تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سید عطااﷲ شاہ بخاریؒ کی مکتوب نگاری

نوراﷲ فارانی

فن مکتوب نگاری کے مختلف پہلووں پر ہر حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔زیر نظر مضمون میں فن مکتوب نگاری کی تاریخ پرلکھنے اور مختلف ادوار کی تعین کیے بغیر تطویل سے پہلو تہی کرتے ہوئے،مجاہدآزادی خطیب اعظم سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی مکتوب نگاری پرکچھ عرض ومعروض کرناچاہتے ہیں۔ عنوان کی حد تک موضوع کے حدود کی رعایت رکھتے ہوئے صرف یہ لکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اردو زبان کے مکتوباتی سرمایے کی تاریخ دوسو سترہ سال قدیم ہے۔اردو زبان کااب تک سب سے قدیم دستیاب شدہ مکتوب1803ء کا تحریر کردہ ہے۔جس کی مکتوب نگار فقیرہ بیگم اور مکتوب الیہ میرزا محمد ظہیر الدین علی بخت اظفری دہلوی (۱۷۵۸ء۱۸۱۸-ء) تھے۔یہ خط ’’واقعات اظفری‘‘ کے نسخہ دانش گاہ ٹیوبنگن جرمنی میں شامل ہے‘‘۔(1)
اب تک کی معلومات کے مطابق ’’سیدی وابی ‘‘میں شائع شدہ خطوط کے علاوہ شاہ جی کے تقریبا تیس کے قریب خطوط دستیاب ہیں۔ جو مختلف کتب،رسائل اور تذکروں کی زینت ہیں۔ جن کے بعض چیدہ چیدہ اقتباسات اور ایک دو خطوط کی مکمل عبارت پر ہماری یہ تحریر محیط ہے۔کہا جاتا ہے کہ مکتوبات مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ امیر شریعت کی زندگی ایک عوامی زندگی اور کھلی کتاب کی مانند ہے۔مگر باایں ہمہ ایک انسان کی زندگی کے تمام پہلوں کو جاننا ایک مشکل امر ہے۔ کیونکہ کسی انسان کی زندگی کے جتنے پہلونمایاں اور عام لوگوں کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ پہلو اخفا کے پردے میں ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی شخصیت کے سوانح وافکار اور کردار نگاری میں ان کے خطوط کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔کیونکہ خطوط میں کسی شخصیت کی زندگی کے بعض پوشیدہ گوشے ان کے اپنے ہی قلم سے احساسات، جذبات ، میلانات، اور افکار کی صورت میں بڑی بے تکلفی سے رقم ہو جاتے ہیں جو بڑے حسین، نمایاں اور صاف نظر آتے ہیں۔ حضرت امیر شریعت کے خطوط کی دنیا محدود ہے، ضرورت پیش ہوئی خط کا جواب لکھا وہ بھی جتنا ہوسکا مختصر لکھا اوربس۔ کیونکہ آپ لکھنے لکھانے سے طبعی طور پر متنفر تھے، تحریر کو فتنہ سے تعبیر کرتے۔مولانا ظہور احمد بگوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’فتنہ تحریر سے بہت ڈرتا ہوں اس لیے کچھ لکھنا مناسب نہ سمجھا۔‘‘(2)
شورش کا کہنا ہے کہ:’’لکھنے لکھانے کا شوق کبھی نہ تھا البتہ خطوط کا جواب سفر وحضر دونوں صورتوں میں خود لکھتے، غیرضروری خط وکتابت سے اجتناب کرتے‘‘۔(3)
شاہ جی کے اولین سوانح نگار خان غازی کابلی لکھتے ہیں:’’سفروحضر دونوں حالتوں میں ایک سوٹ کیس اپنے پاس رکھتے ہیں۔جس میں پہننے کے لیے کپڑوں کے علاوہ ریلوے ٹائم ٹیبل اور ادویہ، احباب کے خطوط، لفافے اور پوسٹ کارڈ بھی ہوتے ہیں۔فرصت کے وقت احباب کے خطوط کا جواب لکھتے ہیں‘‘۔ (4)
خان غازی کابلی قاری محمد سعید عظیم آبادی کے ساتھ شاہ جی کے خط وکتابت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قاری موصوف شاہ صاحب کے بچپن کے ساتھی ہیں،اور پٹنہ میں آپ کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔بخاری صاحب آپ کو ایسی طرزوانداز میں خطوط لکھتے ہیں۔ جن سے قاری صاحب کے علاوہ اور کوئی شخص لطف اندوز نہیں ہوسکتا‘‘۔(5)
آپ کے مکتوب الیہم اکثر آپ کے خاندان والے، دوست واحباب،تحریک میں شامل اپنے فکر ونظریہ کے افراد ہوتے۔آپ کے دستیاب خطوط میں بعض حضرات کے ساتھ آپ کے خط وکتابت کا پتہ چلتا ہے۔آپ کے نام مولانا ابوالکلام آزاد کے تین خطوط ’’سیدی وابی‘‘میں چھپ چکے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد کے ساتھ عقیدت ومحبت کے لازوال رشتے کے علاوہ خط وکتابت کا رشتہ بھی استوار تھا۔ مگر افسوس آپ کے لکھے اکثر خطوط دستیاب نہیں۔آپ کے خطوط کا ایک مجموعہ جناب نعیم آسی مرحوم نے دسمبر 1981 ء کو مسلم اکادمی سیالکوٹ سے’’مکاتیب امیر شریعت‘‘کے نام سے شائع کیا تھا۔باب اول میں آپ کے نو خطوط۔ باب دوم میں امیر شریعت کے دو آٹوگراف ’’بیان القرآن‘‘ اور ایک منی آرڈر پر دستخط شامل ہیں۔ باب سوم میں آپ کے بعض چیدہ اشعار اور آخر میں ایک ضمیمہ ملحق ہے، جس میں دو مکتوب شامل ہیں۔پہلا مکتوب مولانا احمد علی لاہوریؒ بنام شاہ جیؒ دوسرا مکتوب مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ بنام شاہ جیؒ درج ہیں۔نعیم آسی مرحوم نے اس مجموعہ میں شاہ جی کے مکتوبات کی جمع آوری کے لیے متعدد حضرات کے ساتھ جنہیں شاہ جی یا ان کے متعلقین کا قرب حاصل تھا، رابطہ کیا۔جن میں سے خان غازی کابلی ،نواب زادہ نصراﷲ خان، عبداﷲ ملک )لاہور(چودھری ثنااﷲ بھٹہ )لاہور(مسعود شورش ابن شورش کاشمیری،جانباز مرزا،ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔مگر بقول نعیم آسی مرحوم کے “افسوس ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ (6)
مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر ’’مکاتیب امیر شریعت‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مرتب نے زیادہ جستجو، تحقیق اور کاوش سے کام نہیں لیا کئی غیر مطبوعہ خطوط کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا )ہے(‘‘۔(7)
عبداﷲ ملک نعیم آسی کے نام 20جنوری1979ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’میرے پاس سے بہت سے مکتوبات تلاشیوں کے زمانوں میں ضائع ہوگئے‘‘۔(8)
مولانا محمد علی کاندھلوی ایک زمانہ میں کاروان احرار کے راہی تھے۔نعیم آسی کے دریافت کرنے پر بتایا :’’میرے پاس شاہ صاحب کے تین مکتوبات تھے۔تقسیم کے موقع پر ضائع ہوگئے‘‘۔(9)
شورش کاشمیری سی ایل کاوش کے نام اپنے ایک مکتوب جس میں انہوں نے اپنے نام اکابر ومشائخ کے مکتوبات کی ایک اجمالی فہرست درج کی ہے اور یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ یہ تمام مکاتیب ایک مجموعہ کی صورت میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔اس میں انہوں نے شاہ جی کے 12مکاتیب کا ذکر کیا ہے‘‘۔(10)
امیر شریعت کی صاحبزادی سیّدہ ام کفیل بخاری نے بھی اپنی کتاب ’’سیدی وابی‘‘میں دوسرے باب کی صورت میں امیرشریعت کے کل تیئس(23) خطوط زمانی ترتیب کے ساتھ شامل کئے ہیں۔جو پہلی بار اسی کتاب میں شائع ہوئے۔
’’پہلا خط حضرت امیرشریعت کا اپنی والدہ ماجدہ رحمہا اﷲ کے نام ہے۔انیس خطوط اپنی بیٹی (جنہیں وہ ’’بٹیا جی‘‘ کہتے)کے نام ہیں۔جن میں چودہ خطوط تحریک ختم نبوت1953ء کے ایام اسیری میں سنٹرل جیل سکھر اور سنٹرل جیل لاہور سے تحریر کردہ ہیں۔جب کہ پانچ خطوط 1954 ء میں رہائی کے بعد کے ہیں۔ایک خط اپنی اہلیہ کے نام، ایک منہ بولی بیٹی کے نام اور ایک سمدھی کے نام‘‘۔(11)
شاہ جی کے جیل سے لکھے گئے دستیاب خطوط میں شاہ جی کا اپنے چند دوستوں،ہم عصروں مجلس احرار کے کارکنوں اور اپنے فرزندان ذی وقار کے نام خطوط لکھنے اور بھیجنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔لیکن افسوس وہ مکتوبات قیمہ بھی میسر نہیں۔
شورش کا شمیری لکھتے ہیں:”ایک زمانہ میں قیدی کو تین ماہ بعد ایک خط لکھنے اور دو ماہ بعد ایک خط وصولنے کا حق ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا جبر تھا۔نتیجتاً بہت سے قیدی بیرنگ خط لکھتے جو بیرونی سنسرشپ کی وجہ سے پکڑے جاتے اور ان کی سزا کا موجب ہوتے، شاہ جی نے اس کا توڑ پیدا کیا۔پنڈت کرپا رام برہم چاری کے نام سے اپنے احباب کو دیناج پور جیل سے اکثر خط لکھتے رہے اور یہ نام سید عطااﷲ شاہ بخاری کا ترجمہ یا بدل تھا‘‘۔(12)
پنڈٹ لفظ ہندی زبان میں اونچی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں کے ہاں سیّد ،کِرپا ہندی زبان میں عطا کے معنی میں مستعمل ہے، اور لفظ رام لفظ اﷲ کے ہم معنی ہے، جبکہ برہم چاری کو وزن برابر کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس طرح یہ نام ’’سیّد عطاء اﷲ بخاری‘‘ کے ہم معنی ہوا۔
امیر شریعت بیشتر خطوط کے جوابات خود اپنے ہاتھ سے لکھتے۔آخر عمر میں شدت علالت کے سبب ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے اپنے صاحبزادوں سے املا کرواتے تھے۔خط کی پیشانی پر سب سے پہلے دائیں جانب بالعموم مقامِ اقامت تحریر کرتے۔اکثر وبیشتر دستیاب خطوط کی پیشانی پر سکھر جیل،سنٹرل جیل لاہور،بریلی ،امرتسر، مظفرگڑھ سٹیشن،امرتسر گلوالی گیٹ، خان گڑھ، لاہور، سیالکوٹ، ملتان شہر کے الفاظ ملتے ہیں۔کبھی گاڑی میں جواب لکھنے کی نوبت آتی تو سب سے اوپر دائیں جانب ’’چلتی گاڑی‘‘ کے الفاظ لکھتے۔گویا خط کی ابتدا مقام سکونت واقامت سے کرتے۔مقام اقامت کے نیچے تاریخ لکھتے کبھی کبھار یہ ترتیب الٹ بھی ہوجاتی۔جیل سے لکھے ہوئے اکثر خطوط میں تاریخ کے بعد ان کا نام لکھا ہوا ملتا ہے۔
حضرت امیر شریعت مکتوب الیہ کو اس کے مقام ومرتبہ کے مطابق مخاطب کرتے۔القابات عموما سادہ، مختصر، تملق اور خوشامد سے پاک ہوتے۔آپ عموما مکرمی ومحترمی،عزیزی اور عزیزم جیسے القابات لاتے،قریبی احباب اور بڑوں کے لئے اپنائیت،محبت وعقیدت سے معمور القابات لاتے، جیسے برادرم، برادرِ محترم المقام ماسٹرجی!میرے قاضی جی !میرے حضرت جی )مولانا حسین احمد مدنی کے لیے(وغیرہ۔خط کے اختتام پر دعاگو، والسلام مع الاکرام، والدعا، جیسے الفاظ لکھتے۔ اپنے بڑوں کے نام لکھے خطوط کے آخر میں ’’حضرت کی دعاؤں کا محتاج ہوں‘‘ یا محتاجِ دعا تحریر فرماتے۔کبھی کبھی ’’غریب الدیار‘‘ یا فقیر لکھ کر دستخط ثبت فرماتے۔بعض خطوط میں دستخط کے بعد تاریخ درج ہے۔
شاہ جی کے سب سے تفصیلی اور آپ کی زندگی کے نشیب وفراز اور سوانحی خدوخال کے بعض اشاروں پر مشتمل خطوط ’’سیدی وابی‘‘ کے خطوط ہیں۔ان خطوط پر ام کفیل بخاری کی علمی ادبی اور معلوماتی حواشی و تعلیقات خاصے کی چیز ہے جس سے ان خطوط کے بعض مرموز مقامات اور اجمال پر مشتمل جملوں کی تفصیل اور بعض اہم واقعات کی طرف واضح اشارات ملتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ان تمام مکتوبات کے عکس بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ان خطوط میں لطف ومحبت، رافت ومودت کے وہ تمام رنگ موجود ہیں جو کسی بڑے آدمی کے نجی خطوط میں ہونے چاہیے۔ اس کے علاوہ قلبی کیفیات، گھریلو حالات، بیماریوں کا تذکرہ ، بین السطور جیل کے ماحول اور جیل کی فضا پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے۔اور بھی بہت سے پہلو ان خطوط کے آئینے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ان خطوط میں بعض ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا تذکرہ بھی موجود ہے، جس کو عام طور پر اتنے بڑے لیڈر نہ اپنی تحریر میں ذکر کرتے ہیں اور نہ خاطر میں لاتے ہیں۔ لیکن شاہ جی کے اعلی اخلاق اور متواضعانہ طبیعت کا اندازہ لگائیے کہ وہ اپنے خطوط میں گھر کے آس پاس کے غریب ہمسایوں کے حال احوال ان کی خیروعافیت کی خبرگیری، ان کے گھر قرآن پڑھنے والے بچوں، محلہ کے نمازیوں حتی کہ گھر کام کاج کرنے والے خادم کو سلام مسنون کہتے ہیں۔
سکھر جیل سے لکھتے ہیں: ’’جو شخص مجھے کو سلام کہے اسے تم بھی میری طرف سے سلام کہلادو۔ محسن میاں اور مومن جی اور پیر جی سلمہم اﷲ تعالی کو دعائیں اور دیدہ بوسیاں۔ سکینہ کو، ازدہاری،) اِزدہار۔محلہ کی ایک بچی جو امیر شریعت کی اہلیہ سے قرآن پاک پڑھتی تھی)۔کریم بخش، محمد فاروق سب کو پیار، وسو کو پیار، اس کی ماں کو دعائیں، وسو کے بابا کو سلام‘‘۔(13)
ایک اور پیار بھرا انداز سلام پہنچانے کا ملاحظہ کیجئے۔ سکھر جیل سے اپنی بیٹی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اپنے بھائیوں کو قرآن سنانے پر میری طرف سے مبارک باد کہو۔ دعائیں پہنچاؤ اور دیدہ بوسی کرو۔اپنے چچا صاحب کو میری طرف سے سلام مسنون کہہ دینا اور بچی کے انتقال پر اظہار تعزیت کردینا۔ اپنی امی اور خالہ کو السلام علیکم کہہ دو اور امید ہے کہ آپ کی خالہ جی دعاؤں میں لگی رہتی ہوں گی۔ سب بچوں کو دعائیں۔ مسجد میں نمازیوں کو محسن کی معرفت سلام مسنون۔ حافظین اور شاہ صاحب کو، خصوصا ودو اور افضل )گھر کام کاج کرنے والا خادم( کو سلام مسنون۔ باقی کل پرسان حال کو سلام بھجوادینا‘‘۔(14 )
ایک اور خط میں لکھتے ہیں:’’عزیزی افضل سلمہ کو السلام علیکم اور دعائیں‘‘۔(15)
امیر شریعت کے خطوط میں ان کی شخصیت۔ صداقت، اخلاص، شفقت ومحبت، عاجزی فرتنی و انکساری، خدا کی ذات پر مکمل اعتماد، عزم واستقامت نہ جانے کن کن صورتوں میں نظر آتی ہے ۔کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں:
’’میرے متعلق تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ کہ مسبب حقیقی کے سوا میں ساری کائنات سے کٹ چکا ہوں۔ میرے لیے دنیا میں، دنیا والوں سے کوئی امید، کوئی آرزو باقی نہیں۔ اﷲ بس باقی ہوس۔ہاں اﷲ تعالی قادر مطلق ہیں۔ یفعل ما یشاء ہے شان اس کی یحکم ما یرید آن اس کی (16)
رہائی سے پہلے لاہور جیل سے اپنی بیٹی کے نام آخری خط میں بھی یہی بات کچھ اس انداز سے لکھتے ہیں:’’باقی یفعل اﷲ مایشاء، ساری کائنات سے کٹ کر صرف اسی ایک ذات سے عقیدتا جڑا ہوا ہوں اوربس۔ان شااﷲ تعالی آپ لوگ بھی اسی رنگ میں رہیں تو بہتر ہے‘‘۔(17)
سنٹرل جیل لاہور سے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میرے متعلق بے فکر رہیں۔ اﷲ تعالی اور رسول علیہ السلام کی رضا چاہیے۔(18)
7مئی 1953ء سکھر جیل سے لکھے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’باقی میں تم لوگوں کے متعلق پریشان نہیں ہوتا۔فطرت کے تقاضوں میں بے بسی ہوتی ہے۔اسے پریشانی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔(19)
انابت الی اﷲ کی ضرورت ہے اﷲ تعالی مجھ کو اورتم لوگوں کو اس کی توفیق بخشیں اور بس، باقی ہوس”۔(20)
بچوں سے پیار ومحبت کا ایک انداز ملاحظہ کیجئے۔ اپنی صاحبزادی کے نام ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:’’بانو کو گود میں لے کر میرے منہ سے پیار کرو اور کہو یہ نانا ابا کا پیار ہے اور تم خود اس سے پیار لو اور کہلوا ؤکہ یہ اباجی کا پیار ہے”۔ (21)
پاکستان کی آزادی کے چھ دن بعد 20اگست 1947 ء کے ایک مکتوب میں نذر محمد اور ملک اﷲ دتہ کے نام اس وقت کے حالات کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا ہے۔اس مکتوب میں اپنے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:”سکھ قوم کی خباثت کو انگریز کی اور ہندو کی تائید حاصل ہے اور وہ تباہی مچا رہی ہے۔اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ باقی رہے۔میرا ایک مکان خاک میں مل چکا ہے ۔دوسرا جس میں میں رہتا تھا ابھی تک موجود ہے۔میری زندگی کی ساری کمائی یعنی میری کتابیں اور سامانِ زندگی وہیں ہے،اﷲ کے حوالے ہے، ابھی تک کوئی صورت سامان برآمد کرنے کی نظر نہیں آتی۔ پہلے بھی فقیر ہی تھا لیکن اب سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ہے”۔(22 )
عاجزی، فروتنی اور انکساری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔اپنی بیٹی کے نام لاہور جیل سے آخری خط میں جواب لکھنے میں تاخیر پر معذرت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں آپ لوگوں سے معافی مانگتا ہوں کہ میری غفلت کی وجہ کر آپ سبھوں کو تکلیف پہنچی۔ خدا جانے کیوں میرے ہاتھ رک گئے۔ کچھ تو رہا ہونے والوں کی وجہ سے کہ ان کی زبانی خیریت معلوم ہو ہی جائے گی اور کچھ کیا، بس کچھ بھی نہیں۔ اپنی ہی تقصیر اور کچھ نہیں۔ اﷲ تعالی معافی دیں”۔(23)
’’قاضی جی!میں تو جیسا نکما ہوں آپ جانتے ہیں۔ اﷲ تعالی نے آپ کو بہت صلاحیتیں عطا کی ہیں اور بہت لوگوں کو آپ سے فائدے پہنچتے رہتے ہیں‘‘۔(24 )
اس نوعیت کا ایک اور پیراگراف آپ کے ایک مکتوب سے پیش ہے جس میں وہ اپنے ایک شعر جو آپ کے مجموعہ کلام “سواطع الالہام‘‘میں چھپا تھا کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نام لکھتے ہیں:’’میرے وہم میں بھی ذم کاپہلو نہیں تھا۔چونکہ آپ فرماتے ہیں شعر سے ذم کا پہلو نکلتا ہے۔آپ کے ارشاد کے بعد میں اس شعر کی کوئی تاویل نہیں کرنا چاہتا اور استغفراﷲ پڑھتا ہوں۔آپ بھی میرے حق میں دعا کریں اﷲ تعالی مجھے معاف کردے‘‘۔(25)
ڈاکٹر زاہد منیر عامر خط کے اس اقتباس کے حوالے سے لکھتے ہیں:”اب شاہ جی کی عظمت کا اندازہ کیجئے کہ اتنا بڑا آدمی جس کے عقیدت مند بے شمار ہوں، اور جو اپنی للکار سے فرنگی ایسے سامراج کو للکار چکا ہو۔ جس کی ساری زندگی اسلام اور وطن کی خدمت و آزادی کے لیے صرف ہوئی ہو، کسی غرور ونخوت کا اظہار نہیں کرتا تاویل کی ضرورت نہیں تھی اگر وہ محض اپنے شعر کا پس منظر بیان کردیتے تو بھی حقیقت کی وضاحت ہوسکتی تھی مگر وہ کسی تعبیر وتشریح کے چکر میں پڑے بغیر صاف الفاظ میں استغفراﷲ پڑھتے ہیں اور دعا کے لیے التجا کرتے ہیں‘‘۔(26 )
آپ کے خطوط میں سلاست، بے تکلفی، لطافت، بے ساختگی اور سادگی، اخلاص سوز وگدازلفظ لفظ سے عیاں وبیاں ہیں۔بعض خطوط میں شگفتگی کی آمیزش ہے یہ انداز دیکھئے:
’’غذا میں صرف شوربہ، ایک پھلکا اور کچھ گوشت ہے، باقی صبح کوچائے، ایک دو ٹوسٹ، دوانڈے بس!یعنی بڑا پرہیزگار ہوگیا ہوں‘‘۔ (27)
جیل میں امیر شریعت کی بیماری اور شدید بیماری کی جھوٹی خبر گھر والوں کو پہنچی اسی جھوٹی خبر کے حوالے سے صاحبزادی کے استفسار کے جواب میں جیل سے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ہاں تو میری صحت اچھی ہے اور بالکل اچھی ہے۔ جو خبر آپ کو ملی ہے، وہ ابھی تک ہمیں نہیں ملی۔ واﷲ اعلم آپ کو کہاں سے ملی ہے؟‘‘۔(28)
مجید لاہوری معروف صحافی ادیب اور مزاح نگار تھے۔کراچی سے ’’نمکدان‘‘کے نام سے ہفت روزہ جاری کیا۔تو شاہ جی سے نمکدان کے حوالے سے تاثرات لکھنے کی فرمائش کی۔شاہ جی نے نمکدان کے حوالے سے مختصر تاثرات لکھ بھیجے۔جو ہفت روزہ ’’نمکدان‘‘کے15 اکتوبر 1949 ء کے شمارے میں ’’کان نمک‘‘کے زیر عنوان شائع ہوئے۔شاہ جی اس تاثراتی مکتوب میں ان کے موٹاپے پر چٹکی لیتے ہوئے لکھتے ہیں:”میں بہت خوش ہوں کہ آپ کا نکمدان فواحشات سے پاک ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالی اسے ترقی دے۔ہم اسے گھر میں بھی پڑھ لیتے ہیں۔رہی آپ کی کراچی میں مکان نہ ملنے کی شکایت تو کراچی والوں نے کوئی ایسا مکان نہیں بنایا جس کے دروازے سے آپ داخل ہوسکیں”۔(29) جب شاہ جی نے اپنی خداداد زورِ خطابت سے انگریز کے کاسہ لیس پیروں اور گدی نشینان کو للکارا، لتاڑا اور طنزیہ جملے کسے۔اس کے نتیجے میں ان کو اپنا مکروہ کاروبار ٹھپ ہوتا ہوا نظر آیا، تو انہوں نے جوش غضب سے آپ پر طرح طرح کے فتوے لگائے آپ کو کافر مشرک اور گستاخ کہا لیکن کوئی مائی کا لعل امیر شریعت کو فرنگی کی مخالفت کرنے سے باز نہ رکھ سکا۔مولانا ظہور احمد بگوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’رہ گیا کفر وایمان کا معاملہ تو میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔فرنگی کی مخالفت کرنے کے بعد ایمان کہاں سلامت رہ سکتا ہے‘‘۔(30)
اپنی متحرک زندگی کا حوالے دیتے ہوئے بسلسلہ علاج قیامِ لاہور کے زمانہ) اکتوبر1957ء (کے ایک مکتوب میں اپنی صاحبزادی کے نام لکھتے ہیں:’’بٹیا جی میرا بستر تو کھلتا ہی نہ تھا۔ اب میری غفلتوں کی سزا مل رہی ہے کہ بستر کھلا پڑا ہے‘‘۔(31)
اسی نوعیت کا ایک اور پیراگراف بھی ملاحظہ کیجئے:’’تو بٹیا جی! جب اباجی خواب میں مل لیتے ہیں۔تو پھر سکون قلب حاصل ہونا چاہیے نہ کہ اداسی، پہلے بھی میں کونسا گھر ہی میں تم لوگوں کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ جِیہا کِلے بدھا جِیہا چوراں کھڑیا‘‘۔(32)
جناب عبداﷲ ملک کے نام شاہ جی کا ایک مکتوب آپ کے بہترین خطوط میں شمار ہوتا ہے۔نعیم آسی مرحوم اس خط کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’شاہ جی کے اس خط کو‘‘سخنے چندبہ نژاد نو‘‘کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اسلوب کے اعتبار سے یہ شاہ جی کا بہترین خط ہے‘‘۔(33)
لیجیئے شاہ جی کا یہ پورا خط پیش ہے:
عزیزم عبداﷲ ملک سلمہ خوش رہو، جیتے رہو، آباد رہو اور شاد رہو۔زندگی کے شب وروز اس طرح بسر ہوتے ہیں۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے کہ اس کے لیے اضطراب ہو؟ نہ بیتے ہوئے دنوں کا افسوس ہے اور نہ حال سے کوئی شکوہ۔مستقبل کی فکر ہی کیا۔جو لوگ مستقبل کے لیے جی رہے ہیں ان سے پوچھئے۔ اپنا تو بس چل چلاؤ ہے۔ گور کنارے بیٹھا ہوں، دیکھیے کب بلاوا آجائے۔ اب اس کے سوا کوئی مشغلہ نہیں رہا کہ اپنے اﷲ سے صبح شام بھیک مانگتا ہوں۔ وہی پالنہار ہے۔وہی آخری سہارا ہے۔اس کے ہاں عفو درگزر کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا خدا ہمارا خدا ہے، سزا گناہوں کی دے چکا ہے، جزا پشیمانی کی دے گا۔تمہارے لیے دن رات دعا کرتا ہوں۔اب چمن اور اس کی شاخیں،تم نوجوانوں کی باغبانی کے سپرد ۔جب تک جیو وضع داری سے جیو کہ یہی ایمان کی نشانی اور حاصلِ زندگانی ہے۔
والسلام دعا
عطااﷲ شاہ بخاری (34)
ڈاکٹر زاہد منیر عامر لکھتے ہیں: ’’اس خط کے انداز بیاں سے جہاں شاہ جی کی تحریر کے حسن کا پتہ چلتا ہے وہاں اس آزردگی کا بھی احساس ہوتا ہے جس سے انہیں آخر عمر میں پالا پڑا ’’مستقبل کی فکر ہی کیا‘‘ اور’’گور کنارے بیٹھا ہوں دیکھیے کب بلاوا آجائے‘‘ ایسے فقرات ہیں جن کا طویل پس منظر ہے اور یہ اقوال ان کیفیات کی غمازی کرتے ہیں جن سے شاہ جی کو گزرنا پڑا‘‘۔(35)
شورش کاشمیری کے نام شاہ جی کا ایک خط جس کے سطر سطر سے شاہ جی کی وسیع الظرفی، اعلی اخلاق،شرافت ونجابت مترشح ہوتے ہیں۔ملاحظہ کیجیے:
برادرم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ !
’’آزاد ‘‘میں تاثیر سے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یا لکھا جارہا ہے وہ قلم کی عریانی ہے تاثیر چونکہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں لکھ رہے ہیں اور فرضی نام سے لکھ رہے ہیں۔ لہٰذا باتیں بھی ان کی فرضی ہیں۔ سچ ہوتا تو نقاب نہ اوڑھتے۔ بہرحال انہیں لکھنے دو۔ ضرور ان کے جی میں کوئی چیز ہوگی۔ تم اپنے قلم یا زبان کے لیے اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جواب دہ ہو۔دنیا نے کس سے اب تک انصاف کیا ہے کہ تم سے کرے گی۔
ع سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
جو شخص گالی دے اس کا جواب گالی نہیں دعا ہے کہ اسوہ حسنہ ہے۔ ان لوگوں کے متعلق یہی سوچ کر صبر کرو کہ بیمار ہیں۔یہی لوگ تھے جنہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہا پر افترا باندھا اور حضور کا دل دکھایا۔ صفائی کے کٹہرے میں قرآن کھڑا نہ ہوتا تو ان کا فتنہ چہرہ نبوت کو غمگین کر چکا تھا۔ آخر مفتری خائب وخاسر ہو گئے۔ تم کیا اور ہم کیا؟ جب لوگ بہتان باندھنے، افترا گھڑنے اور گالی بکنے پر آجائیں تو اپنے تئیں اﷲ کے سپرد کردو۔خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔آئندہ تاثیر سے متعلق کوئی تحریر نہ آئے۔ میری خواہش بھی ہے اور ہدایت بھی۔ قلم وزبان تمہارے نہیں خدا کی امانت ہے۔ جو شخص ان میں خیانت کرتا ہے وہ اﷲ کی خوشنودی سے محروم ہوجاتا ہے۔ گھر میں سلام کہنا۔ بچی سلمہ کو دعا‘‘۔
دعاگو عطااﷲ شاہ بخاری
خان گڑھ 45۔4۔27 (36)
آپ خط ضرورت کے تحت تحریر فرماتے اس لیے آپ کے خطوط )لوازمات خط کے علاوہ( ہر طرح کی ملمع سازی، تکلف اور طوالت سے پاک مدعا نگاری اور مقصدیت تک ہی محدود ہیں۔بعض خطوط میں تو مدعا کے علاوہ ایک لفظ بھی زائد نہیں۔مدعا نگاری کی اس خوبی سے متصف ایک خط جس میں شوخی وشگفتگی کی بھی آمیزش ہے ملاحظہ کیجئے۔
عزیزم مولوی احمد دین ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!
’’گھی لے کر پہنچو،جوتے تیار ہیں۔‘‘
والسلام
عطااﷲ شاہ بخاری(37)
جب سردار عبدالرب نشتر گورنر پنجاب تھے۔ملتان کا دورہ کیا اور شاہ جی سے ملاقات کیے بغیر چلے گئے۔ ان دنوں شاہ جی بیمار تھے۔واپسی کے بعد حیدر آباد سندھ سے شاہ جی کے نام عیادت کا خط لکھا،شاہ جی نے جواب میں ارتجالاً ایک شعر کہا اور یہی شعر عبدالرب نشتر کے خط کے جواب میں بطور جواب لکھ بھیجا۔ملاحظہ فرمائیں کتنا خوب صورت جامع اور صرف مدعا پر مشتمل جواب ہے جس سے محبت آمیز شکوہ بھی مترشح ہو رہا ہے ۔
نوشتی نامہ اے از حیدر آباد بملتان جانِ زارم را ندیدی (38)
ایک سفارشی خط کا یہ نادر،البیلا اور سچائی پر مشتمل انداز کتنا پیارا ہے۔
’’ہرچند فقیر کو آپ سے کوئی سابقہ نیاز تو حاصل نہیں لیکن ایک نوجوان کی ضرورت کے احساس سے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔اگر یہ کام آپ کے ہاتھوں ہوگیا تو گویا یہ کام آپ نہیں کریں گے بلکہ خدا کرے گا۔اور اگر خدا کو منظور نہ ہوا تو ظاہر ہے یہ کام آپ نہیں کر سکتے‘‘۔(39)
پاکستان کے حصول اور اس کے بعد کے زمانے میں بھی آپ کا موقف بڑا واضح اور روز روشن کی طرح عیاں اور بیّن ہے۔ 24 ؍ دسمبر 1947 ء کے ایک مکتوب میں ماسٹر تاج الدین انصاری کے نام لکھتے ہیں:
’’میری آخری رائے اب یہی ہے کہ ہر مسلمان کو پاکستان کی فلاح وبہبود کی راہیں سوچنی چاہئیں۔اور اس کے لیے عملی قدم اٹھانا چاہیے۔مجلس احرار کو ہر نیک کام میں حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اور خلاف شرع کام سے اجتناب‘‘۔ (40)
مجھے ان کے خطوط میں ان کی شخصیت کا جو پہلو سب سے زیادہ واضح اور روشن نظر آیا وہ آپ کی عاجزی، انکساری وفروتنی اور خالق کائنات پر کامل یقین وایمان ہے۔آپ کے مکاتیب سادہ، سلیس، طوالت سے محفوظ بے ساختہ اور دھیمے انداز کے چھوٹے چھوٹے جملوں سے مرکب ہیں۔اور یہی خطوط کا حسن ہے۔پروفیسر خورشید الاسلام لکھتے ہیں:
’’خط حسن اتفاق کا نام ہے اور حسن اتفاق ہی سے یہ ادب کی ایک صنف ہے، اچھے خط ادبی کارنامہ ہوتے ہیں خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنے جاتے ہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں ہی میں دنیا کا لطف ہے‘‘۔(41)
مصادر ومراجع:
1۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئیے:ڈاکٹر شاداب تبسم ،اردو مکتوب نگاری سرسید اور ان کے رفقا کے خصوصی حوالے سے
2۔بگوی، انوار احمد، تذکار بگویہ، طبع 2014 جلد سوم،ص 116۔
3۔شورش کاشمیری، سید عطااﷲ شاہ بخاری۔۔۔سوانح وافکار،لاہور، مطبوعات چٹان،88میکلوڈ روڈ،طبع اگست 2006،ص64۔
4۔خان غازی کابلی، حیات بخاری،احرار فاونڈیشن پاکستان، طبع سوم 2003، ص96۔
5۔أیضا، ص100۔
6۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013،ص26۔
7۔چٹان ،ہفت روزہ ،4تا11 اکتوبر 1982۔
8۔نعیم آسی،مکاتیب امیر شریعت،سیالکوٹ، مسلم اکادمی مجاہد روڈ،طبع اول دسمبر 1981،ص26۔
9۔أیضاً، ص28۔ 10۔چٹان ، ہفت روزہ، لاہور،شورش کاشمیری نمبر، یکم نومبر 1976،ص31۔
11۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013،ص۔47۔
12۔شورش کاشمیری،سید عطااﷲ شاہ بخاری۔۔۔سوانح وافکار،ص 86۔
13۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013،ص223۔
14۔أیضاً،ص261۔ 15۔أیضاً،ص322۔ 16۔أیضاً،ص269۔
17۔ أیضاً ،ص288۔ 18۔أیضاً،ص283۔ 19۔أیضاً،ص231۔
20۔أیضاً،30 مارچ 1953 بیٹی کے نام سکھر جیل سے خط۔ 21۔أیضاً،ص321۔
22۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعت، لاہور، مکتبہ تبصرہ،1976، ص308۔309۔
23۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی،ص288۔
24۔نورالحق قریشی، قاضی احسان احمد شجاع آبادی ص:505 قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے نام مکتوب۔
25۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعت، ص421۔
26۔نقیب ختم نبوت،ماہنامہ، امیر شریعت نمبر،جنوری 1992جلد اول،ص617۔
27۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ص298 ۔ 28۔أیضاً،ص288۔
29۔ أیضاً،ص115۔ 30۔بگوی، انوار احمد، تذکار بگویہ،ص 116۔
31۔ سیدی وابی ،ص302۔ 32۔أیضاً،ص215 سکھر جیل سے بیٹی کے نام خط
33۔نعیم آسی،مکاتیب امیر شریعت،سیالکوٹ، مسلم اکادمی مجاہد روڈ،طبع اول دسمبر 1981،ص 774۔ ”
34۔ہفت روزہ چٹان،15 جنوری، 1962 ص32
35۔ ماہنامہ نقیب ختم نبوت، امیر شریعت نمبر،ص:618۔ 36۔ ہفت روزہ “چٹان”8 اکتوبر 1973۔
37۔اس خط کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا احمد الدین صاحب )موضع میاں علی(ضلع شیخوپورہ نے بتایا کہ ہم ایک دفعہ شاہ جی کی خدمت میں ملتان حاضر ہوئے، وہاں ایک شخص کا ملتانی جوتا بہت پسند آیا۔شاہ جی نے فرمایا ایسے جوتے بنانے والا ہمارے قریب ہی رہتا ہے۔ہماری خواہش پر شاہ جی نے اسے بلوا بھیجا۔ ہم نے پاں کا ماپ دے دیا۔دوسرے دن جب واپس ہونے لگے تو ہم نے عرض کیا شاہ جی! آج کل خالص گھی ملنا دشوار ہے۔ہم آپ کے لیے جب آئے تو گھر کاگھی لیتے آئیں گے۔شاہ جی نے منظور کرلیا۔کچھ دنوں بعد شاہ جی کا خط ملا۔ (سید امین گیلانی، بخاری کی باتیں،لاہور، ادارہ تالیفات ختم نبوت،ص11)
38۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ، ص 155بتغیر یسیر 39۔اردو ڈائجسٹ دسمبر 1983۔
40۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعت، ص311۔312۔
41۔ پروفیسر خورشید الاسلام، تنقیدیں،علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاس ۔طبع 1977، ص9

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.