انسانوں کو غلام رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ احرار ہندوؤں کے دشمن نہیں بلکہ ان کے اس ذہن کے دشمن ہیں جس کے باعث وہ انسانوں کو غلاموں سے بھی بدتر درجہ قبول کرنے یعنی اچھوت رہنے پر مجبورکرتے ہیں۔ قومیں اچھوت بن کرہار جاتی ہیں ۔ الحمداﷲ احرار نے اس رمز کو سمجھ لیا ہے ۔ ہندوستان میں اب وہ شکست قبول نہیں کر سکتے۔ ہر وہ غریب خو اہ ہندو ہو یا مسلمان، جس کی آرزوئیں دوسروں کو دست نگر بنانے کی ہوں وہ ہمارا نہیں ۔جو دوسرے انسان کو حقیر دیکھنا پسند کرتا ہے ہم اس کے دشمن ہیں۔ خدا ایسی دشمنی میں ہمیں مضبوط رکھے۔
شکوہ و شکریہ
کانگریس کی تاریخ میں ’’بارولی‘‘ کے ایثار اور احرار کی تاریخ میں سیالکوٹ کی قربانی کا درجہ ایک ہے، حق یہ ہے کہ بعض پہلوؤں سے سیال کوٹ کو فوقیت حاصل ہے، سیال کوٹ کی سرزمین نیکی اور قربانی کا خواہ کتنا شاداب خطہ ہو مگر بارولی کی طرح سارے ہندوستان کی متحدہ قوت اس کی پشت پر نہ تھی ۔سیالکوٹ نے مظلوموں کی جنگ لڑی مگر اپنی سعی وہمت سے اگر بارولی کی عورتوں نے ایثار کی مثال قائم کی تو سیالکوٹ کی عورتیں کم مصیبتوں سے نہیں گزریں۔ قربانی کے وقت جن کا رنگ سرخ شادمانی سے دمکتا رہا وہ سیالکوٹ کے مسلمان تھے۔ اس ضلع کی سرداری تھی، مگر دوسرے شہروں نے بھی ایثار اور ہمت کا اچھا نمونہ پیش کیا۔ اضلاعِ امرتسر، لاہور ، گجرات، گوجرانوالہ ،جہلم، جالندھر، لائل پور، ملتا ن ،لدھیانہ، راولپنڈی ، ہوشیار پور ، چنیوٹ ، انبالہ ، وزیر آباد، یوپی، سندھ، بنگال، بمبئی ،اجمیر کے صوبہ جات سے رضاکار آئے۔ سب شکریہ کے مستحق ہیں قوم کی قدر قربانی کے جذبہ پر منحصر ہے، بڑھ کر مرنے والی قومیں زندہ رہتی ہیں۔ جان بچانے والے لوگ مارے جاتے ہیں۔ احرار کی کشمیر میں یلغار نے مسلمانوں میں زندگی کے نشانات کو نمایاں کردیا۔ اور ان کا سرفخر سے اونچا ہوگیا۔
پنجاب میں اس وقت تین روزنامے تھے ’’زمیندار‘‘ ’’انقلاب‘‘ اور ’’سیاست‘‘۔ ’’سیاست ‘‘کی روش کھلے مخالف کی تھی جس کا افسوس نہ تھا۔ ’’زمیندار‘‘ احرار کا اخبار سمجھا جاتا تھا مگر اس کے باعث بے حد پریشانی اٹھانا پڑی۔ اس نے دوستی کے پردے میں دشمنی کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ خدا جزائے نیک دے ’’انقلاب‘‘ کو کہ اس نے دیانت داری کے سارے تقاضوں کو پورا کیا اور ساری تحریک میں اپنے انداز اور پالیسی کے پیش نظر ایک ہی روش کو قائم رکھا۔
مسلمان کانگرسی کارکنوں میں سے وہ طبقۂ اولیٰ جو کبھی ہماری سرداری کا دعویدار تھا، اس تحریک کشمیر میں ہماری ا علانیہ مخالفت کرتا تھا۔ یہی طبقہ پھر شہید گنج کی شورش کا باعث ہوا۔ خدادوستوں کو اجر ِعظیم دے اور آئندہ کام کی ہمت بخشے تاکہ وہ مجلس احرار کے نظام کو ہر قریہ میں پھیلائیں۔ خدا دشمنوں کو ہدایت دے کہ وہ اس غریب جماعت کو پریشان کرنے سے باز رہیں۔
کمیونل ایوارڈ ۱۹۳۲ء
جیل کی دلچسپیوں اور اداسیوں کے ذکر کو افراد کے قلب کی واردات سمجھ کر ناموزوں خیال کرتاہوں ہاں بڑے ہی قابلِ ذکر تاریخی حوادث اس زمانہ میں رونما ہوئے جن سے آئندہ سیاسیات پر گہرا اثر پڑا، بیان کرتاہوں۔
ایک دن ملتان جیل میں صبح سویرے جو اٹھے دیکھا کہ ہر ہندو سکھ سیاسی قیدی کا چہرہ اداس ہے۔ جو جیل کا ہندو افسر آیا وہ بھی پژمردہ ۔الٰہی کیا بیت گئی کہ نصیب دشمناں ان دوستوں کا رنگ رخ یوں اڑااڑا سانظر آتا ہے۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ بھئی خیریت تو ہے کہا کہ پنجاب ، بنگال ، سندھ اور سرحد میں اسلام راج کا اعلان ہوگیا ۔ اصرار اور تکرار سے پوچھا تو پتہ چلا کہ آج رامزے میکڈانلڈ وزیر اعظم انگلستان نے بندر بانٹ کر دی ہے۔ سب کچھ اپنے پاس رکھ کر کمیونل ایوارڈ کے ذریعہ کچھ صوبوں کو عنایت فرمایا ہے، جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت کو قائم کیا ۔البتہ بنگال میں توازن انگریزوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ مدت سے ہندوکوشاں تھے کہ اکثریت کے صوبوں میں بھی مسلمان اقلیت میں رکھے جائیں۔
کئی سال سے ہندومسلمانوں میں یہی نزاع تھی۔ ہندونہ سندھ اور سرحد میں آئینی حکومت چاہتے تھے اورنہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت پسند کرتے تھے۔ باہم مل کر یہ گتھی نہ سلجھ سکی تو راؤنڈ ٹیبل کانفرنس منعقد ہ لندن میں رامزے میکڈانلڈ کو ثالث ٹھہراگیا۔ اس ثالثی پر ہندومسلمان سکھ سب متفق تھے سب کو یقین تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ سکھوں نے اپنے بڑھے ہوئے مطالبات کے باعث رامزے میکڈانلڈ سے ’’دلچسپ قوم ‘‘کا لقب پایا ۔ ہندوسکھ تو بڑی امید لے کر لوٹے تھے کہ پانسہ مارلیں گے مگر ترازو کا جھکاؤ ذرامسلمانوں کی طرف ہوگیا۔ وہم نے زور کیاتخیل کی پرواز نے اسلامی راج کی صورت پیش کی، ڈرے کہ اب دھوتی چوٹی کی خیر نہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اچھے برے دونوں قسم کے حملہ آوروں کی داستان ہے مگر انگریزی مصلحت نے مسلمانوں کی تاریخی برائیوں کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کر کے ہندو کو مسلمان سے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ اب جوا نہیں مسلم راج نظر آیا تو خواب پریشان ہونے لگے ۔سکھوں کی دلچسپ قوم نے دلچسپ طرزِ عمل اختیار کیا یعنی گروگرنتھ کے سامنے حلف لیا کہ ہم کمیونل ایوارڈکو ہر گز قبول نہ کریں گے۔ اس پر بس نہ کی ہر جلسہ میں خون کی ندیاں بہادینے کی دھمکیاں دینے لگے۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کی پراگندگی اور سیاسی حماقت سے فائدہ اٹھا کر سکھ جو چند دن پنجاب میں وحشت اور دہشت پھیلانے کاسکھ راج نام دے چکے ہیں، انھیں اب بھی برابر یہی گھمنڈ ہے کہ مسلمانوں کو دبا لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ ادھرمسلمان عوام پر خود غرض اورجاہل امراء سوار ہیں وہ قوم کو ہوش ہی نہیں آنے دیتے۔ ان کو منظم کر کے خطرے کا مقابلہ کرنا تو درکنار انھیں تو یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ نچلے طبقے کے مسلمان کہیں برابری کا دعویٰ نہ کربیٹھیں۔ مسلمانوں کے کسی گاؤں میں جا کر دیکھو اونچے طبقے کا مسلمان نچلے طبقے پر کس طرح ظلم توڑ رہا ہے ۔ ادھر مسلمان امراء اُدھر سکھ اورہندو ساہوکاروں نے مل کر پنجاب میں عام مسلمانوں کو بے حال کررکھا ہے۔ جب سکھ مسلمانوں کو دھمکاتے ہیں تو تمام ہندوپریس اور ہندو سیاسیین شہ دیتے ہیں۔ اس طرح پنجاب میں بھاری پیمانے پر سول وار کو قریب لارہے ہیں۔مسلمان ہر چند اپنے ہی امراء کے مارے ہوئے ہیں، تاہم سکھوں کی آئے دن کی دھمکیوں سے جزبز ہوتے ہیں۔ شاید وہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکیں۔ ان دھمکیوں کا بڑا مرکز امرتسرتھا۔ امرتسرہی میں ان کے مقابلے میں مجلس احرار نے سکھوں کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لیے عید گاہ میں کامیاب اجتماع کیا، کہتے ہیں کہ امرتسر میں اس سے بڑااجتماع کبھی نہ ہوا تھا۔
خدا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی قوتِ بیانیہ میں اور برکت دے جیل سے رہا ہوتے ہی سکھوں کی خون بہانے کی دھمکیوں کے جواب میں کیا عمدہ بات کہی۔ کہ عبرت آج حیران ہو کر ہر نوجوان مسلمان کے منہ کو دیکھتی ہے کہ تم ہی ہو اس قوم کے بے خبر فرزند؟ جس کو انگلیوں پر گنے جانے والے لوگ خون کی ندیاں بہانے سے ڈراتے ہیں؟قوم مسلم کے بے خبر نوجوانو! ہوش سنبھالو سکھوں سے کہو کہ ہمیں اپنی پایاب ندیوں سے نہ ڈراؤ۔ ہم تو خون کے قلزم میں گھوڑے دوڑانے کے عادی ہیں۔
شاہ صاحب نے تمام پنجاب میں دورہ کر کے مسلمانوں کو حالات سے خبردار کیا، بارے سکھوں کا بخار اتر گیا ۔ دھمکیاں دینے کا ہذیان کم ہوا اب گروگرنتھ صاحب کے سامنے حلف کے ایفاء کا وقت آیا تو سکھوں میں ایک ایک سیٹ پر جان توڑ لڑائی ہوئی۔ کسی ووٹرنے بھی اسمبلی کے بائیکاٹ کے عہد کو نبھانے کی کوشش نہ کی۔ مسلم عوام ہر چند غیر منظم ہیں لیکن وہ دوسری قوموں سے زیادہ مذہب کی پاسداری کرتے ہیں۔ اگر انھیں نظام میں شامل ہو کر زندہ رہنے کا شعور آجائے تو دنیا کی کوئی قوم ان کا کیا مقابلہ کرے گی؟
ایک وقت تھا جب جوش جوانی میری عقل سلیم سے دو چار قدم آگے چلتا تھا۔ اور میں دماغ کے بجائے دل سے سوچا کرتا تھا۔ میں کانگرسی مسلمان کی طرح صرف مسلمان ہی کو ہندوستان کی غلامی کا باعث قرار دیتا تھا ۔ لیکن ہندوؤں کے نفرت زا سلوک یعنی چھوت کا مجھ پر گہرا اثر تھا۔ اس لیے حب الوطنی کا جوش کبھی ذرا تھمتا تو کبھی کبھی خیال بھی آتا کہ مسلمان بھی آخر انسان ہے۔ ہندو کے موجودہ سلوک کی موجودگی میں مسلمان سے اتحا دکی خواہش امرمحال ہے۔ چند مسلمان تو تعاون کے لیے مل سکتے ہیں مگر قوموں کے درمیان چھوت نے ایساپاٹ ڈال رکھا ہے جس کا پر کرنا آسان نہیں۔
کشمیر کے لیڈروں سے تعلقات
فطرت کی شرافت انسان کی خواہشِ آزادی سے جانچی جاتی ہے ۔کشمیر کے محترم لیڈر ایک عارضی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر کامل آزادی کی آرزو سے محروم رہے۔ مگر وہ بھی جب جیل سے باہر آئے تو فطرت سعید کے تقاضوں سے مجبور ہو کر اسی عنوان سے جدوجہد شروع کرنے لگے جس کے لیے ہم ان پر پہلے زور دیتے تھے ۔جیلوں میں جا کر ان کی روحوں نے آزادی کا نیا پیام پایا اورآتے ہی ریاست میں ذمہ دا رحکومت کا مطالبہ کیا ۔اس طرح احرار اور کشمیر کی غریب آبادی کے یہ جانباز سردار اپنی آرزوؤں میں ہم آہنگ ہوگئے۔ ہمیں ابتدا میں یہ اندیشہ ہوگیا تھا کہ کشمیر کے لیڈر ہماری مزید امداد کو شبہ کی نظر سے دیکھیں گے۔ انھوں نے ہماری امداد کو اپنے اثر ورسوخ کی کمی کا باعث سمجھا۔ سب سے اہم یہ کہ کشمیر کے محترم لیڈروں کا اس وقت جب احرار کشمیر کی سیاسی تحریک کی رہنمائی کررہے تھے۔ احرار کے ساتھ سیاسی نصب العین میں ہم آہنگ نہ ہونا عوام نے بری طرح محسوس کیا۔ جس کا گہرا اثر جماعت کے افراد پر پڑا۔بظاہر آئندہ کے اتحاد عمل میں دشواریاں پیدا ہوگئیں۔ احرار کو اس سے زیادہ کوئی اور خوشی نہیں کہ کشمیر کی مظلوم آبادی کو آزادی ملے۔ خواہ کسی کے ہاتھ سے ملے۔ لیکن یہ احساس ضرور ہے کہ کشمیر کے قابل عزت کارکنوں اور ہندوستان کے احرار میں پوری پوری یک جہتی نہیں ہوئی۔ ایسا ممکن نہ ہو سکا کہ جو آواز کشمیر سے اٹھے اس کی صدائے بازگشت ہندوستان میں سنی جائے یا جو صدا ہندو ستان کے احرار اٹھائیں اس کی گونج کشمیر کی وادی میں بلند ہو۔ تاہم دونوں طرف سے یہ کوشش جاری ہے کہ شریفانہ تعلقات میں کمی نہ آئے۔
دنیائے اسلام کی سب سے بڑی بدبختی مسلمانوں کا قبائل اور خطوں میں تقسیم ہونا ہے۔ جس کا نتیجہ ہر خطے اور قبیلے کی کمزوری اور بے بسی ہے۔ یورپ نے پانچ صدیوں کی متواتر کوششوں کے بعد اسلام میں لامرکزیت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کا سہرا زیادہ تر انگلستان کے سر ہے جس کی رہنمائی میں اسلامی ممالک خوانِ یغما کی طرح فرانس، اٹلی اور انگلستان میں بٹ گئے ۔شیرِ برطانیہ نے اس بانٹ میں سب سے بڑا حصہ پایا۔ آج اسلامی ممالک کے اجزاء ایک دوسرے سے علیحدہ اور آزاد ہیں۔ دوکروڑ کی آبادی کے ممالک سے لے کر ۱۵،۱۵؍ہزار کے قبائل پر شاہ اور شیخ مسلط ہیں۔ اور یہ اسلامی شاہ او رشیخ ،شطرنج کے شاہ کی طرح انگریز اور یورپی پیادوں کے آگے بھاگتے ہیں۔ اور زچ ہو ہو کر مات کھاتے ہیں مگر ہر روز جوتے کھانے کے باوجود ہوش نہیں آتا کہ آؤ مل کر ایک اسلامی فیڈریشن بنالیں۔ مگر انھیں یہ خیال کیوں آئے اگر وہ یورپ سے جوتے کھاتے ہیں تو اپنے ہم مذہب غریب بھائیوں کو لوٹ لوٹ کر کھاتے ہیں اور انھیں اپنے جوتے تلے دباتے ہیں۔ بڑے بڑے شیوخ اور چھوٹے چھوٹے سلاطین کو یہ زندگی پسند آچکی ہے۔ اسلام کے حقیقی انقلابی پیغام کی ان کی نگاہ میں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ امتیازی زندگی انھیں حاصل ہے وہ اس پر قانع ہیں غریب مسلمان بھاڑ میں جائیں ان کی تو مزے میں گزرتی ہے۔
ہندوستان کے احرار باوجود ہندو کی تنگ دلی کے آزادیٔ وطن کے ان تھک سپاہی اور بلارعایتِ مذہب سب کے خادم ہیں۔ لیکن بحیثیتِ مسلمان کے ان کی یہ خواہش ہے کہ ہندوستان کے ہر حصے کے غریب مسلمان ایک لڑی میں پروئے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ موجودہ حال کی طرح وہ ہمیشہ اسی طرح بے حیثیت گروہوں میں منقسم رہیں۔ نہ اپنے لیے مفید نہ ملک اور انسانیت کے لیے فائدہ رساں۔ تحریک کشمیر میں ہمار ا حصہ اس خواہش کا ظہار بھی تھا کہ غریب عوام کی خدمت کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہو جائے کہ مظلوم اور غریب مسلمان بے یارومدد گار نہیں۔ ملکی اور صوبائی علیحدگی اور حدبندی کو ہم قبول نہیں کرتے۔ اس زمانہ میں صوبہ جات کی آزادی نے مسلمانوں میں صوبجاتی تعصب زیادہ کردیا ہے۔ اور ہر صوبہ چند خودغرض نام نہاد لیڈروں کی آرزوؤں کے مطابق کام کررہا ہے۔ یہ لیڈر چوں کہ طبقۂ اولیٰ سے متعلق ہیں،غریبوں کی خواہشات سے الگ ان کے اغراض ہیں۔ اس لیے ہر صوبے کے مسلمان الگ الگ زاویۂ نگاہ کے مطابق تربیت پارے ہیں۔ ہندوستان میں غریب مسلمانوں کی یہ گروہ بندیاں صرف چند امراء کی خدمت کے کام آئیں گی۔ جس طرح افریقہ اور ایشیا کے قبائل اور ملک شاہ و شیوخ میں تقسیم ہو کر برباد ہو رہے ہیں، اسی طرح ہندوستان کے صوبے الگ الگ ہو کر پامال ہوں گے۔
الحمد اﷲ احرار ان تحریکات سے بیزار ہیں۔ صوبائی تعصبات کو پیدا کرنا اسلام کے اعضاء کو کاٹ کر الگ کرنا ہے۔ مصر، ترکی ،عرب، ایران، مراکش او ر افغانستان نے الگ الگ رہ کر کیا فائدہ اٹھایا جو ہم ہندوستان میں اٹھائیں گے۔ کیایہ ممالک کسی بڑی یورپی سلطنت سے الگ الگ رہ کر دودن بھی ٹکر لے سکتے ہیں؟ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد چن کر امراء نے مسلمانوں کی عام قوتوں کو برباد کر رکھا ہے۔ ہم مسلمانوں کی موجودہ پریشان حالی کا باعث شیوخ ،سلاطین اور امراء کو سمجھتے ہیں۔ غریب مسلمان اب بھی دنیا کی عظیم قوت بن سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے سر سے امراء ،شیوخ او رسلاطین کا منحوس سایہ اٹھ جائے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ کشمیر کی لیڈر شپ احرار کی طرح غریبوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح وہ ٹھوکر کھا کر ذمہ دار حکومت کو کشمیر کا سیاسی نصیب العین قرار دینے پر مجبور ہو گئے تھے، اسی طرح ایک دن احرار کے ساتھ گہرے قلبی تعلقات قائم کرنے کو ضروری سمجھیں گے۔ کیونکہ ان کے اور احرار کے ذہن میں تفاوت نہیں، عوام کی حکومت قائم کرنا دونوں کا نصب العین ہے۔ انھیں جاگیرداروں بڑے بڑے سرداروں کا خوب تجربہ ہے۔ احرار کے افراد کو گزشتہ باتیں بھول کر بطور غریب لیڈروں کے ان کی قدر کرنی چاہیے۔ جہاں تک ہو سکے ان کی عزت افزائی کرنی چاہیے۔ یاد رکھو جو غریب لیڈر آپس میں رواداری او رمحبت نہ رکھیں گے، ہمیشہ امیروں کے ایجنٹ بن کر رہیں گے اور سرمایہ داروں کو گردن پر سوار رہنے کا موقع دیں گے۔ (جاری ہے )
ضروری اعلان
ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان نے قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام کارکنان احرار، مجاہدین ختم نبوت سمیت جملہ معتقدین و متوسلین سے گزارش ہے کہ جلد از جلد اپنے مضامین، حضرت پیرجی سے خط کتابت ہو تو وہ اور منظوم خراج عقیدت، دفتر ماہنامہ نقیب ختم نبوت، دار بنی ہاشم ملتان کے پتہ پر ارسال کریں۔