حبیب الرحمن بٹالوی
6فروری 2021ء ہفتے کے دن کوئی 4بجے شام، میں اپنے مہربان دوست پروفیسر منیر ابن رزمی سے فون پر بات کر رہا تھا کہ اچانک اُنہوں نے بتایا۔ فیس بک پر خبر آرہی ہے کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے سب سے چھوٹے فرزند سید عطاء المہیمن بخاری انتقال کرگئے ہیں۔ بیمار تو وہ کافی عرصے سے تھے۔ جمعے والے دن طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور ہفتے کی دوپہر 2:45بجے خالق حقیقی سے جاملے کہ آخر ہر ایک نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ سوائے اُس کے کسی کوبقا نہیں۔ یہاں کے ہر مکان پر فنا کی تختی لگی ہوئی ہے۔
کتابی چہرہ، دہرابدن، سفیدڈاڑھی، سرخ وسفید رنگت، چہرے میں حُسن، ہاتھ کے سخی، دل کے غنی، ایک پرُکشش شخصیت، انتہائی بلند اخلاق، ایک طاقت ور اور توانا آواز، آواز میں تاثیر، باپ کی تصویر، خود بھی اُجلے گفتار بھی اُجلی، غم گساری اور ہمدردی کا مرقع، خلوص ومحبت کا منبع، ایک عظیم انسان، خود داری، اور درویشی میں زندگی بسر کی، ظاہر باطن شفاف اتنا کہ اپنے کردار کے دامن پرخراش تک نہیں آنے دی۔
ع اے تو مجموعۂ خوبی بچہ نامت خوانم
پیرجی نے تقربیاً چودہ برس، مدینہ منورہ میں گزارے۔ تلاوت قرآن پاک اور درود شریف ورد زباں رہا۔ وہاں اُن سے ملنے والے بتاتے ہیں کہ پیرجی کے دسترخوان پر مہمان ضرور ہوتے تھے۔ اُن کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ دودھ ، مکھن، شہد۔ انڈہ،ڈبل روٹی، زیتون، کھجور جو کچھ میسر آتا، دستر خوان پر چُن دیتے۔ آپ خود بعد میں مہمانوں کا بچا کھچا کھاتے۔ اپنی گزرا وقات کے لیے مزدوری کرتے۔ ایک دفعہ ہوائی اڈے پر مزدور عملہ رخصت پر تھا۔ پورے کاپورا جہاز پیرجی نے اپنے کندھوں پر خالی کیا۔ جتنے دن مزدوری اجازت دیتی، عبادت میں مصروف رہتے۔
ملتان آمدپر، عصر کی نماز کے بعد باہر بیٹھتے عشاق نزدیک و دورسے آتے۔ دین ودانش کی باتیں ہوتیں اور فقہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ فکاہات کی چاشنی بھی استعمال کی جاتی،ایک رونق رہتی۔ گھر سے چائے بن کر آرہی ہے۔ سٹینڈرڈ بیکرز کے خصوصی بسکٹ منگوائے جارہے ہیں۔ احمد سویٹ والے مرحوم حاجی عبد العزیز سموسے اور مٹھائی لے کر آر ہے ہیں۔ پیرجی اپنے ہاتھ سے دوست احباب، حاضرین میں تقسیم کر رہے ہیں۔ جو چیز بچ جاتی، طلباء میں بانٹ دی جاتی۔
اکثر وہاں سے گزر کر یہ دیکھا بڑی رونقیں تھیں فقیروں کے ڈیرے
میں چائے کا عادی نہیں ہوں، اکثر مجھ سے کہتے، آپ کچھ نہیں کھاتے، نہ چائے پیتے ہیں، ایک دفعہ زیادہ زور دیا میں نے عرض کیا۔ پیرجی!
مے خانے میں یکساں نہیں ہوتے مے خوار کوئی مے کا کوئی محتاج نظر ہوتا ہے
بہت محظوظ ہوئے ۔دعائیں دیتے رہے۔
1993ء میں ’’ماہنامہ‘‘ نقیب ختم نبوت کا امیر شریعت نمبر شائع ہوا۔ درج ذیل تحریر کے ساتھ راقم کواپنے دستِ مبارک سے مرحمت فرمایا:
26جولائی 2008ء کو میر ی چھوٹی بیٹی کی شادی تھی، پروگرام پالکی میرج ہال میں طے پایا۔ پیرجی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا، بیٹی کی رخصتی ہے، نکاح کی تقریب میں دعا کی درخواست ہے۔ فرمانے لگے ضرور شرکت کروں گا۔ بعد میں ایک ساتھی نے بتایا کہ تمہارے جانے کے بعد پیرجی کہہ رہے تھے کہ میں میرج ہالوں میں نہیں جاتا کہ وہاں تصاویر اور سازو آواز کی خرافات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ان سے تعلق خاطر ہے لہذا یہاں ضرور جانا ہے۔ پیرجی کی اس عظمت اور حبیب نوازی کو سلام!
سنہ ۲۰۰۲ کی بات ہے استاد جی سید ذوالکفل بخاریؒ نے فرمایا صبیح اور عطاء المنان، میٹرک کا امتحان دے رہے ہیں۔ انہیں انگریزی کی تیاری کروانی ہے۔ ہم تینوں بیٹھک میں بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ پیرجی کا وہاں سے گزر ہوا۔ فرمانے لگے۔ ’’کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ عطاء المنان نے بتایا: انگریزی۔ فرما یا: بچے انگریزی پڑھ رہے ہیں اور ہمارے بڑوں نے تو انگریزی تہذیب اور انگریزی تہذیب کے دلدادگان کو گھسیٹا اورر گیدا ہے اکبر الہ آبادی کہتے ہیں۔
قرآن پڑھیں گے پہلے پاس تو ہولیں والنّاس پڑھیں گے پہلے ناس تو ہولیں
‚ یاد رکھو! ہر قوم کی تہذیب اس کی زبان کی آغوش میں پرورش پاتی ہے۔
اور قارئین کرام! حال ہی میں ایک ادارے کے اجلاس میں عربی زبان کو لازمی قرار دینے کی قرار داد پیش کی گئی تو اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی پسندیدہ قرآنی زبانی کو کہا گیا ’’ہم یہاں کسی غیرملکی زبان کو مسلط نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
قارئین! اس مادی الحادی دور میں کہ باتوں میں غلو، دین میں حک واضافہ، شادی بیاہ پر قبیح رسومات کی بھر مار، معاشرتی برائیاں عام ہوچکی ہیں۔ بدی چوکوں میں دندنا رہی ہے۔ ایسے میں پیرجی جیسے مرد حُر کا چلے جانا، ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ ایسے اﷲ والے لوگوں میں سے تھے جن کی نظریں روح ودل کی کایاپلٹ دیتی ہیں۔ اُن کی آواز دل سے نکلتی اور دل پر اثر کرتی تھی۔ وہ عزم وہمت اور جرأت ومردانگی کے ساتھ آتش ِنمرود میں کو دجانے کا جذبہ رکھتے تھے۔
اُنہوں نے ہنگاموں میں زندگی گزاری اور تحریکوں میں پروان چڑھے۔ سچ کی پاداش میں جیل بھی بھگتی، سختیاں بھی برداشت کیں، جب تک بس چلا اپنی تقریروں سے، شرک وبدعت اور دجل وفریب کے ایوانوں کو لرزاتے رہے۔ اُنہوں نے جس بات کو حق سمجھا، ڈنکے کی چوٹ بیان کیا۔ جب تک صحت نے اجازت دی۔ ذکر اذکار، وعظ ونصیحت کی مجالس میں، کئی گنہگاروں کے زنگ آلود دلوں کو صیقل کیا۔ ذہنوں کو جِلابخشی۔ پیرجی کی شخصیت ان عیوب سے پاک تھی جن میں آج کل کے اکثر پیر ان ِتسمہ مبتلا ہیں۔ جن کے ملازم شام کو بکر منڈی میں کالے بکرے اور کالی مرغیاں فروخت کرکے آتے ہیں ۔پیرجی کا دامن حرص وہوس اور ہر قسم کے لالچ سے مبرّا تھا۔ پیرجی کا جنازہ جب گھر سے باہر لایا گیا۔ تو اُس کے اردگرد، پیرجی کے جاں نثاروں کا ایک ہالہ تھا۔ محبین اپنے مربی، کی جدائی میں غم زدہ تھے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ چھوٹے بڑے سب رو رہے تھے۔ سوگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ آہ وبکا تھی۔ ہچکیاں اور سسکیاں تھیں۔ ایک کہرام بپاتھا۔
پیرجی کا بیٹا، تلاوت قران پاک کی بابرکت آواز اور ماں باپ کی نیک تربیت میں پلا، بڑھا ایک ایسا صالح نوجوان کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کے سٹیڈیم میں جب پیرجی کے جنازے پر نماز کی صفیں کھڑی ہوئیں تو ہزاروں علماء صلحاء اور متقی لوگ مقتدی تھے اور پیرجی کا بیٹا امام اور پھر پیرجی کو دفن کرکے، اُن کا یہ فرزند جب گھر واپس آیا تو باپ کا بستر خالی پاکر ضبط نہ کرسکا۔ اُن کی چیزوں کو آنکھوں سے لگاتا رہا، روتا رہا اور پھر اشکوں کی اس برسات میں اُس نے دیکھا کہ پھول نے آسمان کی طرف نگاہ کرکے فریاد کی مجھ سے میری شبنم چھین لی گئی ہے۔ اُسے کیا خبر تھی کہ آسمان بھی اپنے ستارے کھوچکا ہے۔ پیرجی چلے گئے۔ مَردے کہ درغبار گُم شُد۔ آفتاب غروب ہوگیا۔ مگر آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے!