پروفیسر خالد شبیر احمد
رخصت ہوئے عطاء المہیمن جہان سے الفت تھی سب کو دین کے اس پاسبان سے
اُن کے وفورِ شوق کی لاؤ کوئی مثال روشن تھے نورِ حق سے سبھی اُن کے ماہ وسال
دل کو لُبھا گئی مرے ان کی ہر اک ادا دِکھلا گئے زمانے کو وہ حق کا راستا
کس اوج پہ تھی آپ کی وہ شوکتِ جنوں طاری دل ونگہ پہ مرے جس کا ہے فسوں
اسلافِ با صفا کی تھے تصویر ہو بہو تھا دل فدائے حق تو ہر اک حرف باوضو
اُن جیسا پاکباز ملے گا بھلا کہاں غم جن کابن گیا ہے ہر اک دل کاترجماں
بے مثل تھے، نجیب تھے عظمت کی آبرو حکم اِلہٰ کی تھی حکومت کی آرزو
اُن کے جنوں پہ دانشِ دنیا ہوئی نثار ہر اہلِ دل پہ کر گئے وہ دیں کو آشکار
نس نس میں اپنی رکھتے تھے وہ بُوذری ترنگ فرعونِ وقت سے رہی ہر آن اُن کی جنگ
کام اس طرح وہ ختمِ نبوت کا کر گئے احرار کے دلوں میں عجب جوش بھر گئے
محفل میں جب بھی ہوتی تھی سیرت پر گفتگو لگتا تھا نور پھیلا ہوا ان کے چارسو
کس اوج پر تھی قوتِ اظہار آپ کی ہر دل کو چھونے والی تھی گفتار آپ کی
تھے شہرِ ذوق وشوق کے بے مثل شہر یار رحلت پہ ان کی آنکھ ہے دنیا کی اشکبار
اس دورِ بدنصیب میں اک دیدہ ور تھے وہ اﷲ کے ولی تھے اور اہلِ نظر تھے وہ
فقر وغنا سراپا تھے، حق کے سفیر تھے خالدؔ وہ بے مثال تھے اور بے نظیر تھے