مبلغین احرار کے دورۂ سندھ کی روداد: (مولانا تنویر الحسن احرار)
21دسمبر2020 صبح آٹھ بجے تلہ گنگ سے روانہ ہوا،سفرلاہورکی طرف جاری تھاکہ راستے میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے ناظم اعلیٰ عبداللطیف خالدچیمہ کے نمبرسے دل غم زدہ کرنے والے خبرموصول ہوئی۔ صاحب فون نے ہردلعزیز شخصیت، اور بہت پیارے بھائی حافظ حبیب اﷲ چیمہ کے حادثاتی انتقال پرملال کی خبرسنائی۔ دل پہلے ہی غم میں ڈوباہوا تھا کیونکہ 20 دسمبر کو میرے بہت پیارے دوست مولانا ابوبکر صدیق شجاع آبادی بن حضرت مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی کے اچانک سانحہ ارتحال نے دل دہلا کے رکھ دیاتھا۔ میرا ان سے کم وبیش پچیس سال کا تعلق تھا۔ وہ زمانۂ طالب علمی سے لاہور میں میرے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ مشکلات کے دورمیں جب سب مدعیان صداقت و مودت منہ چھپاتے ہیں، مولانا ابوبکر صدیق رحمہ اﷲ میرے دکھ دردکوسنتے حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کی بہت ساری یادیں ہیں اپنادل بہلانے کی ہرطرح کوشش کرر ہاہوں مگر کئی مناظر آنکھوں کے سامنے ہیں۔
اﷲ اکبربات دورنکل گئی جوں ہی حبیب اﷲ چیمہ کے انتقال کی خبرملی بھائی آصف سے ر ابطہ کیا، مشورہ ہواکہ لاہور پہنچتے ہی چیچہ وطنی کاسفر کریں گے۔ شیراکوٹ سے دفتر احرارپہنچا نمازظہر ادا کی اور میاں محمداویس صاحب کی قیادت میں بھائی آصف بھائی عامر صاحبان کے ہمراہ سفر شروع کیا کمالیہ پہنچ کر نماز عصر ادا کی اورعبدالکریم قمر صاحب بھی ہمار ے قافلے میں شامل ہوگئے۔ نمازمغرب چک 42؍12ایل پہنچ کراداکی۔ اسی دوران غمزدہ خاندان کے افراد کے ساتھ ملاقات اور اظہار تعزیت کیا۔ نواسہ امیر شریعت سید محمد کفیل بخاری صاحب نبیرۂ امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ ثالث بخاری، مولانا اﷲ وسایا، پیرجی عبدالجلیل رائے پوری، ملک محمد یوسف، قاری محمد یوسف احرار ،چوھدری ظفر اقبال، مولانامحمداکمل، مولانا فیصل متین ودیگر رفقاء احرار پہنچناشروع ہوئے نمازعشاء پڑھنے کے بعدشاہ جی کے ہمراہ سکول گراؤنڈ پہنچے جہاں علماء طلباء اور عوام الناس کاجم غفیرتھا۔ اس غم کی گھڑی میں ہمار ے محسن و مشفق مرشد حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد مد ظلہ بھی تشریف لے آئے۔ نماز جنازہ کی امامت حضرت مرشدکریم دام لطفہ نے کروائی۔ جنازے کے بعدواپسی ہوئی۔چیچہ وطنی سے ساہیوال کا سفر ان محبوب دوستوں کی یادوں میں ہی گزر گیا۔ساہیوال سے لاہور روانہ ہوئے اور رات دو بجے دفتراحرار پہنچ کرآرام کیا۔
22دسمبر2020ء دفترمجلس احراراسلام لاہو رمیں قیام تھا۔مشاورت کے بعدتیاری کی اور بھائی کامران مصطفی کے ساتھ تقریباًڈیڑھ بجے فیصل موورز کے ذریعے روانہ ہوکر رات دس بجے سکھر پہنچے، جہاں مولاناسیف اﷲ مسعود سومرو اپنے احباب کے ساتھ منتظرتھے۔ ماشاء اﷲ خوب وضع دارآدمی ہیں۔ سکھر سے شکارپورپہنچے وہاں پرتکلف دعوت طعام کے بعدرحیم آباد پہنچے جہاں رات کے ڈیڑھ بجے آٹھ دس نوجوان منتظرتھے۔ ماشاء اﷲ سندھی نوجوانوں کی میزبانی اور مہمانداری کی روایات میں عرب کی میزبانی کا واضح رنگ نظر آیا۔ رات اڑھائی بجے تک باوجود تھکاوٹ کے ان کے ساتھ نشست جاری رہی۔ انہیں فتنہ قادیانیت کے متعلق تجسس تھا، بفضل اﷲ تفصیل سے گفتگوہوئی ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔ ان نوجوانوں نے عزم کیاکہ ہم ختم نبوت کے مبارک کام میں مصروف رہیں گے۔
23دسمبر2020 ء شکارپورکے علاقہ رحیم آباد میں جامعہ مسجدرحمانیہ میں نمازفجر کی امامت وادائیگی کے بعددرس قرآن مجید بسلسلہ تحفظ ختم نبوت دیا عوام کاجوش وخروش دیدنی تھا جب قادیانی تلبیسات اور دھوکوں کے تار وپود کھولے توعوام کے جذبات قابل رشک تھے۔ بڑ ے بوڑھے جوان حیران تھے کہ ان نشانیوں والے لوگ ہمارے ہاں نقب لگا چکے ہیں ہمارے نوجوانوں کے ایمان لٹ چکے ہیں بہرحال ایک گھنٹہ کی گفتگوکے بعداحباب نے کافی اطمینان کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ہم رحیم آباد بازار میں مولانا سیف اﷲ مسعود کے بھائی ثناء اﷲ مسعود کی دکان پہ پہنچے جہاں متعدد دوست جمع تھے۔ تقریباایک گھنٹہ کی سوال وجواب کی نشست ہوئی، قادیانیت کے متعلق عجیب پریشان کن خبریں سامنے آئیں۔ اور تحفظ و دعوتِ ختم نبوت کی جد و جہد کو تیز تر کرنے کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوا۔
دن نوبجے جامعہ خیرالمدارس حمادیہ رحیم آبادپہنچے۔ جہاں مہتمم ادارہ مولاناعلی محمد سوندھڑو نے خیرمقدم کیا۔ جامعہ کی مسجدمیں طلباء کو جمع کیا طلباء کے سامنے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت وفضیلت کے عنوان پہ سیرحاصل گفتگوہوئی۔ ڈاکٹر محمد آصف نے قادیانی فتنہ کی چالوں سے طلباء کو تفصیل سے آگاہ کیا۔وہاں سے فارغ ہوکر مدرسہ مسجدرحمانیہ میں پہنچے جہاں رحیم آباد کی تاجر برادری سے نشست کی۔
ہم مولانا سیف اﷲ مسعود سومرو کی معیت میں رحیم آباد سے شکارپورکے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں بھائی مسعوداخترسے مختصرملاقات کے بعد امروٹ شریف پہنچے اﷲ اکبر امروٹ شریف کانام آتے ہی تاریخ کے عجیب واقعات آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ امروٹ شریف حضرت مولانا تاج محمودامروٹی رحمہ اﷲ، حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی، امام انقلاب مولانا عبیداﷲ سندھی رحمھم اﷲ جیسے کبار اہل تقوی و اہل ایثار کی نسبتوں کا محورومرکز ہے۔ حضرت مولانا تاج محمودامروٹی رحمہ اﷲ تحریک آزادی کے ر ہنما قافلہ ولی اﷲی کے سرخیل تھے۔ امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اﷲ ان ہی کے فیض یافتہ تھے۔ حضرت امروٹی کی خانقاہ اہل حق کامرکزتھی ۔ الحمدﷲ کچھ تلاوت اور ایصال ثواب کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔اس کے بعد حضرت امروٹی کے خلیفہ وجانشین مولانا سیدمحمدشاہ صاحب کے فرزندان گرامی میں سیدتاج محمد شاہ اورمولاناسیدسراج احمدشاہ سے ملاقات کی اور مجلس احرار کی دعوت کا تعارف پیش کیا۔
امروٹ شریف سے ہم لاڑکانہ کے لئے روانہ ہوئے تومولاناسیف اﷲ مسعود نے ہمیں بتایا کہ برطانوی استعمار کے زمانہ میں اس جگہ کھدائی شروع ہوئی اور بہت بڑی نہر کے لیے زمین کو کھوداجارہاتھا، راہ میں جو مساجدآرہی تھیں ان کوگرانے کا فیصلہ ہو رہا تھا، ایک مسجد اس کینال میں آرہی تھی، بستی کے لوگ حضرت امروٹی کے پاس گئے اورانہیں صورتحال سے آگاہ کیا اور مسجد بچانے کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کہ ہم مسجدکاتحفظ کریں گے۔ حضرت نے اپنی خانقاہ کے فقیروں کو اس مسجدمیں بھیج دیا۔ اسی اثنا میں خبرملی کہ کرینیں ودیگرمشینری مسجدکو گرانے آگئی ہے توحضرت امروٹی خودتشریف لے گئے۔ حضرت کے تشریف لے جانے کی کرامت سے اچانک مشینری نے کام کرنا بند کردیا، جس پر انگریز حاکم اپنے ارادے سے باز آیا۔ اﷲ اکبر!ہم نے اسی نہرمیں واقع مسجدمیں نماز ظہر ادا کی تقریباً ساڑھے تین بجے لاڑکانہ پہنچے جہاں علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو رحمہ اﷲ کے ادارہ جامعہ اسلامیہ میں احباب ہمارے منتظرتھے ۔
عصرکے بعدہمیں مولانا بلال میرانی نے پروگرامات کی ترتیب کاشیڈول بتایا۔ مغرب سے قبل مجاہدِ ختم نبوت مولانا منیر احمد علوی نائب امیر شبان ختم نبوت پاکستان پہنچ گئے۔ ان کی معیت میں دہامرہ جانا ہوا، جہاں جمعیت علمائے اسلام کے مقامی ذمہ داران نے جامع مسجد مدنی میں ختم نبوت کے عنوان پرپروگرام ترتیب دیا ہواتھا۔ مغرب کے بعدشبان ختم نبوت کے ذمہ دارمولاناخدابخش سومرونے تعارفی گفتگوکی اورپھرراقم کوگفتگوکی دعوت دی گئی۔ راقم نے حسب توفیق ختم نبوت، منصب و مقامِ مرتبہ نبوت اورقادیانی فتنہ کا تعارف کے حوالے سے گھنٹہ بھر بات کی۔ نمازعشاء کے بعد مولانا منیر احمد علوی نے بہت عمدہ گفتگوفرمائی، اﷲ تعالی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ دہامرہ سے فارغ ہوکرہم جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ پہنچے اوراگلے دن کے نظم کے بارے میں مشاورت کی۔ جبکہ مولاناعبداﷲ اورعبدالباری نے علاقے میں قادیانیت کی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔
24دسمبر2020ء کو بھی جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں قیام رہا۔ مولانا راشد محمود سومرو مد ظلہ علامہ خالد محمود سومرو شہید رحمہ اﷲ کے لائق فرزند ہیں جو وڈیرہ شاہی کے خلاف سینہ تان کر میدان میں کھڑے ہیں اور متعدد دینی خدمات میں انتہائی فعّال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اکثروقت قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ سفرپہ ہوتے ہیں۔ ماشاء اﷲ علامہ خالد شہید کے سارے بیٹے اﷲ کے دین کی کسی نہ کسی خدمت میں مکمل طور پر منہمک ہیں۔
بھائی جہانزیب شیخ سے ملاقات
جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں ہم مشاورت میں مصروف تھے کہ ایک نوجوان ساتھی تشریف لائے جنہوں نے اپنانام جہانزیب شیخ بتایا۔ انھوں نے مکتب سکول سسٹم کے ساتھ ٹیوشن سنٹر بنایا ہوا ہے۔ کہنے لگے کہ میں کچھ لوگوں سے پریشان ہوں یہاں پروگرام کرتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں میں نے پوچھا ان کی دعوت کا مجموعی دائرہ کیا ہوتا ہے توکہنے لگے کہ سب سے پہلے علماء سے متنفرکرنا علماء کیخلاف آواز اٹھانا ان کی کمی کوتاہی کوبطوردلیل بیان کرنا۔ یہ پہلا وار ہوتاہے اس کے بعدکہتے ہیں کہ تمام جماعتیں باطل ہیں سوائے ہمارے ہم حق پہ ہیں۔ دین کی صحیح منہج کوہم نے سمجھاہے ہمارے علاوہ دین کا کسی کو پتہ نہیں پھرمجھے کچھ ریکارڈنگ سنوائی۔ سن کر معلوم ہوا کہ بات درست تھی اور جن صاحب کے بارے میں وہ بات کر رہے تھے ان کا تعلق ہمارے ہی بزرگوں سے رہا۔مجھے بہت دکھ اور پریشانی ہوئی کہ دین کے نام پرفتنہ اندازی کی یہ صورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔
نمازظہر کے بعد نظرمحلہ کی جامع مسجد میں دس روزہ ختم نبوت تربیتی کورس کی دوسرے دن کی نشست تھی۔ اس میں شریک ہوئے راقم نے ایک گھنٹہ: ’’عقیدہ ختم نبوت کیا ہے‘‘ کے عنوان پر گفتگوکی۔ بعد میں ڈاکٹرآصف صاحب نے مرزاقادیانی کاتعارف اوراس کی چالبازیوں سے آگاہ کیا۔ نماز عصرکے بعد جناب پروفیسر عبد الرحیم کی لائبریری میں جانا ہوا۔پروفیسر صاحب محترم سندھ کی معروف روحانی شخصیت محمد موسیٰ بھٹو کے قریبی عزیز ہیں۔ آپ کی لائبریری میں بہت اچھی نشست رہی۔ نمازمغرب ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہیدکے گاؤں عاقل میں پہنچ کراداکی اورنماز کے بعدتفصیل سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر بیان کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب کہ یہاں خواتین کے لیے بھی الگ انتظام کیا گیا تھا۔ نماز عشاء کے بعد مولانا منیر احمد علوی نے حقوق مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پہ شاندارگفتگو کی اور ہم رات دس بجے واپس جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ پہنچے اورآرام کیا۔
25دسمبر2020ء کو جمعۃالمبارک تھا نمازجمعہ سے قبل تک مختلف انفرادی و خصوصی نشستیں جاری رہیں۔ طلباء تشریف لاتے، اپنے سوالات پوچھتے اورمطمئن ہوکرتشریف لے جاتے۔ نمازجمعہ کی ترتیب شہر کی مختلف مساجد میں تھی۔ جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں مولانامنیراحمدعلوی جامع مسجد عرفات میں جناب ڈاکٹرمحمدآصف، جامعہ تعلیم القرآن جمال مصطفی میں راقم اور جامع عثمان بن عفان شیخ زیدکالونی میں مولاناخدابخش سومرو نے جمعہ پڑھایا۔ گویا شہرکے چاروں طرف سے ختم نبوت کی آواز آر ہی تھی الحمدﷲ۔ تمام مبلغین نے اپنے اپنے مقام پر ختم نبوت اور ردقادیانیت کے عنوان پہ سیر حاصل گفتگوکی اور قادیانی فتنے کے حقیقت سے سامعین کو آگاہ کیا۔
قادیانیت سے متاثرنوجوان سے ملاقات
نماز جمعہ کے بعد ایک نوجوان جن کا نام بوجوہ نہیں لکھ رہا اپنے ایک دوست کے ساتھ آئے اور ڈاکٹر محمد آصف صاحب کے ساتھ محو گفتگو ہوئے۔ڈاکٹرصاحب نے اس نوجوان کے تمام سوالات توجہ او رتحمل سے سنے پھر با حوالہ تمام سوالات کے جوابات دیے۔ بفضل اﷲ نمازمغرب سے قبل ان کے تمام اشکالات ختم ہوچکے تھے اورصاف ذہن کے ساتھ خالص مسلمان ہونیکی حیثیت سے شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس ہوئے۔
نمازمغرب کے بعدراقم اورمولاناخدابخش سومرو شیخ زیدکالونی جامع مسجد عثمان بن عفان میں بیان کے لیے چلے گئے جبکہ ڈاکٹرآصف اور مولانا منیر احمد علوی مد ظلہما کے پاس قادیانیت سے متاثریا متجسس ساتھیوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
راقم نے ڈیڑھ گھنٹہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کامنہجِ دعوت، تعارف عقیدہ ختم نبوت، تعارف مرزائیت کے حوالے سے گفتگوکی۔ نمازعشاء کے بعد مولانا خدا بخش نے حیات عیسیٰ علیہ السلام اور مولانا منیر احمد علوی نے ردِّمرزائیت پہ بات کی۔ بیانات سے فارغ ہوکر قیام گاہ پہنچے جہاں پھر نوجوانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ماشاء اﷲ نشستوں کاسلسلہ جاری رہا۔
26دسمبر2020ء کا شیڈول دیا گیا کہ صبح جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں ختم نبوت تربیتی کورس کی نشست سے مولانا منیر احمد علوی بیان کریں گے اور باقی دونوں حضرات علمائے کرام واساتذہ سے ملاقاتیں کریں گے۔
ترتیب کے مطابق جامعہ کے مختلف اساتذہ سے تفصیلی گفتگو کی بالخصوص مولانا مسعود سومرو بہت متفکر تھے اور کئی معاملات میں پریشان بھی تھے کہ ہمار ے مروجہ مبلغین کارویہ درست نہیں ہوتا۔ بھولے بھٹکے انسان کونہ توغصے سے دبایا جاسکتاہے، نہ گالیاں نکال کرمطمئن کیاجاسکتاہے۔متذبذب آدمی بدل سکتاہے توہمارے رویے اور انداز کی تبدیلی سے۔ ہم بغیرسوچے سمجھے اگرروایتی انداز بروئے کار لاتے ہوئے کسی بھٹکے ہوئے کودرست سمت پہ لانے کی توقع رکھتے ہیں تویہ ہماری غلط فہمی ہے ۔
سات قادیانیوں اور ایک قادیانی بہن خاتون کاقبول اسلام
ہم علمائے کرام سے مل ہی رہے تھے کہ ا س دوران ٹوبہ ٹیک سنگھ سے سات قادیانیوں کے قبول اسلام کی خبرموصول ہوئے الحمد ﷲ چناب نگرسے نومسلم بھائی محمد احسن قریشی نے ایک قادیانی لڑکی کے قبول اسلام کی خبرسنائی توہماراایمان مزیدبڑھا۔
نومسلم خالدمحمود بھائی سے ملاقات:
ہم دفترجامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں ہی بیٹھے تھے کہ ایک دوست تشریف لائے جنہوں نے اپنا نام خالدمحمودبتایا۔ تعارف کا سلسلہ شروع ہوا تو خالد بھائی نے بتایاکہ میرا سارا خاندان ہندو ہے، اﷲ نے مجھے توفیق عطافرمائی اور دوسال قبل اسلام کی حقانیت میر ے سامنے روشن ہوگئی۔ مجھے بچپن میں اسلام اچھالگتاتھا اسلام کی صفائی ستھرائی، اذان ،نماز ،قرآن پڑھتے بچوں کودیکھتا تو دل کرتاکہ میں بھی نمازقرآن پڑھوں۔ بس اﷲ نے ہدایت کی شمع روشن کردی اورمسلمان ہوگیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعدبہت تکالیف اٹھانا پڑیں۔ آج کل جامعہ بنوریہ کراچی میں زیرتعلیم ہیں۔والدین سے رابطے کی صورت نہیں بن پارہی۔ جبکہ مکمل طور پہ کفالت کی ذمہ داری مولانا راشدمحمود سومروپوری کررہے ہیں۔
جامعہ دارلعلوم میرخان میں حاضری:
ڈاکٹر محمد آصف تشکیل کے مطابق جامعہ اسلامیہ قدیم چلے گئی جہاں شیخ الحدیث مولاناعلی محمدحقانی رحمہ اﷲ کے فرزند اور قدیم جامعہ کے مہتمم مولانا مسعود سومروسے تفصیلی ملاقات کی اور مولانا خدا بخش جامع مسجدعرفات تشریف لے گئے جبکہ مولانا منیراحمدعلوی مولاناعبداﷲ میرانی اورراقم ضلع قمبرکے علاقہ میرواہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں جامعہ دارالعلوم کے مہتمم مولانا منیر صاحب سمیت اساتذہ سے ملاقاتیں کیں۔ ’’تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے علماء کی ذمہ داریاں ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ مغرب کی نمازکے قریب واپس لاڑکانہ پہنچے۔
قادیانیوں کی تبلیغ کاانداز:
ہمارے پاس لاڑکانہ کے ایک تاجرتشریف لائے اور بڑی عجیب کارگزاری سنائی۔ کہنے لگے ایک نوجوان کچھ عرصے سے میرے پاس دکان پہ آتا تھا۔ معاملات کا اچھا تھا تو آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہونے لگی۔ ہمارا تعلق مضبوط ہو گیاتو طویل کئی گھنٹوں کی ملاقاتوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ آہستہ آہستہ اس نے اس دوستی اور کار و باری تعلق کودعوت کے روپ میں بدلناشروع کردیا اورایک دن سرعام مجھے مرزائیت کی دعوت دیناشروع کردی۔ میں نے ختم نبوت کے متعلق کچھ تھوڑا سا سنا ہوا تھا، لہذا سخت سست کہہ کر اس کوبھگادیااوراﷲ کاشکرہے کہ اس کے دام میں پھنسنے سے بچ گیا۔
27دسمبر2020ء کو لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو کی برسی کی وجہ سے خوب گہماگہمی تھی مگرہم تمام شورشرابوں سے ہٹ کر اپنے دعوتی کاموں میں مگن تھے۔ حسب ترتیب مولانا منیراحمد نے جامعہ اسلامیہ جدیدمیں کورس پڑھانا تھا اور ڈاکٹر محمد آصف اور راقم نے جامعہ اسلامیہ قدیم میں اس کارخیر کو سرانجام دیناتھا۔ ہم صبح آٹھ بجے جامعہ قدیم پہنچے جہاں مفتی عبد الرحمان اور دیگر اساتذہ نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ جامعہ قدیم میں بنین وبنات کے شعبے الگ الگ قائم ہیں اور جگہ کی تنگی کے باوجود ماشاء اﷲ دین مبین کی اشاعت وآبیاری میں مصروف ہیں۔
جامعہ کے نظم کے مطابق میرے ذمہ طے ہوا کہ شعبہ بنات میں اسباق نہیں ہوں گے، وہاں تفصیل سے ختم نبوت کورس پڑھاناہے۔ میں اپنی تشکیل کے مطابق شعبہ بنات کی طرف چلاگیاجہاں پردے میں بنات ومعلمات کودرس ختم نبوت دیااور ’’بحیثیت خواتین اس شعبے میں عالمات و فاضلات کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر بات کی جب کہ ڈاکٹرآصف صاحب نے طلباء میں بہت تفصیل کے ساتھ گفتگوکی ۔
ماہنامہ دعوت دین :
جامعہ میں گفتگوکرنے کے بعدجامعہ کے استاذ الحدیث مولاناعبدالقیوم آرائیں تشریف لائے اوربہت تفصیل سے ان کے ساتھ بات ہوئی ماشاء اﷲ بہت متحرک عالم ہیں اردو۔ سندھی میں بہت ساری کتابیں لکھ چکے ہیں اور دعوت دین کے نام سے اردومیں دوسال سے ایک رسالہ چلارہے ہیں۔ فرمانے لگے اس مرتبہ نمازکے عنوان پہ خصوصی نمبرچھاپ رہے ہیں، رسالے کے لیے مضمون لکھ دیں۔ ان کے حکم کی تعمیل میں وہیں بیٹھے ایک مضمون ’’آخری نبی کی آخری وصیت‘‘ کے عنوان پہ لکھ کرپیش کردیا۔ اﷲ قبول فرمائے۔
مولانا نے مطلع فرمایا کہ آئندہ شمارے سے تین صفحات ختم نبوت اور ردقادیانیت کے لیے وقف کررہے ہیں۔ جزاک اﷲ تعالی۔تقریباایک بجے جامعہ جدید میں واپس پہنچے۔ نماز ظہرکے بعدمشاورت کی، مولانامنیر احمد کچھ متاثر نوجوانوں سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ عصرکے بعد مولانا عبدالقیوم ہمیں لینے آگئے کہ مغرب کے بعدکی نشست جامع مسجد ڈاکٹر کالونی میں تھی۔ جہاں وکلاء ڈاکٹر حضرات اور دیگر طبقات زندگی سے متعلقہ افراد موجودتھے۔ بہت اہم نشست ہوئے ختم نبوت کی اہمیت وفضیلت پہ راقم نے گفتگو کی پھر ڈاکٹر آصف نے تفصیل سے قادیانی فتنہ کاتعارف اور ان کی چالبازیوں کاپردہ چاک کیا۔
جب کہ سوال وجواب کی خوب نشست ہوئی نماز عشاء کے بعد مولانا ناصرمحمود اور مولانا راشد محمود صاحبان کی طرف سے پرتکلف دعوت طعام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شریک ہوئے۔ بعدازاں لائبریری ہال میں واقع کانفرنس روم میں ادارہ کے تمام اساتذہ کوجمع کیا اور بھرپور نشست ہوئی۔ مہتمم جامعہ اور مولانا راشد محمود کی مشاورت سے مولانا مسعود صاحب کومسؤل بسلسلہ تحفظ ختم نبوت چناگیا ۔کئی معاملات پہ مشورے ہوئے اور دعاسے نشست اختتام پزیرہوئی۔
28دسمبر2020ء کو شیڈول کے مطابق مولانا منیراحمدعلوی نمازفجرکے فوری بعدپنجاب کی طرف واپس چلے گئے۔ طویل عرصے بعد ان سے اتنی دیر رفاقت رہی، ما شاء اﷲ بہت اچھاوقت گزرا۔موجودہ حالات میں دفاع ختم نبوت کے محاذپرکام کرنے کے حوالے سے فکرمندی کااظہارہوتارہا، مبلغین کی اندازگفتگوکے حوالے سے فکرجاری رہی، بالخصوص دعوت اسلام کے حوالے سے ہم اپنی کمزوریوں پہ غورکرتے رہے۔ جامعہ اسلامیہ میں جاری ختم نبوت کورس کی پہلی نشست میں ختم نبوت کے کام کی اہمیت وضرورت اورکام کاطریق کارکیاہوناچاہیے کے حوالے سے گفتگوکی۔ پھرڈاکٹرمحمدآصف نے قبول اسلام کی داستان اورقادیانیوں کی چالبازیوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگوکی گفتگوکے بعدشرکا ء کورس نے سوالات کیے ڈاکٹرصاحب نے تفصیل سے جوابات دیے۔
مولانامسعوداحمدسومرو:
ہمارے مخدوم مکرم مولاناراشدمحمودسومرو کے چچاشیخ الحدیث مولانا علی محمدحقانی رحمہ اﷲ کے چھوٹے بیٹے مولانا مسعود احمد سومروبہت ذی علم اور شگفتہ طبیعت آدمی ہیں۔ اﷲ نے علم وعمل کی دولت سے مالامال کیاہے۔ بے تکلف دوستوں میں امام الجنائز کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہیداسلام علامہ ڈاکٹرخالدمحمودسومروشہید کی نمازجنازہ کے بعدعلاقہ بھرمیں اکثروصیت کے مطابق نمازجنازہ کی امامت کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے رہے۔ کچھ مقامی لوگوں کی وجہ سے بہت متفکرتھے، جوجہالت کاشکارہوکردائرہ اسلام کو چھوڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ مولانانے ہمیں فرمایاکہ میں انہیں تلاش کروں گااورجب تک ان سے بات ناہوآپ کوواپس نہ جا نے دوں گا۔ مغرب کے بعدہم دعامیں مصروف تھے کہ اچانک مولاناان گم گشتہ دوستوں میں سے ایک بھائی کو لے کرپہنچ گئے۔ ابتدائی تعارف کے بعدڈاکٹرآصف نے گفتگوکاسلسلہ شروع کیاتوابتدا میں ہی عقدہ کھل گیاکہ یہ لوگ ایک نئے فتنے کاشکارہیں جس کی ابتدا 2018ء میں ہوئی۔ ادیب نذیرنامی نفسیاتی مریض شخص کھٹانہ گجرات کا رہائشی تھا۔جس نے اپنافرضی نام احمدعیسی رکھاہواہے اورانٹرنیٹ پہ اپنے فتنے کودعوائے نبوت عیسویت ومھدویت کے عنوان سے نشر کر رہا ہے۔ یہ ساتھی اس کی گفتگوسن کر اس کے دھو کے کا شکارہوگئے۔ بھائی آصف صاحب نے کلام کیااس دوران مجھے بھی کچھ گفتگوکاموقع ملا۔ قرآن مقدس اوراحادیث طیبہ کی روشنی میں عقلی ونقلی دلائل سے آگاہ کیا۔ بفضل اﷲ دوگھنٹے گفتگوجاری رہی بالآخرفتنہ اجرائے نبوت مدعیٔ نبوت کاذبہ احمدعیسی کے دھوکوں کے شکار بھائی محمدابراہیم نے احمدعیسی پر لعنت بھیج کر مولانامسعوداحمد مولاناخدابخش سومرو مولاناعبداﷲ میرانی مولاناعبداﷲ گھوٹکی اورراقم کے سامنے ڈاکٹر محمد آصف کے ہاتھ پرقبول اسلام کر لیا۔ مولانامسعوداحمدنے کلمہ پڑھایا، دعا کروائی الحمدﷲ ہمارایہ سفراوریہاں کاقیام تکمیل تک پہنچا۔
29دسمبر2020ء کو اہل سندھ کی محبتوں شفقتوں سے لبریزآٹھ دن گزارنے کے بعدہماری واپسی کاسفرتھا۔ ملک بھرمیں سفرکی ترتیب رہتی ہے مگرجتنی محبت اہل سندھ بالخصوص مولاناسیف اﷲ شکارپوری، مولانا ناصر محمود سومرو، مولانا راشدمحمود سومرو، مولانا مسعود احمد سومرو، مولاعبدالقیوم آرائیں، مولاناعبداﷲ میرانی، مولانا خدابخش سومرو، عزیز القدر مولوی عبدالباری، مولوی عبدالحنان اساتذہ جامعہ اسلامیہ قدیم/جدید طلباء اور کارکنانِ جامعہ نے دی ہمیشہ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں گیں۔رات کو مولانا مسعوداحمدسومرو نے گاڑی والے کوکہہ دیاتھاصبح پانچ بجے لاڑکانہ کوخیرآبادکہہ کرسکھرکے لیے روانہ ہوئے۔
سکھرپہنچنے کے بعدسب سے پہلے رحمت عالم محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے مبارک وعظیم صحابہ کرام علیھم الرضوان کے مقابر کی زیارت کا ارادہ تھا۔ یہ عظیم صحابہ کرام جو ہزاروں میل کا سفر کر کے اس مٹی میں مدفون ہیں۔ جنہوں نے عرب کوچھوڑا جوارِرسول علیہ الصلاۃ والسلام سے دورہوئے نامعلوم کن صعوبتوں اورتکالیف کے ساتھ اس مقام تک پہنچے۔انھی حضرات کااحسان عظیم ہے کہ آج ہم دین مبین کی نعمت سے مالامال ہیں۔ سکھرسے لاڑکانہ جاتے ہوئے محبوب گوٹھ کے مقام پرسیدناعمروبن عبسہ رضی اﷲ عنہ، سیدناسہیل بن عدی رضی اﷲ عنہ، سیدنامعاذجہنی رضی اﷲ عنہ اوران صحابہ کرام علیہم الرضوان کے خاندان کے افرادکی قبورہیں۔جب سے سندھ میں دخل ہواذہن انہی مقابر کی زیارت کی خواہش سے لبریز رہا۔کہ وہ وقت کب آئے گاکہ قبورصحابہ حاضری دوں گا۔ صبح ہم روانہ ہوئے تومیں نے ڈرائیورکوکہاکہ قبورصحابہ پہ حاضری دینی ہے فجرکی اذانیں ہورہی تھیں کہ ہم قبورصحابہ پہ حاضرتھے۔ اﷲ اکبر یہ صبح کاوقت اوراذانوں کی گونج دماغ میں چودہ سوسال پہلے کے مناظر گھوم رہے تھے۔ سلام عرض کیا تلاوت کرکے ایصال ثواب کیا۔ اپنے سفرکی قبولیت کے لیے اﷲ کے حضوردعاکی۔
چودہ سوسال قبل یہ ہستیاں دعوت ودفاع اسلام کے لیے یہاں آئی تھیں، آج ہم کسی حیثیت میں بھی ان حضرات سے مشابہت کے مدعی نہیں مگر مقصد سفر ہمارا بھی دعوت ودفاع اسلام تھا۔ دعاکی یااﷲ ہمیں صحابہ کرام کے نقش قدم پہ چلادے۔ میں سوچ رہاتھاہم نہ محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کودیکھ سکے نااصحاب محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کادیدارکرسکے۔ ان کی قبورکودیکھ کرحالت عجیب تھی ایک منظردیکھ کرخوشی ھوئی کہ سندھ کی روایت کے مطابق اﷲ نے ان قبورکوشرک کااڈہ بننے سے بچایاہواہے۔ الحمدﷲ!
ماشاء اﷲ مین روڈپہ مدرسہ سیدناعمروبن عبسہ رضی اﷲ عنہ کے نام سے شاندارمدرسہ زیرتعمیرہے صبح کاوقت تھاہم مدرسے میں نہیں گئے۔ سکھرپہنچے اورلوکل تیزترین کھٹارہ سروس پہ رحیم یارخان ساڑھے بارہ بجے پہنچ گئے۔ مولانافقیراﷲ احرار بھائی سعیدنے استقبال کیااورمولوی طارق چوھان مرحوم کے ڈیرے پرلے گئے۔ جہاں نواسہ امیرشریعت سیدمحمدکفیل بخای اوردیگراحباب موجودتھے شاہ جی کی معیت میں مرکزاحرارجامعہ فاروقیہ میں پہنچے الحمدﷲ مجلس احراراسلاکے اکانو ے سالہ یوم تأسیس کے اجتماع میں شریک ہوگئے۔ پرچم کشائی سے پہلے راقم نے بھی گفتگوکی۔ جس میں مجلس احراراسلام کے شاندارماضی کاتذکرہ کیااورموجودہ دورمیں کام کی اہمیت اورکام کوبڑھانے کی ترغیب دی۔ شاہ جی نے سرخ ہلالی پرچم اورسبزہلالی پرچم لہرائے فضاتکبیروختم نبوت اوراحرارکے نعروں سے گونج اٹھی نمازمغرب پڑھ کرملتان کے لیے روانہ ہوئے رات دیرتک سیدعطاء اﷲ شاہ ثالث بخاری اورسیدعطاء المنان بخاری حفظھمااﷲ سے گفتگوہوتی رہی یوں یہ سفرملتان میں اختتام پزیرہوا فلہ الحمد والمنۃ۔
احرار رہنماؤں کا سات روزہ دعوتی وتبلیغی دورۂ سندھ
سید محمد کفیل بخاری اور ڈاکٹر محمد آصف کے فکر انگیز خطبات (رپورٹ: مولوی محمد فیضان)
مجلس احرار اسلام سندھ کے امیر مفتی عطاء الرحمن قریشی کی دعوت اور سرپرستی میں مرکزی نائب امیر سید محمد کفیل بخاری اور مرکزی ناظم دعوت و ارشاد ڈاکٹر محمد آصف نے صوبہ سندھ کا سات روزہ دعوتی وتبلیغ دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ 14جنوری کو ڈاکٹر محمد آصف اور راقم محمد فیضان ملتان سے سکھر کے لیے روانہ ہوکر، رات تقریباً سوا سات بجے سکھر پہنچے۔ ہمارے میزبان بھائی محمد آصف ایڈووکیٹ گاڑی لے کر آ گئے اور ہم20۔ کلو میٹر کا سفر کر کے خیرپورمیرس پہنچے۔ بھائی آصف کے گھر قیام کیا۔15جنوری کو مرکزی جامع مسجد خیر پور میرس میں ڈاکٹر محمد آصف صاحب نے جمعہ کا بیان کیا، جمعہ کے بعد خطیب صاحب کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا اور سوال وجواب کی نشست ہوئی تقریباً سو اتین بجے مسجد البدر روانہ ہو گئے جہاں پر جمیعت علماء اسلام خیرپور تحصیل سطح کا اجلاس چل رہا تھا، بعد از اجلاس ڈاکٹر محمد آصف صاحب نے شرکاء اجلاس علماء کو فتنہ قادیانیت کے نقصانات وخطرات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کو اسلام کی دعوت و تبلیغ کے عنوان پر تفصیلی گفتگو کی۔ بعد نماز مغرب مسجد عرفات اور بعد نماز عشاء لقمان پھاٹک جامع مسجد صدیقیہ میں عوامی اجتماعات ہوئے جن میں تفصیل کے ساتھ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ضرورت واہمیت پر بات ہوئی۔
16جنوری بروز ہفتہ پہلا بیان جامع مسجد المومن خیرپور میں ظہر کی نماز کے بعد ہوا جبکہ دوسرا بیان جامع مسجد قباء میں ہوا۔ بعد ازاں جامعہ حمادیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ خیر پور کا ایک قدیم اور معروف دینی ادارہ ہے جو1972 ء میں قائم ہوا۔ دارالافتاء میں جامعہ کے ناظم اعلی جناب مفتی اصغر علی ارائیں سے تفصیل کے گفتگو ہوئی اور مفتی صاحب نے بہت اکرام کیا۔ خیرپور میرس کے ایک اور قدیم ادارے جامعہ حمادیہ پہنچے۔ یہ ادارہ اول الذِکرسے بھی پہلے قائم ہوا۔یہاں عصر کی نماز کے بعد تحفظ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داری کے عنوان پر ڈاکٹر آصف صاحب کی گفتگو ہوئی۔ یہاں سے فراغت کے بعد معروف دینی ادارے جامعہ حیدریہ پہنچے۔ مغرب کے بعد جامعہ کے طلباء سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے متعلق تفصیلا گفتگو ہوئی اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلا.
17جنوری کو خیرپور سے کراچی کیلئے روانہ ہوگئے اور رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کراچی سہراب گوٹھ پہنچے۔18 جنوری کا دن امیر سندھ مفتی عطاء الرحمن قریشی صاحب کے ادارے میں جامعہ عائشہ صدیقہ میٹروول 1سائٹ ٹاؤن میں رہے۔ کارکنان سے مشاورت اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔18ء جنوری کی دوپہر جناب سید محمد کفیل بخاری نائب امیر مجلس احرار اسلام پاکستان بھی ملتان سے کراچی پہنچے۔ امیر سندھ مفتی عطاء الرحمن قریشی صاحب نے ائرپورٹ پر اُن استقبال کیا اور وہ بھی جامعہ صدیقیہ تشریف لے آے۔ 19 جنوری کو ڈاکٹر محمد آصف، بھائی محمد آصف ایڈووکیٹ اور راقم محمد فیضان مطالعاتی دورے پر جا معۃ الرشیدپہنچے۔ مہمان خانے میں حضرت مولانا مفتی محمد صاحب سے تعلیمی نظام کے حوالے سے بہت مفید گفتگو ہوئی۔ مولانا افتخار صاحب نے دارالافتاء کا دورہ کرایا۔ظہر کی نماز کے بعد مفتی طارق مسعود صاحب کے ساتھ فتنہ قادیانیت کے تعاقب اور دعوت اسلام کے عنوان پر تفصیلی گفتگو اور تبادلہ خیال ہوا۔ مولانا مفتی انور غازی صاحب کے ہمراہ جے ٹی آر میڈیا ہاؤس کے سٹوڈیو اور مختلف شعبہ جات کا دورہ کیا۔اس دوران عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرگرمیوں اور ان سے بچنے کے حوالے سے ہر دو حضرات کے ساتھ تبادلہ خیال بھی ہوا۔بعدنماز مغرب جامع مسجد عائشہ صدیقہ میٹروول میں ایک نشست منعقد ہوئی جہاں ڈاکٹر محمد آصف صاحب اور سیدمحمد کفیل بخاری صاحب نے بیان کیا۔
اگلے روز مجلس احرار اسلام کراچی کے رہنماقاری علی شیر قادری صاحب کے مدرسہ سیف الاسلام پہنچے جہاں دو دن قیام رہا۔ اسی دن ان کے مدرسہ میں ظہر کی نماز کے بعد ڈاکٹر آصف صاحب نے طلباء سے تربیتی گفتگو کی۔جبکہ عشاء کی نماز کے بعد جامع مسجد فاروقیہ میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے عنوان پر بیان ہوا۔مجلس احرار اسلام کراچی کے ناظم بھائی شفیع الرحمن بھی ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔
20ء جنوری کی صبح رانا محمد قاسم کی دعوت پر بسم اﷲ مسجد بھینس کالونی میں علماء سے ملاقات، تحفظ ختم نبوت اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کے عنوان پر گفتگو۔ علاقہ کے علماء کی کثیر تعداد شاہ جی سے ملاقات کے لیے موجود تھی۔ بعد العصر مفتی عطاء الرحمن قریشی صاحب کے ادارے مدرسہ فلاح دارین گلشن عمرحب چوکی، جامع مسجد الفلاح میں جناب سید محمد کفیل بخاری نے درس قرآن دیا۔آپ نے شہید ناموس صحابۂ مولانا ڈاکٹر محمد عادل رحمۃ اﷲ علیہ کے ادارے جامعہ فاروقیہ فیز 2میں نماز مغرب کی امامت کرائی۔ بعد نماز مغرب طلباء و اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا سلیم اﷲ خان رحمۃ اﷲ اور ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اﷲ علیہ کی دینی، تعلیمی اور ملی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمۃ اﷲ علیہ کے لائق فرزند مفتی محمد عمیر عادل صاحب اور اساتذہ سے ملاقات، اظہار تعزیت ،جامعہ کے نظم ونسق اور تعلیمی نصاب ونظام سے متعلق سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ حضرت شیخ سلیم اﷲ خان اور ڈاکٹر محمدعادل شہید رحمھم اﷲ کے مزارت پر حاضری ودعا کے بعد رخصت ہوئے۔ 21جنوری کو صبح دس بجے مفتی محمد قاسم عباسی،مفتی محمد خالد عباسی اور مفتی محمد حذیفہ بنوری کی دعوت پر جامعہ عربیہ عباسیہ، جامع مسجد شہزادہ گورو مندر میں سید محمد کفیل بخاری نے فضلیتِ علم، احترام استاد اور عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت پر طلباء سے خطاب کیا۔ اسی روز دوپہر کو جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولاناعبدالکریم عابد کے ہاں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری ، مولانا عطاء الرحمن اور دیگر قائدین جمعیت سے ملاقات ہوئی۔ 5بجے سہ پہر مزار قائد کے سامنے جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام اسرائیل نا منظور ملین مارچ تھا جس میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر سیدمحمد کفیل بخاری نے ولولہ انگیز خطاب کیا۔ نماز مغرب جامعۃ العلوم الا سلامیہ بنوری ٹاؤن کے استاد مولانا اسعد مدنی کے ہاں اداء کرنے کے بعد جامعہ میں آگئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا محمد رضوان اور دیگر اساتذہ سے ملاقات کے بعد حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نور اﷲ مرقدہٗ کے نواسے حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن رحمانی کی خانقاہ حاضری ہوئی۔ جہاں خانوادۂ بنوری اور دیگر علماء موجود تھے۔ حضرت پیر عزیز الرحمن ہر دل عزیز اور زندہ دل شخصیت ہیں۔ شاہ جی کی کراچی آمد پر وہ اپنے خاندان کے حضرات کے علاوہ دیگر علماء کو بھی جمع کرلیتے ہیں۔
ناظم جامعہ حضرت مولانا سید سلمان یوسف بنوری، محترم احمد بنوری، مفتی محمد حذیفہ بنوری، مولانا محمد حارث بنوری، مولانا یحییٰ لدھیانوی(بن مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اﷲ) اور دیگر علماء و احباب سے طویل نشست میں دینی وعلمی، تاریخی وادبی اور سیاسی مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ بعدازاں حضرت پیر عزیز الرحمن رحمانی نے بہت پر تکلف عشائیہ دیا۔ 22جنوری کی صبح بھائی محمود کے ہاں ناشتہ، احباب و علما ء سے ملاقات کے بعد مفتی عطاء الرحمن قریشی صاحب کی جامع مسجد الفلاح میں سید محمد کفیل بخاری اور مولانا احتشام الحق کے ہاں مسجد داؤد میں ڈاکٹر محمد آصف نے اجتماعات جمعہ سے خطاب کیا۔ حضرت پیر عزیز الرحمن رحمانی مدظلہ نے کمال شفقت اور مہربان فرمائی۔ وہ اپنی گاڑی لے کر بھائی محمد ارشد کے ہاں ناظم آباد پہنچے۔ جناب سید محمد کفیل بخاری اور دیگر رفقاء کو لے کر نماز فجر کے وقت رحیم یار خان پہنچے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں جزاء خیر عطاء فرمائے۔مجمو عی طور پر اکابر احرار کا دعوتی وتبلیغی دورۂ سندھ کا میاب رہا۔ قادیانیوں کو اسلام کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے بہت مفید مشورے ہوئے او رعملی اقدامات کے لیے علماء واحباب نے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔