غلام مصطفی دوسری قسط
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی ناراضگی کی حقیقت:
بعض رافضی الطبع لوگوں کا کہنا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا باغِ فدک سے محرومی کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوگئیں۔اب واقعہ یہ ہے کہ ناراضگی کی یہ کہانی کسی کتاب میں ان الفاظ میں نہیں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے یہ فرمایا ہو کہ میرا حق غصب ہوا، لہذا میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوں کیونکہ اُنہوں نے مجھ پر زیادتی کی چنانچہ میں ان سے کبھی بات نہیں کرؤں گی۔
کچھ روایات میں اس طرح آیا ہے کہ:
فغضبت فاطمہؓ فھجر تہ (ابابکر) فلم تکلمہ
ترجمہ: سیدہ فاطمہؓ غصہ ہوگئیں اور ابوبکرؓ سے گفتگو ترک کردی۔ (السنن الکبریٰ، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 300)
پہلی بات تو ہمیشہ سند کی بنیاد پر ہو گی۔ مطالبہ میراث کی روایت کل ۳۶ مختلف اسناد سے روایت ہوئی ہے۔ لیکن ان میں سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نا گواری و غضب یا ترکِ کلام وغیرہ کی بات صرف ان اسناد میں موجود ہے جن من محمد ابن مسلم المعروف بابن شہاب زہری موجود ہیں۔ ان محمد ابن مسلم کا تشیع یا میلان الی التشیع معروف و مشہور ہے۔ پس سند کی بنیاد پر تو ہمیں فریقِ مخالف کے دعوے کے ثبوت پر ہی اشکال ہے۔
لیکن بالفرض والمحال اس بات کوصحیح بھی مان لیا جائے تو بھی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا غصہ ہونا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ کے لیے مضر نہیں۔ کیونکہ غضب اور اغضاب میں فرق ہے۔ غضب کے معنی غصہ ہونے کے ہیں اور اغضاب کے معنی دوسرے کو جان بوجھ کرناراض کرنے کے۔ ان روایات کو من و عن تسلیم کر بھی لیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ نے ناگواری محسوس کی، یہ بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو ناراض کیا ہو، بلکہ آپ رضی اﷲ عنہ نے تو ارشاد نبویؐ یعنی اُن کے اباجان کے ارشاد کی تعمیل کی۔
پھر ان الفاظ کو اگر دیکھا جائے جو اس باب میں مروی ہیں، تو وہ مختلف ہیں۔بعض روایات میں فغضبت فاطمۃ رضی اﷲ عنھا آیا ہے اور بعض روایات میں فوجدت فاطمۃ آیا ہے ۔ (مثلا: بخاری جلد نمبر 2صفحہ نمبر 609) لفظ وجدت جس طرح غصہ پر دلالت کرتا ہے، اسی طرح حزن و ملال کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے جب مطالبہ میراث کیا تو اُس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اُنہیں ارشاد نبویؐ سُنایا تو سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو ایک گونہ ندامت اور رنج ہو کہ میں نے لاعلمی میں کیوں میراث کا مطالبہ کیا۔پھر اس کے فوراً بعد سیدہ کی علالت کا سلسلہ شروع ہوا اور اپنی وفات تک پھر سیدہ نے صدیق اکبر سے میراث کا مطالبہ نہ کیا۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر بھی کئی دفعہ ناراض ہوئیں:
اگر کوئی صاحب زیادہ ہی مُصر ہوں کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں۔ تو ہم عرض کریں گے ایک مقدس و محترم ہستی کا کسی دوسری محترم و مقدس ہستی سے ناراض ہو جانا ہر گز یہ معنی نہیں رکھتا کہ لازمی طور پر دوسری ہستی غلط کار و قصور وار ہی ہے۔کیونکہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر بھی کئی دفعہ ناراض ہوئیں۔ اس لیے اگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ناراض ہونے سے سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بھی اس الزام سے نہیں بچ سکتے۔ چنانچہ روایات میں ایسے کئی واقعات منقول ہیں جن میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوئی تھیں۔ ذیل میں ایسی چند روایات لکھی جاتی ہیں جو فریقِ مخالف کی کتابوں سے یکجا کی گئی ہیں۔
(۱) اس سلسلہ میں مُلاّ باقر مجلسی ایرانی نے لکھا ہے کہ: صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔ہم نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ نہایت غم ناک ہے، نماز سے فارغ ہو کر آپ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ گھر کے دروازہ کے سامنے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی پشت سے مٹی جھاڑنے لگے اورفرماتے جارہے تھے ’’قُم یا ابا تراب‘‘ اے ابوتراب (مٹی پر لیٹنے والے) اُٹھیے۔ پھر یہ دونوں حضرات (یعنی )نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کے گھر میں داخل ہوگئے۔ ہم کچھ دیر دروازہ پر کھڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پرُ مسرت چہرہ سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے۔ ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس خوشی کی وجہ دریافت کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں کیوں نہ خوش ہوں جبکہ میں نے ایسے دوافراد کے درمیان صُلح کرادی ہے جو آسمان والوں کے ہاں زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ (بحار الانوار جلد نمبر 1صفحہ نمبر 43مُلا باقر مجلسی)
(۲)فدک کے باغ سے فصل ملنا اور محض ملکیت بطور میراث نہ ملنا اگر سیدہ کے لیے ناگواری اور غصے کا سبب تھا تو کہیں زیادہ تکلیف دہ بات آپ کے لیے وہ ہے جس سے آپ نہایت غم زدہ اور رنجیدہ ہوئیں، کہ جب بعض روایات کے مطابق سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے دوسرا نکاح کرنا چاہا۔ اس بات سے نہ صرف سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا رنجیدہ ہوئیں۔ بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی نا گواری ہوئی۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے برسر منبر تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے سامنے اس کا اظہار فرمایا اور صحابہ کرام نے اس بات کو محسوس کیا کہ واقعی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غمزدہ ہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے خطبہ کے طور پر ارشاد فرمایا:
ان علیاً رضی اﷲ عنہ یرید ان یتزوج ابنۃ عدو اﷲ علی ابنۃ نبی اﷲ، وان فاطمہؓ بضعۃ منی فمن آذاھا فقد آذانی ومن سرَّھا فقد سرَّنی ومن غاظھا فقد غاظنی۔
ترجمہ: علیؓ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی کے ہوتے ہوئے اﷲ کے دشمن ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرے۔بے شک فاطمہؓ میرا ٹکڑا ہے جس نے اُسے اذیت دی اُس نے مجھے اذیت دی۔ اور جس نے اسے خوش کیا اُس نے مجھے خوش کیا اور جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔
(بطور حوالہ ملاحظہ ہوں: امالی شیخ صدوق شیعی صفحہ نمبر 64/ جلاء العیون جلد نمبر 1صفحہ نمبر 227مُلا باقر مجلسی/انوار النعمانیہ جلد نمبر 1صفحہ نمبر 73نعمت اﷲ جزائری شیعی/ ناسخ التوا ریخ/ زندگانی فاطمہؓ صفحہ نمبر 206ء شیعہ / علل الشرائع باب 185,148/ بخاری شریف جلد نمبر 1صفحہ نمبر 528، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 185)
(۳) اس سلسلہ میں بعض روایات میں مذکور ایک اور واقعہ بھی توجہ طلب ہے ۔ اس واقعہ میں نہ صرف سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر ناراض ہونا مذکور ہوتا ہے بلکہ غضبناک ہو کر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا دامن پکڑنا اور اس کو جھنجھوڑنا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ یہ روایت دیکھنے میں جتنی بھی افسانہ نما اور داستانی محسوس ہو، یاد رکھیں کہ اس روایت کو عام طور پر شیعی راویوں نے نقل کیا ہے۔ معروف شیعی عالم شیخ صدوق نے نقل کیا ہے کہ:
’’حدیث میں ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے ایک روز سیدنا سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کو بُلایا اور کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے باغ کوفروخت کردو۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے اُس باغ کو 12ہزار درہم میں فروخت کردیا۔ جب یہ رقم سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو ملی۔ توساتھ ہی ایک اعرابی نے آکر سوال کردیا۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اس رقم سے چار ہزار چالیس درہم اس اعرابی کو دے دئیے۔ یہ خبر مدینہ میں پھیل گئی۔ ایک انصاری سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی خدمت حاضر ہوا اور آپ کو یہ واقعہ بتایا۔ بقایا بھی وہیں بیٹھے بیٹھے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے لوگوں میں تقسیم کردی۔ یہاں تک کہ ایک درھم بھی باقی نہ بچا۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہانے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے میرے باپ کے باغ کو فروخت کردیا ہے۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اثبات میں جواب دیا ۔سیدہ فاطمہؓ نے پوچھا کہ رقم کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اﷲ کے راستہ میں تقسیم کردی۔ سیدہ فاطمہ نے فرمایا میں بھوکی ہوں، میرے بچے بھوکے ہیں اور آپ بھی ہماری طرح بھوکے ہیں اور ہمارے پاس ایک درہم نہیں، یہ کہہ کر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا دامن پکڑ لیا۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! فاطمہؓ مجھے چھوڑ دے۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے جواب دیا، بخدا! میں آپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گی یہاں تک کہ میرے اور آپ کے درمیان میرے ابّا فیصلہ فرمائیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا یہ کہنا تھا کہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا’’اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اورعلی رضی اﷲ عنہ کو سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے:
قل لفا طمۃ لیس لک ان تضربی علی یدیہ وتلزمی بثوبہ
ترجمہ: (اے محمد ؐ)فاطمہؓ کوکہہ دیجیے کہ تیرے لیے یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ تو علی ؓ کے ہاتھوں پر مارے اور اُس کے دامن کو نہ چھوڑے ۔
اﷲ تعالیٰ کے اس حکم پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر آئے اور دیکھا کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا دامن پکڑا ہوا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو اﷲ تعالیٰ کا وہ پیغام پہنچایا جو جبرائیل لے کر آئے تھے۔ یہ پیغام سُن کر سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا دامن چھوڑ دیااور معافی کی خواستگار ہوئیں‘‘۔ ( امالی شیخ صدوق، صفحہ نمبر 281/انوار النعمانیہ، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 58نعمت اﷲ /جلاء العیون جلد نمبر 1صفحہ نمبر 194مُلاّ باقر مجلسی )
اس طرح کے کئی واقعات شیعہ حضرات کی کتابوں میں درج ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوگئیں۔ تو کیا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے لیے بھی یہ حضرات وہ باتیں کریں گے اور معاذ اﷲ ان بے ادبیوں کا نشانہ بنائیں گے جن کا مستحق وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو ٹھہراتے ہیں؟
بلکہ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ روایات میں مذکور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وہ کلمات جو راویوں کے بقول حضرت رسولِ خدا علیہ الصلاۃ والسلام نے انتہائی ناگواری اور رنجیدہ خاطری کے ساتھ حضرت رضی اﷲ عنہ کے بارے میں کہے کہ: فاطمۃ بضعۃ منی من آذا ھافقد آذانی( فاطمہؓ میرے دل کا ٹکڑا ہے جس نے اُسے اذیت دی اُس نے مجھے اذیت دی)۔
ان کلمات کو دشمنانِ صحابہ اور ان کے پروپیگنڈے سے متأثر جاہل لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاسیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے کیسے ناراض ہوسکتی تھیں، جبکہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے حبالہ عقد میں لانے والے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہی تو تھے۔سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اُن کے لیے بمنزلہ بیٹی کے تھیں۔ بیوی شوہرمیں تو معاملاتِ دنیا کی بنیاد پر ناراض ہونا ممکن ہے لیکن بیٹیاں اپنے والد سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتیں۔
پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس مسئلہ میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کے غصہ وغضبناک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو جو جواب دیا وہ دھونس دھاندلی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت معقول اور دلائل پر مبنی تھا۔ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ کے فیصلے کا خلاصہ یہ تھا کہ:
(1) کہ آل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس مال میں سے حسب سابق اخراجات زندگی لیتی رہے گی۔ انما یأکل آل محمد من ہذا المال۔
(2) میں اس مال کے خرچ کرنے میں وہی کچھ کروں گا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کرتے تھے، لأعملن فیھا بہا عمل فیھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
(3)اس موقع پر ایک اور بات ارشاد ہوئی۔ جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی دلی کیفیتوں کو خوبصورتی سے ظاہر کرتی ہے۔ آپ نے حلفاً فرمایا: اے بنتِ رسول اﷲ! اﷲ کی قسم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قرابت اور رشتہ داری مجھے اپنی قرابت اور رشتہ داری سے زیادہ عزیز ہے۔
واﷲ لقرابۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أحبُّ إلیَّ من قرابتی(بخاری جلد نمبر 1صفحہ نمبر 526)
سوال یہ کہ یہ تین باتیں جو خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کہیں، ان میں سے کس بات سے سیدہ ناراض ہو سکتی تھیں؟ کیا اس بات سے کہ جو مال آپ کے ہاں رسول خدا علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں آیا کرتا تھا وہ بدستور آتا رہے گا؟ یا اس بات سے کہ میں حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کو اپناؤں گا اور آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا؟ یا اس بات سے کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو اپنے رشتہ داروں پر ترجیح دوں گا اور اس پر قسم کھاتا ہوں؟۔
ان باتوں میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھاناراض ہو سکتی ہوں۔پس روایات قابلِ تردید و اعتراض ہیں۔ کوئی شخص مگر پھر بھی روایات کی لفظ پرستی پر ڈٹا رہے تو ہم کہیں گے ان روایات میں مذکور سیدہ فاطمہ کی قلبی کیفیت کو غضب کے بجائے ندامت پر محمول کرنا سیاق و سباقِ کلام کے زیادہ مناسب ہے۔ اور یہی جواب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنی بیٹی عائشہ صدیقہؓ اور دیگر امہات المومنین کو بھی دیا تھا۔ جب اُنہوں نے اپنے حصہ وراثت کا مطالبہ کیا۔ اس وجہ سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا اپنے سوال سے نادم ہوئیں کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق سے ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے تھا،کہ میں نے وراثت کے عمومی مسئلہ کے تحت حضرت خاتم المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کی وراثت کے بارے میں پوچھا اور سیدنا ابوبکر کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وراثت کے اس عمومی مسئلہ سے خارج ہیں، کاش میں یہ سوال نہ کرتی تا کہ میری حالتِ فقر و حاجت کسی کے سامنے ظاہر نہ ہوتی۔ اور پھر سوال بھی ابو بکر جیسے جان نثار و فدا کارِ رسول سے، جن کی وفا و عقیدت کی گواہی حضرت رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ کے آخر روز تک دیتے رہے۔ یہ سوال کرنا تو ان کو بھی شرمندہ کرنے کے مترادف ہوا، کیونکہ وہ توآل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اسی طرح شفیق وکریم ہیں جس طرح خود جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تھے۔ اور انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ اس کی آمدنی کو اُنہی مدات میں خرچ کریں گے۔ جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔
یاد رہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے قول کو نبھایا۔ آپ کا ارشاد معاذ اﷲ کوئی سیاسی وعدہ نہ تھا، روایات سے واضح طور پر ثابت ہے کہ اموال فئے جن میں باغ فدک بھی تھا، حضرت ابو بکر نے اُن کا انتظام سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ میں دے کر آپ کو اس کا متولی بنایا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعدیہ انتظام و تولیت سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ اُن کے بعد سیدنا حُسین رضی اﷲ عنہ پھر سیدنا علی بن حُسین یعنی امام زین العابدین اور حسن بن حسن پھر زید بن حسن رحمہم اﷲ و رضی عنہم تک منتقل ہوتی رہی۔
(بخاری شریف جلد نمبر 2صفحہ نمبر 576/السنن الکبریٰ جلد نمبر 6صفحہ نمبر 299/ابن ابی حدید جلد نمبر 4صفحہ نمبر 118)
چنانچہ اس سلوک کی وجہ سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بھی خوش رہیں اور بعد میں اُن کی اولاد بھی خوش رہی۔ فدک کی آمدنی خرچ کا انتظام سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے سپرد تھا اُن کے بعد ان کی اولاد کے سپرد رہا۔ اس بات پراہل سنت اورشیعہ روایات متفق ہیں۔ ایک دفعہ محمد باقربن علی زین العابدین بن سیدنا حسین رضی اﷲ عنہم سے پوچھا گیا: أرأیت ابابکرؓ وعمرؓ ھل ظلما کم حقکم شیئاً(کیاآپ کی رائے میں کہ ابوبکر وعمر نے آپ کے حق میں کسی قسم کی کوئی زیادتی یاظلم کیا)
آپ نے جواب میں فرمایا:لا والذی انزل القرآن علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا ماظلمنا من حقنا مثقال حبۃ من خردل(بالکل نہیں، قسم ہے اُس ذات کی جس نے اپنے بندے پر قرآن حکیم کو اُتارا، ہمارے حق میں رائی کے برابر بھی ظلم نہیں ہوا۔)
پوچھنے والے نے پھر پوچھا کہ میں ان سے دوستی رکھوں؟
آپ نے جواب میں فرمایا ’’ہاں‘‘ پھرفرمایا! تو اُن دونوں کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں محبت رکھ اور اگر کوئی وبال پیش آئے تومیری گر دن پر ہوگا۔
(ابن ابی حدید،جلد نمبر 4صفحہ نمبر 113/ وفاء الوفا، صفحہ نمبر 100فضائل ابوبکر صفحہ نمبر 5)
بعض روایات میں آتا ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں بعض حضرات نے باغ فدک اولاد فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو واپس کرنے کے لیے کہا تو سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے بڑا خوبصورت اورعمدہ جواب دیا:
انی لا ستحیی من اﷲ ان أرُدَّ شیئاً منع منہ ابوبکر وأمضاہ عمر
مجھے اﷲ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اُس شے کو لوٹا دؤں جس کو ابوبکرؓ نے منع کیا اور اور عمرؓ نے اُن کے حکم کو جاری رکھا ۔ (بحوالہ ابن ابی حدید شیعہ جلد نمبر 4صفحہ نمبر 130)
اسی وجہ سے سیدنا زین العابدین کے صاحبزادے اور سیدنا محمد باقر کے بھائی سیدنا زید بن علی بن حسین فرماتے ہیں۔
لوکنت مکان ابوبکر لحکمت بمثل ماحکم بہ ابو بکر فی فدک
اگر ابوبکر کی جگہ میں ہوتا تو میں فدک کے معاملہ میں وہی کچھ کرتا جو ابوبکرؓ نے کیا تھا۔
(بحوالہ البدایہ والنھایہ جلد نمبر 5صفحہ نمبر 290/ السنن الکبریٰ جلد نمبر 6صفحہ نمبر 302/ ابن حدید شیعہ جلد نمبر 4صفحہ نمبر 113)
پھر یہ بھی روایات میں موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے جب فدک کا مطالبہ کیا اور سیدنا ابوبکر کے انکار پر وہ ناراض ہوگئیں جیسا کہ محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہری شیعہ کی روایت میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن کئی ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ ناراضگی وقتی تھی۔ دائمی نہ تھی اوروقتی طور پر تو سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے بھی کئی دفعہ ناراض ہوئیں جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بیان ہوچکا ہے۔چنانچہ ابن سعد نے امام شعبی سے روایت نقل کی ہے کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا بیمار ہوئیں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اُن کے گھر تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے اجازت دے دی۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے معذرت کی تو سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا اُن سے راضی ہوگئیں۔ ( طبقات ابن سعد جلد نمبر 8صفحہ نمبر 17/ السنن الکبریٰ جلد نمبر 6صفحہ نمبر 301/درُہ نجفیہ شرح البلا غہ صفحہ نمبر 331,332)
شاید یہی وجہ تھی کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی تیمار داری سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماءؓ بنت عمیس نے کی اور پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا کی نماز جنازہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی۔ (طبقات ابن سعد، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 19,16/السنن الکبریٰ جلد نمبر 4صفحہ نمبر 29/حلیۃ الاولیاء جلد نمبر 5صفحہ نمبر 96)
خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے نہایت خوش دلی اور رضا ورغبت سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت کی اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے جوباغ فدک مانگا تھا۔ اُس میں وہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے جواب سے مطمئن ہوگئی تھیں اور سیدنا ابوبکر صدیق سے اپنی وفات تک راضی رہیں۔ ناراضگی کی روایات یار لوگوں کی وضع کردہ ہیں۔ (جاری ہے)