ڈاکٹرعمرفاروق احرار
مرکزی سیکرٹری اطلاعات مجلس احرار اسلام پاکستان
ایسے مناظرکمیاب ہیں کہ جہاں جلال اورجمال اکٹھاہوجائے۔حضرت امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی جلال و جمال کے اظہارکی خوب خوب ترجمانی کرتی تھی۔اِسی لیے شورش کاشمیری نے لکھاتھاکہ ”شاہ جی! دیکھنے کی نہیں، پیارکرنے کی چیزہیں۔“ ہم نے شاہ جی کو نہیں دیکھا،لیکن اُن کے چاروں فرزندان میں اُن کے جمال و جمال کا خوب خوب نظارہ کیا۔ دنیاکی دولت سے تہی،مگر غیرتِ ایمانی سے معمور اِن عظیم بزرگوں کی حق گوئی اورخوداختیارکردہ فقر و درویشی نے بے حدمتاثرکیا۔ یہی وجہ ہے کہ اِن مردانِ خدا مست کی محبت دل پر ایسے نقش ہوئی کہ جسے حوادث زمانہ اپنی تمام ترکوشش کے باوجودکھرچنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔اُن کے حسن ِکردارکی بدولت اُنہیں لوگوں نے ٹوٹ کرچاہا۔حضرت امیرشریعت اوراکابراحرارکی تربیت نے فرزندانِ بخاریؒ کو ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رکھا۔مصلحت کوشی کی آسائشوں بھری زندگی کے بجائے حق وصداقت کی کانٹوں بھری شاہراہ کا انتخاب ہی اُن کی شناخت اورپہچان بن گیاہے۔یہ درست ہے کہ کچھ ایسے سنگ دل بھی موجودرہے ہیں کہ جو اُن پر ہمیشہ لب کشارہے،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے کٹر دشمنوں نے بھی اختلاف کی اتھاہ گہرائیوں میں لتھڑ کربھی اُن کے کھوٹ اورملمع سے پاک کردارکی گواہی دی ہے۔
حضرت پیرجی مولانا سیدعطاء المہیمن بخاری رحمہ اللہ حضرت امیرشریعت کے سب سے چھوٹے فرزند اورعہدِ موجود میں اُن کی آخری نشانی تھے۔انہیں اپنے تاریخ ساز والدکی شفقتوں سے بھی وافرحصہ ملا۔ بچپن میں اُن کے والد مکرم نے اُنہیں ”پیرجی“کہہ کر پکارا، جو آگے چل کر اُن کی شخصیت کی پہچان بن گیا۔حضرت پیرجی نے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی،مگر طبعی رجحان کی بدولت بطورِ خاص فن قرأت میں اپنے وقت کے عظیم قرا سے کسب ِ فیض کیا۔حضرت امیرشریعت کی رحلت کے بعداپنے بڑے بھائیوں کی سرپرستی میں اپنے والدماجدکے واحدترکہ یعنی مجلس احراراسلام کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔برسوں مدینہ منورہ میں قیام رہا۔حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاقدس اللہ سرہ العزیز کی صحبتو ں اورمحبتوں سے خاص حصہ پایا۔جب حضرت شیخ الحدیث نے وفات پائی تو اُن کے کفن دفن میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔جب تک حجازمقدس میں قیام رہا،رزق حلال کی خاطرباقاعدہ عام مزدوروں کی طرح ہرطرح کی مزدوری کی۔جو اُجرت ہاتھ آتی،اگلادن چڑھنے سے پہلے پہلے دوستوں کی ضیافت اورمستحقوں کی خدمت میں صرف کر دیتے اورپھر سے کام میں جت جاتے۔وہ چاہتے تو اپنے والدکی نسبت کو اپنی ذات کے لیے راحتوں کا سامان بناسکتے تھے،لیکن اس کے برعکس انہوں نے شہرت وناموری پر گم نامی کو ترجیح دی۔دولت اورمال و زرکی ذخیرہ اندوزی کرنا چاہتے تو بلامبالغہ اُن کا شمارگنے چنے دولت مندوں میں ہوتا،لیکن انہوں نے فقرودرویشی اورغیرت مندی کا جو درس اپنے والدین سے لیا تھا،انہوں نے اُس کی لاج رکھی اوراپنی عاقبت سنوارنے کے لیے اپنے وجودکو مشقت وکلفت کا عادی بنالیا۔یہی سبب ہے کہ انہوں نے اپنے اجدادکی مانندکوئی ترکہ نہیں چھوڑا۔البتہ دینی حمیت اورحق گوئی کی میراث ان کی اولاد اورجماعت میں برابردیکھی جاسکتی ہے جو یقینااُن کے لیے توشہئ آخرت اورنجات اخروی کا عظیم سرمایہ اوردولت ہے۔ ایسی میراث اور ترکہ صرف اللہ کے محبوب بندگان ہی اپنے پسماندگان کے لیے چھوڑا کرتے ہیں۔
آپ قطب الاقطاب حضرت شاہ عبدالقادررائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اورحضرت شاہ عبدالعزیزرائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مجازتھے۔روحانیت سے بے حدلگاؤ تھا۔ وظائف ومعمولات کا ہرگھڑی اہتمام والتزام رکھا۔مروجہ پیری مریدی کے شدیدشاکی تھے۔ فرماتے تھے کہ اکثر خانقاہیں مجاوروں کی صنعت بن گئی ہیں اوراُن کے پیربے ضمیر ہو گئے ہیں۔کبھی پیراپنے مریدکے دلوں کی اصلاح کیاکرتے تھے،اب اُن کی نظرمریدکے نذرانوں اورجیب وسامان پر اٹک کررہ گئی ہے۔جس نے خانقاہوں کے مقاصدکو تباہ کرکے رکھ دیاہے۔ خودصاحبِ سلسلہ اورمجازتھے،لیکن بہت کم لوگوں کو مریدکیا۔بیعت کے خواہش مندوں کو اکثر خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے وابستگی کی ترغیب دیتے۔ موجودہ عہدکے پیروں کی طرح خلافتوں کی منڈی نہیں لگائی،بلکہ آخری دورمیں صرف ایک ہی خلافت منتقل کی جو اُن کے صالح بھانجے نواسہء امیرشریعت حضرت حافظ سیدمحمدکفیل بخاری حفظہ اللہ تعالیٰ کی سعادت میں آئی۔
جب اپنے برادربزرگ حضرت مولاناسیدعطاء المحسن بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے بعدمجلس احراراسلام کی امارت اُن کے سپرد ہوئی تو انہوں نے احرارکے بنیادی اہداف حکومت الٰہیہ کے نفاذ،تحفظ ختم نبوت،اسوۂ صحابہؓ کی تلقین وترغیب اور اصلاح معاشرہ کے لیے زندگی کے بہترین ماہ وسال صرف کردیے۔اوائل عمری سے تادم آخر وہ سراپائے احرار رہے۔قیدوبندکی صعوبتیں جھیلیں،اپنوں پرائیوں کی سنگ زنی برداشت کی،دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنے،بیماری وعلالت کے مراحل سے بھی گزرے،لیکن اپنے آباکی سنت میں مصائب کو خاطر میں نہ لائے اوراستقامت کے پہاڑ بن کرجرأت و شجاعت کی اَن مٹ مثالیں ثبت کرتے رہے۔انہوں نے زخم زخم وجودکے ساتھ اپنے نظریاتی وفکری مخالفوں کی اسلام اورپاکستان کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔وہ حالات ِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے معدودے چنددینی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔انہوں نے قادیانی گماشتوں کی یلغاروں،لادین سیاست دانوں کی برآمدشدہ آلودگیوں،بے مہاردانش وروں کی فکری آلودگیوں ونظریاتی بدکاریوں کا بے دریغ تعاقب کیا۔دین اسلام کی سچی اورصحیح تصویرعوام کے سامنے پیش کی۔عدم تشددکا درس دیا۔وطن سے محبت اوررواداری کو عام کیا۔دینی محاذپر سرگرم کارکنوں کی راست سمت میں رہنمائی کرکے انہیں معاشرے کا کارآمدکارکن بنانے کی سعی کی۔حضرت پیرجی نے عالم شباب سے کبرسنی تک عزم وہمت اوردلاوری کی مثال قائم کی اوردینی قوتوں کو سبق دیاکہ باطل طاقتیں چاہے جتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہوں،ایمانی قوت کے ہتھیاروں کے ساتھ اُن کے بڑھتے قدموں کو حسنِ تدبیرکے ساتھ روکاجاسکتاہے۔وہ جب تک زندہ رہے،حق واستقامت کی داستانیں جریدۂ عالم پر ثبت کرتے رہے۔اب وہ ہم میں نہیں ہیں،لیکن اُن کا جاری کردہ مشن اورمتحرک کارکنوں کی جماعت موجودہے جو اپنے عظیم قائدکے متعینہ راستے پر گامزن ہے۔جس کا واحد منشور ”رب کی دھرتی پر رب کا نظام“ہے جو حضرت پیرجی کی زندگی کا مقصدومرکزتھا اوراب سرخ پوشانِ احرارکے لیے نشانِ منزل ہے۔