تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

امیر المؤمنین خلیفہ بلا فصل رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ

امام اہل سنُت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذربخاریؒ

(دوسری قسط )

کردارِ صدیقی کا امتیاز :
جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوا توحضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ قصہ خلافت کوطے کرنے میں مصروف رہے۔ اس عرصہ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اپنے طور سے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھتے رہے۔ مگرجب حضرت صدیق اکبررضی اﷲ عنہ قصہ خلافت کوطے فرمانے کے بعد نماز جنازہ کے لیے تشریف لائے اور نماز جنازہ پڑھی تو آپ کے بعد پھر کسی نے بھی دوبارہ نماز نہیں پڑھی۔مشہور عالم فقیہ اور جلیل القدر امام احناف حضرت شمسُ الائمہ سرخسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
وَھٰکَذَا تَأوِیْلُ فِعْلِ الصَّحَابَۃِ فَاِنَّ أَبَابَکْرٍرَضِیَ اللّٰہُ کَانَ مَشْغُوْلاً بِتَسْوِیَۃِ الْاُمُوْرِوَتَسْکِیْنِ الْفِتْنَۃِ فَکَانُوْا یُصَلُّوْنَ عَلَیْہِ قَبْلَ حُضُوْرِہٖ وَکَانَ الْحَقُّ لَہُ۔ لِاَ نَّہُ ھَُوالْخَلِیْفَۃُ فَلَمَّا فَرَغَ صَلّٰی عَلَیْہِ ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ اَحَدٌ بَعْدَہٗ عَلَیْہِ (المبسوط للسرخسی: ج ۲، ۶۷)
ترجمہ: اور (صحابہ کرام کے باری باری حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر نماز جنازہ پڑھنے کی) تاویل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ امور خلافت کو ہموار کرنے اور فتنہ کو ختم کرنے میں مصروف رہے اور اور ان کی غیر حاضری کے اس عرصہ میں کچھ صحابہ کرام حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر نماز جنازہ پڑھتے رہے۔ حالانکہ حضور کے جنازہ پڑھانے کا حق صرف حضرت صدیق اکبر کو ہی تھا۔ کیونکہ وہی آپکے خلیفہ اور جانشین تھے۔ تو جب حضرت صدیق اکبر امور خلافت کوطے فرمانے کے بعد فارغ ہوئے اور آپ نے حضور علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھی تو پھر آپ کے بعد کسی نے بھی حضور علیہ السلام کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
یہ صورت حال حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت بلافصل کے لیے اجماعی دلیل او راس کے ثبوت پر مہرِ تصدیق ہے۔
مطابقت طبعی :
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ مطابقت طبعی کا یہ عالم تھا۔ کہ عمر میں حضور علیہ السلام سے اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ اڑھائی برس ہی بعد کو وفات پائی۔ حضور علیہ السلام نے ایک دفعہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے اپنا خواب مبارک بیان فرمایا کہ میں اور تم دوڑے اور میں تم سے اڑھائی سیڑھی بڑھ گیا۔ حضرت صدیق اکبر نے تعبیر فرمائی کہ ’’اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت اور مغفرت کی طرف مجھ سے اڑھائی برس پہلے بلائے گا‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
مطابقت طبعی کی اور بلند پایہ اور دلچسپ مثال وہ ہے کہ حضور علیہ السلام پر جب پہلی باروحی نازل ہوئی تو آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے۔ اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے حال کہا۔ حضرت خدیجہؓ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو خوشخبری کی بات ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہ فرمائے گا۔کیونکہ:(۱) آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں (۲) دوسروں کے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ (۳) ناداروں پر بخشش کرتے ہیں۔ (۴) مہمانوں کی ضیافت اور عزت فرماتے ہیں۔(۵) اور لوگوں کی مشکلات میں ان کے کام آتے ہیں۔
پھر جب حضرت صدیق اکبر بھی ہجرت کے ارا دہ سے مکہ مکرمہ سے نکل پڑے توراستہ میں قبیلہ بنوقارہ کے رئیس ابن الدغنہ ملے اور حقیقت معلوم ہونے پر کہا کہ آپ میری امان اور پناہ میں واپس لوٹ چلیں۔ بھلا آپ جسے بھلے آدمی کو مکہ سے نکالا جا سکتا ہے؟ (۱) آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں (۲) دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔ (۳) ناداروں پر بخشش فرماتے ہیں (۴) مہمانوں کی عزت اور ضیافت کرتے ہیں۔ (۵)اور لوگوں کی مشکلات میں کام آتے ہیں۔ چنانچہ ابن الدغنہ حضرت صدیق اکبر کو واپس مکہ مکرمہ لے گئے اور رات کو قریش کے پاس جا کر سب کو بتایا کہ میں ابوبکر کو اپنی امان میں واپس لایا ہوں، بھلا وہ آدمی نکالنے کے قابل ہے جو صلہ رحمی کرتا ہے، دوسروں کے بوجھ اٹھاتا ہے، ناداروں پربخشش اور مہمانوں کی عزت کرتا ہے اور لوگوں کی مشکلات میں کام آتا ہے۔ قریش یہ سُن کر چُپ ہوگئے۔ اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی ان خوبیوں کی تر دید کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکی۔ ملاحظہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حضور علیہ السلام کے ساتھ کتنی مناسبت ومطابقت طبعی بخشی تھی۔
مالی حالت:
آپ کا شمار مکہ مکرمہ کے دولت مند لوگوں میں ہوتا تھا۔ مگر آپ نے ساری دولت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر خرچ کردی۔ آپ کے والد حضرت ابوقحافہ رضی اﷲ عنہ نے کچھ بچانے کا مشورہ دیا تو آپ نے اپنا وہ مشہور مقولہ فرمایا۔ اِنَّمَا اُرِیْدُ مَا اُرِیْدُ۔ کہ اس خرچ کرنے سے بھی میرا کچھ مقصد ہی ہے۔
آپ نے بہت سے غلام اور لونڈیاں جو مسلمان ہوچکے تھے اور کفار کے عذاب میں مُبتلا تھے خرید کر آزاد کردیئے۔ انھی میں حضرت بلال رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے جتنا ابوبکر کے مال نے فائدہ دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ روپیہ پیسہ ختم ہوجانے کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ کُرتا نہ تھا تو کمبل کا کرتہ بنا کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام بھی حضور کے پاس تشریف لائے تھے۔ حالت دیکھ کر حضور سے پوچھا کہ ابوبکر تو بہت مالدار تھے ان کا یہ کیا حال ہوگیا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کردیا۔ حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ کیا وہ اس حال میں بھی مجھ سے راضی ہے؟ حضرت صدیق اکبر یہ سُن کر وجد میں آگئے اور خوش ہوکر فرمانے لگے: أَنَا عَنْ رَبِّیْ رَاضٍ، أَنَا عَنْ رَبِّیْ رَاضٍ۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔
مدّت خلافت:
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ابوبکر اور عمر میرے وزیر ہیں‘‘ (ترمذی) اس لیے دنیا میں بھی اﷲ تعالیٰ نے دونوں کو حضور علیہ السلام کے ہمراہ ہی رکھا۔ اور بعد وفات بھی گنبد خضراء میں ہمراہ ہی رکھا او قیامت میں انشاء اﷲ ہمراہ ہی اٹھیں گے۔ حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کا حضور علیہ السلام کے ساتھ یہ خصوصی تعلق کفار بھی مانتے تھے۔ چنانچہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ابوسفیان نے پہلے آواز دی کہ کیا محمد (صلی علیہ وسلم) ہیں؟ جواب نہ پاکر پھر پوچھا کہ کیا ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں؟ جب جواب نہ ملا تو پھر خوشی سے اچھل کر نعرہ لگایا کہ اے ھبل! اونچا ہوجا……! ھُبَل قریش کے ایک بُت کا نام تھا) کیونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور ابوبکرؓ اور عمرؓ (رضی اﷲ عنہما) زندہ نہیں۔ گویا ابو سفیان کی نظر میں بھی ابوبکرؓ اور عمرؓ ہی حضور علیہ السلام کے بعد جچتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر کی مدت خلافت اڑھائی برس ہے۔ عمرنبوی کے مطابق تریسٹھ (۶۳) برس کی عمر میں آپ کی وفات بروز سہ شنبہ (منگل) ۲۳ جمادی الاولیٰ ۱۳ھ میں واقع ہوئی۔ اور گنبد خضراء کے اندر حضور کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وارضاہ!
ایک شبہ اور اسکا جواب :
کچھ نا سمجھ لوگ کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے بعد خلافت کا اصلی حق تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تھا، مگر چونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ (معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ) کافر مرتد ہو گئے تھے، انصار کہتے تھے کہ خلافت ہمارا حق ہے، مہاجرین کہتے تھے کہ ہمارا حق ہے۔ آخر ایک طویل کشمکش کے بعد تمام مہاجرین او رانصار نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی اور خلافت کے اصلی حقدار حضرت علیؓ کو نظر انداز کردیا۔ حضرت علیؓ نے تمام صحابہ کو کہا بھی کہ بھائیو! خلافت میرا حق ہے۔ پھر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کو اونٹنی پرسوار کرکے محلے محلے اور قبیلے قبیلے پھرایا۔ وہ بھی لوگوں کو کہتی رہیں کہ لوگو! خلافت کے حقدار میرے شوہر حضرت علی ہیں۔ مگر افسوس کہ کسی نے مان کر ہی نہ دی اور اس صدمہ کی وجہ سے حضرت مائی فاطمہ حضور علیہ السلام کے چھ ماہ بعد انتقال فرماگئیں۔ ان کے بعد حضرت علی کچھ کمزور تھے پیش نہ جاسکتی تھی۔ مجبوراً دل میں ان حضرات سے کھوٹ رکھتے ہوئے تقیہ کرکے آپ نے بھی بادلِ ناخواستہ ان حضرات کی بیعت کرلی اور چونتیس ۳۴ برس گذارہ کرتے رہے۔
جواب:
اس مختصر رسالہ میں کسی لمبی بحث کا دروزاہ نہیں کھولا جاسکتا اورنہ ہی کسی سے الجھنایا مناظرہ اپنا مقصد ہے۔ جس کسی کا دل چاہے وہ بڑی خوشی سے اس جھوٹے خرافاتی افسانے کو باورکرتا پھرے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ خاک بدہنِ دشمن قرآن وصحابہ، رسالت کادعویٰ محض ایک فریب تھا، وحی طفل تسلی تھی، تزکیہ تصفیہ اور تقدس کی ساری داستانیں محض ریا کاری اور خالص فریب تھیں، جو دنیا کو دھوکا دینے کے لیے تراشی گئی تھیں۔ اندر کی حقیقت اتنی اور صرف اتنی تھی کہ معاذ اﷲ ایک شخص دنیا وی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا، اس نے بہت سی حکمت عملیوں، تدبیروں اورجنگوں کے بعد ایک سلطنت قائم کرلی۔پھر جب اس نے وفات پائی تو اس کے سب ساتھی جو اسی کے بنائے ہوئے تھے، اس کے آنکھیں بند کرتے ہی اپنی اپنی خود غرضی میں مبتلا ہوگئے اور اپنی اپنی حکومت بنانے کے خواب دیکھنے لگے۔ اس مرحوم بادشاہ کے گھر والے ابھی اس کی تجہیز وتکفین کی فکر میں ہی تھے۔ اور دفن بھی نہ کرنے پائے تھے کہ ادھر ان لوگوں نے دوسری جگہ لڑنے بھڑنے اور تھکا فضیحتی کے بعد آخر اپنے میں سے ہی ایک شخص کو بادشاہ بنالیا۔ بعد کو جب گھر والے اصلی حقداروں کو پتا چلا تو ان کے اوسان خطا اور حواس باختہ ہوگئے۔ اس مرحوم بادشاہ کے کوئی بیٹا تو تھا نہیں۔ ایک بیٹی اور ایک داماد جو چچا زاد بھائی بھی تھا وہ بگڑ گئے کہ بھلا ہمارے ہوتے ہوئے کوئی کس طرح اس تخت وتاج کا وارث ہوسکتا ہے؟ بیٹی بھی تاؤ مروڑ کھانے لگی کہ میرے باپ کی بڑی مشکلوں سے قائم کی ہوئی حکومت پر دوسروں کو قبضہ کرنے کا حق ہی کیا ہے۔ پہلے خاندان میں اندر اندر مشورے اور سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ پھر مرحوم بادشاہ کا داماد اس کی بیٹی کو محلوں اور قبیلوں میں لیے لیے پھرتا رہا کہ شاید اس کی فریاد سے ہی لوگوں کے دل پگھل جائیں۔ طبیعتیں نرم ہو جائیں۔ نیز مرحوم بادشاہ کی قبر کی بھی وہائیاں دی گئیں۔ مگر افسوس کہ کسی کا بھی دل نرم نہ ہوا اور کوئی بھی حق وانصاف کی تائیدو امداد کو نہ اٹھا اور بجز دو ایک کے سب کے سب ہی ظلم وعدوان کے معاون ومدد گار بن بیٹھے اور جب اسی صدمہ سے کچھ عرصہ بعد اس مرحوم بادشاہ کی بیٹی بھی فوت ہوگئی تو اسی اصلی حقدار تخت وتاج نے بادل نخواستہ مجبوراً اندر دل میں عداوت وبغض اور کھوٹ رکھتے ہوئے اسی غاصبِ تخت وتاج کی اطاعت تقیۃً کرلی۔
یہاں پر ہم ہر حساس مسلمان اپیل کرتے ہیں کہ وہ سوچے کہ جن لوگوں نے یہ خرافاتی افسانہ تراشا ہے انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت خاتون جنت رضی اﷲ عنہا اور دوسرے حضرات اہل بیت کی خدمت نصرت اور عزت افزائی کی ہے یا انہیں خاکش بدھن ذلیل ور سوا کیا ہے؟
تمہاری طرح کے ملیں جس کو دوست!
اُسے دشمنوں کی ضرورت ہے کیا؟
او ر پھر یہ بھی سوچے کہ کیا اسلام کا کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی اسلام پر اس سے زیادہ خوفناک اور بڑی کاری ضرب لگا سکتا ہے؟ جو اسلام کو بیخ وبُن سے اُکھاڑ پھینکے۔ کیا حضرت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت اطہار اور اصحاب کبار رضوان اﷲ علہیم اجمعین کے پاکیزہ کردار کی یہ تصویر ہوسکتی ہے جو اس اوپر کے واہیات نقشے میں کھینچی گئی ہے؟ اور کیا ان کی تیئس ۲۳ برس کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفوس اور تطہیر قلوب کا یہی نتیجہ تھا؟ کیا یہی وہ خیرامت تھی جو لوگوں کے سامنے بطور نمونہ خدا نے بھیجی تھی؟ (آلِ عمران) اور یہی وہ لوگ تھے جن پرتقویٰ اﷲ تعالیٰ نے لازم کردیا اور یہ اس کے اہل اور مستحق تھے؟ (وَأَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْا أَحَقَّ بِھَاوَأَھْلَھَا) اور یہی وہ لوگ تھے جن کے دلوں کے کھوٹ اﷲ تعالیٰ نے ’’وَنَزَعْنَا مَافِی صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلٍّ‘ ‘ (ہم نے نکال دیا جو بھی ان کے دلوں میں کینہ تھا) کہہ کرنکال دیئے تھے۔ اوریہی وہ لوگ تھے جن کو اﷲ تعالیٰ نے رُحَمَآءُ بَیْنَھُم (الفتح) فرمایا تھا اور یہی وہ اﷲ تعالیٰ کا احسان تھا جس کو’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ‘‘ کہہ کر اﷲ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا تھا؟ اور یہی وہ لوگ تھے جن کو اﷲ تعالیٰ نے خودحَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِ یْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَوَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَان کے خطابات سے نوازا تھا؟ (کہ اﷲ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا اور اس کو تمہارے دلوں میں پختہ مزین کردیا اور کفر وفسق اور عصیان کو مکروہ اور نامحبوب بنا دیا) اور یہی وہ بہت ہی پختہ دینِ قیم تھا جس نے قیامت تک چلنا تھا، مگرخاکم بدھن! حضور علیہ السلام کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا، گویا ایک فلک بوس اور شاندار عمارت تھی جو دھڑام سے گر گئی؟ یہی وہ لوگ تھے جن کو خود اﷲ تعالیٰ نے’’أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا‘‘ (الانفال) کا سر ٹیفیکیٹ بخشا؟ اور یہی وہ مہاجرین وانصار کے أَلسّٰابِقُونَ الْأَوَّلُوْنَ ہیں جن سے خدا تعالیٰ راضی ہوا تھا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہوئے تھے؟۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ (التوبہ)۔اﷲ تعالیٰ ان سے اچھا راضی ہوا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوتے ہی سب کے سب معاذ اﷲ برگشتہ اور مرتد ہوگئے، معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ!! اورپھر یہی وہ صحابہ کرام تھے جو یا تو اپنے وطنوں گھر بار مال ،اسباب ،زمین جائیداد سے اس لیے خارج اور بیدخل کے گئے تھے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل ورضا مندی کو چاہنے والے تھے اور سچے دل سے خدا ورسول کے دین کے مدد گار تھے۔ (الحشر) مگر رسول اﷲ کی وفات ہوتے ہی سب دنیا طلبی میں مبتلا ہو کر اور اصلی جائز حقداروں کی ظلماً حق تلفی کرکے اپنی اپنی خود غرضی کی فکر میں ہوگئے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن سے خوش ہوکر اﷲ پاک نے ان کے ایمان پر خاتمہ ہونے کے سرٹیفیکیٹ اور میدان قیامت میں فائز المرام ہونے کی سند۔ ’’یَوْمَ لَایُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَہٗ، کا وعدہ فرما کر بخشی تھی ان کا اچھا ایمان پر خاتمہ ہوا۔ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے اوجھل ہوتے ہی سب کے سب سب کچھ بُھلا کر وہ سب کچھ کر گذرے جو انہیں ہرگز ہرگز کبھی بھی نہ کرنا چاہیے تھا۔ گویا (معاذ اﷲ استغفراﷲ) خدا تعالیٰ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ جن لوگوں کو وہ جنتی بنا رہا ہے وہ کافر ومرتد ہیں۔
انصاف اور خدارا! انصاف۔ کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہراء حضرت علی شیر خدا، حضرت صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، عثمان غنی، عشرہ مبشرہ اور ایک لاکھ سے زیادہ مہاجر وانصار صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی پاکیزہ اور مطہر زندگیوں کا اصلی واقعاتی نقشہ ……جس میں دنیا طلبی اور خود غرض کا زرّہ بھر بھی شائبہ تک نظر نہیں آتا……اس اوپر کے خرافانی نقشہ سے کچھ ذرا بھر بھی مطابقت رکھتا ہے؟ ان دونوں نقشوں کو جب آمنے سامنے رکھا جائے تو ان میں اتنی مشابہت بھی نہیں ہوتی جتنی مخمل کے تھان میں ٹاٹ کے پیوند کی ہوتی ہے۔ پس جو شخص حضرات صحابہ کرام کے پاکیزہ اخلاق کی ایسی بدشکل مکر وہ تصویر کھینچتا ہے وہ درحقیقت اسلام کا پکا دشمن ہے کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کراسلام کی جڑوں پر کلہاڑاچلاتا ہے اور اسلام کے پاکیزہ اور خوشنما نورانی چہرے پر تارکول لگا کر اسلام کو ذلیل ورسوا بلکہ تباہ وبرباد اور ختم کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس طرح پورے کے پورے قرآن پاک کی تکذیب اور دین اسلام کی تروید ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.