مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو بہت سی نعمتیں اس کائنات میں دی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی نعمت وقت ہے، انسان سمجھتا ہے کہ اس کی عمر بڑھ رہی ہے، اس کے اوقات بڑھ رہے ہیں: لیکن درحقیقت عمر گھٹتی جاتی ہے اور ہرلمحہ وقت کی متاع گراں مایہ اس کے ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے:
ہو رہی ہے عمر مثل برف کم
چپکے چپکے، لمحہ لمحہ، دم بہ دم
وقت کی قدر وقیمت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پروقت کی قسم کھائی ہے، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی، (اللیل: ۱۔۲، مدثر: ۳۳۔تکویر: ۱۷۔۱۸) کبھی رات کے ساتھ شفق کی قسم کھائی گئی، (انشقاق: ۱۶۔۱۷) کبھی فجر اور اس کے ساتھ دس راتوں کی (الفجر: ۱۔۲) کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھا جانے کی (الضحیٰ: ۱۔۲) اور کبھی خود زمانہ کی، (العصر: ۱) دنوں کی آمد درفت اور سورج وچاند کے طلوع وغروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے، قرآن مجید نے جابجا اﷲ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے، اﷲ تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کرسکیں۔ اَوَلم نُعَمِّرْکُم مَّایَتَذَکَّرْ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ (الفاطر: ۳۷) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی سے کے اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا؟ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں، صحت اور فراغت وقت۔
سلف صالحین جنھوں نے اعلیٰ درجہ اور بلند قیمت علمی کام کئے ہیں، اپنے وقت کے ایک ایک لمحہ کو وصول کرتے تھے اور ایک منٹ کاضائع ہونا بھی ان کو گوارا نہیں تھا، وہ آخر دم تک اپنے وقت کو مشغول رکھتے تھے، امام ابو یوسفؒ (۱۱۳۔۱۸۲ھ) اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ ہیں، ان کے بارے میں اہل تذ کرہ نے قاضی بن جراح سے نقل کیا ہے کہ وہ مرض وفات میں امام صاحب کی عیادت کے لیے پہنچے، آپ پر بے ہوشی طاری تھی، ابراہیم بیٹھے رہے، کچھ دیر میں ہوش آیا، امام صاحب نے پوچھا کہ حج میں جمعرات کی رمی پیدل کرنا افضل ہے یا سواری پر؟ ابراہیم نے استاذ سے عرض کیا: اس حال میں بھی آپ فکر وتحقیق کو نہیں چھوڑتے، امام ابو یوسفؒ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نے کہا: سوار ہوکر رمی کرنا افضل ہے، امام ابو یوسفؒ نے کہا: یہ غلط ہے، ابراہیم نے کہا پھر پیدل رمی کرناافضل ہوگا، فرمایا: یہ بھی غلط ہے، ابراہیم نے عرض کیا: جو رائے صحیح ہو، اسے آپ ہی ارشاد فرمائیں، فرمایا: جس رمی کے بعد کوئی اور رمی ہو، اس کو پیدل کرنا افضل ہے، اور جس کے بعد کوئی اور رمی نہ ہو، اسے سوار ہوکر، ابراہیم وہاں سے اُٹھے اور امام صاحب کے گھر کے دروازہ ہی پر پہنچے تھے کہ اہل خانہ کے رونے کی آواز آئی، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ امام ابو یوسفؒ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہی امام ابو یوسفؒ ہیں، جن کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سترہ ۱۷؍ سال تک اپنے استاذ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں اس طرح شرکت کی کہ بھی فجر کی نماز فوت نہیں ہوئی، یہاں تک کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن بھی: بلکہ صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو تجہیز وتکفین کا انتظام اپنے اعزہ اورپڑوسیوں کے حوالہ کرکے حاضر ہوئے اوردرس سے محرومی کو گوارا نہیں کیا۔ (مناقب مکی: ۱؍ ۴۷۲)
ایک بڑے محدث عبید بن یعیش گذرے ہیں جو امام بخاری اورامام مسلم کے اساتذہ میں ہیں، ان کے بارے میں حافظ ذہبی نے نقل کیا ہے کہ تیس سال تک رات میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا: بلکہ خود حدیث لکھنے میں مصروف رہتے اور بہن منھ میں لقمہ دیتی جاتی (سیر اعلام النبلا ء: ۱۱؍۴۵۸) احمد بن یحییٰ شہبانی (۲۰۰۔۲۹۱ھ) عربی لغت، ادب، گرامر اور قراء ت وغیرہ کے بڑے نامی گرامی آدمی تھے اور ثعلب کے نام سے مشہور تھے، ان کا حال یہ تھا کہ اگر دعوت دی جاتی تو داعی سے فرماتے کہ کھانے کے وقت ان کے لیے چمڑے کے تکیہ کی مقدار جگہ خالی رکھی جائے، جس میں وہ کتاب رکھ کر مطالعہ کریں (البحث علیٰ طلب العلم الخ للعسکری: ۷۷) امام ثعلب کا معمول تھا کہ راستہ چلتے بھی ہاتھ میں کتاب رہتی اور مطالعہ کرتے جاتے: چنانچہ اسی طرح چل رہے تھے کہ گھوڑے نے ٹکردی، گڑھے میں گر پڑے اور ایسی چوٹ آئی کہ دوسرے ہی دن وفات ہوگئی۔ (وفیات الاعیان لابن خلکان: ۱؍۱۰۴)
اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل علم نے اتنا عظیم تصنیفی اورتالیفی کام انجام دیا ہے کہ سن کراور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور آج ان کتابوں کو ایک شخص کا پڑھ لینا بھی دشوار ہے، ابن جریر طبریؒ نے اپنی عظیم الشان تفسیر ۳؍ہزار اوراق میں ۲۸۳ھ تا ۲۹۰ھ یعنی صرف سات سال کے عرصہ میں مکمل کی، پھر ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی، جس سے ۳۰۳ھ میں فارغ ہوئے ، یہ دونوں کتابیں تین تین ہزار گویا ۶؍ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، طبری کی یہ تفسیر ۱۱؍ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری کی تصنیفات کا حساب لگایا جائے تو یومیہ ۱۴؍ ورق یعنی ۲۸؍ صفحات کا اوسط ہوتا ہے۔
حافظ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جو روشنائی خریدی، اس کاحساب کیا گیا تو وہ سات سو درہم کی تھی، ابو ریحان بیرونی کی وفات کے وقت اس زمانہ کے مشہور فقیہ ابوالحسن ولوالجی گئے، بیرونی نزع کی حالت میں تھے اور سینے میں گھٹن محسوس کر رہے تھے، اس وقت علامہ ولوالجی سے ’’جدات فا سدہ‘‘ (نانی) کے حق میراث کا مسئلہ پوچھا، ولوالجی کو رحم آیا اور کہنے لگے: اس وقت بھی آپ کو یہ فکر پڑی ہے؟ بیرونی نے کہا: دنیا سے اس مسئلے سے واقف ہو کر جانا بہتر ہے یا ناواقف ہوکر؟ ولوالجی نے مسئلہ کی وضاحت کردی اور واپس ہوئے، کچھ ہی دور آئے تھے کہ رونے دھونے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ علامہ بیرونی کا انتقال ہوگیا ہے۔ وقت کی حفاظت کرنے والے بزرگوں میں علامہ ابن عقیلؒ بھی ہیں، جو بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی سب سے اہم کتاب ’’الفنون‘‘ ہے، جس کے بارے میں بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس کی ۸؍سو جلدیں تھیں، اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جاری مقدسی مستشرق نے دو جلدوں میں ۱۹۷۰ء میں شائع کیا ہے، امام ابن جوزیؒ تاریخ اسلام کے بڑے مصنفین میں ہیں، وہ ان لوگوں کو بہت نا پسند کرتے تھے، جو چاہتے کہ ان کے پاس ملاقاتیوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ لگی رہے، خود بھی بے مقصد آنے والے سے بہت نالاں رہتے اور مجبوراً جن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوتی، ان سے ملاقات کے اوقات کو اس طرح استعمال فرماتے کہ اس وقت حسبِ ضرورت کاغذ کاٹتے جاتے، قلم تراش لیتے اور لکھے ہوئے اوراق باندھ لیتے، اس کا نتیجہ تھا کہ بقول حافظ ابن رجبؒشاید ہی کوئی فن ہو، جس میں ابن جوزیؒ کی کوئی کتاب نہ ہو، ابن جوزیؒ کی تصنیفات پانچ سو سے اوپر ہیں اور ان میں سے بعض بیس جلدوں اور بعض ۱۰؍ جلدوں پر مشتمل ہیں، ابن جوزیؒ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے جن قلموں سے حدیثیں تحریر کی تھیں، ان کے ڈھیر سارے تراشے جمع ہوگئے تھے، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعدمیرے غسل کا پانی اسی سے گرم کیا جائے: چنانچہ پانی گرم کرنے کے بعد بھی قلم کے تراشے بچ رہے۔
مشہور مفسر اور صاحب نظر امام رازیؒ کھانے کے وقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے کہ اس وقت علمی مشغلہ فوت ہوجاتا ہے، مشہور محدث علامہ منذریؒ کے صاحبزادے رشید الدین (م: ۶۴۳) کا انتقال ہوگیا، جو ان کو بہت محبوب تھے، تو اپنے جواں مرگ بیٹے کی نماز جنازہ خود پڑھائی، مدرسہ کے دروزاہ تک جنازہ کے ساتھ خود چلے اوروہاں سے اﷲ کے حوالہ کرکے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے، امام نودیؒ جیسے محدث اور صاحب علم سے کون ناواقف ہوگا، راستہ چلتے ہوئے بھی علمی مذاکرہ میں اپنا وقت گذارتے، اس کا نتیجہ ہے کہ صرف ۴۵؍ سال کی عمر پائی: لیکن ہزار ہا صفحات ان کے قلم سے آج بھی محفوظ ہیں، جواہل علم کے لیے حرزجاں ہیں۔
ابن النفیس میڈیکل سائنس کی یاد گار شخصیتوں میں ہیں، جسم میں دوران خون کا نظام سب سے پہلے آپ ہی نے دریافت کیا، طب میں آپ کی کتاب ’’الشامل‘‘ تقریبا ۳۰؍ جلدوں میں ہے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کا حال یہ تھا کہ سفر وحضر اور صحت وبیماری کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے، ان کے شاگرد ابن قیمؒ نے ان کی تصنیفات کی تعداد پرجو رسالہ لکھا ہے، وہ خود ۲۲؍ صفحات کا ہے، اخیر دور کے اہل علم میں علامہ شوکانیؒ کا حال یہ تھا کہ روزانہ دس اسباق پڑھاتے، فتاویٰ بھی لکھتے، فریضۂ قضاء بھی انجام دیتے اوراس کے ساتھ ساتھ ایک سو چودہ اہم تصنیفات آپ کی یاد گار ہیں، علامہ شہاب الدین آلوسیؒ (۱۲۱۷۔ ۱۲۷۰ھ) کا حال یہ تھا کہ روزانہ چوبیس اسباق پرھانے، افتاء کا کام بھی کرتے اور اس کے ساتھ انھوں نے روح المعانی کے نام سے ایسی عظیم الشان اور مبسوط تفسیر لکھی ہے، جس کی پورے عالم اسلام نے داودی ہے۔ ہندوستان کے علماء میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے صرف ۳۹؍ سال کی عمر پائی: لیکن ان کی تصانیف ۱۱۰؍ سے بھی زیادہ ہیں اور ہر کتاب گویا اپنے موضوع پر حرف آخر ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ہزار کے قریب ہے، مولانا عبدالحی حسنیؒ نے الثقافۃ الا سلامیہ فی الہند، مولانا حبیب الرحمان شیروانی نے علماء سلف اور مشہور محقق شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ نے اپنی نہایت اہم اورفاضلانہ تصنیف ’’قیمۃ الرمن عند العلماء‘‘ میں سلف صالحین کے ایسے کتنے ہی واقعات لکھے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب کی قدر جاننے اور اس کی قیمت پہچاننے کا نتیجہ ہے، جو لوگ وقت کو سستی اور بے قیمت شئے سمجھتے ہیں اور اس کی قدر دانی نہیں کرتے، وہ زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے، اسلام نے وقت کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے تمام عبادات کو وقت سے جوڑ رکھا ہے، نمازوں کے اوقات مقرر ہیں، روزہ متعین وقت سے شروع ہوتا ہے اور متعین وقت پر ختم ہوتا ہے، حج کے افعال بھی متعین ایام و اوقات میں انجام دیئے جاتے ہیں، قربانی بھی متعین دنوں میں ہوتی ہے، زکوٰۃ میں بھی مال پرایک سال گذر نے کا وقت مقرر کیاگیا ہے اور شریعت میں کتنے ہی احکام ہیں، جووقت سے مربوط ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ اُمت اپنے وقت کو جس قدر ضائع کرتی ہے اور اس کو جتنا بے قیمت سمجھتی ہے، شاید ہی اس کی کوئی مثال مل سکے، مسلمان نو جوانوں کی یار باشی، ہوٹل بازی اور بے مقصد سیر وتفریح ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ بلکہ ضرب المثل بنتی جا رہی ہے۔ شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اوقات ضائع کئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ دینی جلسوں اور اجتماعات میں بھی اوقات کی پابندی کے معاملہ میں جو بے احتیاطی روا رکھی جاتی ہے، وہ کس قدر افسوس ناک ہے!
آئیے! ہم عزم مصمم کریں کہ وقت کی پوری قدر دانی کریں گے۔ اور اپنے ایک ایک لمحہ کو ضائع ہونے سے بچائیں گے، اگر ہم سب اس کا عزم کریں اور اپنے آپ کو اس پرقائم رکھیں تو کون ہے جو اس اُمت مرحومہ کی سر بلندی کو روک سکے؟