شیخ راحیل احمد مرحوم
دونوں طرف یعنی میرے مسلمان بھائی اور میرے سابقہ قادیانی دوست یہ سوال پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے، کیونکہ مسلمانوں کے لیے ایک واضح اور دوٹوک بات ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور نبوت کادعویٰ کرنے والا کاذب ہے۔ اور قادیانی اپنی تربیت کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ وہی ناجی مسلمان ہیں باقی مرزا صاحب کو نہ جاننے والا کافر ہے اور اصل اسلام کا منکر ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سوا ل پچھلے ایک سو سال سے بہت سے لوگوں کومصروف رکھے ہوئے ہے مسلمانوں، اورعیسائیوں، دوسرے مذاہب اورقادیانی غیرمسلموں کو آئندہ بھی ایک عرصہ تک مصروف رکھے گا۔ بعض کے نزدیک اس مسئلہ کافیصلہ دیاجا چکا ہے لیکن فیصلہ دینا اور اس پر عملدر آمد کرانا دومتضاد باتیں ہیں اوراس دنیا میں بہ یک وقت آپ چاہیں بھی تو مختلف ملکوں کے مختلف قوانین کی وجہ سے اس پر عملدر آمدنہیں کر واسکتے۔ اس لیے جب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ حل طلب ہے تو وہ کسی حد تک صحیح ہیں اور جماعت احمدیہ کے نزدیک، سرکاری طور پر یہ مسئلہ ہے ہی نہیں بلکہ صرف چند ملاؤں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ موجود ہے اور اسی تنازعہ کی آڑ میں ہی یہ مذہبی ٹو لہ، اور اس کے حوالی موالی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔ بلکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس تنازعہ کی وجہ سے ہی ان کی بقا ہے۔
میرے نزدیک اس تنازعہ کا فیصلہ علمی اور کسی حدتک ذہنی طور پر ہوچکا ہے کہ اسلام اور جماعت احمدیہ دوعلیحدہ وعلیحدہ مذہب ہیں۔ لیکن آجکل کا پڑھا لکھا مسلمان طبقہ، کئی وجوہات کی بنا پر( جس میں بعض علماء کی کچھ غیر ذمہ دارانہ باتوں تقریروں کا بھی دخل ہے) علماء کے طبقہ کو مجموعی طور پر پسند نہیں کرتا۔ اور معاشرے کے یہ لوگ اپنی علماء سے ناپسندیدگی کی وجہ سے قادیانیوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ یا ان کی بعض بظاہر خوشنما منطق اور مذہبی معاملات میں اپنی کم علمی کی وجہ سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔ اور اگر قادیانیت میں نہ بھی داخل ہوں تو ان کو کم ازکم مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے لگ پڑتے ہیں۔
اسلام کو خدا تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت کی بھلائی کے واسطے متعارف کروایا۔ لیکن قادیانیت یا احمدیت کوشیطان نے مرزا غلام احمد آف قادیان کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی انتشار کے دور میں متعارف کروایا اور ہر طرح کے دجل، تلبیس ، فریب اور تحریف سے، نیزا س وقت کی حکمران انگریز حکومت کی کاسہ لیسی اور چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے اس آکاس بیل کو اسلام کے درخت پرچڑھا دیا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ آکاس بیل اگر کسی درخت پر چڑھ جائے تو اس کو اس درخت سے ہٹانابڑا مشکل کام ہوتا ہے۔
اس تنازعہ میں اسلام ایک مظلوم اورقادیانیت المعروف بہ احمدیت ایک ظالم اور غاصب فریق ہے۔ہر تنازعہ کی طرح اس تنازعہ کے بھی بنیادی طور پر دو فریق ہیں ایک مظلوم اسلام اور دوسرا ظالم احمدیت، لیکن دجل کی کامیابی دیکھیں کہ باوجود قادیانیت المعروف بہ احمدیت ظالم ہونے کے اپنے آپ کومظلوم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ اور مزید تکلیف دہی کی بات یہ ہے کہ احمدیوں کی ایک بھاری تعداد کو بھی اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ وہ مظلوم نہیں بلکہ بظاہر مظلومیت کے نام پر اسلامی عقیدہ، اجماع امت اور دیانت وشرافت کے غاصب وظالم بنا دیئے گئے ہیں۔ احمدیوں کو بتایا جارہا ہے کہ تم عیسائی دنیا کے لیے خطرہ ہو اور تمہیں ان (عیسائیوں) سے مقابلہ کے لیے تیار کیا جائے گا۔ حالانکہ عیسائیت کو احمدیوں سے کوئی خطرہ نہیں، نہ عقلی طور پر، نہ روحانی طورپر، نہ مالی طور پر، نہ سیاسی طورپر، بلکہ ان کی قیادت تو عیسائیوں اور ان کی حکومتوں کے تلوے ہی نہیں اور بھی بہت کچھ چاٹتی ہے اور ان کے نبی کے تو ایک مجسٹریٹ کے بلاوے پر ہی اوسان خطا ہوجاتے تھے۔
احمدی جماعت خطرہ ہے تو صرف اسلام کے لیے، صرف ایمان کے لیے، صرف شرافت کے لیے، صرف حیاء کے لیے ان میں سے بہت سوں کو اندازہ ہوتا بھی ہے تو وہ مالی مفادات،معاشی مجبوریوں، رشتہ داریوں یا پھر اپنی بزدلی کی وجہ سے اس مذہبی جاگیر دار خاندان کے ہاتھوں عزت کے نام پر بے عزت ہور ہے ہیں، معاشی فوائد کی بجائے اپنے منہ کا آخری لقمہ بھی ان کو چندہ کے نام پر دے رہے ہیں۔ امن کی بجائے (قادیانی گسٹاپو کی وجہ سے) ایک دوسرے سے ڈرتے ہوئے (کہ پتہ نہیں کو ن امور عامہ کوہماری بات پہنچادے) بے سکونی کی حالت میں وقت گزار رہے ہیں۔ علم کے نام پر اندھی پیر زادہ پرستی کی جہالت کو سینے سے لگا رہے ہیں۔ کلمہ حق کہنے کی بجائے منافقت کے نام پر آہ کرنا بھی بند کردیا ہے۔ جنت میں گھر کے نام پر اس دنیا میں اپنی اور بزرگوں کی بنائی ہوئی جائیدادیں مافیا کے ہاتھوں ’’وصیت‘‘ کر رہے ہیں۔
احمدیہ جماعت کی قیادت کا یہ لالچ اتنا بڑھ گیا ہے اور زیادتی کی انتہا کر رہے ہیں کہ ۱۵ سالہ بچوں سے وصیت فارم بھروار ہے ہیں جن کو ابھی برے بھلے کی بھی تمیز نہیں۔ عام احمدی اپنی اولادوں کو خود داری اور آزادی کاسبق سکھانے کی بجائے اس جماعت کے بزر جمہروں کو غلامی اور بے غیرتی کی تربیت دیتے ہوئے دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ مذہبی گماشتے، احمدی کہلانے والوں کے دلوں میں عشق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا کرنے کی بجائے ’’عشقِ عاشقِ محمدی بیگم‘‘ پیدا کررہے ہیں، جو کہ نہ صرف ایک جھوٹا نبی تھا بلکہ ایک گندہ اور جھوٹاعاشق بھی تھا، سچا ہوتا توخدا اس کو اس کے اس عشق میں اتنا نا کام اور ذلیل وخوار نہ کرتا۔ احمدی کہلانے والوں کے دلوں میں نفسیاتی حربوں سے احساس خودی پیدا کرنے کی بجائے احساس زیاں بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اس مذہبی ٹولے نے احمدی کہلانے والوں کو عزت اور آبرو سے جینے کے اسباب مہیا کرنے کی بجائے پوری اسلامی دنیا میں ایک گالی بنا دیا ہے اور یہ گالی ہر احمدی اس طرح محسوس کرتا ہے کہ اگر آپ اس کو قادیانی کہیں تو اس لفظ پروہ چڑتاہے اور کہتا ہے کہ مجھے قادیانی کیوں کہتے ہو حالانکہ مرزا غلام احمد صاحب کے بقول قادیانی ان کا الہامی نام ہی نہیں بلکہ قادیان کا نام اﷲ نے کشفی طور پر قرآن کے اندر دکھایا ہے اور اگر آپ مرزائی کہہ دیں تو وہ اورغصہ میں آئے گا اور پوچھے گا کہ مجھے مرزائی کیوں کہتے ہو؟ اگرمرزا غلام احمد نبی ہیں تو مرزائی ایک مقدس لفظ ہے اور مقدس لفظ سے چڑنا کیا معنی؟
یورپ میں قیام کا حق دلانے کے نام پرہزاروں کو گھر سے بے گھر کردیا ہے اور ہزاروں آسو دہ گھرانوں کو نان جویں کا بھی محتاج بنا دیا ہے، اور ہزاروں پاکستان میں معقول ذرائع ہونے کے باوجود، عیسائیوں کی زکوٰۃ پریورپی ملکوں میں زندگی کے سانس بتا رہے ہیں، صرف اس خاندان کے لالچ کی وجہ سے، کہ پاکستان میں اگر کوئی سو روپیہ دیتا تو یہ مافیا اس سے یہاں سو ڈالر لیتا ہے۔ اور سو روپے اور سوڈالر میں سو گنا فرق ہے۔