مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
(گیارہویں قسط)
عورتوں کی شمولیت کا مسئلہ:
چودھری عبدالستار مرحوم خالص اسلامی ذہن کا مالک تھا۔ وہ جہاد کے معاملے میں عورت اور مرد کے لیے مختلف احکام کا قائل نہ تھا اور کہتا تھا کہ جب نفیرِ عام ہوتو جہادمرد و عورت پر یکساں فرض ہے۔ جو لوگ عورت کو مختلف جنسیت کی بنا پر سپاہیانہ زندگی سے محروم رکھتے ہیں اور رسمی پابندیوں کی بناء پر روح جہاد سے آشنا رکھتے ہیں،اسلام کے بدترین باغی ہیں۔ اگروہ خود بھی جہاد کریں تو بھی عورتوں کو جہاد کے قابل نہ بنانے پر پوچھے جائیں گے۔ کیا جس قوم کی نصف آبادی جوشِ جہاد سے بے خبر ہو، قوموں کی کشمکش میں اپنا مقام کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ جب قوم کے مرد شکست کھائیں گے تو وہی عورت جس کوہم نے چھوئی موئی بنا کر رکھا ہے۔ اقوامِ غالب کی عیش پسند یوں پر قربان ہوجائے گی۔ میں نے کہا بھیا تم سچ کہتے ہو۔ تو کہا تم سچ پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ بھئی میرادل کافر اور دماغ مسلمان ہے۔ علم اور عقل کی روسے اسلام کو برحق مانتے ہیں، مگر یہ شہنشاہی پسند بڑا کافر ہے، اپنی عورتوں کو پردے میں بٹھانے اور غریبوں کی عورتوں کے چہروں کو چاندماری کا ہدف بنانے کا عادی ہے۔ اگرچہ اقتصادی حالات نے بھُر کس نکال دیا ہے مگر دل راجپوتی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اسلام کا نقش گہرا نہیں کہ ہماری عورتیں بھی اﷲ رسول کے نام پر قربان ہونے کے لیے نکل پڑیں ہم لوگ تو سچ پوچھو اسلام کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرتے ہیں خود اسلام کے لیے استعمال ہونا نہیں جانتے۔
میں نے انھیں یہ بھی کہا کہ جب آپ ابھی تشریف نہ لائے تھے، عورتوں نے سول نافرمانی کی خواہش کی تھی۔ تحریک کا وہ جو بن تھا۔ جب تحریک بہار پر ہو تو ہر ایک کا دل لہراتا ہے، چاہتا ہے کہ بہاؤ کے ساتھ بہتا جاؤں۔ انبوہ کے ساتھ موت میں بھی مزاہے۔ لیکن جماعت کے مذہبی عنصر اور تھوڑا بہت سرمایہ دارانہ ذہن اور شاہی دماغ رکھنے والوں نے سول نافرمانی کو عورت کی توہین اورمردوں کی عزت کے منافی قرار دیا ہے۔ اب جبکہ تحریک کا زور رمضان مبارک کے باعث کمزور ہوگیا ہے، اب عالی حوصلہ عورتیں کہاں سے آئیں گی کہ اس سردبازاری او رسست رفتاری میں خود قربان ہو کر مردوں کی غیرت کو للکاریں۔جب مردوں کا مذہب میدانِ محاربہ کو چھوڑ کر رمضان کے روزوں اورنمازوں کے لیے معتکف ہوجانا ہو تو حالاتِ زمانہ سے ناواقف رکھی ہوئی عورتیں تعلیمِ اسلامی سے بے خبر بے چاریاں کیا پہاڑڈھائیں ؟جہاد مردو عورت پر یکساں فرض ہے مگر جب مرد معتکف ہوجائیں تو خاص دل و دماغ کی عورتیں ہی عزم بلند لے کرنکلیں تو نکلیں۔
میں نے ہزار کہا: بھائی! جب سب علماء، صوفیا اور لیڈروں کی بیبیاں گھروں میں بیٹھی ہوں، تم بھی اپنی گھروالی کو لے جاؤ۔ اسے جیل نہ دکھاؤ۔ کیونکہ مسلمان کم علم اور بسیار گو ہیں طعنہ دیں گے کہ مسلمان مرد مر گئے تھے جو عورتوں کو آگے کیا؟ کہنے لگے کہ ایسے بہادر پھر جائیں جیل، میں بیوی کو روک لوں گا۔میں نے کہا: جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ طعنہ دینے والے قیامت تک کام نہیں کرتے، البتہ کام کرنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ مگر اس نے ایک نہ سنی اپنی بیوی کو جیل جانے کے لیے آمادہ کرلیا ۔ چودھری صاحب موصوف کی اہلیہ بیچاری گھر گھر پھری کہ کچھ اور عورتوں کو آمادہ کر سکے۔ فی زمانہ خود لیڈروں کی عورتوں کو قربانی سے سروکارنہیں ہوتا۔ علماء کی بیویاں جاہل صوفیاء کی گھر والیاں نمازوں سے بیزار۔ ہم نے قربانی اور علمِ دین کو نام کی شہرت کا باعث بنایا ہوا ہے۔ لیڈری، علم اور دینداری آج کل بطورِ فن زیرِ استعمال ہیں اور وہ بھی ذاتی فن۔ ان فنون سے اہل خانہ کو آشنا کرنا ضروری نہیں سمجھاجاتا۔ جب مذہب اور علم ترقی ٔ درجات اور جلب منفعت کے کام آئے تو ایسے ہی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ غرض ہر دہلیز پر ماتھا رگڑنے کے باوجود چوہدری صاحب اور ان کی اہلیہ اور ان کی ساتھی عورتیں صنف نازک کو جیل کی سختیوں کے لیے آمادہ نہ کرسکیں۔ مجھے انھوں نے رپورٹ دی کہ سب لیڈروں، ایڈیٹروں،عالموں اور صوفیوں کی عورتوں کو اسلامی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ سخت کندہ ناتراش ہیں۔ میں نے کہا کہ چراغ تلے اندھیرا ہی رہا کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اندھیرا ہونا چنداں قابل اعتراض نہیں، مگر بات کرو تو وہ کاٹ کھانے کو آتی ہیں۔ میں نے کہا انسان بھی جانور ہے نہ سدھایا جائے تو آخر کاٹنے ہی کو آئے گا۔
باوجود حوصلہ شکن حالات کے ان عورتوں نے ہمت نہ ہاری۔ انھوں نے احرار کی زنانہ شاخ کا اعلان کیا۔ مختلف بیانات کے ذریعے مسلمانوں کے سرد سینوں میں ایمان کی بجھی چنگاریوں کو ہوا دینا شروع کی۔ سلگتی کو بھڑکایا جاسکتا ہے، مگر اوس پڑے ایندھن کو جلایا نہیں جا سکتا۔
ولولوں کا سرد پڑجانا:
مختلف قوموں کے مختلف مزاج ہوتے ہیں جن کا انحصار ان کی مذہبی اور قومی تعلیم پر ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کا ماحول ایسا روح فرسا ہے کہ ان میں قوت عمل بے حد کمزور ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اعتبار سے کانگریس اور احرار اگر ہندوستان کی دونمائندہ جماعتیں مانی جائیں تو مسلمانوں کی قوت عمل کا اندازہ نصف ہے۔ کانگریس ایک سال تک سول نافرمانی کر سکتی ہے تو احرار سول نافرمانی کو چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلا سکتے۔ کشمیر کی تحریک کا یہی میرا اندازہ تھا۔اگر درمیان میں رمضان نہ آجاتا تو شاید میرا قیاس درست نکلتا۔ یہ میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ مجاہد روزوں کے بہانے کھسک جائیں گے۔ ہمارے دلوں میں مذہب نے کیسی بری صورت اختیار کرلی ہے۔ جہاد قولی عبادتوں اور رسمی روزوں پر قربان کیا جانے لگا ہے، غرض جونہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ رمضان میں عام مسلمانوں کی خاموشی میدان سے باقاعدہ پسپائی نہ تھی۔ بلکہ ہتھیار اٹھانے سے کانوں پر ہاتھ دھرنا تھا۔ ان حالات میں دفتر نے اعلان کردیا کہ عید کے بعد سول نافرمانی کا پروگرام زوروں سے جاری کیا جائے گا۔ حالانکہ اب کسی زور شور کی امید باقی نہ تھی۔ اب ہمارے پاس بہت تھوڑے والنٹیئر رہ گئے تھے۔ وہ بھی کٹے پتنگ کی طرح اداس اور اکیلے اکیلے سڑک کے حاشیوں پر پھرتے تھے۔ بھاگڑ مچی فوج کادوبارہ مربوط ہو کر لڑنا خوش قسمتی کا کھیل ہوتا ہے۔ ورنہ قانون قدرت یہی ہے کہ صفوں کے اکھڑے پاؤں نہیں جمتے۔ اسی لیے پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے چارنمازوں کو موخر کر دیا تھا لیکن سپاہ کی صفوں کو نہ چھوڑا اور میدان سے منہ نہ موڑا تھا۔ اسی باعث صفوں میں انتشار شکست کا پیش خیمہ ہوتا ہے، ٹوٹی ہوئی ہمتیں مشکل ہی سے بندھتی ہیں، اب بچی کھچی فوج کا بہترین استعمال کر کے جو فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا، اٹھانے کا سوال تھا تاکہ تھوڑا عمل بھی زیادہ معلوم ہو۔
اس وقت کانگریس کی سول نافرمانی شروع تھی، لیکن احرار کے عدم شمولیت کے باعث اس کی حیثیت خالص ہندوؤں کے مظاہرے سے زیادہ نہ تھی۔ ہمارے سامنے سوا ل یہ تھا کہ کانگرس کی سول نافرمانی میں شریک ہو کر انگریز کے گھاؤ کو گہرا کریں شاید یوں انگریز ریاست کے مسلمانوں سے انصاف کرنے پر مجبور ہوجائے۔ علاوہ ازیں یہ بھی مقصود تھا کہ کانگریس کی تحریک مسلمانوں کی شمولیت کے بغیر نہ رہ جائے۔آخر یہی مناسب خیال کیا گیا کہ اپنے پلیٹ فارم کو قائم رکھ کر مقامی طور پر بدیشی کپڑے کی دوکانوں پر پکٹنگ لگا دی جائے۔ اس طرح مجلس اخراجات کی زیرباری سے بچے گی کیونکہ احرار کا خزانہ خالی ہوچکا تھا۔
گلینسی کمیشن کاتقرر:
ریاست کے اندر اور باہر کے حالات جب پورے طور پر مخدوش تھے، حکومت انگریزی نے بھڑ کتے شعلوں پر پانی ڈالنے کے لیے گلینسی کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا۔ حکومت پنجاب اب تک احرار کے تعاون کے لیے بے تاب تھی، اسے علم نہ تھا کہ ہماری تحریک رمضان کے مبارک مہینہ کی نذر ہوچکی ہے۔ سرسکندر حیات ذاتی طور پر یاسرکاری طور پر مسلمانوں کے کسی متفقہ مطالبے سے واقف ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ ان کی کوٹھی پر مختلف اسلامی جماعتوں کے نمائندوں کا اجتماع ہوا۔ میں احرار کی طرف سے، مرزا بشیرالدین محمود اپنی کشمیر کمیٹی کی طرف سے، ملک برکت علی لیگ کی طرف سے، غالباً محسن شاہ صاحب کشمیر کانفرنس کی طرف سے اور نواب مظفر خان ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے۔ چائے کے ساتھ ساتھ ریاستی حالات پر بحث شروع ہوئی۔ مجھے اصرار تھا کہ ریاست کشمیر میں بھی پنجاب کا سادہ عملی آئین فوراً جاری کردیاجائے۔ مرزا بشیرالدین محمود متردد تھا، غالباً دلیل یہ تھی کہ ریاست کا مسلمان ابھی تک ایسے آئین کے لیے تیار نہیں۔ کیا جانے کیوں مرزا بشیرالدین محمود نے یک بیک مجھ پر انتخابات میں کرم فرمائیوں کا ذکر شروع کردیا۔ حاضرین کو اصل موضوع سے گریز پر تعجب ہوا، اور مجھے خلاف واقعہ احسان جتانے پر غصہ آیا۔ میں نے کہا مرزا صاحب کوئی الیکشن ایسا نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی سے چوٹی تک کا زور نہ لگایاہو اور ایک میرا ہی کیا ذکر تمام آزاد خیال مسلمانوں کی مخالفت آپ نے مذہبی فرض سمجھا ہوا ہے۔ ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہی ہے کہ اس جماعت کو مٹاکر چھوڑیں گے۔ ابھی اور بات بڑھا ہی چاہتی تھی کہ نواب مظفر خان نے بیچ بچاؤ کردیا۔ آخرقرار یہ پایا کہ متفق ہو کر پنجاب کے موجودہ آئین کو ریاست میں نافذ کرنے پر زور دیا جائے۔ لیکن مرزا صاحب اپنے قول پر قائم نہ رہے اور گلینسی کمیشن کی تقرری کے اعلان کو تسلیم کر لیا مگر احرار نے اس کے ساتھ تعاون سے قطعی انکار کردیا۔
جیل میں ورکنگ کمیٹی:
پنجاب گورنمنٹ کو اصرار تھا کہ احرار گلینسی کمیشن کے اعلان شدہ’’امور پر تنقیح‘‘ کا مطلب پنجاب کے آئین کا اجرا لے سکتے ہیں۔ مگر اعلان شدہ امور تنقیح طلب میں یہ بات صاف نہ تھی کہ یہ کمیشن کشمیر کے لیے پنجاب کا ساآئین مرتب کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انگریز کے کمیشنوں کا ہمیں تجزیہ ہے کہ سبز باغ دکھا کر قوموں کو سراب کی نذر کردیتے ہیں۔ اس لیے انگریزوں کی سیاسی تحریروں سے امید سے بڑھ کر امید کرنا اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کرنا ہے۔ ورکنگ کمیٹی کئی بار جیل میں اکٹھی ہوئی ورکنگ کمیٹی کے ممبران کے علاوہ لاہور جیل کے دوسرے احرار قیدیوں سے ملنے اور مشورہ کرنے کی پوری آزادی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی مسلمان جماعت کو بھی گورنمنٹ نے جیل میں ورکنگ کمیٹی کااجلاس کرنے کا حق دیا۔ دنیا میں طاقت کا بول بالا ہے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس پر سر محمد شفیع صاحب مرحوم نے بھی ان دنوں کانگریس کی قربانیوں کے مقابلے میں احرار کو بڑھا کر کہا تھا کہ ہندو سمجھ لیں کہ مسلمانوں میں احرار جماعت ہے۔ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ حکومت انگریزی بھی متاثر تھی ۔ اس لیے جہاں کانگریس کو ایک سال پہلے آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کو جیل میں اجلاس کرنے کی اجازت دی گئی تھی ویسی اجازت احرار کو بھی دی گئی۔ لیکن دوستوں میں سے کسی نے گلینسی کمیشن کو قبول کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مولانا مفتی کفایت اﷲ اور مولانا احمد سعید ہر ملاقات میں موجود رہتے تھے۔ وہ بھی احرار ورکنگ کمیٹی کے ہم خیال تھے۔ ہماری رائے یہ تھی کہ ان تنقیح طلب امور کی موجودگی میں گلینسی کمیشن کو کشمیر کے لیے ذمہ دار حکومت کی سفارش کرنے کا کوئی حق ہی نہیں۔ بجز اس کے کہ وہ بہت ہمت سے کام لے لیکن انگریز حقوق دینے کے بجائے حقوق لینے کا عادی ہے۔ مقدر نے اسے شاہ بنایا ہے ۔بنیا شاہ ہے آنکھ بچے توڈنڈی ضرور مار جاتا ہے۔ غرض احرار نے امور تنقیح طلب کو نامنظور کرکے قید کی پوری میعاد بھگتنے کا اعلان کردیا اور ادھوری تمناؤں کے لیے آزادی حاصل کرنا گوارانہ کی۔ اب سوائے جنگ کو جاری رکھنے کے چارہ کار نہ تھا۔
مسلمانوں میں حقہ نوشی:
یہ نہیں کہ ایک صرف میری ہی فطرت اس گندی عادت کی متحمل نہیں، بلکہ ساری ورکنگ کمیٹی اس امر کی شاہد عدل ہے کہ حقہ نوشی گندہ دہنی کے علاوہ مسلمانوں میں کم ہمتی کا سب سے بڑا باعث ہے۔ حقہ نوش قوم کبھی سپاہی نہیں ہوسکتی۔ کسَل اور کاہلی حقہ نوش قوموں کا امتیازِ خاص ہے۔ سول نافرمانی میں ہماری سب سے بڑی کمزوری یہی بدعادت تھی۔ حقہ نوشوں نے قیامت بپا کردی ۔ جیل میں آنے کے دو گھنٹہ بعد ہی منہ کھول کھول کر جمائیاں لینے لگے۔ کچھ اور عرصہ گذرا تو طبیعت پر اور قہر ٹوٹا دن گزرا توصبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا۔ ساتھ والوں کی منتیں کرنے لگے کہ کہیں سے حقہ ملے تو عمر بھر احسان مانوں۔جب تک حقے کی بجائے سگریٹ کے کش نہ لگائے برابرمنہ سے پانی جاری رہا۔ جیل میں سگریٹ کی اجازت کہاں۔ جب نہیں ملتا توجان پر بن جاتی ہے۔ رات کالی ڈائن کی طرح بال کھولے کھڑی نظر آتی ہے ۔ دن پہاڑ دکھائی دیتا ہے مسلمان کو کئی کئی دن روٹی نہ ملے تو کچھ پر وا نہیں۔لیکن ایک حقہ سگریٹ کا ناغہ برداشت نہیں ہوتا۔ پیٹ پر پتھر باندھ سکتا ہے مگر نشے سے صبر نہیں کر سکتا۔ قوم کی عزت وشان بیچ کر معافی مانگ ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کا سیدھا راستہ لیتا ہے۔ پھر کیا نشے کے عادی افراد کے بل بوتے پر قومی جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ حقے کی تباہ کاری کا حال زمینداروں کے حال میں اور نمایاں ہے ایک ہی گاؤں میں دوقومیں یعنی مسلمان او رسکھ بستے ہیں۔ یہ سکھ جہاں حقہ نوش نہیں وہاں ان کے کھیت لہلہاتے ہیں۔ اس کے برخلاف مسلمان زمینداروں کے کھیتوں میں خاک اڑتی ہے۔ جھاڑیاں کھڑی ہیں۔ حقہ نوش شخص صوفی کے مقابلے میں نصف محنت بھی نہیں کرتا۔ ایک ہی گاؤں میں سنیوں اور اہل حدیثوں کا حال دیکھو، اہل حدیث حقہ نہیں پیتے ان کی کھیتی زر اگلتی ہے۔ اسی جیسی زمین پر حقے کا عادی سنی کاشت کرتا ہے تو محض غم برداشت کرتا ہے اور کچھ پلے نہیں پڑتا۔ یہ اس لیے کہ حقہ نوش کاہل اور محنت سے جی چرانے والا ہوتا ہے سچ تو یہ ہے کہ حقہ نوش شخص حاملہ عورت سے بھی زیادہ ناکارہ اور نکما ہوتاہے وہ تو پیٹ میں بوجھ اٹھائے پھرتی ہے، کام کے لیے ہاتھ خالی ہوتے ہیں مگر یہ بچے کا باپ بچے سے زیادہ بوجھل حقے کو ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا ہے۔ حقہ اٹھانے والی قوم کھیتی کرنے اور ہتھیار اٹھانے کے لائق نہیں رہتی۔ اسلحہ اٹھا کر چلے یاحقہ ہاتھ سے ہل چلائے یا منہ سے نَے لگائے۔ کیا قیامت ہے کہ کافر تو صبح اُٹھ کر منہ صاف کرنے کی فکر کرتا ہے مسلمان حقہ نوش دہن کو اور گندہ کرنے کاسامان کرتا ہے۔
بعض لوگ طبی لحاظ سے حقے کو سگریٹ پر ترجیح دیتے ہیں، مگر احرار ان طبی ترجیحات پر بحث نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک دونوں سخت مضر ہیں۔لیکن حقے کا وزن حقہ نوش کو فوراً بیکار کردیتا ہے۔ حقے کو سلگاؤ تو بیٹھ کر پیو، کھڑے ہوتو اس کو ساتھ اٹھاؤ ایک مصیبت ہے۔ سلگانے، تازہ کرنے میں کتنا وقت ضائع ہوتا ہے۔ حقہ نوش قوم کے نزدیک وقت کی کوئی قدر نہیں، محنت کی کوئی قدر نہیں۔ ذرا حقہ نوش مزدور کو عمارت کے کام پر لگا کر دیکھ لو، تمہیں خود اس بیان کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔ کبھی آگ بناتا، کبھی سلگا تا، کبھی حقہ تازہ کرتا، کبھی اس کو کش لگاتا پاؤ گے۔ بھلا ایسی قوم کو کوئی مزدوری پر کیسے لگائے۔ان حالات کے پیش نظر خصوصاً تمباکو نوشوں کی معافیوں کو دیکھ کر احرار نے فیصلہ کیا ہے کہ تمباکو کے خلاف جہاد کیا جائے۔ کیسے مشکل کام پر ہاتھ ڈالا ہے۔ خدا خیرکرے مسلمانوں میں عادت راسخ ہوگئی ہے۔
ریاست سے ہجرت:
علاقہ میر پور میں زیادہ تراسلامی آبادی تھی۔ وہاں جو ہل چل ہوئی توانتظام مسلمان افسروں کے سپرد ہوا۔ غیر مسلموں کے مظالم ان کے مقابلے میں گردہوگئے۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ مصیبتوں سے کہیں پناہ نہ پاکر ریاستی مسلمان دھڑادھڑ انگریزی علاقے میں چلے آئے۔ اف بے سروسامانی اور غریب الوطنی! گھروں میں آرام کے دن گزارنے والے کیا جانیں کہ رضاکارانہ جلاوطنی بھی کتنی دردناک ہوتی ہے۔ گھر کے درودیوار یاد آتے ہیں تو پہروں یاد آتے ہیں ۔ وہ ہوائیں وہ فضائیں جن میں پرورش پائی ہو، دیارِ غیر میں بہشت کی فضاؤں اور ہواؤں سے زیادہ دل کش اور خوش گوار معلوم ہوتی ہیں۔ غریب الوطنی کی شام جیل کی شام سے زیادہ اداس اور گورِ غریباں سے زیادہ بھیانک نظر آتی ہے۔ اور صبح پھانسی کی صبح کی طرح زرد اور یا س انگیز دکھائی دیتی ہے۔ کون غریب ہے جو دکھیا ہونے کے بغیر گھر سے نکلتا ہے۔ جہلم کے کنارے یہ قافلے اتر ے۔ شہر ہے ہی کتنا جو مہاجرین کی بڑی تعداد کے لیے پناہ گاہ ہوتا۔ باشندوں نے بڑی جان لڑائی مگر یہ بوجھ ان کی برداشت سے زیادہ تھا۔ اس لیے سیالکوٹ کے غیور مسلمان پھر کام آئے۔ ایک بڑی تعداد کو اپنے شہر میں رکھنے کے لیے آئے آئے۔
میں اس نقل مکانی کو مناسب نہ سمجھتا تھا ہندوستان کے مسلمانوں کی افغانستان کی طرف ہجرت کا واقعہ میرے سامنے تھا۔ ایسے بوجھ کو توسلطنت بھی برداشت نہیں کرسکتی اس لیے ہم نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا کہ احرار کا ارادہ ہے کہ ہر شہر میں ریاست کے ان مہاجرین کو پہنچایا جائے، چونکہ اب ریاست میں انگریزی انتظام تھا۔ اس لیے انگریزی اور ریاستی حکام دونوں کو اپنی بدنامی معلوم ہوئی۔ انھوں نے مہاجرین کو واپس بلانے کے لیے آدمی بھیجے۔ لوگوں میں پھر ہیجان سا پیدا ہوگیا۔ کچھ امراء نے بھی رقم جمع کی اور یہ رقم ہمارے انتظام میں نہیں دی بلکہ جہلم میں ہجرت کمیٹی بنا کر یہ روپیہ اس کے سپرد کیا۔ کچھ رقم مظلومین ریاست کے لیے جمعیت العلماء کے دفتر میں آئی۔ انھوں نے بھی اس کو اپنے نمائندے کی معرفت خرچ کرنا مناسب سمجھا۔ ابھی مہاجرین کی آمد آمد تھی کہ ریاست کے حکام اور انگریزی پولیس کے تعاون سے پھر ان مہاجرین کو لاریوں میں لاد کر واپس لے گئے۔ بارے اتنا ہوا کہ مظالم کم ہوئے اور سب کو تسلی دی گئی کہ گلینسی کمیشن کا نتیجہ دیکھو ریاست کی کاپلٹ ہونے والی ہے۔
باب سوم
بعض اوقات اخلاص جو روح جہاد ہے افلا س پر قربان ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ تحریک سے جان نکل چکی تھی۔ لیکن مخلصین کا ایک حصہ ایسا ضرور تھا کہ اگر ان کے بچوں کے نان ونمک کا سامان کردیا جائے تو وہ جیل کو کھیل سمجھیں۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مالی مدد بہم پہنچائی جائے۔ سیالکوٹ میں ایک معقول رقم پڑی تھی، دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم خود جاؤ لے آؤ۔ وقت کی بات ہو تی ہے کہ سیالکوٹ کے مقامی کارکن ایک کانگریسی دوست کے زیر اثر آچکے تھے انہوں نے اتنے بھر ے جلسے میں کہہ دیا کہ یہ رقم مرکز کو نہیں مل سکتی۔ یہ بہت ہی برا ہوا۔ اگر یہ مدد مل جاتی توقیاس تھا کہ تحریک ایک ماہ اور بغیر ہماری کمزوری کے اظہار کے زور پر نظر آتی۔ یہ مہینہ فیصلہ کن ہوتا۔ حکومت انگریزی اور ریاست کافی گھبرائی ہوئی تھیں۔ تعجب نہ تھا کہ بہت بڑی عزت کے ساتھ سمجھوتہ ہوجاتا۔ دوست اور دشمن مسلمانوں کا اور لوہا مانتے۔
سیالکوٹ کی رپورٹ سے حکومت پر ہماری حالت بالکل واضح ہو گئی۔ آج کل کی حکومتیں ایسی بے خبر کہاں؟ اتنے مہینے میں مشکل میں ایک آدھ بار دفتر سے نیچے اترا تھا۔ سیال کوٹ سے ناکام واپسی پر اب لاہور میں مالی مدد حاصل کرنے کے لیے دروازے دیکھنے پڑے۔ سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ بیمار نہیں ہوشیار ہے۔ بیماری کے نام پر خود کو دارو گیر سے بچار ہا ہے۔ چنانچہ چیف سیکرٹری کی طرف سے حکم ملا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر لاہور سے چلے جاؤ۔ اور اپنے وطن گڑھ شنکر میں نظر بندر ہو، دوستوں نے یہی مشورہ دیا کہ جس راستے سب چلے اسی راستے تم چلو یعنی گھر نہ جاؤ جیل جاؤ۔
بزدل اور بہادر:
شاید نوجوان میری طبیعت سے اپنی طبیعت کا موازنہ کر کے فائدہ حاصل کرسکیں میں بے حد محتاط طبیعت ہوں۔ محتاط انسان کا خمیر ما یہ بزدلی سے اٹھایا جاتا ہے۔ اس لیے طبیعت کے لحاظ سے بزدل ہوں۔ ہر قدم پر گڑھے نظر آتے ہیں۔ والدہ کی تربیت نے طبیعت میں فرض کا گہرا احساس پیدا کیا ہوا ہے۔ کچھ بہادر دوستوں کی صحبت بھی بزدلوں کو بہادر بنادیتی ہے۔ ان دو اثرات کے باعث پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں مگر میدان سے منہ موڑ نے کو جی نہیں چاہتا۔ ڈرتے ڈراتے بڑھاچلا جاتا ہوں۔ بہادری خوف سے بالکل بے نیاز ہوجانے کا نام نہیں۔ ڈرتے مرتے بڑھے جانے ہی کو شاید بہادری کہتے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو میں ضرور بزدل ہوں مگر وقت پر کام دے جانے والا۔ شاید آج سے پہلے کسی کو میرا یہ راز معلوم نہ ہو کہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھتا ہوں۔ ممکن ہے کہ انھیں یہ غلط فہمی ہو کہ میں آتش نمرود میں بے خطر کود جانے والا ہوں۔ ہم میں سے میری طرح جو بھی بزدل ہے وہ فرض کا گہرا احساس ہی کر لے تو جماعت کا کام چل سکتا ہے۔ ورنہ بزدل لیڈر اپنی جان بچانے کو ساری پارٹی کی بربادی کا باعث ہوتے ہیں اور میدان سے پیٹھ دکھا کر فتح کو شکست میں بدل دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ لیڈر ی کا اعزاز چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ الٹے قدم لوٹا لینے کے جواز میں دلائل دینا شروع کرتے ہیں جس سے لوگوں میں بزدلی بڑھتی ہے۔ لیڈر کو بعض اوقات یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں بزدل ہوں اس لیے چاہیے کہ دلائل میں دل کے تقاضوں کو دخل کا موقعہ نہ دے۔ صرف دماغ ہی سے سوچے جب دماغ یہ کہے کہ قربانی کا وقت آگیا ہے تو دل کی آواز پر کان نہ دھرے اﷲ کا نام لے کر کو د جائے۔ دنیا کے مفاد سے آنکھیں بند کر کے ہی آخرت کی دولت ملتی ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ دل کے ہاتھوں میرے دماغ نے شکست کھائی ہے مگر عموماً دماغ ہی میرے دل پر حکمران رہتا ہے۔ یہاں تک کہ میدان عشق و محبت میں بھی دلائل سے کام لے کر وارفتگی سے بچ جاتا ہوں۔ اس طرح احتیاط میرا جو ہرِخاص ہے میں نے اس تحریک میں بھی بچنے کی بڑی کوشش کی۔ مگر اب جب وقت آگیا تو باوجود خرابی صحت کے جو میری زندگی کا جزو لازم ہے۔ دوستوں کے مشورے کو قبول کرنے میں زیادہ تر دد نہیں ہوا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے جیل کی نسبت نظر بندی قبول کی۔ تو جماعت کی بدنامی اور کئی نوجوانوں کی دل شکنی ہوگی جوباوجود افلاس کے بھی قیدیں صبر سے کاٹ رہے ہیں۔ اگر میں جیل کاٹ آیا تو دوست دشمن سبھی کہیں گے کہ احرار کاآخری سپاہی بھی ہمت نہ ہارا۔ یہ میں آپ بیتی سمجھ کر نہیں لکھ رہا۔ غرض صرف یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد کو معلوم ہو کہ قربانی میں ہر شخص کو خطرہ معلوم ہوتا ہے اور دل ڈرتا ہے۔ اس ڈر کو فرض کے احساس سے دور کرنا چاہیے۔ احساس زیاں اور خوف کے باوجود آگے بڑھنا ہی قربانی اور بہادری ہے۔ خوف کا دل کے کسی گوشے میں نہ ہونا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ خوف پر قابو پانا ہی مجاہد کی حقیقی کامیابی ہے۔ جس احرار کے دل میں اقدام کے موقع پر خوف طاری ہو۔ وہ اپنے کو بزدل سمجھ کربھاگ نہ نکلے بلکہ احساس فرض کو سامنے رکھے اور کود جائے۔ اس طرح دنیا میں بہادری کے جوہر دکھائے۔
عورتوں کی سول نافرمانی:
غرض میں تکلیفوں کا چارج چوہدری عبدالستار کو دے گیا۔ مجھے ایک سال کی سزا ہوئی۔ مرحوم محض پر جوش مسلمان اور بے خوف مجاہد ہی نہ تھا بلکہ چوہدری عبدالحق بیرسٹر صدر میونسپل کمیٹی فیروزپور کا بھائی اور خود ڈسٹرکٹ بورڈ کا ممبر اورحزب الاختلاف کا لیڈر تھا۔ الیکشنوں کے کئی میدان مارے ہوئے تھا۔ اس طرح وہ سیاسیات میں خاصا منجھا ہوا تھا۔ لیکن مردہ تحریک کو زندہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔ اس نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور بڑے جتن کیے مگر خاکستر کو کون سلگا سکتا ہے؟ ناچار عورتوں کو آگے بڑھایا کہ شاید مردوں کی ہمت بڑھے۔ مگر ان کی نبضیں چھوٹی ہوئی تھیں۔ علاوہ ازیں سرہری کشن کول کی جگہ مسٹر کالوِن وزیراعظم بنائے گئے تھے۔ ہندو کو برسر اقتدار دیکھ کر مسلمان عوام بے قرار ہوجاتے ہیں۔ اب ریاست میں ایک انگریز کو حاکم دیکھ کر مطمئن ہوگئے تھے۔ اس لیے نہیں کہ ان کے خیال میں انگریز ہندو سے بہتر ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ہندوؤں کے عوام کے ساتھ طرزِ عمل سے بے حد دل برداشتہ ہیں۔ جو ان سے اچھوتوں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عوام ان کو ہر شعبہ زندگی میں ذلیل رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اس سلوک کا انتقام لینے کے لیے وہ اپنے جان اور مال کی بھی پروانہیں کرتے۔
باوجود ان صاف حالات کے مرحوم نے ہمت نہ ہاری ان کی بیچاری اہلیہ نے مردوں کے مجمعوں میں جا کر چوہدر ی صاحب کی لکھی تقریریں سنائیں۔ مگر قوت بیان ہر ایک میں کہاں۔ عوام سامعین میں یہ نقص ہوتا ہے کہ وہ لیکچروں کو بھی سامان تفریح سمجھتے ہیں۔ جہاں تقریر لطافت و ظرافت سے خالی پائی وہیں کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑ ے ہوئے۔ جہاں کسی نے سراور تال کے ساتھ کوئی شعر سنایا بغیر مطلب سمجھے جھوم گئے۔ ہر طرف واہ واوکے ڈونگر سے برسنے لگے۔ قیاس کروایسے مزاج کے عوام میں کوئی پردہ دار عورت لکھی ہوئی تقریر کو پڑھ کر کیا خاک اثر پیدا کرسکتی ہے۔ تاہم اس بہادر عورت نے بھاگ دوڑ میں حد کردی مگر تحریک میں جان پیدا نہ کرسکی۔ آخر چھے ماہ کی سزا ہوئی۔ عموماً غیر مسلم عورتوں کو بہتر کلاس میں رکھا جاتا تھا لیکن یہ نیک خاتون معمولی قیدیوں میں دن کاٹ کر آئی۔
(جاری ہے)