مفکر احرار چوہدری افضل حق رحمہ اﷲ
(دسویں قسط )
مہاتماگاندھی کا اعلان:
مہاتماگاندھی بڑے دھڑلے کا آدمی ہے جس کے برخلاف ہوجائے اس کو خاک میں ملاکر چھوڑ تا ہے۔ اہنساکا قائل ہونے کے باوجود سیاسیات میں وہ رحم اور درگزر نہیں جانتا۔ وہ ڈھیل اسی وقت تک دیتا ہے جب اس کی اپنی تیاری مکمل نہ ہوئی ہو۔ باتیں میٹھی میٹھی اور دھیرے دھیرے کرتا جاتا ہے اور سج سج آنکھ بچا کر اپنا ہتھیار سنبھالتا جاتا ہے اور بغیر للکارے اس زور اور قوت سے حملہ آور ہوتا ہے کہ مخالف بے خبری میں مارا جاتاہے۔ ہندوستان کی یہ عظیم شخصیت برمحل وار کرنا جانتی ہے۔ جب ہم نے علیحدہ انتخاب کی قرارداد منظور کی تو مہاتماگاندھی خاموش رہے۔ لندن میں آپ نے سنا کہ احرار کشمیرپر چڑھ دوڑے رئیس ہندواور احرار مسلمان تھے۔ ہماری تحریک کو آسانی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکتا تھامگر اس مرد دانا نے اس بات سے پہلو بچایا، لیکن اعلان کیا کہ یہ تحریک انگریز کی تقویت کے لیے شروع کی گئی ہے۔ اس زمانے میں اس داؤسے کوئی بچتا تھا؟ اس داؤ کا گھاؤ گہراہوا۔ سب ہندو، مسلمان کانگریسی ہمیں شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے جو تھوڑے بہت کانگرسی ہم میں شامل تھے وہ اداس ہو کر اباسیاں لینے لگے ۔ گجرات کے ایک عزیز نے تو اعلان کردیا کہ میں نے تحریک کشمیر میں شریک ہو کر ہمالیہ پہاڑ کے برابر غلطی کی ہے۔ اس کا تعلق گہرے رنگ کے کانگرسیوں سے تھا۔ اس کا یہ اعلان رنگ لایا، گجرات کے مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے حوصلے پست ہو گئے۔ بعض کانگرسی بزرگوں نے علانیہ اپنے زیرِ اثر لوگوں کو ورغلا یا کہ وہ معافی مانگ کر جیلوں سے باہر آجائیں۔ غرض کچھ دنوں عجب انتشار سارہا۔ سیالکوٹ کا کانگرسی طبقہ الگ جان کا عذاب اور دماغ کی پریشانی کا باعث بنا، باوجود اس کے تحریک شہر سے نکل کر گاؤں میں پھیلتی گئی۔کانگرسی مسلمان کا ذہن بے حد متشکِک اورمتشدد ہے ۔ ۱۹۳۵ء سے پہلے لوگوں کو سی۔ آئی۔ ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگرسی مسلمان اپنے دعوے اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ باوجود اس امر کے کہ گاندھی جی اور مالوی جی نے نہرورپورٹ کے خلاف سکھوں کو حوصلہ دلایا، رپورٹ کو غرقِ راوی کیا، سارے ہندو پریس نے سکھوں کے رویہ کی تعریف کی، مگر مسلمان کانگرسی بھائیوں کا غصہ احرار پر ہے کہ انھوں نے کیوں علیحدہ انتخاب کا ریزولیوشن منظور کیا۔ گویا ہندوستان کی ہر قوم نہرورپورٹ کے حق میں تھی، صرف احرار نے نہ مان کر آزادی ہند کے حصول میں رکاوٹ ڈالی۔ پھر ان کانگرسی احباب نے اور غضب ڈھایا اس دروغ بے فروغ کو دنیا میں اچھالا کہ احرار نے گلگت انگریزوں کو دلایا۔ کئی سادہ مزاج اس سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کر پیٹ پکڑے آئے کہ بھیا احرار والو کہیں یہ غضب نہ کرنا کہ گلگت انگریزوں کو دلوادو۔ میں نے کہا کہ حضرت یہ گلگت ہے کہاں؟ بولے کہ کشمیر ہی میں ہوگا۔ تو پھر میں نے کہا بتایئے کہ کشمیر آزاد حکومت ہے؟ بولے نہیں انگریزوں کے ماتحت ہے۔ تو میں نے کہا جب ساری ریاست ہی انگریزوں کے ماتحت ہے تو اس کا حصہ بھی انگریزوں کے ماتحت ہے، اس کے لینے دینے کا سوال کیا ہے؟ جھوٹی خبروں کے اصرار اور تکرار کو بھی پروپیگنڈے کے فن کا اہم جزوقیاس کیا جاتا ہے۔ انسان کچھ وقت کے لیے دروغ بے فروغ کو بھی سچائی کی جان سمجھنے لگ جاتا ہے۔ بعض وقت تو دوسروں کے کہے بے وقوف بن کر اپنی پگڑی میں ہاتھی ٹٹولنے لگ جاتا ہے۔ کیونکہ معتبر راوی کہہ دیتا ہے کہ بھلے مانس تیری پگڑی میں ہاتھی ہے۔ کانگریسی مسلمانوں نے بھی بعض کے کان میں یہی پھونک دیا کہ بھیا مسلمانو احرار انگریز کے ایجنٹ ہیں، یہ ریاست سے گلگت دلارہے ہیں۔ اس وضاحت کے بعد گویا ان کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ ہوش میں آگئے۔ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اس گروہ کا بھی کام تھا جو خلافت اور کانگرس میں ہمارا سردار اور طبقۂ اولیٰ تھا۔ جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔ احرار کایوں یک بیک فروغ انھیں ایک آنکھ نہ بھایا۔ یہی گروہ شہید گنج میں کھل کھیلا۔ انھیں باربار غصہ آتا تھا کہ یہ غریبوں کا حقیر گروہ کیا سے کیابنتا جارہا ہے۔
حضرت مفتی کفایت اﷲ او رمولانا احمد سعید:
علماء کاایک حصہ امراء کے زیر اثر سرمایہ دارانہ نظام کا ایجنٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ کچھ بزرگ باقی ہیں جو روح اسلام سے سرشار ہیں۔ ان میں سے حضرت مفتی صاحب او رمولانا احمدسعید کو احرار نے ہمیشہ عزت اور محبت کی نظر سے دیکھا ہے۔ جس کے لیے دل میں محبت ہو،انسان چاہتاہے کہ دنیا کی سب عزتیں اسی کو ملیں۔ کئی اونچے طبقے کے احباب اس موقعہ پر حکومت اور احرار کے درمیان صلح کا سلسلہ جاری کرنا چاہتے تھے۔ ریاستی حکام اورانگریزی حکومت بہت بیتاب تھی کہ یہ طوفان ذراتھم جائے۔ حکومت کا منشاء معلوم کر کے دہلی اور لاہور کے چند خان بہادروں نے درمیان داری شروع کردی۔ طرفین ایک دوسرے کے دم خم کا اندازہ لگانے لگے، ریاست تو دم توڑ چکی تھی۔ کون بے وقوف ہے جو احرار کو انگریزی حکومت کا مدمقابل سمجھے مگرجو عاشق کسی کے سنگ آستاں پرسر پھوڑنے کا ارادہ کرلے اس کاکوئی کیا بگاڑے؟ حکومت کا مقابلہ گوہمارے بس کی بات نہ ہو مگر:
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
کے مصداق پرامن جنگ کو جاری رکھتا احرار کا مرغوب کھیل ہے۔ حکومتیں ہمیشہ کنواری مریم کی طرح اپنے دامن پر بدنامی کے دھبے سے ڈراکرتی ہیں۔ ہماری قربانیاں مسلمان کے لیے سرخ روئی کا سامان تھیں لیکن گورنمنٹ کے لیے بدنامی کا داغ۔ اس لیے انگریزی حکومت ریاست سے زیادہ پریشان تھی۔ اس اصول سیاست کے علاوہ کانگرس کی سول نافرمانی کے مقابلے میں احرار کی تحریک زیادہ انقلابی تھی۔ اور زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی۔ کانگرس کی ’’سوسنار‘‘ کی کے مقابلے میں احرار کی سول نافرمانی ’’ایک لوہار‘‘ کی معلوم ہوئی۔
انگریزی حکام کو اس آغاز کا انجام سمجھ نہ آتا تھا۔ اگر کسی نے احرار کی اس تحریک کو نہیں دیکھا۔ تو ۴۵؍۵۰ ہزار انسانو ں کا ایک صوبے میں زنداں نشین ہونے کا تصور کر کے قیاس کر لے کہ مسلمانوں کے جو ش اور عوام کی طبیعت کا کیا حال ہوگا؟ کانگرس کی کسی سول نافرمانی میں ۸۰ ہزار سے زیادہ ہندو اور مسلمان اور دوسری اقوام مل کر ایک سال تک قید نہیں ہوئے۔ پنجاب میں تین ماہ کے اندر احرار نے ۵۰ ہزار نفوس کو جیل بھجوا دیا۔ غرض حکومت انگریزی بے تاب تھی کہ احرار سے کسی طرح گلو خلاصی کرائے۔ ہم نے اس عزت اور محبت کی بنا پر جو ہمارے دل میں مفتی صاحب اور مولانا کی تھی اپنی طرف سے درمیان وار پسند کیا۔ ہماری نظر میں ان کی درمیان داری اس لیے پسندیدہ تھی کہ وہ اقتصادی لحاظ سے احرار کے درجے میں تھے۔ طبقہ اولیٰ اور حکام نے ان کی درمیان داری کو پسند تو نہ کیا، مگر جو چیز احرار کو پسند تھی وہ اس کو رد کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے۔ حالات کی مجبوری کی بنا پر حکومت اور ریاست نے ان ہی دو اصحاب کے ذریعے بات چیت کرنا منظور کر لیا۔ چنانچہ مفتی صاحب اور مولانا صاحب لاہور آگئے، خط کتابت شروع ہوگئی۔ زمانہ انگریزی کا، علماء اس زبان سے ناواقف، عجب پیچ پڑا مفتی صاحب اردو میں لکھتے تھے، ریاست پنجاب گورنمنٹ کی وساطت سے انگریزی میں جواب دیتی تھی۔
غرض صلح کی مبادیات طے کرنے میں ایک مہینہ گزرگیا۔ اتنے میں کانگرس کی ستیہ گرہ شروع ہوگئی صحیح الفاظ میں گورنمنٹ نے کانگرس کو ستیہ گرہ پر مجبور کر دیا۔ لارڈ ارون جا چکا تھا، ہندوستان کا انگریز عنصر گاندھی ارون صلح کو سلطنت کے وقار کے خلاف سمجھتا تھا۔ نیا وائسرائے ان کے ڈھب پر آگیا۔ حکومت نے نہ صرف سختی کا آغاز کیا بلکہ کانگرس کوذلیل کرنا شروع کیا ۔ آخر مرتا کیا نہ کرتا کانگرس بڑی بددلی سے ۲ سال کے بعد سول نافرمانی پر مجبور ہوئی۔ جمعیت العلماء کانگرس کے ساتھ پورے طور پر وابستہ تھی، مفتی صاحب اور مولانا صاحب جمعیت العلماء کے صدر اور سیکرٹری تھے۔ صلح کا مشن ابھی ادھوراہی تھا کہ انھوں نے لاہور کے ایک جلسے میں کانگرس کی جنگ میں پوری شمولیت کا اعلان کر دیا۔ حکومت پنجاب اور حکومت ہند کی نظر برابر تحریک احرار اور ان بزرگان کی طرف لگی ہوئی تھی۔ امراء کو یہ موقعہ مل گیا، وہ پاؤں جلی بلی کی طرح لاہور اور دہلی بھاگے بھاگے پھرے۔ حکومت کو ڈرایا کہ احرار سے صلح اور وہ بھی جمعیت العلماء کی معرفت سانپوں کی دودھ سے پرورش کرنا ہے۔ اس سے تو کانگرس مضبوط ہوگی۔ جب صلح کے سلسلے کے دوران میں مولانا اورمفتی صاحب نے نعرۂ جنگ بلند کردیا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے احرار کا سر کچل دے۔ یہ غریب لوگ سر پر چڑھے تو آپ کا ہمار اکہیں ٹھکانا نہیں۔ میں نے دیکھا کہ ان دنوں مرزا بشیر محمود قادیانی بے حد سرگرم ہو گیا۔ ایسا موقعہ مخالف کو مل جائے تو وار کرنے سے کب چوکتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ پنجاب گورنمنٹ کارویہ سخت ہوگیا ہے۔ سیاسیات میں معمولی سا واقعہ کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوران میں براہ راست مولانا مظہر علی سے حکومت کے بعض حامیوں نے سلسلہ جنبانی کی، لیکن مولانا کا رویہ سخت تھا۔ وہ ان دنوں جموں جیل میں تھے۔ مجھے دوست دشمن (ٹھنڈے)کافوری مزاج کا بے ضرر شخص سمجھتے ہیں۔ صلح کی گفتگو میں بعض اوقات ایسے لوگوں کے ذریعے مفید نتائج پیدا ہو جاتے ہیں۔ قرائن سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ حکومت مفتی صاحب اور مولانا صاحب کا کام چلتے دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ احرار ورکنگ کمیٹی میں سے ایک میں اکیلا باہر تھا میں دونوں بزرگوں کو نظر انداز نہ کرنا چاہتا تھا۔ جب باتوں باتوں میں حکومت نے میری درمیان داری کی حوصلہ افزانی کرنا چاہی تو میں نے کہا کہ مجھے سلسلہ صلح آغاز کرنے کا پارٹی نے کوئی حق نہیں دیا۔ کہا گیا کہ تم جب چاہو جاکر پارٹی کے سرداروں سے مل سکتے ہو۔ میں نے بیماری کا عذر کر کے مختلف جیلوں میں جانے سے انکار کیا۔ جواب ملا کہ ورکنگ کمیٹی کے سارے ممبروں کو لاہور میں جمع کردیا جائے گا۔ مگر ان دو بزرگوں کے بغیر میں نے کسی سے ملنے کی حامی نہ بھری۔سیاسی گفتگو میں اشارات سے زیادہ کام لیا جاتاہے۔ آنکھوں کی گردش اور چہرے کے شکن دل کی کیفیتوں کو بے نقاب کردیتے ہیں جن کا بغور مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ الفاظ کی بجائے لفظوں کی روح سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کھل کر مفتی صاحب اور مولانا صاحب کے خلاف کبھی کچھ نہ کہا، لیکن اشاراتی گفتگو صاف گوئی سے زیادہ بلیغ تھی۔
سرسکندر حیات خان ان دنوں حکومت پنجاب کے ممبر تھے۔ وہ اور سر جافرے گورنر پنجاب گورنمنٹ ہند کے نمائندے تھے۔ وہ اس سلسلہ صلح کے نگران تھے۔ سرسکندر حیات کا رویہ صلح کے بارے میں قدرتی طور پر ہمدردانہ تھا۔ اگرچہ وہ بھی مفتی صاحب اور مولانا صاحب کی کانگرسی ہمدردیوں کے اعلان پر خوش نہ تھے مگر میری مشکلات کو سمجھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہو گئی تھی کہ اب اچانک ریاست کے حالات بہت بگڑ گئے ۔ احرار کے شاندار اقدام نے ریاستی مسلمانوں کی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کر دیا تھا ۔ ریاست کے اندر ایک عام اشتعال پایا جاتا تھا۔ صلح کا جلد ہوجانا ضروری تھا۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ کہیں بغاوت کی آگ اچانک نہ بھڑ ک اٹھے۔ اس لیے حضرت مفتی صاحب اور مولانا صاحب کو شامل صلح رہنے پر بھی اب زیادہ اعتراض نہ تھا۔ امراء کے لیے غریب کی قیادت اور اس کا عزیزِ جہاں ہونا بے حد سوہانِ روح ہوتے ہیں۔ جو ملا اس نے یہی سمجھا یا ان مولانا لوگوں کو زیادہ بڑھانا ٹھیک نہیں۔ ممکن ہے کہ انگریزی خواں طبقے کو عربی کے علماء کی رہنمائی پر اعتراض ہو، جو علی گڑھ اور دیوبند کی تحریکات کا قدرتی نتیجہ ہے۔ مگر میں نے ساتھ ساتھ ان کے اعتراض کے پردے میں طبقاتی نفرت کو بھی محسوس کیا۔ چونکہ میں خود امراء میں سے نہ تھا اس لیے کسی نے بات کھل کر نہ کہی کہ موری کی اینٹ چوبارے پر نہ لگاؤ اور غریب کا درجہ اتنا نہ بڑھاؤ کہ وہ باوجود غریب ہونے کے امور ریاست و حکومت میں جگہ پالے۔ جو امراء کے خیال میں ان حضرات میں کمزور ی تھی وہی ہمارے نزدیک ان کی محبوبیت تھی۔ سچ تو ہے کہ ہم ان کو آگے بڑھانا اسی لیے چاہتے تھے کہ وہ احرار جیسے غریب تھے۔ بڑے لوگ موٹر میں بیٹھے ہو اسے باتیں کرتے بھی جارہے ہوں تو غریب دور کھڑا سلام کے لیے جھک جاتا ہے۔غریب کی عزت اور اس کی حوصلہ افزائی پیغمبری کا جزو ہے۔ اسی لیے پیغمبر پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوار کے لیے پیدل کو سلام کرنا ضروری قرار دیا ہے لیکن عوام کے مذہب کا ٹاٹ الٹ کر سرکار دو عالم صلی اﷲ ولیہ وسلم کی وفات ہونے کے تیس برس بعد سرمایہ داری اور قیصریت کو رواج دیا گیا(۱)۔ اب غریب کا امیر کو پیدل کا سوار کو سلام کرنا ضروری قرار پاگیا۔ غریب نواز اسلام کی کیا پوچھ ہے؟ جو کسی طرح چاندی سونے کے سکے جمع کر لے اس کا سکہ چلتا ہے۔ اسے فی زمانہ بنی نوع انسانی سے ہمدردی کے بجائے حکومت کا حق مل جاتا ہے۔
میر پور میں بغاوت:
گورنمنٹ پنجاب نے ورکنگ کمیٹی کے ممبر ان کو لاہور میں جمع کرنے کے احکام جاری کر دیئے مگر علاقہ میر پور کے ریاستی علاقے میں پر جوش پہاڑی لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ موت کھل کھیلی، تھانے چوکیاں جلادی گئیں۔ ہندو اخبارات کا قول ہے کہ ہندوؤں کے مکانات لوٹے گئے اور اس کے بعد شعلوں کی نذرہوئے۔ خبریں مبالغہ آمیز تھیں۔ ریاست کے ہندو حکام کا مسلمانوں پر تشدد کا یہ ردِ عمل تھا، مگر ریاست کو اصرار تھا کہ یہ آگ احرار کی لگائی ہوئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے جتھے اس علاقے میں ضرور جاتے تھے، مگر سول نافرمانی کے لیے نہ کہ تشدد کو ہوا دینے کے لیے۔ مگرریاست کا الزام کوئی یونہی کیسے ٹالے؟
ورکنگ کمیٹی میں سے صرف میں ہی ایک شخص جیل سے باہر تھا۔ حکام کو بتایا گیا کہ میں ہی بیٹھاتار ہلارہاہوں۔ تجویز یہ ہوئی کہ مجھے اور آخری جتھے کے آدمیوں کو بغاوت کی آگ بھڑکانے کے جرم میں گرفتار کر لیا جائے سرجافر ے گورنر پنجاب ایک شریف انگریز تھا۔ اس نے کہا کہ گرفتاریوں سے قبل واقعہ کی تحقیق کی جائے کہ یہ کام احرار کا ہے بھی یا نہیں۔ خدا کی نظر عنایت ہو تو دشمن دوست بن جاتے ہیں، مخالف موافق ہو کر دوش بدوش لڑنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح خبر مجھے ایسے ذمہ دار شخص نے دی جس سے یہ توقع نہ تھی۔ اس نے مجھے رات کے ڈیڑھ بجے جگایا۔ اطلاع کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اردو روزنامہ احرار کے ساتھ انگریزی صفحہ زیادہ کر لیا جائے۔ تاکہ انگریزی افسران کو پارٹی کے پر امن مقاصد کا علم ہو ورنہ یہ تحقیقات آپ کی ذات تک محدود نہ رہے گی۔ہندوستان کی تمام ریاستوں کا انگریزوں پر دباؤ پڑرہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان عظیم قوتوں کو خوش کرنے میں احرار بد امن اور تشدد گروہ قرار پایاجائے اور احرار کا ہر ممبر باغی قرار دیا جائے۔ جس جماعت کے خلاف ہندورائے عامہ ہو، ریاستیں دشمن ہوں، مسلمانوں کا اونچا طبقہ مخالف ہو، مرزائی جماعت جان کی لاگو ہو…… اسے شدید ابتلاسے بچانے کے لیے اپنے پروپیگنڈے کو کمزور نہ رکھنا چاہیے۔چنانچہ مجھے دوسرے ہی دن صرفِ کثیر سے روزنامہ احرار کے ساتھ انگریزی ضمیمے کا اضافہ کرنا پڑا۔ حالات سے بے خبر دوستوں نے کہا کہ یہ امیری کر لی؟ حالانکہ یہ غریبوں کا بچاؤ تھا۔
ہر چند ہم تشدد کے حامی نہ تھے، کوئی ہمیں ایسا قرار دے لیتا تو کیا ہوتا۔ گاندھی نے عدم تشدد کو ملک کا مذہب بنا دیا تھا۔ اہنسا مجھ جیسے ڈرپوک آدمیوں کا پردہ ہے۔ موت کے منہ میں کون جائے؟ چند دن قید کاٹی عمر بھر کی لیڈری مل گئی۔ سچ یہ بھی ہے جب کوئی جماعت تشدد کرتی ہے تو ملک اندھیرنگری بن جاتا ہے۔ جہاں بے دادر اجہ پھانسی کے پھندوں کے مطابق موٹی گردن دیکھ کر گناہ گار کو چھوڑ کر بے گناہوں کو توری کی طرح لٹکا دیتا ہے ۔ میں ڈرا کہ انگریزی حکومت کہاں کی فرشتہ ہے جلیاں والا باغ کا خون چکاں حادثہ تو آنکھوں دیکھی بات ہے۔ بے گناہوں کا موت کے گھاٹ اتارنا کسی حکومت میں اچنبھا چیز نہیں ۔ ڈر کے ساتھ خدا نے حوصلہ دیا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے بس میں جماعتی کام میں مصروف ہوگیا۔ انگریزی پولیس نے تحقیقات شروع کی ۔ سپرنٹنڈنٹ سی آئی ڈی خان بہادر مرزا معراج دین نے میرے بیانات لیے۔ میں نے تشدد کے الزام سے اپنا اور پارٹی کا دامن پاک بتایا ۔ اور ساتھ ہی ایک سوال کے جواب میں یہ بات صاف کر دی کہ باوجود ان واقعات کے ہم سول نافرمانی بند نہ کریں گے۔ اس نے کہا گاندھی جی نے چوراچوری کے حادثہ سے سبق حاصل کیا تھا میں نے کہا کہ احرار اس سبق کو دہرانا پسند نہ کریں گے۔ ہمیں اپنا دامن پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ پاک ہے تو دوسروں کے عمل کے باعث اپنے پروگرام کو کیوں بدلیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے اس رویے کا بہتر اثر ہوا۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ احرار کے دل میں چور نہیں ورنہ نرم تو ضرور ہوجاتے۔ ہماری انگریزی کی تحریر کے باعث غلط فہمیوں کے بادل اور بھی چھٹ گئے۔
رمضان مبارک اورنامبارک ذہن:
مسلمانوں میں ان دنوں تحریک خلافت سے زیادہ سرگرمی تھی۔ پنجاب کے مسلمانوں کو ایک نشہ سا چڑھا تھا۔ سول نافرمانی کو چوتھا مہینہ تھا، مگر یہ سیاسی طوفان برابر بڑھ رہا تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا بے حد متاثر تھی۔ اگر میری اطلاع غلط نہیں تو نواب اسماعیل خاں کی معرفت وائسرائے نے کسی احرار لیڈر سے براہ راست مل کر اس تحریک کی خصوصیات معلوم کرنے کی خواہش ظاہر کی، مگر مسلمانوں کے اونچے طبقے نے اس کو فخر کی بات سمجھا، جس فخر کے وہ تنہا اپنے آپ کو مستحق سمجھتے تھے ۔ احرار جیسی ذہنی انقلاب پیدا کرنے کی مدعی جماعت کے لیے یہ بات قابل فخر نہ ہوتی بلکہ معمولی کاروباری بات ہوتی۔ اچھا ہوا کہ اعلیٰ طبقے نے میری اطلاع کے مطابق یہ کہا کہ ان چھوٹے طبقے کے لوگوں کو منہ لگانا ٹھیک نہیں اور وائسرائے بازرہے۔
اتنے میں رمضان کا مہینہ آگیا میں متوقع تھا کہ مسلمانوں میں جہاد کا جوش اور شہادت کا شوق بہت بڑھ جائے گا ایسا نہ ہو کہ جوش اور یہ شوق مسلمانوں کو بالکل سرمست کر دے اور تحریک میں نظم قائم نہ رہ سکے ۔مولانا مظہر علی ، سید عطاء اﷲ شاہ صاحب ، مولانا حبیب الرحمن ،شیخ حسام الدین ، مولانا احمد علی صاحب، جن کا عوام میں کوئی روشناس ہی نہیں۔ رمضان میں جہاد کے شوق کو کون مناسب حدود میں رکھے گا ؟میری جان دھڑ کوں جاتی تھی کہ کہیں مسلمان سر ہتھیلی پر رکھ کر خون کی ہولی کھیلنا شروع نہ کردیں۔ خون ریزی کاایک واقعہ ہوچکا تھا کہ احرار کے جلوس میں کسی ہندو نے ایک غریب مسلمان نوجوان کو دن دہاڑے بیچ بازار مار دیا تھا۔ دوسرے دن مسلمانوں نے کئی ہندوؤں کو ہلاک کر کے دم لیا۔ لیکن قتل کے الزام میں لاہور کے سالار اعظم علم الدین دھر لیے گئے۔ جو بعد از خرابی بسیار باعزت رہا ہوئے۔ لیکن معلوم ہوا کہ رمضان مبارک میں قربانی کے ولولے قرونِ اولیٰ کے تاریخی واقعات ہیں۔ موجودہ مسلمانوں کے لیے رمضان میں کوئی قربانی اور ایثار کا پیغام نہیں بلکہ محض فاقہ کر کے خدا کو خوش کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر صبح کے بعد شام کو کھا لینے سے خدا خوش ہوجائے تو شوق شہادت اور درد ناک اسیری کی سردردی کوئی مول کیوں لے۔ مسلمان اس گئے گذرے زمانے میں بھی خدا کی خوشنودی کو ضرور سامنے رکھتا ہے۔ وہ قربانی کرتا رہا جب تک اسے یہ یقین تھا کہ اس کا خدا یوں خوش ہے۔ اب رمضان مبارک کے آتے ہی خدا کی خوشنودی کا آسان راستہ معلوم تھا۔ کون نہ روزے رکھ کر خدا کو اپنا گرویدہ کر لے۔ میں نے دیکھا کہ پوری قوم پر اوس پڑگئی ہے ہر شخص جیل جانے کی بجائے روزہ رکھ کر گھر میں معتکف ہو بیٹھا ۔ پوری نوکروڑ کی آبادی میں سے ایک بھی تو نظر نہ آیاجس نے خوش دلی سے یہ کہا ہو کہ رمضان میں ہم امتحان کے لیے تیار ہیں۔
اﷲ اکبر کیسا بڑا انقلاب ہے یا وہ دن تھے کہ رمضان کے مہینے میں شہادت پانے کی مسلمان آرزو کرتے تھے۔ اکثر مسلمان مجاہدوں نے عمر بھر روزے نہیں رکھے مبادا جہاد کے میدان میں ہاتھ کمزور ہوجائیں۔ یا اب یہ الٹی تعلیم ہوگئی کہ جہاد سے منہ موڑ کر رمضان کے روزے مقدم سمجھے جاتے ہیں (۲)۔ میں نے دیکھا کہ جتنا کوئی زیادہ دین دار تھا اتنا ہی کشمیر کے مظلوموں اور اپنے سے پہلے جیل میں پہنچے ہوئے مسلمانوں سے بے نیاز ہو کر احرار کی صفوں کو خالی چھوڑ چپکے سے روزہ رکھنے لگا اور صاف کہا کہ جو ہوگا اب رمضان کے بعد دیکھا جائے گا۔ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ۔ جس کے پاس جاتا ہوں قرآن خوانی میں مصروف ہے۔ ہوں ہاں کے سوا کوئی بات نہیں کرتا۔
چودھری عبدالستار بی۔ اے مرحوم فیزوزپورے سے اپنی گھر والی، اپنے عزیز و اقارب کی بیویوں کو ساتھ لے کر لاہور آگئے تھے۔ یہ شخص اخلاص اور نیکی کا مجسمہ تھا۔ تم اس کی سیرت کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہو کہ معزز دوستوں نے اپنی پردہ دار بیبیاں ہمراہ کردی تھیں کہ اس اسلامی تحریک کی تقویت کے لیے جیل جانا پڑے تو چودھری صاحب موصوف کے حکم کے مطابق سول نافرمانی سے دریغ نہ کریں۔ میں اور چودھری صاحب مرحوم کبھی مل بیٹھتے تھے تو اس بنیادی انقلاب پر بحث کرتے تھے جو مسلمانوں کے خیالات میں آگیا ہے جس سے مسلمان جہادی زندگی کو خیرباد کہہ کر قولی عبادت کا قائل رہ گیا ہے۔ سینے پر زخموں کے نشان بہادروں کا سب سے بڑا تمغہ ہیں، مگر مسلمانوں نے ان تمغات سے سینوں کو مزین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسلام کے لیے دشمن کی کڑی قید جھیلنے کا کوئی ولولہ باقی نہیں رہا۔ اکھڑے دل کی نمازیں رمضان کے بے روح روزے ان مسلمانوں میں اسلام کا آخری نشان ہیں۔ حالانکہ سچا مسلمان بیک وقت نمازی اور غازی ہونا چاہیے نمازیں وقت بے وقت ہوجائیں، روزے رہ جائیں، مگر میدان جہاد میں قدم نہ ڈگمگائے اور ہمت جواب نہ دے جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو ذاتی فلاح چاہتے چاہتے قوم مسلم کو کمزور کردیں اور قولی عبادت کے ذریعے اپنے لیے جنت میں گھر بناتے رہیں۔ اور ادھر ملت کو کفر کے مقابلے میں خاک چاٹنی پڑے۔
(حواشی)
(۱) تاریخ اسلام کے صرف تیس برس بعد اسلام کی معاشرتی و معاشی تعلیمات کے بھلا دیے جانے کا واہمہ نہ صرف یہ کہ انحراف اور جسارت ہے بلکہ تاریخی طور پر بھی غلط اور مضحکہ خیز ہے۔ خاص طور پر احیائے دین کی جد و جہد کرنے والی تنظیمات کو ایسی بے وقوفی کی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ اگر اسلام کی تعلیمات حضرت پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ علیہم الصلوات کی شاندار مساعی اور جدو جہد کے باوجود تیس برس نہیں چل سکیں تو پھر ہم آپ اس زمانے میں کون سا اسلام چلانا چاہتے ہیں؟ (ادارہ)
(۲) شریعت اسلامیہ میں سفر اور بیماری وغیرہ کے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ کر قضا رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن محض اس وہم کی بنیاد پر کہ روزہ رکھنے سے جہاد میں کمزوری ہو گی روزہ چھوڑنا مجاہدین اسلام کی پہچان نہیں۔(ادارہ)