سید محمد معاویہ بخاری
میرے عَمِّ مُکَرّم اِبن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری 6فروری 2021ء بروز ہفتہ اپنی حیات ِ سعید کے ستتر (77) برس اس جہانِ فانی میں گذار کر عالمِ بقاء کو رخصت ہو گئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
عَمِّ مُکَرّم حضرت پیر جی ابنائے امیر شریعت میں سب سے چھوٹے بیٹے تھے اورحضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ کی آخری نشانی۔ ان کے سانحۂ وفات پر دل غم سے بوجھل ہے، سوچیں منتشر ہیں ۔ اپنے عَمِّ مُکَرّم کے بارے میں لکھنے کا حکم بھی ملا ہے مگر کیا کروں کہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو چند سطروں بعد ہی یادوں کا ہجوم مجھے روندنے لگتا ہے، آنکھوں میں آنسوؤں کی دُھند پھیل جاتی ہے۔ اور میں بے حال ہو کر قلم رکھ دیتا ہوں ۔6فروری کے بعد سے آج 18فروری تک میں اسی عرصۂ امتحان میں ہوں، سوچتا ہوں کیا لکھوں کہ میرے اَبُّ و جَد کی آخری نشانی میرے شفیق و مہربان عَمِّ مُکَرّم ، میرے راہبر و راہنما ۔ جن کی محبت سے دل و دماغ معمور تھے آج ان کی جدائی پر سوگوار ساعتوں کا مرثیہ لکھوں، غم و اندوہ کے انہی مرحلوں سے گزرتے ہوئے فیض احمد فیض یاد آگئے۔ کیا خوب کہا
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
ہم سب اسی راہِ فنا کے مسافر ہیں اور ایک کے بعد ایک سب کو دارِ فنا سے رخصت ہو کر دارالبقاء منتقل ہو جانا ہے، باقی رہے گا نام اﷲ کا۔ کئی دنوں سے یہ حالت ہے کہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو غم و اندوہ کی کیفیات مضمحل کرنے لگتی ہیں اور تحریر کا ربط ٹوٹنے لگتا ہے اس لئے پڑھنے والوں سے التماسِ درگزر کے ساتھ عرض ہے کہ راقم کی یہ بے ربط تحریر قبول فرما لیں۔ بہت کوشش کے باوجود ’’؟حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔ لکھنے والے لکھتے رہیں گے اور عَمِّ مُکَرّم کو ان کی دینی و مِلّی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔ مگر وہ شخصیت جو اپنے بے پناہ محاسن کے ساتھ ہمارے درمیان موجود تھی اُسے واپس نہیں لا سکتے۔ اس وقت اپنی حالت ایسی ہے جسے کسی درد مند نے شعر میں بیان کردیا ہے کہ
آہ! لبریزِ عباراتِ اَلم ہے ہستی
اس صحیفہ میں محبت کا کوئی باب نہیں
میرے عَمِّ مُکَرّم حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ گذشتہ چھے برسوں سے علیل چلے آرہے تھے مختلف عوارض نے دن بہ دن غلبہ پانا شروع کیا تو ان کے تبلیغی اسفار میں بتدریج کمی آتی چلی گئی ۔ انہوں نے اپنی جسمانی قوت و استطاعت سے مطابقت نہ رکھنے والی اَن تھک جدوجہد میں خود کو کھپائے رکھا اپنے ذاتی احوال کو دینی مقاصد پر ہمیشہ ترجیح دی اور سبقت کے باب میں سر فہرست رہے۔
بحمد اﷲ ہمارے ہاں یہ مستحسن روایت ابھی تک باقی چلی آتی ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے بارہ میں خود ساختہ وضعی کرامات کو کبھی شخصی وجاہت و تشہیر کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اپنے دادا حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عبقری شخصیت سے لے کر اپنے والد حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری ، عم مکرم حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری ، عم مکرم حضرت سید عطاء المؤمن بخاری اور عم مکرم حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین تک بے مثال درویشانہ ، طرز ِ زندگی ، مخلصانہ دینی جدوجہد سے عبارت رہی۔ نام و نمود ، جاہ و حشمت اوردولت و شہرت سے نفور عملاً اِن حضرات کی حیاتِ سعید کا خاصہ تھا۔ مجھے اپنے خانوادے کی کرامات بارے معلومات نہیں البتہ اگر اُن کی زندگی کے نشیب و فراز کا تذکرہ کرتے ہوئے کسی عمل کو اگر کرامت کہا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کے شکرگذار بندے اور ’’تواصو بالحق‘‘ اور’’ تواصو بالصبر‘‘ کے عملی مظاہر ہ کے ساتھ جیئے۔ اور زندگی کے آخری لمحات تک اپنے خالق و مالک رب العزت اﷲ جل شانہٗ اور رسالت پناہ سرورِ دو عالم ، خاتم النبیّین والمعصومین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی فرماں برداری کے جادۂ مستقیم پر گامزن رہے۔ الحمد ﷲ ! اگر اس عجز و انکسار بھری سعادت کو کرامت کہا جاسکتا ہے تو یقینا میرے اَبُّ و جَد بحمد اﷲ اس کے حاملین میں سے تھے۔ عَمِّ مکرم حضرت پیر جی رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی بھی اپنے خاندان کے بزرگوں کے روشن نقوش پر اُستوار تھی یادوں کے جزیروں میں کئی شخصیات موجزن ہیں انہی میں حضرت عم مکرم رحمہ اﷲ بھی شامل ہیں۔ اپنے بچپن سے اب تک عَمِّ مُکَرّم کی یادوں کو مرتب کرنا شروع کروں تو شاید ایک کتاب ہو جائے۔ ان کی شخصیت کا موازنہ خاندان کے کسی فرد سے کرنے کے بجائے خود انہی کی ذات سے کیا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہو۔وہ اپنی عادات و خصائل اور ترجیحات کے باعث اوائل عمر میں ہی’’پیر جی ‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے ۔ کلام اﷲ قرآن مجید سے والہانہ شغف وراثت میں ملا تھا ۔ چنانچہ حِفظ ِ قرآن کے بعد فنِّ تجوید سے خود کومُزَیَّن کرنے کے لئے وقت کے نام وَر اَساتذہ ٔ کرام سے شرف تلمذ حاصل کیا خوب محنت سے لحن و صوت کو سنوارا اور پھر قرآن مجید کی تلاوت کی تو وقت کے اکابر و معاصر سے داد ِ تحسین پائی اور اپنے عظیم والد کے محبوب ہوئے۔ اﷲ کا کرم ہے کہ مجھ عاجز کو۴؍برس کی باتیں بھی حافظہ میں ہیں۔ بالخصوص اپنی ممدوح شخصیت عم مکرم حضرت پیر جی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے حَسْبِیْ رَبِّیْ جَلَّ اللّٰہ مَا فِیْ قَلْبِیْ غَیْرُ اللّٰہ نور محمد صَلَّی اللّٰہ ۔ لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ ۔ کے پاکیزہ کلمات پہلی بار انہی کی زبان سے سُنے تھے، عم محترم مجھے اپنے کندھوں پر بٹھا لیتے اور پھر فرماتے میرے ساتھ پڑھو۔ میں ان کلمات کو دُھراتا تو ہر کلمہ کے بعد فرماتے شاباش۔ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا، ہمارے گھر کا صحن نسبتاً کشادہ ہے اور عَمِّ مُکَرّم اس میں چکر لگاتے جاتے اور ان کلماتِ طَیِّبات کا ورد جاری رہتا، بچپن تھا اور مسلسل ایک ہی طرح کے کلمات دُہراتے ہوئے کچھ دلچسپی کم ہوتی تو میں عرض کرتا ’’چاچا جی ہُن بس‘‘ ۔ اِس پر ہنستے ہوئے فرماتے۔ بڑا شریر ہے ۔ بڑا اُستاد ہے، بہانے لگا رہا ہے۔ اَچھا 5بار اور پھر بس۔ یہ وہ پہلی یاد ہے جو آج 59برس کی عمر میں بھی مستحضر ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد عشاء تک مصلّٰی پر ہی رہتے اپنے اوراد و وظائف ذکر اﷲ کرتے ، کبھی میں بھی پاس جا بیٹھتا تو متوجہ ہوتے اور لا اِلہ اِلا اﷲ کا ذکر قدرے بلند آواز سے کرتے کہ میں بھی دیکھوں ۔دائیں سے بائیں جانب سر کی حرکت اور پھر اِلا اﷲ کی ضرب کے ساتھ قلب کی جانب سر کا اثباتی جھکاؤ ۔ مجھے بہت اچھا لگتا اور اُن کی نقل کرتا۔ میری حرکت دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر ایک دِل آویز تبسم کی لکیر پھیل جاتی ۔ قرآنِ مجید کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو گھر میں مخدومہ دادی اماں جان رحمۃ اﷲ علیہا کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید کی سورتیں یاد کرنے کی سعادت حاصل ہوتی اور میرے والد کے کہنے پر عَمِّ مُکَرّم خصوصی توجہ و شفقت سے اِن اَسباق کی زبانی دُہرائی کراتے۔ میں کہ سکتا ہوں کہ بچپن کی اِبتدائی تعلیم میں عم محترم کا وافر حصہ شامل تھا۔میری یادداشتوں کا سلسلہ اس وقت منتشر ہے اس لئے جو کچھ یاد آ رہا ہے رقم کررہا ہوں۔
ایک دفعہ گھر میں کہیں سے آم آئے، گرمیوں کے دن تھے، اچانک ٹھنڈی ہوا چلی اور سیاہ بادل گھِر آئے اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی عم مکرم نے فوراً ایک بالٹی میں آم بھگوئے برف ڈالی اور صحن میں پڑے ایک تخت پوش کو صحن کے عین درمیان میں بچھا دیا پھر مجھے اورمیرے چھوٹے بھائی سید محمد مغیرہ بخاری کو اپنے مخصوص انداز میں آواز دی، آ جاؤ پُتری آ جاؤ۔ اپنے ساتھ بٹھا کر آم کھِلائے ، محبت و شفقت کا یہ انداز آج تک نہیں بھولا۔
بچپن کے بے شمار واقعات ہیں جنہیں ضبط ِ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران کئی ایسے مواقعے آئے کہ ان کی موجودگی میں چند مجالس میں انہی کے حکم پر گفتگو کا موقع ملا۔ اپنی کم علمی اور نالائقی کا مکمل اِحساس تھا ، مگر گفتگو کے اختتام پر جس والہانہ انداز میں عم مکرم نے حوصلہ افزائی فرمائی وہ انہی کا حصہ تھا۔ ہم چھوٹوں پر شفقت و عنایت کا یہ سلسلہ تا دم آخر جاری رہا۔ 2017ء میں اَحرار کانفرنس چناب نگر جانے کے لئے تیار تھے اِتفاق ہی کہئے کہ مجھے بھی حاضری کا موقع مل گیا ۔ دیکھتے ہی فرمانے لگے میں نے اِرادہ کیا تھا تمہیں بلانے کا اور پیغام یہ دینا تھا کہ تم بھی چناب نگر آؤ، عرض کیا کہ اِن شاء اﷲ بہ شرط صحت حاضر ہو جاؤں گا۔ برجستہ فرمایا ،تم مجھ سے زیادہ بیمار نہیں ہو، میری خواہش ہے باقی تمہاری مرضی۔ دل مانے تو بھائی جان کفیل کو بتا دینا وہ تمہارے آ نے جانے کا بندوبست کردیں گے فی امان اﷲ کہا اور روانہ ہوگئے۔ یہ بات شاید وہ بھائی جان سے پہلے کر چکے تھے چنانچہ ان کا فون آیا کیا اِرادہ ہے ؟۔ چلنا ہے تو سواری موجود ہے ۔ عرض کیا ضرور جانا ہے۔ چناب نگر پہنچے تو عم مکرم کی قیام گاہ پر حاضری دی ۔ مرحبا مرحبا کہ کر والہانہ مصافحہ و معانقہ فرمایا مجھ عاجز کے لئے ایسی پدرانہ شفقت کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ جب سے عم مکرم کا چلنا پھرنا موقوف ہوا تھا گاہے بہ گاہے خدمت میں حاضری ہو جاتی تھی ۔ ہمیشہ گھر کے ایک ایک فرد کی احوال پُرسی فرماتے اوردُعائیں دیتے۔
عم مکرم جیسی متوکل علی اﷲ شخصیات بہت کم دیکھی ہیں اسی حوالہ سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ان کی استغنا والی زندگی کا عکاس ہے۔ ایک روز صبح کے وقت حاضر خدمت ہوا تو مدرسہ کے صحن میں چند احباب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ صحت کے دِنوں میں معمول تھا کہ اشراق پڑھ کر باہر تشریف لے آتے ۔ صوفی نذیر صاحب مرحوم کے ساتھ ان کی خاصی بے تکلفی تھی چنانچہ ناشتہ یا چائے انہی کے آنے پر موقوف ہوتا ان کا انتظار کرتے ویسے بھی ان کا زندگی بھر کا معمول تھا کہ تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ ہمیشہ چند احباب کو ساتھ بٹھاتے اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتے۔ جوانی میں شاید کبھی خوش خوراک رہے ہوں گے مگر کھانے کے لئے اہتمام کبھی نہیں کیا تھا۔ جو میسر آتا خوش دِلی سے تناول کرلیتے۔ اُس روز بھی احباب کے انتظار میں تھے راقم حاضر خدمت ہوا تو فرمایا بہت اچھا کیا جو آگئے ہو ، ناشتہ کرو گے ؟ عرض کیا جی کروں گا ایک صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ سری پائے لے کر آؤ جلدی سے جیب سے پیسے نکالنے لگے تو میں نے عرض کیا چچا جی جو گھر میں ہے وہی کھا لوں گا ، آپ یہ خرچہ نہ کریں ، اس پر جو جواب دیا وہ حاصل زندگی بھی ہے اور زبردست نصیحت بھی۔
فرمایا : بیٹا جی ! اﷲ دیتا ہے تو خرچ کردیتا ہوں ، چند لمحے خاموش رہے پھر فرمایا : بیٹا جی ! اﷲ سے وعدہ کررکھا ہے اور یہ وعدہ حرمین شریفین میں کیا تھا کہ اے اﷲ! تومجھے کسی کا محتاج نہ کرنا میں وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی میں کبھی مال جمع میں نہیں کروں گا۔ الحمد ﷲ اُس دن سے آج تک کبھی مال جمع میں نے نہیں کیا اور محروم اﷲ نے نہیں رکھا۔ عَمِّ مُکَرّم نے زندگی بھر کبھی اِستری شدہ کپڑا نہیں پہنا حتیٰ کہ شادی کے موقع پر بھی عام دُھلا ہوا کھدر کا شلوار قمیض پہنا۔ وہ ایسی چیزوں کو تکلفات میں شمار کرتے تھے۔ بچپن سے دیکھتے آئے کہ جب تک صحت رہی اپنے کپڑے خود دھو لیتے خود فرماتے تھے کہ زمانۂ طالب علمی میں کبھی شوقینی کو جی چاہتا تو کپڑے دھو کر سُکھا لیتا پھر ان کی تہہ لگا کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیتا بس شوقینی پوری ہو جاتی تھی۔
گرمی ہو یا سردی ہمیشہ موٹے کھدر کا کرتہ اور تہ بند زیب تن فرماتے ، سر پر گول ٹوپی اور کبھی رومال باندھ لیتے، کبھی زرق برق اور اعلیٰ کپڑے کی طلب نہیں رکھی اگر کسی نے ہدیۃً اچھا کپڑا دیا بھی تو کسی دوسرے کو ہدیہ کردیتے فرماتے بھائی میرا یہ ذوق نہیں ہے۔ کھدر ہی اچھا لگتا ہے۔ عام طور پر ہلکے نیلے رنگ کا تہ بند پسند فرماتے۔ عم مکرم جن دنوں حجاز ِ مقدس میں قیام پذیر تھے اطلاع ملتی کہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں، سب کی خواہش تھی کہ کراچی سے بذریعہ ٹرین ملتان پہنچیں گے تو استقبال کے لئے جائیں گے۔ مگر ساری تیاریاں اُس وقت دَھری رہ جاتیں جب وہ اچانک ہی بغیر تشہیر کئے گھر پہنچ جاتے۔ اور سب حیرت نما خوشی سے دو چار ہوتے۔ مگر ہم چھوٹوں کو اپنے منصوبے ناکام ہونے کا بے حد قلق ہوتا۔ ایک دن گھر میں خوش گوار ماحول میں سب کے ساتھ تشریف فرما تھے تو عرض کیا ’’چا چا جی ‘‘ہم نے تو آپ کے استقبال کے لئے اسٹیشن جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا اورآپ اچانک آگئے۔ ہنستے ہوئے فرمانے لگے اچھا تم اب اپنا شوق پورا کرلو ، میں گھرسے باہر جا کر دوبارہ آتا ہوں تم نے جو پٹاخے پھوڑنے ہیں پھوڑ لو اور جو ہار پہنانے ہیں پہنا لو۔ یہ کہ کر کھڑے ہو گئے۔ راقم نے عرض کیا اب کیا فائدہ ؟
2014ء کی بات ہے خاندان ِ امیر شریعت سے محبت رکھنے والے الحاج شیخ انعام الٰہی مرحوم کے فرزند شیخ یامین الٰہی مرحوم ہم سب سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے ہر خدمت کے لئے دل و جان سے حاضر رہتے ۔ میرے والد سید ابو ذر بخاری رحمہ اﷲ سمیت تینوں عَمَّانِ مکرم کے مزاج آشنا بھی تھے۔ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ عم مکرم حضرت پیر جی مدینہ منورہ سے آئی کھجوروں اور آب ِ زم زم کے ہدیہ کے علاوہ کپڑوں یا رقوم کی صورت میں خدمت کے حوالہ سے بہت محتاط تھے۔ بھائی یامین مرحوم کچھ رقم حضرت پیر جی کی خدمت میں پیش کرنے پر مُصر تھے مگر حوصلہ نہیں پا رہے تھے کہ کیسے جا کر پیش کروں۔ چنانچہ میرے پاس چلے آئے اور منت سماجت کے انداز میں کہنے لگے بھائی معاویہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے آپ ہی کوئی میری مدد کرو۔ میں نے کچھ دِن صبر کرنے اور موقع ملنے پر گذارش پیش کرنے کی مہلت مانگی۔ عم مکرم چناب نگر سے ملتان تشریف لائے تو ملنے کے لئے حاضر خدمت ہوا ، موقع پر بھائی یامین مرحوم کی بات یاد آگئی عرض کیا کہ وہ بھائی یامین آپ کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور مجھے کہا ہے کہ آپ سے اجازت حاصل کرلوں ۔ فرمایا اچھا تم اس کے سفارشی بن کر آئے ہو؟ وہ تو دیوانہ ہے اسے کہو کہ میں نے قبول کرلیا ہدیہ اب یہ رقم جماعت کے فنڈ میں جمع کرادے سمجھ لو مجھے مل گئے۔
میں نے یہی جواب بھائی یامین کو بتایا تو وہ رو پڑے اور کہا کہ بھائی دنیا میں ایسے لوگ کہاں ہوں گے جو اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے مشن و مقصد کو ترجیح دیتے ہوں۔ یہ وصف تو میں نے حضرت امیر شریعت کی اولاد میں دیکھا ہے۔
11فروری 2008ء کو راقم نے دفتر ماہنامہ’’ الا حرار‘‘ کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ سنگ ِ بنیاد رکھنے کے لئے حضرت عم مکرم اور بھائی جان سید محمد کفیل بخاری صاحب سے درخواست کی جو قبول کرلی اور صبح نو بجے عَمِّ مُکَرّم بھائی جان سید محمد کفیل شاہ صاحب مد ظلہ اور ان کے چچا سید مرتضیٰ شاہ صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے اپنے دست ِ مبارک سے سنگ ِ بنیاد رکھا، دُعا فرمائی اور رخصت ہو گئے۔ راقم کو دفتر کی تعمیر میں کئی مشکلات در پیش تھیں چنانچہ اس کی تکمیل میں 6 برس کا عرصہ لگ گیا۔ 15مارچ 2014ء کو عمارت مکمل ہوئی تو افتتاح کے لئے درخواست پیش کی۔ جسے بہت خوشی سے قبول فرما لیا ۔ باوجود ضعف و علالت کے تشریف لائے، افتتاح کیا اور کامیابی کی دُعا فرمائی ، اس موقع پر کئی بزرگ شخصیات شریک ہوئیں جن میں بالخصوص میرے پھوپھا جان حضرت سید وکیل شاہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ، بڑے بھائی سید محمد کفیل یخاری مد ظلہ ، برادران عزیز مولانا سید عطاء المنان بخاری، سید عطاء اﷲ ثالث بخاری ،میرے بھانجے مولانا مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی، بھائی نیاز احمد صاحب سٹینڈرڈ بیکری والے ، مولانا فیصل سرگانہ صاحب ، بھائی محمد یامین مرحوم، صوفی نذیر صاحب مرحوم، ابو معاویہ محمد یعقوب خان خواجکزئی مرحوم، محمد معاویہ مرحوم ابن بشیر احمد صاحب نور محلی مرحوم۔ میرے عزیز دوست محمد عمران اعظم صاحب ،ابو میسون اﷲ بخش اَحرار صاحب ،مولانا محمد اکمل، عزیز بھائی محمد لقمان منشاد اورحافظ محمد طارق چوہان سمیت دیگر کئی محبت کرنے والے احباب بھی شریک محفل ہوئے اور میری عزت افزائی کی۔ عصرکی نماز اسی دفتر میں ادا کی گئی۔ یہ ایک یادگار موقع تھا میرے لئے ، میں خوش بھی تھا اور اُداس بھی کہ اس موقع پر میرے والد گرامی رحمہ اﷲ حیات نہیں تھے، کاش وہ بھی موجود ہوتے تو انہیں بہت خوشی ہوتی چنانچہ اپنی یہ حالت تھی کہ :
دل کو خوشی کے ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
برادر ِ عزیز مولانا سید عطاء المنان بخاری سلمہ اﷲ 17فروری بدھ کے روز میری والدہ محترمہ کی عیادت کے لئے گھر آئے تو دورانِ گفتگو اپنے والد حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری رحمہ اﷲ کا ایک واقعہ سنایا کہ لاہور دفتر اَحرار میں ختم نبوت کورس ہو رہا تھا۔ حضرت عم مکرم بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔اسی موقع پر ایک معروف سیاسی خاندان کے رُکن بھی ملاقات کے لئے آئے اورختم نبوت فنڈ میں اپنا حصہ جمع کرایا رسید حاصل کی اس کے بعد وہ حضرت عم مکرم سے ملاقات کیلئے آئے کچھ دیر بیٹھے اور پھر ایک معقول رقم بطور ہدیہ پیش کی ۔ عم مکرم نے دفتر اَحرار لاہور کے منتظم میاں محمد اویس صاحب کو بلایا اور فرمایا یہ رقم ختم نبوت فنڈ میں جمع کرادیں اور رسید کاٹ دیں ۔ ہدیہ دینے والے موصوف بہت حیرت زدہ ہوئے اور میاں اویس صاحب سے کہنے لگے بھئی ہم نے بہت سے مذہبی رہنما دیکھے ہیں مگر ایسی شخصیت پہلی بار دیکھی ہے جو اپنے مقصد و مشن کے لئے اتنی مخلص اور دنیاوی معاملات میں اپنی ذات کے حوالہ سے اتنی بے نیاز ہو۔ عم مکرم رحمۃ اﷲ علیہ اپنی پوری حیات ِ سعید میں زمینوں، جائیدادوں اور مال جمع کرنے کے پھندوں میں نہیں اُلجھے، درویشانہ زندگی توکل علی اﷲ کے ساتھ بسر فرمائی۔ جب تک حجاز ِ مقدس میں قیام رہا تو بھی محض جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے مزدوری کرلیتے اور پھر بارگاہِ رسالت پناہ صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضر باش رہتے یا پھر ولی العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی نور اﷲ مرقدہٗ کے ہاں حضرت شیخ کی خدمت پر مامور رہتے۔
عم مکرم رحمہ اﷲ اپنے قیام حجاز کے حوالہ سے جب واقعات بیان فرماتے تو جس شخصیت کا تذکرہ اکثر فرماتے وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کی شخصیت تھی ۔ جن کی صحبتوں اور محبتوں سے انہوں نے کسب فیض کیا۔ یہ بات بتاتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک عجیب سرشاری کی کیفیت ہوتی کہ جب حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ کی وفات ہوئی تو ان کے کفن دفن کے تمام مراحل میں شرکت کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی۔ اس کا تذکرہ مولانا ابوالحسن ندوی رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اﷲ کی سوانح میں بھی کیا ہے۔ عم مکرم رحمہ اﷲ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ کے حُسنِ سلوک کے واقعات بیان کرتے ہوئے بار بار فرماتے سبحان اﷲ ! کیا شفیق و مہربان شخصیت تھے حضرت شیخ الحدیث !۔ ایک دفعہ بیان فرمایا کہ جب میں حرم شریف میں حضرت شیخ الحدیث کی خدمت میں حاضر ہوا، معلوم نہیں اُنہیں مجھ فقیر کے احوال کا پتہ کیسے چلا، میں تو اس کو حضرت کے کشف و کرامت ہی سے تعبیر کرتا ہوں، حضرت نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا،جب تک تم یہاں ہو کھانا میرے پاس ہی کھانا۔
حضرت شیخ رحمہ اﷲ کے ہاں عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا اور بعض حضرات کے روّیوں بارے میرے دِل میں کچھ عجیب سا خیال آیا اور میں اسی خیال کے تحت دوپہر کے کھانے میں شریک نہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت رحمہ اﷲ کے خادم خاص صوفی اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی تو بہت پریشانی کے ساتھ فرمایا بھئی شاہ جی آپ نے آج تو مروا ہی دیا کہ حضرت شیخ نے آپ کے نہ آنے کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا۔ بار بار آپ کا پوچھتے رہے کہ ’’عطاء المہیمن‘‘ نہیں آئے، انہوں نے تو کھانا میرے ساتھ کھانا تھا۔ یہ سنتے ہی مجھے بہت پشیمانی اور ندامت ہوئی۔ چنانچہ اسی شام حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت شیخ نے میری کیفیت بھانپ کر فرمایا، بھائی شاہ جی ! آپ نے تو ہمارے لئے آنا تھا۔ عم مکرم فرماتے تھے کہ پھر میں نے تہیہ کرلیا کہ اب حضرت شیخ کی صحبت میں ہی رہوں گا چنانچہ میں نے اپنے آپ کو ان کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ حضرت کے مہمان خانے کی صفائی ستھرائی اور برتن دھونے کی ذمہ داری خود لے لی، ہنستے ہوئے فرمانے لگے بعض دیگر خدام جن سے تعارف نہیں تھا وہ مجھے برتن دھوتا دیکھ کر اپنے برتن بھی لا کر میرے سامنے رکھ دیتے کہ لے بچو بڑا شوق ہے تمہیں خدمت کا تو اَب ہمارے برتن بھی دھو۔ مسکراتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان حضرات کو ایک دن اس طرز ِ عمل پر صرف اتنا کہا کہ میں تمہارے لئے نہیں بلکہ حضرت شیخ کی وجہ سے یہ خدمت کرتا ہوں۔
انہی دِنوں کا ایک اور واقعہ بھی سنایا کہ ایک دن حضرت شیخ کے مہمان آئے ہوئے تھے انہوں نے کھانا کھایا ان میں سے ایک صاحب نے تھالی میں سالن بچا دیا ۔ میں نے وہ پلیٹ اُٹھائی اور برتن کو صاف کرنے لگا ۔ حضرت شیخ شاید میری ہی طرف متوجہ تھے مجھے یہ عمل کرتے دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں کس نے اجازت دی ہے کہ ہمارے مہمانوں کے بچے ہوئے سالن کو استعمال کرو۔ اس کو چھوڑ دو اور اپنے حصے کا کھانا کھاؤ، عم مکرم حضرت شیخ رحمہ اﷲ کے واقعہ کو بیان کرتے تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں، پھر ایک آہ بھر کر فرماتے
اب ایسا کہاں سے لائیں کہ اُن سا کہیں جسے
ایک اور واقعہ بیان فرمایا ، کہنے لگے ایک دفعہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اﷲ طواف سے فارغ ہوئے تو میں نے زم زم کا ہدیہ پیش کیا ، حضرت شیخ نے استفسار فرمایا کہ یہ زم زم کہاں سے لیا ہے؟ عرض کیا : حضرت خریدا ہے۔ یہ سنتے ہی فرمایا، تمہیں معلوم نہیں کہ زم زم کی بیع و شراء ( خرید و فروخت ) حرام ہے۔ حضرت کی یہ بات سُن کر پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ پھر بڑی حسرت و یاس کے ساتھ فرماتے بھئی ! ہمیں تو جو کچھ ملا انہی بزرگوں کی صحبت میں رہ کر ہی نصیب ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عم مکرم حجاز ِ مقدس سے واپس تشریف لائے تو ہم سب اصاغر کو جمع فرمایا اور اپنے چھوٹے بیگ میں سے چیزیں عنایت فرمائیں۔ راقم کے حصہ میں ایک چھوٹی سی خوب صورت گھڑی آئی، فرمانے لگے بھئی ! تمہارا چاچا سیٹھ نہیں ہے، بس اپنی حیثیت کے مطابق جو میسر ہوا لے آیا، فقیر کا ہدیہ قبول کرو، راقم کے پاس کم و بیش 40برس پہلے کی وہ گھڑی آج بھی محفوظ ہے۔ عَمِّ مُکَرّم کی محبتوں کا انداز بہت منفرد تھا۔ نصیحت بھی فرماتے اور محبتیں بھی نچھاور کرتے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جو مجھ عاجز کے ساتھ پیش آئے اور عَمِّ مُکَرّم کی نگہبانی و راہنمائی میسر آئی۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ مبارک سلسلہ ختم ہوگیا۔
٭٭٭
میری اہلیہ کئی دن سے اِصرار کررہی تھی کہ چچا جان کے ہاں جانا ہے۔کئی دن ہو گئے ہم نہیں جا سکے تھے، میری اہلیہ حضرت عَمِّ مکرم رحمہ اﷲ سے بیعت ہیں، 4 فروری جمعرات کا دِن تھا ، میری اہلیہ چچا جان کے پاس جانے کو تیار ہوئی۔ اسی اثناء میں میری والدہ محترمہ جو کہ مختلف عوارض کے باعث علیل ہیں انہیں معلوم ہوا تو فرمانے لگیں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو عرض کیا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے گلی میں سے چل کر جانا پڑے گا آپ کو دِقت ہوگی ، فرمانے لگیں نہیں کوئی دقت نہیں ، مجھے بھی ساتھ لے چلو ، اس سے ایک دن پہلے بھائی سید محمد کفیل شاہ صاحب سے چچا جان سے ملنے کا تذکرہ ہوا تو انہو ں نے فرمایا آپ نے جس وقت بھی جانا ہو مجھے اطلاع کردیں سواری کا بندوبست میں کردوں گا چنانچہ ہفتہ کے دن بعد از نماز عصر انہیں مطلع کردیا گیا اور انہوں نے سواری بھجوا دی بھائی جان کے فرزند ِ ارجمند حافط سید عطاء المحسن بخاری سلمہ الرحمن آگئے ان کے ہمراہ میری والدہ محترمہ اور اہلیہ دار ِ بنی ہاشم گئیں۔ رات تقریباً 9بجے واپسی ہوئی والدہ محترمہ میرے پاس آ بیٹھیں اور عم محترم کی صحت بارے تشویش کا اظہار کرتی رہیں ۔ فرمانے لگیں پیر جی بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اب تو بولنے میں بھی دِقت ہوتی ہے انہیں۔
کچھ دیر میرے پا س بیٹھی احوال بیان فرماتی رہیں ۔ پھر فرمایا کہ میں کھانا کھا لوں بعد میں تمہارے پاس آتی ہوں۔ عرض کیا ٹھیک ہے آپ کھانا کھا لیں۔ میری اہلیہ نے انہیں انسولین کا انجکشن لگایا اس کے بعد جونہی وہ لقمہ اُٹھانے لگیں تو داہنا ہاتھ اُٹھایا بہت کوشش کے باوجود حرکت نہیں ہوئی تو میرا چھوٹا بیٹا سید محمد وردان بخاری سلمہٗ بھاگا ہوا آیا کہ دیکھیں اَمی کو کیا ہوا وہ ہاتھ نہیں اُٹھا پا رہیں۔ جلدی سے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کی دائیں جانب کا ہاتھ کام نہیں کررہا تھا چند لقمے چمچ سے کھلا کر فوراً بستر پر لے آئے بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ 210سے زائد تھا فوری طور پر معالج ڈاکٹر مسعود صاحب سے رابطہ کیا، صورت ِ حال بتلائی تو انہوں نے جلد از جلد ایمرجنسی سنٹر لے جانا تجویز کیا ، بڑے بیٹے سید محمد شراحیل بخاری سلمہٗ نے ایمبولینس سروس 1122پر اطلاع کر کے ایمبولینس منگوائی اور تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شب ہم نشتر ہسپتال کے ایمرجنسی سنٹر پہنچ گئے الحمد ﷲ فوری طور پر طبی امداد شروع ہوئی ، سٹی سکین سمیت متعدد ٹیسٹ کرائے گئے، جو بحمد اﷲ صحیح آئے۔ اگلے روز معالج حضرات نے طبیعت نسبتاً بحال ہونے پر گھر جانے کی اجازت دے دی ، تاہم فالج کا حملہ دائیں جانب ہو چکا تھااور اپنے شدید اثرات چھوڑ گیا تھا۔ بھائی جان سید محمد کفیل شاہ صاحب کو تمام صورت ِ حال سے آگاہ رکھا تھا، اس لئے قدم قدم ان کی معاونت حاصل رہی۔ ڈاکٹر نے فزیو تھراپی تجویز کی تھی اور مسئلہ یہ تھا کہ اکثر مرد حضرت ہی اس شعبہ میں معروف ہیں لیکن والدہ صاحبہ کا فرمانا تھا کہ معذوری قبول ہے مگر کسی غیر مرد سے تھراپی نہیں کرانی۔ یہ مشکل بھی بھائی جان کفیل شاہ صاحب کی خصوصی توجہ و مہربانی سے حل ہوگئی اور ایک خاتون فزیو تھراپسٹ کی خدمات میسر آ گئیں ۔6فروری اتوار کا دن تھا اور خاتون ڈاکٹر صاحبہ کی چھٹی تھی۔ چنانچہ ہم اپنی سی کوشش سے والدہ محترمہ کو ورزش کرانے میں مصروف رہے ۔ نماز ِ ظہر ادا کر کے ابھی بیٹھے ہی تھے کہ فون پر یہ اندوہناک خبر موصول ہوئی کہ میرے عم محترم ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری انتقال فرما گئے ہیں۔ کب؟ کہاں؟ کیسے؟ جیسے سوال بے معنی تھے سو اسی وقت اپنے دونوں بیٹوں کو والدہ کے پاس چھوڑ کر اہلیہ کے ہمراہ دار ِ بنی ہاشم پہنچے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا میرے اب و جد کی آخری نشانی عم مکرم آنکھیں بند کئے اَبدی نیند سو رہے تھے ، چہرے پر اطمینان و راحت کے آثار تھے ۔ بے اختیار آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ میری چچی جان اور گھر کے دیگر افراد اس سانحۂ وفات پر غمگین تو تھے مگر صبر و استقامت کے ساتھ ۔ کچھ دیر عم محترم کے پاس ٹھہرا، پھر ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگے تو باہر چلا آیا اور برادر ِ عزیز حافظ مولوی سید عطاء المنان سلمہ الرحمن سے ملاقات ہوئی ان سے گلے ملا، تعزیت کی ۔ برادر عزیز حافظ سید عطاء المنان سلمہ نے گذشتہ چند برسوں سے خود کو اپنے عظیم والد کی خدمت کے لئے وقف کررکھا تھا، دن را ت کا آرام محض اپنے والد ماجد رحمہ اﷲ کی خدمت و راحت رسانی کے لئے قربان کیا ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے عزیز بھائی نے ایک سعادت مند فرزند ہونے کا حق ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ اﷲ کریم میرے عزیز بھائی کو اس خدمت پر اپنی شان بے پناہ کے مطابق اَجر عطا ء فرمائے۔ آمین۔ بھائی جان سید محمد کفیل بخاری مد ظلہ اپنی جماعتی مصروفیات کے تحت لاہور تشریف لے گئے تھے اطلاع ملتے ہی وہ بھی ملتان کے لئے روانہ ہوئے۔ عم مکرم کو غسل دینے کا معاملہ بھائی جان کے آنے تک مؤخر کیا گیا۔ تقریباً دو گھنٹے دار ِ بنی ہاشم میں گزار کر گھر واپسی ہوئی ، میری والدہ محترمہ کو حضرت عم مکرم کے سانحہ وفات سے لا علم رکھا گیا تھا لیکن وہ ہمارے چہروں پر لکھی کہانی پڑھ کر سمجھ گئیں کہ کیا ہوگیا ہے۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے رقت آمیز لہجہ میں کہا پیر جی رخصت ہوگئے ؟ کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی تو اثبات میں سر ہلا دیا ۔ لمحہ بھر میں گھر کے درو دیوار پر سوگواری کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ بعد از نماز عشاء حضرت پیر جی کو غسل دیا جانا تھا، بہت عزیز بھائی محمد لقمان صاحب نے فون پر مطلع کیا تو فوراً اس سعادت کو حاصل کرنے دار ِ بنی ہاشم روانہ ہوگیا، بھائی جان لاہور سے تشریف لا چکے تھے ۔ ایک اورعزیز دوست ’’محمد مہربان‘‘ مجھے لینے آئے۔ الحمد ﷲ عم مکرم کو غسل دینے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ، برادر ِ عزیز مولانا عطاء المنان بخاری سلمہ اﷲ ، سید عطاء اﷲ ثالث بخاری ، بھائی جان سید محمد کفیل بخاری مد ظلہ ، عزیز بھانجے مولانا مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی، ان کے والد محترم سید وقار الحسن ہمدانی، مولانا محمد اکمل، مولانا فیصل سرگانہ، بھائی محمد لقمان منشاد، محمد طارق چوہان،شیخ جاوید صاحب بھائی محمد مغیرہ ابن صوفی نذیر صاحب مرحوم، محمد مہربان نے اپنی اپنی محبت کاحصہ ڈالا۔ کسی نے پانی مہیا کیا تو کوئی دوسری خدمت میں مصروف رہا۔ عم مکرم کو غسل دیتے وقت جب ان کے بازوؤں کو اُٹھایا گیا تو وہ اسی طرح نرم تھے گویا حیات باقی ہو۔ بے اختیار سب کی زبان سے سبحان اﷲ کے کلمات ادا ہوئے۔ غسل کے بعد عم مکرم کو آخری لباس ( کفن) پہنایا گیا چہرہ کھِلے گلاب کی مانند اسی طرح سرخ و سفید اور نورانیت سے بھر پور تھا جیسا کہ ان کی حیات میں دِکھائی دیتا تھا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یّشاء ۔
عم مکرم کو اہل خانہ کے درمیان رکھ دیا گیا، باہر محبت کرنے والوں کا ہجوم بڑھ رہا تھا اور سب کا اصرار تھا کہ ہمیں چہرہ کی زیارت ابھی کرادی جائے جسے بھائی جان سید کفیل بخاری صاحب نے منظور کیا اور عم مکرم کو ان کے چاہنے والوں کے درمیان رکھ دیا گیا۔ عجیب منظر تھا لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے ۔ تقریباً پون گھنٹے دیدار کرانے کے بعد عم مکرم کو گھر منتقل کردیا گیا کہ اہل خانہ بھی جی بھر کے اپنی محبوب شخصیت کو دیکھ لیں کہ اس کے بعد پھر لمبی جدائی ہے۔
بھائی جان سید کفیل بخاری صاحب نے تدفین کے لئے قبر کی تیاری کے سارے انتظامات رات سے ہی شروع کرادیئے تھے جبکہ مشاورت سے طے کیا گیا کہ جنازہ سپورٹس گراؤنڈ کے بجائے قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم میں 7فروری پیر کی صبح گیارہ بجے ادا کی جائے گی ۔ مدرسہ معمورہ کے طلباء، اساتذہ اور مجلسِ اَحرار کے کارکنوں نے اپنے ذمہ ڈیوٹیاں لیں اور ممکن حد تک بہتر انتظامات کردیئے۔ ملتان کی انتظامیہ نے بے پناہ ہجوم کو دیکھتے ہوئے ٹریفک کے خصوصی انتظامات کئے اور سہولت پہنچائی۔ 7فروری کی صبح نو بجے سے ہی ہزاروں لوگ جنازہ میں شرکت کے لئے سٹیڈیم پہنچ گئے۔ محبت کرنے والوں کا ہجوم گیارہ بجے تک اتنا بڑھ چکا تھا کہ سٹیڈیم میں گنجائش کم ہوگئی مجبوراً داخلی دروازوں کو بند کرنا پڑا۔ کئی اکابر علماء و صلحاء موجود تھے۔ سب نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عم مکرم کی دینی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے عم مکرم کے فرزند ِ ارجمند مولانا حافظ سید عطاء المنان بخاری سلمہ الرحمن نے نماز ِ جنازہ پڑھائی ،بلا مبالغہ ہزاروں افراد کا ہجوم تھا اور ہر شخص آخری دیدار کے لئے بے تاب مگر صورت ِ حال کو دیکھتے ہوئے سب سے معذرت کی گئی تاکہ تدفین میں تاخیر نہ ہو۔ ایمبولینس کے ذریعے میت کو قبرستان پہنچایا گیا۔ بے پناہ رش کے باعث راستے مسدود تھے ۔ بھائی جان سید محمد کفیل بخاری صاحب اور راقم نے کچھ فاصلہ پیدل چل کر طے کیا اور پھر موٹر سائیکلوں پر قبرستان تک پہنچے یہاں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے محبوب راہنما کو اَلوداع کرنے کو موجود تھی۔
الحمد ﷲ عم مکرم کو لحد میں اُتارنے کے لئے برادر عزیز مولانا سید عطاء المنان بخاری، سید عطاء اﷲ ثالث بخاری، عزیزی مفتی سید صبیح الحسن ہمدانی اور راقم محمد معاویہ کو سعادت حاصل ہوئی۔ عم مکرم کی قبر ان کے والد حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ کے قدموں کی جانب اور ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المؤمن بخاری رحمہ اﷲ کے پہلو میں بنائی گئی ۔ تدفین کے بعد دُعا ہوئی ، لوگ اپنی اپنی محبت و عقیدت کا خراج پیش کرتے رہے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔
عم مکرم کو ظاہراً کوئی بیماری نہیں تھی لیکن معدہ کی کمزوری اور تکلیف ایک عرصہ تک لاحق رہی، اسی وجہ سے ضعف بڑھا اورچلنے پھرنے سے معذوری ہوگئی۔ سانس کی نالیوں میں کھچاؤ آگیا تھا اور گفتگو کرنے میں دقت ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ آخری اَیام میں گفتگو بہت کم فرماتے، بولنے میں دِقت ہوتی تھی، ہر شخص کو ان کی دھیمی آواز اورجملے سمجھ نہیں آتے تھے تاہم گھر کے افراد بات سمجھ لیتے تھے ۔ جس دن انتقال ہوا اُس روز خلاف ِ معمول فرمایا کہ مجھے کچھ کھانے کو دو، ہماری چچی صاحبہ نے شوربے میں بھیگی ہوئی چپاتی ثرید بنا کر پیش کی جس کے چند چمچ ہی تناول فرمائے۔ پھر فرمایا بس اور نہیں، معمول کی دوا کھلائی اور اس کے فورا بعد ہی طبیعت بگڑ گئی۔ چچی صاحبہ نے عزیزی سید عطاء المنان سلمہ سے کہا کہ جلدی آؤ اور دیکھو تمہارے اَبی کی طبیعت خراب ہو رہی ہے، لیکن
اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
وقت موعود آن پہنچا تھا، عم مکرم نے ایک گہری سانس لی اور اپنے خالق و مالک کو یاد کرتے ہوئے اسی کے سپرد ہو گئے۔ اِنّا ﷲ و اِنا الیہ راجون ۔ان کے آخری لمحات کی کیفیات کو سُنا تو بے اختیار قرآن مجید کی آیت ِ کریمہ یاد آگئی کہ جب اﷲ کے فرماں بردار بندوں کو پیغام اجل آتا ہے تو ان کے لئے حالت ِ نزع کے تکلیف دہ مرحلے اﷲ کریم اپنے فضل و کرم سے آسان فرما دیتے ہیں اورحکم ہوتا ہے کہ :
’’ یٰٓاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ Oارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ O وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ O (سورۂ الفجر، آیات،27تا30)‘‘
ترجمہ:’’ اے مطمئن روح چل اپنے رب کے جوار ِ رحمت کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی (ادھر چل کر) تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا ۔‘‘
عَمِّ مُکَرّم کو لحد میں اُتارتے ہوئے ضبط کے بندھن ٹوٹے تو بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا ، اپنے پیاروں کو منوں مٹی کے ڈھیر کے نیچے رکھتے ہوئے کیا گزرتی ہے؟ انسان کی ساری توانائیاں، عقل و دانش کی ساری منصوبہ بندیاں، وسائل کی دستیابیاں، اس ایک مرحلے پر آ کر کیسی بے دست و پا اور بے بسی ، بے قدرتی کی آخری حد کو چُھو جاتی ہیں اور بے ساختہ پرور ِ دگار عالم کا ازالی و اَبدی با جبروت پیغام سُنائی دینے لگتا ہے :
’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ O وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِِکْرَامِ‘‘ (سورۂ الرحمٰن، آیات26،27)
ترجمہ :’’جو کچھ ہے سب فنا کے گھاٹ اُترے گا اور باقی رہے گا ۔نام اُس جلالت پناہ اِکرام والے رب کا‘‘ جو اَوّل بھی ہے اور آخر بھی۔ اﷲ اکبر۔