شیخ الحدیث مولانا انوار الحق حقانی دامت برکاتہم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد!
فاعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم بسم اﷲ الرحمن الرحیم، مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مَّنْ رِّجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِییْنَ وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَئیٍ عَلِیْمِّا (سورۃ احزاب)
ترجمہ: نہیں ہیں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم باپ کسی ایک کے تمہارے مردوں میں سے لیکن و ہ تو رسول ہیں اﷲ کے، اور خاتم ہیں انبیاء کے اور اﷲ ہر ایک چیز کو جاننے والا ہے۔
عن جبیر بن مطعم عن ابیہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انا محمد وانا احمد وانا الماحي الذي یمحیٰ بي الکفر وانا الحاشر الذي یحشر الناس علی عقبی، وانا العاقب الذي لیس بعدہ نبی (رواہ مسلم)
ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعمؓ اپنے والد سے اور وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، اور میں ماحی ہوں جس کے ذریعہ کفر مٹادیا جائے گا اور میں حاشر ہوں جس کے بعد لوگ اٹھائے جائیں گے، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔
مسئلہ ختم نبوت:
وہ اصولی مسئلہ جس کو تسلیم کیے بغیر کوئی فرد مسلمان نہیں بن سکتا وہ یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی اور رسول پیدا نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے بارے میں ایک سو سے زیادہ آیات میں بیان فرمایا گیا۔ اوپر ذکر کردہ آیت میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم الا نبیاء ہونے کا صریح اور واضح اعلان ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا کسی کا باپ نہ ہونے کا مطلب:
یہ بات یاد رکھیں جہاں رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ وہ کسی مرد کے باپ نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مذکر اولاد پیدا ہی نہیں ہوئی۔ بلکہ آیت میں ’’رجل‘‘ یعنی مرد کی نفی ہے اولاد کی تعداد کے بارہ میں مختلف روایات ہیں۔ لڑکیوں کی تعداد پر اتفاق ہے کہ چار تھیں۔ تمام صاحبزادیاں بلوغت، ازدواج، اسلام اور ہجرت سے شرف یاب ہوئیں۔ صاحبزادوں کے بارے میں مختلف تعداد حتیٰ کہ آٹھ تک کاذکر موجود ہے۔ البتہ دو کی پیدائش پر تمام رواۃ کا اتفاق ہے جوکہ حضرت قاسم اور حضرت ابراہیم ہیں ایک راوی کے مطابق حضرت قاسم دو مہینے کی عمر کو پہنچ کر وفات پاگئے، اور ابوداؤدؒ کے مطابق حضرت ابراہیم صرف دو مہینے دس دن زندہ رہے۔ گویا ان میں سے کوئی برخور دار عہد طفولیت سے عہد شباب جہاں سے انسان کی جوانی شروع ہوکر اس پر رجل کا اطلاق ہوتا ہے نہ پہنچ سکے۔
لفظ خاتم کی تشریح:
رب العالمین نے مرد یعنی بالغ اولاد کی نفی فرمائی۔ مجلس میں دینی علوم کے طلبہ کی موجودگی کے پیش نظر اتنا عرض کردوں کہ آیت کریمہ میں لفظ ’’خاتم‘‘ مذکور ہے تاء پرفتحہ (زبر) اور کسرہ دونوں حرکات سے پڑھا گیاہے، پہلے یعنی تاء زبر سے پڑھنے کی صورت میں معنی ’’تمام انبیاء پر مہر‘‘ اور تاپر ’’زیر‘‘ کا معنی تمام نبیوں کو ختم کرنے والا۔ دونوں حرکات سے پڑھنے کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب ایک تحریر خط وثیقہ یا معاہدہ لکھ کر اس کے آخری حصہ پر مہر ثبت ہو تو اس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ جہاں مہر لگ گئی اس سے اوپر والا حصہ یہاں پہنچ کر ختم ہوگیا۔ اگر مہر کے بعد تحریر کا اضافہ ہوا تو یہ غلط، جعلی اور جو سلسلہ پہلے سے جاری ہے اس کا حصہ نہیں۔ یہ قاعدہ یقینی ہے کہ خاتم کا لفظ تا کہ زیر سے ہو یا زبر سے جب کسی مخصوص قوم یا جماعت کی طرف اضافت ہو اس کے معنی آخری کے ہوتے ہیں۔ اب آپ نے آیت میں سن لیا کہ خاتم کی اضافت نبیین کی طرف ہے اس لیے اس کے معنی آخرالنبیین اور انبیاء کے ختم کرنے والے اس کے علاوہ اورکوئی معنی نہیں ہوسکتا۔
ختم نبوت کی نبوی تمثیل:
اس آیت کی تفسیر صاحب قرآن نے خود فرمائی۔
وعن ابی ھریرہؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مثلی ومثل الا نبیاء کمثل قصر احسن بنیانہ وترک منہ موضع لبنۃ فطاف بہ النظار یتعجون من حسن بنیانہ الا موضع تلک اللبنۃ فکنت انا سددت موضع اللبنۃ ختم بی البنیان وختم بی الرسل وفی روایۃ فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین (متفق علیہ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور دیگر انبیاء کی مثال اس محل کی طرح ہے جس کی تعمیر انتہائی شاندار ہومگر اس خوبصورت محل کے دیوار میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ہو، جب لوگ اس خوبصورت عمارت کی عمدگی کو دیکھیں تو عمارت کی حسن وخوبی سے وہ حیرت زدہ ہوجائیں مگر جب ایک اینٹ کے مقدار جگہ دیکھیں گے تو وہ سخت تعجب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ پس میں اس اینٹ کی خالی جگہ کو بھرنے والا ہوں، اس عمارت کی مکمل تکمیل میری ذات سے وابستہ ہے اور انبیاء ورسل کا سلسلہ مجھ پر اختتام پذیر ہوگا۔
حدیث مذکورہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نبوت کو ایسے مکان سے تشبیہ دی۔ جس کی تعمیر میں ہر پیغمبر کی نبوت ایک خشت کے مانند لگ گئی ہر نبی اور سول اﷲ کی طرف سے جو شریعت پیغام اور احکام لائے ان تمام احکامات، علوم اور پیغامات کے مجموعہ کو ایک اعلیٰ وشاندار محل اور خوشنما عمارت سے تعبیر فرمایا۔ جس دیوار میں تکمیل عمارت کے لیے ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی اس کے مکمل کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کا انتظار تھا جو اس خالی جگہ کو پر کرکے محل کی تعمیر کا سلسلہ او ردر وازہ مکمل طور پر ختم کردے۔ پچھلے انبیاء کی لائی ہوئی شریعت وہدایت کے ذریعہ دین کا جو محل بن کر کچھ کسر باقی رہ گئی تھی، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ کسر ہمارے آقا ومحبوب صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوری کردی۔ وہ آخری اینٹ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود مقدس تھا جس کی تشریف آوری سے خدا کا دین بھی مکمل ہوا، شریعت حقہ بھی کامل ہوئی، اس لیے اب کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی بن کر آئیں گے:
جہاں تک ہمارے اس پختہ عقیدہ کا تعلق ہے کہ حضرت عیسیٰؐ قیامت سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ان کی تشریف آوری ہوگی مگر ان کی آمد نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبع کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور امت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے دیگر مسلمانوں کی طرح وہ بھی ان کے قبلہ کی جانب رُخ کرکے نماز ادا فرمائیں گے۔ ان کی آمد سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا مطلب ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کی حیثیت سے دنیا میں مبعوث نہ ہوگا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا دور تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد سے کافی عرصہ پہلے گزرچکا اب ان کی آمد بطور نبی نہیں بلکہ ایک مقتدی اور متبع کی ہوگی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امامت سے انکار سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان الفاظ مبارکہ میں ذکر فرمایا۔
وعن جابرؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من اُمَّتِی یقاتلون علی الحق ظاھرین إلی یوم القیامۃ قال فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ھذہ الا مۃ (رواہ مسلم)
ترجمہ: حضرت جا بر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری جماعت میں ایک جماعت ہمیشہ کے لیے حق کے (غلبہ) کے لیے لڑتی رہے گی اور (مخالفین پر) غالب آئے گی۔ اور یہ سلسلہ (معرکۂ حق و باطل) قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرمایا جب عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے۔ (اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری میں ہوں گے) ان کے امیر حضرت عیسیٰ کو دعوت دیں گے کہ آئیے ہمیں نماز پڑھائیں لیکن عیسیٰ ان کو امامت سے انکار فرما کر جواب دیں گے کہ میں امامت نہیں کروں گا۔ تحقیق تم میں سے بعض لوگ بعض پر امیر ہیں۔ اس وجہ سے کہ اﷲ نے اس امت کو (دیگر امتوں پر) فضیلت وعظمت سے نوازا ہے۔
حضرت مہدی امام اور حضرت عیسیٰ مقتدی ہوں گے:
مسلمان حضرت عیسیٰ کو امامت کی دعوت اس لیے دیں گے کیونکہ امامت کا حق اس شخص کو ہوتا ہے جو سب سے افضل ہو۔ مسلمانوں کا خیال یہ ہوگا کہ نبی اور رسول کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ ہم سب میں افضل ہیں۔ امامت کے حق دار بھی وہی ہیں۔ مگر حضرت عیسیٰ کو تو معلوم ہوگا کہ نبوت ورسالت کا دروازہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے کہیں میری امامت سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ دین مصطفوی منسوخ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے اتریں گے۔ صحیح مسلم کے مطابق سات سال زمین پر حاکم اور خلیفہ کی حیثیت سے دین محمدی کے مطابق لوگوں کو خیر پر عمل کرنے اور گناہوں سے بچنے کی تلقین کریں گے۔ البتہ امت محمدی کی عظمت وشرافت اور بزرگی کے پیش نظر نماز پڑھانے والا امام مہدی ہوگا۔ عیسیٰ ان کے پیچھے مقتدی کی حیثیت سے نماز ادا کریں گے۔ اگرچہ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ آسمان سے نزول فرمائیں گے، اس وقت امام مہدی امام کی حیثیت سے مسلمانوں کو نماز پڑھانے کی کیفیت میں ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ کی آمد پر ان کی خواہش ہوگی کہ حضرت عیسیٰ نبی کی حیثیت سے افضل ہونے کی وجہ سے میری جگہ آکر مزید نماز جاری رکھیں۔ مگر اس وقت حضرت عیسیٰ لوگوں میں شبہ پیدا ہونے کی وجہ امامت سے انکار کردیں گے۔ بعد میں پھر اور نمازوں کی امامت حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کیونکہ نبی کا مقام ان کو حاصل ہے اس وجہ سے وہ امام مہدی سے افضل ہیں۔
بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ جتنا عرصہ زمین پر حکومت وسیادت کا منصب سنبھالیں گے وہ امت محمدی کے دین شریعت کے مطابق احکامات جاری کیا کریں گے۔ وہ ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہوں گے اب ان کے احکامات و تعلیمات کا سرچشمہ قرآن وحدیث ہوگا نہ کہ انجیل۔
نزولِ عیسیٰ دلیل ختم نبوت:
استاذی استاذ العلماء محقق العصر حضرت العلامہ مولانا شمس الحق افغانیؒ فرمایا کرتے تھے دورِ محمدی میں حضرت عیسیٰ کی آمد ایسی ہے جیسے ایک گورنر کے صوبہ میں دوسرے گورنر کا آنا۔ جو پہلے والے گورنر کے احکام کاتابع ہو کر آئے گا۔ نیز عیسیٰ کا نازل ہونا ہی ختم نبوت کی دلیل ہے۔ اگر دنیا میں نئے نبی کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا تو پھر گزرے ہوئے انبیاء میں سے ایک نبی کو دنیا میں واپس کیوں لایا جاتا؟ بلکہ سیدھے سبھاؤ ایک نیا نبی بھیج دیا جاتا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو واپس لانا ثبوت ہے کہ انبیاء علیہم کی تعداد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت پر مکمل ہوچکی ہے۔ اسی وجہ سے سابق انبیاء علیہم السلام میں سے ایک پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ نزول کے لیے متعین فرمایا۔ خاتم النبیین یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نہیں نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیٰ کا تعلق انبیاء کے اسی جماعت سے ہے جنہیں آپ سے پہلے نبی بنا کر بھیجا گیا۔
اعلان ختم نبوت:
حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان ہوا کہ ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا‘‘۔ (سورۃ مائدۃ)
ترجمہ :’’آج میں پورا کرچکا تمہارے لیے تمہارا دین اور پورا کیا میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے لیے دین اسلام۔ ‘‘
اس آیت کے نزول کے بعد صرف اکیاسی دن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ رہے۔ تکمیل دین کا اعلان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم چونکہ سب سے آخر میں دنیا کو نبی کی حیثیت سے بھیجے گئے کہ نبیوں کے فہرست میں کوئی نبی باقی نہ رہا۔ اس تکمیل دین کے اعلان کے بعد اب قرآن وشریعۃ مطہرہ کامل ہے اس میں ترمیم وتبدیلی کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہوسکتی ہے اس لیے اب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت قطعا نہیں۔ اگر نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو اسلام کے تمام تعلیمات فضول ہو کر اسلام ناقص رہے گا۔ کیونکہ پھر تو اس نئے آنے والے نبی پر ایمان لانا ہوگا ورنہ قرآن حدیث اور شریعت پر عمل کرنے کے باوجود اس نئے نبی پر ایمان نہ لانے والا کافر ہوگا۔ تو کمال دین تب ہوگا کہ جس نبی پر یوم عرفہ اکمال واتمام دین کا اعلان ہوا اسی پر خاتم الا نبیاء ہونے کی حیثیت سے ایمان لایا جائے ۔ اگر اس پر اسی محکم عقیدے کے مطابق ایمان واذ عان نہ ہو پورا دین ناقص بلکہ ختم ہوجائے گا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر کوئی حکم حلال وحرام کے بارہ میں نازل نہیں ہوا، کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی آپ پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید کامل اور آخری کتاب ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں آپ پر نازل ہونے والی کتاب ’’خاتم الکتب‘‘ ہے۔ تمام آیات جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے نبوت کے انقطاع پر دلائل قطعیہ کی حیثیت سے قائم و دائم ہیں اور قیامت تک آنے والے انسان آپ ہی کی امت اور آپ ان سب کی طرف مبعوث ہیں۔
احادیث متواترہ اور مسئلہ ختم نبوت:
احادیث مقدسہ کی روشنی میں رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی بے شمار روایات درجۂ تو اتر کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر آپ کے سامنے ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ کی بھی ختم نبوت کے مسئلہ پر رہنمائی ہوسکے کہ نہ صرف قرآن بلکہ خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی احادیث متواترہ صحابہ کرام کے واسطے سے بہت بڑی جماعت نے نقل کیے:
وعن العرباض بن ساریۃؓ عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہ قال إنی عند اﷲ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ (رواہ فی شرح السنۃ)
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبیین لکھا گیا ہوں جس وقت (حضرت) آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑئے ہوئے تھے۔
امام الا نبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی غرض اس جملہ سے یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کا قالب بھی بن کر تیار نہ ہوا تھا نہ اس میں روح پڑی تھی کہ میرا نام اس دنیا میں خاتم النبیین کی حیثیت سے رب العالمین نے لکھا ہوا تھا
وعن سعد ابن وقاص قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لعلی انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی (رواہ بخاری ومسلم)
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص روایت کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی دنیا کو بحیثیت نبی آنے والا نہیں۔
یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے درمیان آپس کی قرابت داری مرتبہ او رتعاون جو رہا یہ سارے اوصاف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے درمیان موجود تھے، اس لیے حضرت علیؓ کو حضرت ہارونؑ سے تشبیہ دی، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں کے مابین جو فرق تھا وہ واضح فرمایا۔ حضرت ہارونؑ نبی تھے اور میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ۔
وعن جابرؓ ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال انا قائد المرسلین ولا فخر وانا خاتم النبیین ولا فخر وانا اول شافع ومشفع ولا فخر (رواہ الدارمی)
ترجمہ: حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے روز) میں تمام انبیاء اور رسولوں کا قائد ہوں گا۔ اور میں یہ بات فخریہ طور پر نہیں کہتا۔ میں سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں (میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں) اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا۔ (قیامت کے روز) سفارش کرنے والا پہلا شخص میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔
نبوت کے جھوٹے دعویدار:
محترم حاضرین! آپ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق حمیدہ کے سلسلہ میں بار بارسن چکے ہیں کہ اس عظیم اور برتر ہستی میں ریاء خود نمائی اور تکبر کا نام ونشان تک نہ تھا۔ مذکورہ حدیث میں لافخر کا ارشاد بھی ہر فضیلت ومنقبت کے ساتھ بطور کسر نفسی فرما رہے ہیں کہ میں جو کچھ بیان کررہا ہوں اﷲ کے ہاں جو حقیقی واقع ہونے والی صورت حال ہے وہ بیان کردوں نہ کہ میرا یہ بیان ازراہ فخر ومباہات ہے۔ نیز میرا یہ اقرار اﷲ کے مجھ پر عظیم نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ہے۔ خطبہ کے ابتدا میں جو حدیث پیش کی اس میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’وانا العاقب‘‘ جس کے معنی سب سے پیچھے آنے والا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تمام رسولوں اور انبیاء کے بعد دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں کوئی نیا نبی آنے والا نہیں۔ اور اگر کسی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہوگا۔ نبوت کے ان جھوٹے دعویٰ کرنے والوں کا ذکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے فتنوں میں بھی فرمایا ہے تا کہ قیامت تک آنے والے مسلمان ان انسانی شیاطین کے دام فریب میں پھنسنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ حضرت ابوہریرہؓ ان فتنوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک طویل ارشاد نقل کر تے ہیں جس میں علامات قیامت مذکور ہیں کہ جن میں کئی معرکۃ الا راء واقعات رونما ہوں گے۔ صرف وہ حصہ ذکر کر رہا ہوں جس میں رسالت کے جھوٹے دعویداروں کا ذکر ہے۔
تیس جھوٹے دجالوں کا ذکر:
عن ابی ہریرہؓ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال لا تقوم الساعۃ حتیٰ یبعث دجالون کذابون قریبا من ثلٰثین کلھم یزعم انہ رسول اللّٰہ الخ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک بڑے زبردست مکار وعیاپیدا نہ ہوں جو خدا اور سول پر جھوٹ بولیں گے ان کی تعداد تیس کے قریب ہوگی۔ ان میں سے ہر ایک کادعویٰ یہ ہوگا کہ وہ خدا کا رسول ہے۔
حدیث میں دو جھوٹے نبوت کے دعویداروں کا ذکر :
انبیاء کے خواب بھی وحی کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھ کر اس کی تعبیر نبوت کے دو جھوٹے دعویداروں کی موجودگی سے فرمائی۔
عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انا نائم اتیت بخزائن الا رض فوضع فی کفی سواران من ذھب فکبر علی فاوحی الی ان انفخھما فنفختہما فذھبا فأوَّلتھما الکذابین الذین انا بینھما صاحب صنعاء وصاحب الیمامہ (ترمذی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کررہے ہیں کہ (ایک دن) میں سورہا تھا کہ (خواب) میں زمین کے خزانے میرے سامنے پیش کیے گئے۔ پھر میرے ہاتھ پر سونے کے دوکڑے رکھے گئے۔ جو مجھ پر بہت ناگوار ہوئے اس کے بعد مجھ پر وحی آئی کہ ان کڑوں پر پھونک مارو چنانچہ میں نے پھونک ماری وہ کڑے اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی تعبیران دونوں جھوٹے نبوت کے دعویٰ کرنے والوں سے کی جن کے (باعتبار سکونت) میں درمیان میں ہوں ایک یمامہ والا دوسرا صنعاء والا۔
ایک دوسری روایت میں جسے ترمذی نے نقل کیا ہے اس طرح ان میں سے ایک تو مسلیمہ ہے جو یمامہ کا باشندہ اور دوسرا اسود عنسی صنعا کا رہنے والا ہے۔ اسودیمنی نے حضورؐ کے دنیا میں موجود ہوتے ہی نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مرض وفات میں مبتلا تھے۔ حضرت فیروز دیلمیؓ نے اسود کو مار کر اپنے انجام کو پہنچایا اور مسیلمہ کذاب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں دعوائے نبوت کرکے حضرت وحشیؓ کے ہاتھ واصل جہنم ہوا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خواب کی سچی تعبیر تھی کہ ان دونوں کو اپنے خباثت کی سزا دنیا میں مل کر اپنے آخرت کو بھی برباد کردیا۔ان تین چار روایتوں کے علاوہ اور بھی کئی احادیث جو ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں تو اتر کا درجہ حاصل کرچکی ہیں متواتر احادیث سے جو انکار کرے وہ کافر ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد تک کسی نبی کو خاتم النبیین کے لقب سے نہیں نوازا گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبوت کا خاتمہ ہو کر خاتم النبیین کے خصوصیت سے مالا مال ہوئے قطعی نصوص سے مسئلہ ختم نبوت ثابت ہونے کے باوجود عالم کفر اور استعمار کے در پردہ ٹولے نے اس مسئلہ کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کیں۔ حق تعالیٰ ہم اور جملہ مسلمانوں کو اسلام کے محکم عقائد میں نقب لگانے والوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(ماہنامہ وفاق المدارس ملتان، مارچ 2021ء رجب المرجب ۱۴۴۲)