ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
اَلْحَمْدُ لِلہ رَبِّ الْعَالَمِیْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیم وَعَلیٰ آلہ وَاَصْحَابہ اَجْمَعِیْن۔
زمین کی پیداوار میں زکاۃ یعنی عُشر:
خالق کائنات کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زمین کی تخلیق ہے جس میں اﷲ جل شانہ کے حکم سے بے شمار اناج، پھل پھول، سبزیاں اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہوتی ہیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ محض اﷲ تعالیٰ کا فضل وکرم واحسان ہے کہ اس نے زمین کو انسان کے تابع بنا دیااور اس میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی روزی کا عظیم ذخیرہ جمع کردیا۔
اﷲ تعالیٰ نے مٹی کو پیداوار کے قابل بنایا اور پیداوار کے اگنے اور اس کے نشوونما کے لئے بادلوں سے پانی برساکر، پہاڑوں سے چشمے بہاکراور زمین کے اندر پانی کے ذخیرے رکھ کر وافر مقدار میں پانی پیدا کردیا، نیز ہوا کے انتظام کے ساتھ روشنی وگرمی کا خاص نظم کیا تاکہ تمام انس وجن اور جاندار زمین کی پیداوار سے بھرپور فائدہ اٹھاکر زندگی کے ایام گزارتے رہیں۔
یقیناًزمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ہی نے زمین سے پیداواری کا یہ سارا انتظام کیا ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اچھا یہ بتاؤکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم اگاتے ہو، یا اگانے والے ہم ہیں۔ (سورۃ الواقعہ آیت نمبر۶۳) یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو اور محنت کرو۔ اس بیچ کو پروان چڑھاکر کونپل کی شکل دینا، اور اسے درخت یا پودا بنا دینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرناکیا تمہارے اپنے بس میں تھا؟ اﷲ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے۔
یقینی طور پر زمین کی پیداوار کا ہر ہردانہ اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور حقیقی پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان تو اﷲ کی عظیم نعمتوں (مٹی کو پیداوار کے قابل بنانا، پانی، ہوا، گرمی وسردی اور روشنی کا انتظام وغیرہ) سے فائدہ اٹھائے بغیر ایک تنکا بھی زمین سے نہیں اگاسکتا۔ اس عظیم نعمت پر ہر شخص کو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زمین سے ہمارے لئے عمدہ عمدہ غذاؤوں کا انتظام کیا۔ شریعت اسلامیہ نے اظہار تشکر کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ زمین کی ہر پیداوار پر عشر یا نصف عشر (دسواں یا بیسواں حصہ) یعنی دس یا پانچ فیصد زکوٰۃ نکالیں تاکہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔
پیداوار کی زکاۃ کے متعلق اﷲ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرتا ہے: اﷲ وہ ہے جس نے باغات پیدا کئے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں پیدا کیں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار پیدا کئے، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اﷲ کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۱)
اسی طرح اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہواور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اﷲ کے راستے میں) خرچ کیا کرو۔ اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اﷲ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اﷲ بے نیاز ہے اور قابل تعریف ہے۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر۲۶۷)
قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو زمین دریا اور بادل سے سینچی جائے، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جو زمین کنویں سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ (زکوٰۃ کے طور پر نکالا جائے)۔ (صحیح مسلم، مسند احمد، نسائی، ابوداود)
قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو زمین آسمان، چشمہ اور تالاب کے پانی سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا دسواں حصہ، اور جو زمین ڈول یا رہٹ کے ذریعہ سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ (زکوٰۃ کے طور پر نکالا جائے)۔ (صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، ابوداود، ابن ماجہ)
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زمین کی پیداوار پر دسواں یا بیسواں حصہ (دس یا پانچ فیصد) زکوٰۃ میں دینا ضروری ہے، اگرچہ اس کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں۔ (بدائع الصنائع) شیخ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ کے وجوب کے سلسلہ میں امت کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔
عُشر کے معنی:
عشر کے اصل معنی دسویں حصہ کے ہیں، لیکن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیداوار کی زکوٰۃ کے متعلق جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اس میں زمین کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔
(۱) اگر زمین بارانی ہو یعنی بارش یا ندی ونہر کے مفت پانی سے سیراب ہوتی ہے تو پیدوار میں عشر یعنی دسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے۔( ۲) اگر زمین کو ٹیوب ویل وغیرہ سے خود سیرا ب کیا جاتا ہے تو نصف عشر (پانچ فیصد) یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا فرض ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر مفت پانی سے سیراب ہوکر پیداوار ہوئی ہے تو دسواں حصہ (دس فیصد)ورنہ بیسواں حصہ (پانچ فیصد)۔اگر زمین دونوں پانی (یعنی بارش وغیرہ اور ٹیوب ویل) سے سیراب ہوئی ہے تو اکثریت کا اعتبار ہوگا۔فقہاء کی اصطلاح میں دونوں قسم پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کو عشر ہی کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
نصاب عُشر:
قرآن وحدیث کے عموم کی وجہ سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک عشر کے لئے کوئی نصاب ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ یعنی عشر میں زکوٰۃ کی طرح کوئی نصاب ضروری نہیں کہ جس سے کم ہونے پر عشر ساقط ہوجائے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی رائے میں پھلوں، سبزیوں اور ترکاریوں پر بھی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب ہے۔ دیگر ائمہ اور امام محمد ؒ وامام ابو یوسف ؒ کے نزدیک حدیث (لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقہ) کی روشنی میں پانچ وسق (چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلو)سے اگر کم پیداوار ہو تو ایسے لوگوں پر عشر واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلوسے کم گندم پیدا ہو تو اس پر عشر واجب نہیں۔
عُشْر اور زکوٰۃ میں فرق:
پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ہر پیداوار پر دی جائے گی، خواہ سال میں ایک سے زیادہ پیداوار ہوئی ہو، یعنی اگر ایک سے زیادہ مرتبہ پیداوار ہوئی ہے تو ہر مرتبہ عشر یا نصف عشردیاجائے گا۔ مال یا سونے وچاندی کی زکوٰۃ کے وجوب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ضروریات سے بچا ہواہو، نصاب کو پہنچا ہوا ہو اور اس پر ایک سال گزرگیا ہو لیکن پیداوار کی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ غرضیکہ مال یا سونے وچاندی پر سال میں ایک ہی بار زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، جبکہ سال میں دو پیداوار ہونے پر دو مرتبہ عشر ادا کیا جائے گا۔
پیداوار پر زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کی ادائیگی کے بعد اگر غلہ کئی سال تک بھی رکھا رہے تو اس پر دوبارہ زکوٰۃ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر غلہ بیچ دیا گیا تو اس سے حاصل شدہ مال پر ایک سال گزرنے اور نصاب کو پہنچنے پر مال کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
کھیت کی زمین پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے چاہے جتنی قیمت کی ہو۔
بٹائی کی زمین کا عشر:
جس کے حصہ میں جتنی پیداوار آئے گی اس کے مطابق اس کی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زمین مالک اور کھیتی کرنے والے کے درمیان آدھی آدھی پیداوار تقسیم ہوئی تو دونوں کو حاصل شدہ پیداوار پر زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔
کٹائی کا خرچ اور عشر:
پیداوار کی زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) تمام پیداوار سے نکالی جائے گی، اس میں کٹائی وغیرہ کے مصارف شامل نہیں کئے جاتے ہیں، مثلاً سو کوئنٹل گندم پیدا ہوئے، پانچ کوئنٹل گندم کٹائی میں اور دس کوئنٹل گاہنی(تھریشر) میں دے دیا گیا تو۸۵ کوئنٹل پر نہیں بلکہ پوری پیداوار یعنی سو کوئنٹل پر زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنی ہوگی۔
متفرق مسائل:
پیداوار کی زکوٰۃ میں جو حصہ ادا کرنا واجب ہے مثلاً ایک کوئنٹل گندم تو گندم کے بجائے اگر اس کی قیمت دے دی جائے تو بھی جائز ہے۔ (شامی)
اگر رہائشی مکان کے ارد گرد یا اس کے صحن میں کسی پھل مثلاً امرود کا پیڑ لگالیا یا معمولی سی کھیتی کرلی تو اس پر زکوٰۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب نہیں ہے۔ (شامی)
ہندوستان کی اراضی عام طور پر عشری ہیں، یعنی پیدوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکوٰۃکو ادا کرنا چاہئے۔ مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستانی اراضی کی کل تیرہ صورتیں ہیں، جن میں سے دس میں اصولاً عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے اور تین میں احتیاطاً عشر یا نصف عشرادا کرنا چاہئے۔ (جدید فقہی مسائل۔ مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی)
ہندوستان کی اراضی میں پیداوار پرزکوٰۃکے سلسلہ میں بعض علماء کا اختلاف بھی ہے مگر قرآن کریم کی آیات واحادیث کے عموم کی وجہ سے احتیاط اسی میں ہے کہ ہر پیداوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکوٰۃ کو ادا کیا جائے۔
کھیتی کی زکوٰۃکے مستحقین بھی مستحقینِ زکوٰۃ کی طرح ۸ ہیں:
اﷲ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت نمبر ۶۰ میں ۸ مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے:
فقیر :یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
مسکین: یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
جو کارکن زکاۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔
جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
وہ غلام جسکی آزادی مطلوب ہو۔
قرض دار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ہماری جانی ومالی تمام عبادتوں کو قبول فرمائے، آمین۔