عبد اللطیف خالد چیمہ
21 دسمبر 2020ء پیر کو برادر عزیز حافظ محمد حبیب اﷲ چیمہ کی رحلت اور بعد کی صورتحال تا دم تحریر گھمبیر ہے،ذاتی ،خاندانی ،کاروباری، جماعتی اور دیگر مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ اڑھائی ماہ کس طرح اور کیسے گزرے ؟میرا اﷲ ہی جانتاہے، شہر کی قدیمی مرکزی جامع مسجد بلاک نمبر 12 جو احرار کی قدیم سے جولان گاہ ہے کے ماحول میں بغض احرار میں جل جل کے کوئلہ ہوجانے والے معاندین احرار جو اصل میں فتنہ ٔ سبائیت سے متاثر ہیں، اپنا بغض و حسد نکالنے کیلئے ہمارے وجود کو ختم کرنے کیلئے سبائی ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے، بلکہ ہنوز کررہے ہیں۔ تاہم، ابھی ہم سب برادر عزیز مرحوم کے انتقال کے غم میں بہت زیادہ مبتلا تھے کہ حضرت قائد احرار پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری 6فروری 2021 ہفتہ کو داغ مفارقت دے گئے۔ چیچہ وطنی میں فدائے احرار شیخ اﷲ رکھا مرحوم کے بعد حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری نے 1966ء سے لیکر 1976تک تقریبا دس سال چیچہ وطنی قیام فرمایا اور احرار کو جلابخشی۔ اس دوران ایوب خان کے خلاف عوامی جمہوری تحریک کو منظم کیا اور جامع مسجد سے جلوس نکالا، گرفتار ہوئے بلاک نمبر 11 میں ایک قادیانی سرور کی دکان کو رات کے اندھیرے میں جلا دیا گیا پولیس نے تفتیش کی تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ کام سید عطاء ﷲ شاہ بخاری کے بیٹے کا نہیں ہوسکتا اگر وہ (سید عطاء المہیمن بخاری) کرتے تو دن کے بارہ بجے کرتے یہ آگ تو رات 12بجے لگی۔ 1971 میں یحیٰی خان کے مارشل لاء کے دوران دو دفعہ سنٹرل جیل ساہیوال میں مجموعی طور پر تقریبا ایک سال کا عرصہ ہمت، جرأت واستقامت سے گزارا۔ اس دوران دیگر تینوں فرزندان امیرشریعت اور اکابر احرار برابر چیچہ وطنی تشریف لاتے اور ساتھیوں کو حوصلہ دیتے مرکزی جامع مسجدسے متصل حضرت مولانا عبدالرحمن میانوی رحمتہ اﷲ علیہ کا حجرہ ہوتا تھا جس کے ساتھ بعد میں دارالعلوم ختم نبوت کی مرکزی درس گاہ بنی جو اس وقت کے جنرل سیکرٹری انجمن اسلامیہ جامع مسجد شیخ محمد انوارالحق نے با ضابطہ ہماری تحویل میں دیدیا ۔ہمارے نظریاتی بزرگ حضرت مولانا غلام محمد فدائے احرار شیخ اﷲ رکھا کے علاوہ ہمارے خاندانی بزرگ چودھری نصیراحمد چیمہ میرے والد گرامی حافظ عبدالرشید چیمہ اور خالو چودھری محمد ارشاد چیمہ کے علاوہ دیگر بزرگوں اور حضرات کا تعلق بھی انجمن اسلامیہ جامع مسجد سے ہی رہا اور تمام نے جامع مسجد کی دن رات خدمت کی۔
1971ء میں چیچہ وطنی کی سطح پر برپا ہونے والی مشہور زمانہ تحریک ختم نبوت کا مرکز بھی جامع مسجد تھا جس میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے سابق امیر مرکزیہ حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری رحمہ اﷲ نے جواں مردی سے جیل کاٹی اور ایک تاریخ رقم کی ان کی گرفتاری بھی جامع مسجد سے ہی ہوئی راقم الحروف بچپن ہونے کے باوجود ان مناظر کا نہ صرف عینی شاہد ہے بلکہ سب امور میں شامل بھی رہا۔
ایسے بھی تھے لوگ : 1970ء کے لگ بھگ ایک رمضان المبارک کی نماز تراویح میں حضرت قائد احرار پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمہ اﷲ نے ایک مکمل قرآن پاک اسی جامع مسجد میں سنایا اور قرآن پاک کے اختتام سے ایک روز قبل انجمن اسلامیہ جامع مسجد کی طرف سے شیخ محمد انوار الحق نے نماز تراویح کے بعد اعلان کیا کہ کل ختم قرآن پاک ہے اور جن لوگوں نے خدمت اور مٹھائی میں حصہ ڈالنا ہے وہ دل کھول کر چندہ دیں۔ اس پر حضرت پیرجی صاحب رحمہ اﷲ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ قرآن پاک سنانے کے حوالے سے میری خدمت کی نیت سے کوئی چندہ نہ دیا جائے جس نے دینا ہے وہ میری خدمت سمجھ کر نہ دے اور نہ مجھے اس کو کوئی حاجت و ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میرے بھائی حافظ محمد حبیب اﷲ مرحوم کو گھٹی (تحنیک) بھی پیرجی سے تھی۔ اور حافظ حبیب اﷲ مرحوم کی تدفین کے وقت روضۂ اطہر صلی اﷲ علیہ وسلم سے لائی ہوئی جنت کی پاک مٹی ان کی میت کے ساتھ رکھی گئی تھی جو حضرت پیرجی صاحب رحمہ اﷲ کو مدینہ منورہ میں کسی نے عطا کی تھی اور انہوں نے حافظ صاحب مرحوم کو عطا فرمائی تھی۔ یہ حافظ صاحب کی وصیت تھی کہ اس مٹی کا کچھ حصہ میری قبر میں رکھا جائے۔
جامع مسجد بلاک نمبر 12کا قضیۂ نامرضیہ:
اسکول لائف کے دوران جامع مسجد میں ہی مکتبہ معاویہ قائم کیا اور بابا اﷲ بخش مرحوم (خادم جامع مسجد) جن کو ہم سب چاچا اﷲ بخش کہتے تھے کے حجرے میں ہمارا وقت گزرتا اور مسجد کے انتظام وانصرام میں ہم چھوٹے بچوں کی طرح شوق سے خدمات انجام دیتے تب بھی بعض عزت مآب شخصیات پر ناگواری محسوس ہوتی لیکن امن و امان کے ساتھ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ایک لمبی منصوبہ بندی کے تحت: ایک ماہر تعلیم کو لایا گیا بلکہ مسلط کیا گیا۔ جن کے وجود گرامی نے شرور و فتن کی انتہاؤں کو چھوا اور مسجد کی تعمیرو ترقی کے نام پر جو کچھ کیا یا ہوا اس کیلئے ایک دفتر کی ضرورت ہے ۔
اس مسجد کے نظر یاتی تشخص خصوصاً تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے شناخت کو محض مجلس احرارا سلام اور دارالعلوم ختم نبوت نے ہی پروان چڑھایا۔ یہ مثبت کردار بعض ’’صالحین‘‘ کو پسند بھی نہ تھا اور وہ ’’متبادل‘‘ ایجنڈے کے طور پر کارروائیوں سے ہمکنار نہ ہوسکے چونکہ بنیاد ہی منفی تھی۔ پھر تحفظ ختم نبوت اور تعلیم القرآن کے قدیمی کام کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ’’مدرسے میں مدرسہ‘‘ بنانے پر تُل گئے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ حفظ قرآن کریم کے لیے پہلے سے قائم مدرسے کے کام کو ہرگز نہیں چھیڑا جائے گا۔ لیکن واحسرتا! کہ وہ اس پر بھی قائم نہ رہے اور تاویلوں کے ذریعے ’’شر‘‘ کی سرپرستی میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ جامع مسجد کی انتظامیہ کے سابقین شیخ محمد حفیظ مرحوم اور چودھری اختر علی ڈوگر مرحوم کے پاس بیٹھ کر تنازعہ ختم کرنے والے بزعم خویش ’’ماہر تعلیم‘‘ نے خود کہا کہ ’’میں غلط ہاتھوں میں کھیلتا رہا ہوں آپ (راقم) سے معافی چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے یقین کرلیا، معاہدہ ہواکہ مسجد کی جنوبی جانب کے جملہ کمرہ جات، برآمدہ اور اس کے سامنے قطر نما صحن دارالعلوم ختم نبوت (رجسٹرڈ) جامع مسجد کے سپرد کیا جاتا ہے، لیکن وہ نہ صرف اس پر قائم نہ رہے بلکہ ’’مُکر‘‘ بھی گئے اور صریحاً دروغ گوئی کے ذریعے مسجد کے تقدس کوپامال کرنے والوں کی مکمل سرپرستی کرتے رہے ۔حتیٰ کہ اختلاف کرنے والوں کو دائرہ حق و انسانیت سے نکال کر دائرہ ’’اِرتداد‘‘ تک لایا جانے لگا۔ مسجد کے تقدس کو جس طرح پامال کیا جانے لگا اس کی تفصیل یہاں ہر گز مناسب نہیں۔ واقفان حال سب جانتے ہیں، انتظامیہ میں سے کسی رکن نے کوئی اختلاف کیا تو اس کو سائیڈ پر کردیا گیا یا پھر انتظامیہ سے ہی نکال دیا گیا۔ مسجد کے خدمت گزار خاندان کے رکن رکین شیخ عبد الحمید صاحب بلاک نمبر8 کی مثال سب کے سامنے ہے۔ خالص ڈکٹیٹر شپ کی حامل، اعلی اوصاف و خصائل کی مالک یہ شخصیت مکمل طور پر متنازعہ ہو چکی ہے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم ’’بولتے‘‘ کیوں ہیں لیکن اپنوں اور بیگانوں (سب) کو یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت امام صاحب مولانا عبد الاحد رحمتہ اﷲ علیہ کے برادر ِخورد حافظ عبد الواحد رحمتہ اﷲ علیہ پر جب 1970 کی دہائی میں مشکل وقت آیا تھا تو ہمارے قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے سوا اُن کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوا تھااور اسی مسجد کے اسی منبر پر حضرت حافظ عبدالواحد مرحوم کا ہمت کے ساتھ پورا دفاع کیا تھا۔
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا
اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ایک مطلق العنان اور متکبر شخصیت کے ہوتے ہوئے مسجد کی نماز کے لیے کوئی تکبیر کہہ دے تو بقول ان کے ’’یہ دہشت گردی ہے‘‘ اور اگر 21؍ دسمبر 2021ء کو دن دیہاڑے مدرسہ کے اساتذہ وطلباء اور ائمہ کرام کے ذریعے بلوہ کر کے مدرسے کے کمروں کو یوں مسمار کردیا جائے جیسے بارڈر پر لڑائی ہو رہی ہو تو یہ اُن کا دینی و قانونی اور آئینی و اخلاقی حق بلکہ ’’ڈیوٹی‘‘ ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اور اس اثناء میں ہراسمنٹ اور صورتحال کی وجہ سے ایک شخص جان جان آفریں کے سپرد کردے اور اس کا موجب ’’ آنجناب ماہر تعلیم‘‘بنیں تو اس پر پورے ادب کے ساتھ ہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہمارا یقین ہے کہ تعصب کے بادل اِن شاء اﷲ تعالیٰ ضرور چھٹیں گے اور حقیقی صورتحال آشکارا ہو کررہے گی ،رہی مسجد پر ’’قبضے ‘‘ کی بات کہنے والوں کو خوب یاد رہے کہ جب یہ مسجد ہمارے بزرگوں کی تحویل میں تھی ہم نے اس وقت بھی قبضے کا کبھی نہیں سوچا تھا ،ہاں اپنے کام کا دفاع ضرور کیا اور وہ کرتے بھی رہیں گے ۔ویسے بھی مسجدوں پر قبضوں کا مزاج اور ذوق جن کا ہے وہ آپ کے ہی کسی پہلو میں بیٹھے ہوں گے البتہ جامع مسجد سے احرار اور دارالعلوم ختم نبوت کا تعلق ان شاء اﷲ تعالی دنیا کی کوئی طاقت نہ تو ختم کرسکی ہے نہ آئندہ کرسکے گی۔
اسی جامع مسجد کے سابق نامور خطیب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما اور مجلس احرار اسلام پنجاب کے سابق صدر حضرت مولانا عبدالرحمن میانوی رحمتہ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے ’’متکبر کے سامنے تکبر کو ہم عبادت سمجھتے ہیں‘‘ ان کے اس قول کی روشنی میں ہم غرور نخوت، تخوت اور تکبرسے اﷲ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اﷲ سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی معافی چاہتے ہیں لیکن متکبر کے سامنے تکبر کو ہم بھی حضرت میانوی رحمتہ اﷲ علیہ کی تقلید میں عبادت سمجھتے ہیں اور سمجھتے ر ہیں گے، نخوت سے جو کسی نے ہم کو دیکھا کج اپنی کلاہ ہم نے کرلی، یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ارزاں نہیں ہیں ہم ۔دو میٹھے بول ہم سے فقیروں کا مول ہے ۔ 21 دسمبر 2020 کی اس ناگفتہ صورتحال میں بلا استثناء جن اعزہ بزرگوں ، دوستوں ، اور خصوصا برادر عزیز حافظ محمد حبیب اﷲ چیمہ مرحوم کے حلقۂ احباب نے ہماری دل جوئی اور معاونت کی ہم سب کے شکر گزار ہیں اور رہیں گے۔ ان شا ء اﷲ تعالی بہار آئے گی بے اختئار آئے گی۔ آپ حضرات سے درمندی کے ساتھ گزارش ہے کہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اﷲ تعالی آپ اور ہم سب کو شرورو فتن سے محفوظ فرمائیں آمین یا رب العالمین ۔
شہداء ختم نبوت 1953ء کو سلام
پاکستان بن جانے کے بعد قادیانی وطن عزیز پر ارتدادی اقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو مجلس احرار اسلام نے تمام مکاتب فکر کو ایک کر کے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت قائم کی اور بریلوی مکتبہ فکر کے سرکردہ بزرگ حضرت مولانا ابو الحسنات قادری رحمتہ اﷲ علیہ اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ مجلس عمل نے حکمرانوں کے سامنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے حوالہ سے جو مطالبات رکھے وہ نہ صرف مسترد کردیے گئے بلکہ تحریک ختم نبوت کو کچلنے کے لیے ریاستی تشدد ہوا۔لاہور کے مال روڈ سمیت ملک بھر میں دس ہزار عاشقان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیے گئے۔ احرار جبر کے تمام وار سہ گئے لیکن اپنے موقف اور مطالبات سے پیچھے نہ ہٹے آج ہم آزادی کی فضاء میں تحریک ختم نبوت کو جو آگے بڑھا رہے ہیں اس میں شہداء 1953 کا کلیدی کردار ہے۔ سب سے زیادہ گولی 5اور6 مارچ کو چلی۔ انہی شہداء ختم نبوت کی یاد میں ہر سال مارچ میں خاص طور پر شہداء ختم نبوت کانفرنسز کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ لہو گرم رہے۔
احرار کی جملہ ماتحت شاخوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مارچ اور اپریل کے وسط تک شہدائے ختم نبوت 1953ء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اہتمام کریں اور پہلے سے زیادہ متحرک ہو جائیں۔
قائم مقام امیر مرکزیہ کا انتخاب و تقرری
23؍ جمادی الاخریٰ 1442ھ مطابق 6 ؍فروری 2021ء بروز ہفتہ، ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ امیر مجلس احراراسلام پاکستان کے انتقال پرملال کے بعد باہمی صلاح مشورے کے بعد جماعت کی مرکزی مجلس شوری ایک غیر معمولی اجلاس12رجب 1442ھ مطابق 25 فروری 2021ء بروز جمعرات 11 بجے دن تا نماز ظہر مرکزی نائب امیر جناب ملک محمد یوسف( لاہور )کی زیر صدارت منعقد ہوا جس کے بعد مرکز کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی اس کا متن یہ ہے
ملتان مجلس احرار اسلام پاکستا ن کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ایک بھر پوراجلاس میں مجلس احرار اسلام پاکستا ن کے امیر حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمہ اﷲ کے انتقال کے بعد مرکزی نائب امیر سید محمد کفیل بخاری کو 2022ء تک کی دستوری مدت کے لیے قائم مقام مرکزی امیر منتخب کرلیا گیا ہے۔ مجلس احرار اسلا م پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے تقریباًپچاس ارکان او ردس مندوبین کا ایک اجلاس داربنی ہاشم ملتان میں مرکزی نائب امیر ملک محمد یوسف کی صدارت میں منعقد ہوا او ر اس میں مرکزی ناظم اعلیٰ عبدالطیف خالد چیمہ نے امیر مرکزیہ کے انتقال سے پیدا ہونے والے دستوری خلا کو پُر کرنے کے لیے طریقہء کار سے ارکان شوریٰ کوآگاہ کیا، جس پر سید محمد کفیل بخاری کو متفقہ طور پر قائم مقام امیر مرکزیہ مقررکیا گیا جبکہ سید عطاء اﷲ شاہ ثالث بخاری کو نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید محمد کفیل بخاری نے کہا کہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے جس طرح مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے میں اس پر پوری جماعت کا شکرگزار ہوں،انہوں نے کہا کہ ہم اکابر ِاحرار کے مشن کو اس کی روح کے مطابق زندہ وتابندہ رکھیں گے۔عبد اللطیف خالد چیمہ،ملک محمد یوسف،سید عطاء اﷲ شاہ ثالث بخاری اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ سیاست دین کے تابع ہے،اسلامی نظام کا نفاذ ہماری پہلی وآخری منزل ہے۔دیگر متعدد اراکینِ شوریٰ نے اپنے اپنے خطابات میں حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی دینی وملی اور تعلیمی وتحریکی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ وہ زہدوتقویٰ کے جس اعلیٰ معیار پر تھے اس کی فی زمانہ مثال ملنا مشکل ہے۔انہوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مثالی کردار اداکیا۔ایک قرار دار میں قادیانیوں کی غیر اسلامی اور غیردستوری سرگرمیوں پر تشویش کابھی اظہا رکیا گیا۔ اجلاس میں ڈاکٹر محمد عمر فاروق احرار،میاں محمد اویس، مفتی عطاء الرحمان قریشی، عبدالکریم قمر، قاری محمدیوسف احرار، عبدالشکور، مولانا اﷲ بخش احرار،مولانا محمد اکمل، مولانا محمد مغیرہ،مولانا فیصل متین سرگانہ،قاری محمد قاسم بلوچ،قاری محمد ضیاء اﷲ ہاشمی،مولا نا تنویرالحسن احرار،ڈاکٹرمحمد آصف،محمد اشرف تائب،مولوی فقیر اﷲ رحمانی،محمد قاسم چیمہ،مولانا محمود الحسن، محمد خاور بٹ، حاجی خالد محمود، محمد مغیرہ، کاظم اشرف، محمد طیب معاویہ، حاجی فقیر محمد، مولوی بشیر احمد، شیخ مظہر سعید، محمد عبداﷲ علوی، محمد اشرف احرار، محمد نوید طاہر، ذوالفقار احمد، خادم حسین جالندھری، قاری محمد زکریا، جمیل الرحمان بہلوی، محمد نعیم ناصر، یاسر عبد القیوم، عبد الوحید، حافظ محمد اسماعیل سمیت دیگر ارکانِ شوریٰ نے شرکت وخطاب کیا۔ اجلاس کے آغاز میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری، جمعیت علماء اسلام کے رہنماحافظ محمد حبیب اﷲ چیمہ، مولانا سیف الدین سیف اورتمام مرحومین کے لیے ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کا اہتما م کیا گیا۔ علاوہ ازیں مجلس احرار اسلام پاکستا ن کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے جماعت کی جملہ ماتحت شاخوں کوہدایت کی ہے کہ وہ مارچ اور وسط اپریل تک قائد احرار سید عطاء المہیمن بخاری کی یاد میں ختم نبوت کانفرنسز کا اہتمام کریں۔