مفتی منیب الرحمن
دنیا میں انفرادی و اجتماعی طور پرلوگوں کومختلف قسم کے مصائب، حوادث اور قدرتی آفات وبلیات کاسامناکرنا پڑتا ہے، اس کی حقیقت وحکمت توبہرحال اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے: البتہ قرآن مجید اور احادیثِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں پرمصیبتوں وتکالیف کے آنے کی بڑی اور بنیادی وجوہات دو ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ گناہوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں، اُن پرآنے والی مصیبتیں اور تکلیفیں خود اُن کے اپنے شامتِ اعمال کانتیجہ ہوتی ہیں۔ گناہ اور نافرمانیاں خواہ کفر وشرک کی حدکو پہنچی ہوئی ہوں یاعام صغیرہ یا کبیرہ گناہ ہوں، بسا اوقات مکافاتِ عمل کے طور پرانسان کو ان کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اِسی دنیا میں انسان کوبطورِ تنبیہ مختلف اقسام کی پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1)ــ’’ اورتجھے جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تیری وجہ سے ہی پہنچتی ہے‘‘ (النساء: 79)، (2): ’’اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے، (حالانکہ) اﷲ بہت سے گناہوں کو معاف بھی فرما دیتا ہے‘‘ (الشوری: 30)۔ (3):‘‘خشکی اورتری میں لوگوں کے ہاتھوں سے کی ہوئی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا تاکہ اﷲ اُنہیں اُن کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے، شاید وہ باز آجائیں‘‘ (الروم: 41)۔
فساد سے مراد ہر وہ خرابی ہے جس سے انسانی معاشرے کا امن وسکون تباہ ہوجائے، یہ کبھی انسان کے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہے، جیسے نعمتوں کا زائل ہونا اور آفات اور مصائب کا آنا، مثلاً قحط آنا اور زمین میں پیداوار کا نہ ہونا، بارشوں کا رک جانایا بکثرت سمندری طوفانوں کا آنا، دریاؤں میں سیلاب آنا، فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہونا، زلزلوں کا آنا، آگ لگ جانے، ڈوب جانے، مال چھن جانے، چوری اور ڈاکے کے واقعات کا زیادہ ہونا، یہ تمام فساد اﷲ تعالیٰ سے بغاوت اور سرکشی کا نتیجہ ہے، یہ شرک اور بداعمالیوں کا ثمرہ ہے۔نیز اﷲ تعالیٰ کاارشادہے: (1)’’اور ہم نے اُنہیں عذاب کے ساتھ پکڑا تاکہ وہ لوٹ آئیں‘‘ (الزخرف: 48)، (2):’’اور ہم اُنہیں بڑے عذاب سے پہلے نزدیک کا عذاب بھی چکھاتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں‘‘ (السجدۃ: 21)، یعنی بعض لوگوں کو آخرت کے بڑے عذاب سے قبل اسی دنیا میں ذراکم درجے کے عذاب مثلاً: مصائب، بیماریوں، قتل وغارت گری، قحط سالی اورمال واولاد وغیرہ کی ہلاکت کا مزہ بھی چکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی بداعمالیوں سے بازآکر اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں۔
قرآنِ کریم کی ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جملہ مصائب وتکالیف کی ایک وجہ انسان کااپنابُراعمل ہوتا ہے، اگرچہ اُسے اپنی غفلت، کم عقلی اورکوتاہ نظری کی وجہ سے اپنی کوئی خامی اور برائی دکھائی نہیں دیتی اور ہر چیز اُسے بظاہر ٹھیک اور درست سَمت میں نظر آتی ہے، لیکن اُس کی وہ خرابیاں اور کوتاہیاں اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اُس پر مصیبت وپریشانی آئی ہے:چنانچہ غزوہ اُحد میں پہنچنے والی مصیبت کے حوالے سے بعض صحابہ کرام کے دلوں میں اِسی قسم کاخیال آیاتھا، جسے بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:’’کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اُس سے دگنی تم پہنچا چکے ہو، تو کہنے لگو: یہ کہاں سے آئی، تم فرما دو کہ وہ تمہاری ہی طرف سے آئی، بے شک اﷲ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (آل عمران: 165)۔
اس دنیا کو اﷲ تعالیٰ نے دارالاسباب بنایا ہے اور ہرسبب کے لیے کوئی نہ کوئی نتیجہ بھی مقرر فرمایا ہے، جس قسم کے اسباب اختیار کیے جائیں گے، نتیجہ بھی اُسے کے مطابق برآمد ہوگا، ایسا نہیں کہ اگر کافربھڑکتے ہوئے شعلوں میں ہاتھ ڈالے گا تو اُس کاہاتھ تو جل جائے گا مگر مومن ڈالے گا تو اُسے کچھ نہیں ہوگایا کافربلند وبالا عمارت سے چھلانگ لگائے گا تواُس کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی، جبکہ مومن صحیح سلامت رہے گایاکافر اگر میٹھی چیزیں زیادہ کھائے گا تو اُسے تو شوگر ہوگی، لیکن مسلمان کھائے گا تو نہیں ہوگی، گوشت اور نمکین اشیا کے زیادہ استعمال سے کافر کا بلڈپریشر ہائی ہوگا اور مومن کا نہیں ہوگا۔ بہر حال مصیبتیں اور پریشانیاں خواہ بیماریوں کی شکل میں ہوں یا ناکامیوں کی صورت میں، سب انسان کے شامتِ اعمال اور اُس کے اپنے کیے دھرے کا نتیجہ ہوتی ہیں، البتہ مصائب وآلام کی ٹھوکرلگنے پر اگرتوفیقِ الٰہی بندے کے شامل حال ہوتی ہے تو اُس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اوروہ ان مصائب وتکالیف میں اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اپنے گناہوں اورنافرمانیوں پر نادم وپشیمان ہوتا ہے، مصائب وتکالیف پر صبر کرتے ہوئے اُنہیں عبرت و نصیحت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اپنے اعمال کی درستی اوراصلاح کرلیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی تکالیف اور مصیبتیں اُس کے لیے خیر وبھلائی اوررحمت بن کر اُس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ اس دنیاوی تکلیف ومصیبت کی وجہ سے اُسے آخرت کے عذاب سے محفوظ فرمادیتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) حضرت علی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تووہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے‘‘ (الشوری: 30)، پھر فرمایا: اے علی!میں تمہیں اس آیت کی تفسیر بتاتا ہوں:’’تم پر جو بیماری آتی ہے یا کوئی سزا ملتی ہے یا دنیامیں کوئی مصیبت آتی ہے، تو اس کی وجہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں اوراﷲ تعالیٰ اِس سے بہت زیادہ کریم ہے کہ وہ تم کو(اِس دنیا میں مصائب وتکالیف میں مبتلاکرنے کے بعد)دوبارہ آخرت میں سزا دے اور اﷲ تعالیٰ نے جس گناہ کو دنیا میں معاف فرمادیا تو اﷲ اس سے بہت زیادہ حلیم ہے کہ وہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ سزا دے‘‘ (مسند احمد: 649)، (۲)‘‘اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم!قرآن مجید میں ایک آیت مجھے بہت سخت معلوم ہوتی ہے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کون سی آیت ہے؟ میں نے عرض کی: ’’جو کوئی بھی برائی کرے گا، اُسے اُس کا بدلہ دیاجائے گا‘‘ (النسآء: 123)، یہ سن کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ!کیا تم نہیں جانتیں کہ مومن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے یا اُسے کوئی کانٹابھی چبھتا ہے تویہ اُس کے برے عمل کا بدلہ ہوجاتا ہے‘‘ (سنن ابوداؤد: 3093)۔
(۳)’’اس بارے میں حضرت عامر الرامی رضی اﷲ عنہ کی یہ حدیث بہت واضح ہے، وہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو جب کوئی بیماری پہنچتی ہے، پھر اُسے اﷲ تعالیٰ اس بیماری سے عافیت عطا کردیتا ہے تو یہ اُس کے گزشتہ گناہوں کے لیے کفارہ اور آئندہ کے لیے نصیحت ہوجاتی ہے اور جب کوئی منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اُسے عافیت مل جاتی ہے تو وہ اُس اُونٹ کی مانند ہوتاہے، جسے اُس کے مالک نے باندھ رکھا تھااورپھر اُسے چھوڑ دیا، پس وہ نہیں جانتا کہ اُسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا تھا‘‘، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اِرد گرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: یا سول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم !یہ بیماریاں کیا ہیں، میں تو کبھی بیمارہی نہیں ہوا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے پاس سے اٹھ جاؤ، تم ہم میں سے نہیں ہو‘‘ (سنن ابوداؤد:3089)، (۴)حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندے کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور اُس کے پاس ایسے اعمال نہیں ہوتے کہ جو اُس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن سکیں تو اﷲ تعالیٰ اُسے غم میں مبتلاکردیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کو معاف کردے‘‘ (مسنداحمد: 25236)، (۵)’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: ‘جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے مبتلائے مصیبت کردیتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 5645)۔
(۶) ’’حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے، بیشک اُس کے تمام معاملات میں خیر ہوتی ہے جوکہ مومن کے علاوہ کسی کوحاصل نہیں، اگراُسے خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکرکرتا ہے، جو اُس کے لیے بہتر ہے اور اگر اُسے ضرر پہنچتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے جو کہ اُس کے لیے بہترثابت ہوتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2999)۔
ان آیات واحادیث میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فی نفسہٖ مصائب وتکالیف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور عقاب نہیں، بلکہ خیر وبھلائی، گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں:البتہ یہ سزا اور عقاب کی شکل اُس وقت اختیار کرتے ہیں، جب انسان ان پریشانیوں اور آفتوں سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے انہیں زمانے کی گردش اور ہیر پھیر سمجھتا رہے اور اپنی سابقہ روش کوبرقرار رکھتے ہوئے گناہوں اور نافرمانیوں میں مصروف رہے، بلکہ سرکشی میں مزید آگے نکل جائے توایسے شخص کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس اُونٹ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جسے اُس کے مالک نے کچھ دیر کے لیے باندھ کر چھوڑ دیا ہو، اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُسے کیوں باندھاگیا تھا اور کیوں کھولاگیاہے، سووہ آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیا کے عذاب میں بھی مبتلا رہتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر ناراضی اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے، جنہیں اُن کے گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کیا گیاتواﷲ تعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرنے، عَجز واِنکساربجالانے اور عبرت ونصیحت حاصل کرنے کے بجائے اپنے تمردو سرکشی پر قائم رہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’اور اگر ہم ان پر رحم کریں اوران پرآئی تکلیف کو دور کردیں توبھی یہ بھٹکتے ہوئے اپنی سرکشی پراَڑے رہیں گے اوربیشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تو نہ وہ اپنے رب کے حضور جھکے اور نہ گڑگڑاتے ہیں‘‘ (المومنون: 76-75) نیز فرمایا: ’’اور بے شک ہم نے آپ سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، ہم نے اُنہیں سختی اور تکلیف سے پکڑا کہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں، پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تووہ گڑگڑائے ہوتے، لیکن اُن کے تو دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہ میں بھلے کر دکھائے‘‘ (الانعام: 42تا 43)۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت بندہ انبیائے کرام کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اُس کے آگے گریہ وزاری کرے اور اپنی عاجزی اور کم ہمتی کا اعتراف کرے۔ حضرت ابواُمامہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی بندہ کسی بیماری کی وجہ سے (اﷲ کے آگے) عَجز کااظہار کرتا ہے، تواﷲ تعالیٰ اُسے اُس بیماری سے اس حال میں اُٹھاتا ہے کہ وہ(گناہوں سے) پاک ہوتا ہے‘‘ (مجمع الزوائد: 3803)۔
گناہوں اور نافرمانیوں کے علاوہ بعض مصیبتیں اور پریشانیاں آزمائش وامتحان کے طور پر بھی آتی ہیں، جن کے ذریعے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش فرماتا ہے تاکہ کھوٹے کوکھرے سے ممتاز فرما دے۔ انبیائے کرام و رسلِ عظام اور دیگر صالحین اہلِ ایمان‘ جنہیں اﷲ تعالیٰ گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے‘ اُن پر آنے والے مصائب وآلام اور تکالیف وابتلائیں اِسی نوع سے تعلق رکھتی ہیں؛ چنانچہ اُن پر مصائب وتکالیف اس لیے آتی ہیں تاکہ اُن کے درجات بلند ہو جائیں اور اُن کے صبر وحوصلے اور ہمت واستقامت کو دیکھ کر دیگر مصیبت زدہ اہلِ ایمان کو سکون میسر آئے اور اُن میں بھی صبر کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو۔ اہلِ ایمان میں سب سے سخت تر آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے اور اُن پر جو مصیبتیں اور تکلیفیں آتی ہیں وہ عام لوگوں پر آنے والی تکالیف کی نسبت دُگنی ہوتی ہیں، پھرجو شخص جتنا زیادہ نیک و صالح اور اپنے دین میں متصلّب ہوتا ہے اور انبیائے کرام کے نزدیک اور قریب ہوتا ہے، اُس کی آزمائش اُتنی ہی زیادہ سخت ہوتی ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے:(1)’’ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! سب سے سخت آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیائے کرام کی ہوتی ہے، پھر جو اُن کے بعد مرتبے میں انبیائے کرام کے جتنے نزدیک ہوتے ہیں، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہو تو اُسی کے مطابق اُس کی آزمائش ہوتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اُس پرکوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘ (سنن ترمذی: 2398)، (۲)’’حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اُس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بخار میں تپ رہے تھے، آپ کے جسم اقدس پر ایک لحاف تھا، میں نے اپنا ہاتھ اُس لحاف پر رکھا تو میں نے بخار کی حدت وتپش سے لحاف کو گرم پایا، میں نے عرض کی:یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ کوتو بہت شدید بخار ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:ہم گروہِ انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے، ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی آتی ہے اورہمیں اجربھی دگنا ملتا ہے۔ میں نے عرض کی:یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم!سب سے سخت آزمائش کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ فرمایا: انبیائے کرام کی، میں نے عرض کی:پھر اس کے بعد؟ فرمایا:نیک وصالح لوگوں کی، اُن میں سے بعض کو ایسے فقر میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ اُن کے پاس ایک چوغہ کے علاوہ‘ جسے وہ اپنے جسم پر لپیٹتے ہیں‘ کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور اُن میں بعض توآزمائش پر اس طرح خوش ہوتے ہیں کہ جیساکہ تم میں سے کوئی شخص مال ودولت کے ملنے پر خوش ہوتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ:4024)۔
احادیث ِ طیبہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں امراض وتکالیف اور مصائب وآلام حتیٰ کہ کانٹاچبھنے جیسی معمولی تکلیف بھی خیر وبھلائی کا باعث ہے، کیونکہ یہ اس کے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتے ہیں اور کل بروزِ قیامت وہ اﷲ تعالیٰ سے اِس حال میں ملاقات کرے گا کہ گناہوں سے بالکل صاف ستھرا ہوگا۔ (۱) ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: صالحین پر سختی کی جاتی ہے اور مسلمان کو کسی کانٹے کے ذریعے یا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اُس کے ذریعے اُس کی ایک خطا مٹادی جاتی ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے‘‘ (مسنداحمد: 25264)، (۲) ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو جو بھی تھکن، رنج وغم یابیماری پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اُسے کوئی فکر بھی لاحق ہوتی ہے تو اس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ اُس کی برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 966)، (۳) ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مومن کی رگ (بیماری کی وجہ سے)جوش نہیں مارتی، مگر اُس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ ایک خطا کو مٹادیتا ہے اور اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرمادیتا ہے‘‘ (معجم الاوسط: 2460)، (۴)’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن مرد و عورت ہمیشہ اپنے نفس، اپنی اولاد اور مال کے حوالے سے پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرتے ہیں کہ اُن پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا‘‘ (سنن ترمذی:2399)، (۵):نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی ایسادرجہ مقرر کیا جاتا ہے جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پاسکتاتو اﷲ تعالیٰ اُس کے جسم یا اُس کے مال یا اولاد کو مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اُسے صبر کی توفیق بھی عطا کرتا ہے، حتیٰ کہ اُسے اُس درجے پر پہنچادیتا ہے جو اﷲ کی طرف سے اُس کے لیے مقرر ہوتاہے‘‘ (مسنداحمد: 22338)، (۶): ’’حضرت جابرؓبن عبداﷲ بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب اہلِ ابتلا کو ثواب دیاجارہا ہوگا تو اہلِ عافیت یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں اُن کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹا جاتا‘‘ (سنن ترمذی:2402)۔ان احادیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ بیماریوں اور تکلیفوں کو بُرا نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ یہ درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں، ایک مرتبہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت اُم سائب یا اُم مسیب نامی ایک صحابیہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُنہیں دیکھا تو فرمایا: تم کیوں کانپ رہی ہو؟ اُنہوں نے کہا:مجھے بخار ہے اوراﷲ اِس میں برکت نہ دے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’بخار کو بُرا مت کہو، کیونکہ یہ بنی آدم سے خطاؤں کو اس طرح لے جاتاہے، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2575)۔ صوفیا کرام فرماتے ہیں: جس شخص کو عبادتوں میں لذت نہ آئے اوراس پر اسے غم ہو، تو یہ بھی گناہوں کی معافی کا باعث ہے۔ اہلِ علم حضرات نے ان احادیث کے تحت ذکر کیا ہے کہ بندۂ مومن کے حق میں مصائب وتکالیف مطلقاً گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہیں، خواہ وہ ان پر صبر کرے یا نہ کرے؛ البتہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے: کسی مصیبت کی وجہ سے اجر وثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب ان مصیبتوں پر صبر کیا جائے، کیونکہ قرآن وسنت میں اجر و ثواب کے حصول کے لیے صبر کی شرط عائد کی گئی ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱)’’بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا‘‘ (الزمر:10)، (۲) ’’اور ضرور ہم تمہیں خوف اور بھوک اوراموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اورصبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے، تو کہتے ہیں: ہم اﷲ کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے‘‘ (البقرہ:154تا 155)۔
اس حوالے سے احادیث درج ذیل ہیں: (۱) ’’حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک بدلے کا بڑا ہونا آزمائش کے بڑے ہونے کے ساتھ ہے اور اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں (مصائب میں) مبتلا کر دیتا ہے، پس جو راضی رہتا ہے تو اُس کے لیے (اﷲ کی طرف سے)رضا ہے اور جو ناراض ہوتا ہے تو اُس کے لیے ناراضی ہے‘‘ (سنن ترمذی:2396)، (۲)’’حضرت محمودؓ بن لبید بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اُنہیں مبتلائے مصیبت کردیتا ہے، پس جو صبرکرتاہے تو اُس کے لیے صبر (کا ثواب) ہے اور جو بے صبری کرتا ہے تو اُس کے لیے بے صبری (کا وبال) ہے‘‘ (مسنداحمد: 23623)، (۳) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس میرے اُس بندۂ مومن کے لیے جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے جس کی میں کوئی عزیز چیز قبض کرلوں اور پھر وہ اُس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے‘‘ (صحیح بخاری: 6424)، (۴) ’’عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: حضرت عبداﷲؓ بن عباس نے مجھ سے فرمایاکیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں، میں نے کہا: کیوں نہیں! فرمایا: یہ جو حبشی عورت ہے (یہ جنتی ہے)، یہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اورعرض کی: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کراور تیرے لیے صبر کے بدلے میں جنت ہوگی اور اگر چاہے تومیں تیرے لیے دعا کردیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ تجھے اس مرض سے عافیت عطا کردے، اُس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر اُس نے کہا: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، پس آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلے، پس نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی‘‘ (صحیح بخاری: 5652)، (۵)’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:اﷲ عزوجل مَلکُ الموت سے فرماتاہے: اے ملَکُ الموت!تو نے میرے بندے کے بچے کی روح کو قبض کر لیا، تو نے اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کے دل کے سکون پر قبضہ کرلیا، وہ کہتا ہے:ہاں!اﷲ تعالیٰ پوچھتا ہے:اُس نے کیاکہا:وہ کہتا ہے کہ اُس بندے نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کردواور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو‘‘ (سنن ترمذی: 1021)، اس حدیث کے تحت علامہ مناوی شافعی لکھتے ہیں: ’’علامہ عِزبن عبدالسلام اور علامہ ابن قیم نے کہا ہے: بیماریاں اور مصیبتیں چونکہ غیر اختیاری طور پر آتی ہیں، اس لیے اُ ن پر اجروثواب حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اُن پر صبر کرنے سے اجر حاصل ہوتا ہے جوکہ بندے کے اختیار اور کسب سے ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں بیان ہے کہ بندے کو جنت میں جو محل حاصل ہوتاہے وہ اُس کے حمد کرنے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَپڑھنے کی وجہ سے ملتاہے نہ کہ اُس پر آنے والی مصیبت کی وجہ سے؛ البتہ مصیبت کاثواب یہ ہے کہ اُس سے خطائیں معاف ہوجاتی ہیں‘‘ (فیض القدیر: ج: 1، ص:440) جبکہ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ مصیبت پر خواہ صبر کیاجائے یا نہ کیا جائے، اس کی وجہ سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی شافعی فرماتے ہیں:’’احادیث صحیحہ وصریحہ سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امراض وتکالیف مطلقاً اجر وثواب کے حصول اورگناہوں کی معافی کا سبب ہیں، خواہ اُن پر صبر کیا جائے یا نہ کیا جائے، رہی بات مصیبت پر صبر کرنے اور اُس پر راضی رہنے کی تو وہ ایک علیحدہ بات ہے، ممکن ہے کہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں صبر کا زائد اجر وثواب حاصل ہواوراس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جس درجے کی مصیبت ہوتی ہے، وہ اس درجے کے گناہ کے لیے کفارہ بنتی ہے اور اُس مصیبت پر صبر کرنے اور راضی رہنے پر اجر وثواب دیا جاتا ہے، پس اگر مصیبت زدہ شخص کا کوئی گناہ ہی نہ ہو، تو اس کے بدلے مصیبت کے بقدر ثواب دیاجاتا ہے‘‘ (فتح الباری: ج: 10ص:105)۔