پروفیسر خالد شبیر احمد
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے چوتھے بیٹے حضرت پیرجی مولانا سید عطاء المہیمن بخاری بھی داغ مفارقت دے گئے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون! لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں سے صرف اوجھل ہوتے ہیں لیکن مرتے نہیں۔ بقول شاعر:
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
اس شعر کی مصداق وہ آج بھی زندہ ہیں۔
ان چاروں بھائیوں حضرت مولانا ابو معاویہ ابو ذر بخاری رحمہ اﷲ علیہ، حضرت عطاء المحسن شاہ بخاری رحمہ اﷲ علیہ،حضرت عطاء المومن شاہ بخاری رحمہ اﷲ علیہ اور اب پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری نے وہ روشن کام کر دکھائے جو کئی لوگ مل کر بھی ایک صدی میں نہیں کرسکتے۔ میرا تعلق تو اس خاندان سے حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ سے چلتا آرہا ہے ۔یہ چاروں بھائی جب تک زندہ رہے جذب وجنون وعشق کا عنوان بنے رہے۔ بڑے بڑے غزالی دوراں ان کے علم وفضل کے سامنے منقار زیر پر رہے، ان کی جرأت و قوتِ اظہار، ان کی استقامت و ثبات، ان کا فقر و استغناء…… غرض کس کس بات کا ذکر ہو۔ان کے سینے میں دل اور دل میں ایک درد موجود تھا۔ وہ خود اس درد کا درماں تھے۔ تمام عمرعقیدہ ختم نبوت و رسالت کے تحفظ کے لیے شعلہ پراں بنے رہے۔
اﷲ اﷲ! کیسے انسان تھے۔ دشمنوں کے لیے طوفان بے پناہ اور اپنوں کے لیے کشتہ مہر وفا۔ انھوں نے اپنے لیے کٹھن راہیں چن لی تھیں جن پر وہ بڑے حوصلے کے ساتھ رواں دواں رہے۔ جنھیں کھلے پانیوں میں موج حوداث سے کھیلنے کا شوق ہوتا ہے انھیں ساحلوں سے کہاں لگاؤ رہتا ہے۔ سکون ان کے لیے موت اور اضطراب زندگی بن جاتی ہے۔ اپنے موقف کی صداقت پر یقین انھیں لازوال اعتماد کی دولت سے مالا مال کر گیا تھا۔ ان کا ضمیر مطمئن تھا کہ وہ راہ صداقت پر ہیں اور جن کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے وہ پوری دنیا سے لڑ جاتے ہیں۔ مجلس احرار پر پابندیوں کے بعد دوبارہ جماعت کا احیاء کوئی آسان کام نہ تھا لیکن آپ نے یہ کام بھی کر دکھایا۔ آج جماعت احرار اور ان کی قیادت کرنے والے سبھی انھی کے خلوص اور محنت کی کمائی ہیں۔ وہ احرار کی منزل کا نشان راہ تھے۔ نورایمانی سے جن کے خیال وسخن دونوں منور تھے ان کے خلوص کے قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔
آج جب میں اپنی زندگی کی آخری منزل پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہوں تو مڑ کر دیکھتا ہوں تو انھی محبوب و مکرم حضرات کی یادیں سرمایۂ حیات ہیں۔ان کی خطابت و تلاوت جب یاد آتی ہے سروسمن وجد میں آجاتے۔ ان کے پیار کی خوشبو نس نس میں مہک اٹھتی ہے۔ ان کے خیال سے ہی صحرائے زیست گلاب ونسترن بن جاتا ہے۔ ان کے لفظوں کی چاندنی ہماری تاریکیوں میں کہکشاں بنی رہی۔ وہ بلاشبہ صدق مہر ووفا اور جذب وعشق کا استعارہ تھے۔