مولانا عمران گوندل
پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی معروف علمی و روحانی شخصیت حضرت مولانا قاضی چن پیر الہاشمی کے گھر سکول ریکارڈ کے مطابق 9 جنوری 1953ء کو تحصیل حویلیاں کے گاؤں رجوعیہ میں پیدا ہوئے۔۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی اور تایا جان مولانا قاضی عبدالواحد صاحب (جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید تھے) سے حاصل کی۔1963ء میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور کا قیام عمل میں آیا جسکا باقاعدہ افتتاح 9 اکتوبر 1963ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کیا تھا آپ کے والد محترم کو تدریس کے لئے بلایا گیا تو وہ آپ کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ۔ اس وقت آپ کی عمر 10 سال تھی۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے پہلے صدر علامہ شمس الحق افغانی اس یونیورسٹی میں بحیثیت شیخ التفسیر اور علامہ احمد سعید کاظمی بحیثیت شیخ الحدیث جبکہ جامعۃ الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید نعمانی اسوقت نائب شیخ الحدیث کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں 9 سالہ قیام کے دوران آپ نے شہادت العالمیہ کا نصاب مکمل کیا جس میں تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و فقہ، عربی ادب، انگریزی، معاشیات کے مضامین مستند علماء سے پڑھے۔آپکی قابلیت کو دیکھتے ہوئے حضرت علامہ شمس الحق افغانی نے آپکو سند القرآن الکریم اور علامہ احمد سعید کاظمی نے آپکو سند اجازۃ فی روایۃ الحدیث کی اضافی اسناد سے نوازا۔
جامعہ اسلامیہ میں قیام کے دوران آپ نے جن گرامی قدر اساتذہ کرام سے استفادہ کیا ان میں علامہ شمس الحق افغانی، علامہ احمد سعید کاظمی اور نائب شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید نعمانی کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:معروف مبلغ اسلام مولانا محمد احمد صاحب بہاولپوری، ڈاکٹر الٰہی بخش جاراﷲ، مولانا لطافت الرحمن (فاضل دیوبند) شیخ مولانا سید حبیب اﷲ شاہ بنوری (فاضل دیوبند) مولانا حسن الدین ہاشمی (شیخ الفقہ) ڈاکٹر محمد حسن ازہری (شیخ الادب) ڈاکٹر شیخ عنایت اﷲ (شیخ التاریخ) مولانا شیخ کلیم اﷲ، مولانا محمد فرید، مولانا محمد ناصر، پروفیسر چراغ عالم قریشی (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر محمد زبیر (شعبہ اکنامکس)۔
1973ء میں مولانا قاری فضل ربی صاحب (مہتمم معہدالقرآن الکریم مانسہرہ) نے آپ کو سند القراء ت والتجویدللقرآن المجدید والفرقان الحمید علی روایۃ حفص کی اعزازی سند عطا کی۔1976ء میں آپ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا۔پھر مائیگریشن کے بعد 1977ء میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا۔جنوری 1978ء گورنمنٹ کالج سدہ (کرم ایجنسی) میں اسلامیات کے ایڈہاک لیکچرر کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی۔مئی 1978ء میں پبلک سروس کمیشن صوبہ سرحد کی طرف سے بھی عربی و اسلامیات کے لیکچرر کی حیثیت سے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ اس کے بعد آپ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد، گورنمنٹ ڈگری کالج حویلیاں، گورنمنٹ کالج شیروان ایبٹ آباد میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بالآخر گورنمنٹ ڈگری کالج حویلیاں سے 8 جنوری 2013ء کو بیسویں گریڈ میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
1972ء میں تحصیل علم کے بعد جب آپ گھر واپس آئے تو مرکزی جامع مسجد حویلیاں میں اپنے والد گرامی کے ساتھ نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے یہ سلسلہ والد گرامی کی وفات 1990ء تک جاری رہا۔اس مسجد کی بنیاد آپ کے والد گرامی نے 1956ء میں رکھی تھی۔آپ ایک اچھے خطیب اور مقرر تھے۔26 جولائی 1990ء کو آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوا۔اگلے روز والد گرامی کی نماز جنازہ سے قبل علاقہ بھر کی جملہ اقوام و قبائل کے شدید اصرار پر جمعیت العلماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق صاحب کے دست مبارک سے آپ کی دستار بندی کی گئی اور آپ کو اپنے والد گرامی مرحوم کی جگہ مرکزی جامع مسجد حویلیاں کا محکمہ اوقاف صوبہ سرحد کی طرف سے اعزازی طور پر خطیب مقرر کیا گیا۔بحمداﷲ اب تک آپ یہ ذمہ داری بحسن و خوبی سرانجام دے رہے تھے۔آپ 1974ء میں حضرت مولانا قاضی بشیر احمد پسروری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ اور ہمارے استاد محترم مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ اﷲ علیہ کے بھی یہی شیخ و مرشد تھے اس لحاظ سے پروفیسر طاہر ہاشمی اور مولانا امین صفدر اوکاڑوی پیر بھائی بھی ہوئے۔
18 اکتوبر 1982ء کو مولانا انظر شاہ کشمیری (فرزند جلیل علامہ محمد انور شاہ کشمیری) ایبٹ آباد تشریف لائے تو حویلیاں کی جامع مسجد میں بھی انکا بیان رکھا گیا۔جس کے بعد شاہ صاحب کے ساتھ بالاکوٹ کے سفر میں شریک ہوئے اور شنکیاری ضلع مانسہرہ میں حضرت کا درس ہوا جس میں انہوں نے دیگر علماء کرام کے ساتھ آپ کو بھی سندالاجازہ فی روایۃ الحدیث عطا فرمائی۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔پنجاب یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی اور بورڈ آف اسٹڈیز کی باضابطہ منظوری سے ایک طالب علم اظہر فرید رول نمبر 13163 نے 25 مئی 2015ء کے خط نمبر D/429-is کے تحت ایم اے کے مقالہ کے لئے پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی حیات و خدمات پر مقالہ پیش کر کے کامیابی حاصل کی۔
پروفیسر علامہ قاضی محمد طاہر علی الہاشمی کی علمی و تحقیقی تصانیف حسب ذیل ہیں:
(1) اصلاح معاشرہ (2) تحقیق نکاح سیدہ
(3) اہل بیت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کون؟؟
(4) فرقہ مسعودیہ نام نہاد جماعت المسلمین کا علمی محاسبہ
(5) حدیث حوأب کا مصداق کون؟
(6) حدیث کلاب حوأب کا تاریخی، تحقیقی اور علمی محاکمہ
(7) سرگزشت ہاشمی (سوانح قاضی چن پیر الہاشمی)
(8) حج مبرور (9) کھلا خط بنام مولانا اﷲ وسایا
(10) زلزلہ لولاک اور آفٹر شاکس (11) عمر عائشہ رضی اﷲ عنہا پر تحقیقی نظر،ایک تقابلی مطالعہ
(12) شیعیت تاریخ و افکار (13) سقوط جامعہ سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا
(14) تعارف سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ (15) تذکرہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ
(16) سیدنا معاویہ رضی اﷲ پر اعتراضات کا علمی تجزیہ (17) عقیدہ امامت و خلافت راشدہ
(18) ملی یکجہتی کونسل۔۔ایک تنقیدی جائزہ
(19) سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ناقدین (20) امام طبری کون؟مؤرخ، مجتہد یا افسانہ ساز
(21) سیدنا مروان شخصیت اور کردار
(22) توضیحات بسلسلہ امام طبری کون؟مورخ مجتہد یا افسانہ ساز؟ کھلا خط بنام چیف ایڈیٹر روزنامہ اسلام
(23) کتاب گلزار یوسف کا تنقیدی جائزہ
(24) روداد مقدمات
آخری کتاب روداد مقدمات کا پس منظر کچھ یوں ہے: کہ پروفیسر قاضی طاہر ہاشمی صاحب نے ’’سید محمود المشہور بہ محدث ہزاروی‘‘ کی 23 جون 1985ء کی ریکارڈ شدہ تقریر کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں یکم جولائی 1985ء کو دفعہ نمبر 298-A کے تحت مقامی انتظامیہ نے ان کے خلاف باقاعدہ ایک ایف آئی آر درج کر دی جس کے مطابق تقریباً آٹھ سال (25 دسمبر 1992ء) تک مختلف عدالتوں میں مقدمہ چلتا رہا اور 25 دسمبر 1992ء کومدعا علیہ پیر مجمود ہزاروی کے فوت ہو جانے کی وجہ سے بغیر کسی فیصلہ کے ’’داخل دفتر‘‘ ہو گیا جب کہ پیر محمود ہزاروی اس مقدمہ میں زندگی کی آخری سانس تک ملزم اور پابندِ ضمانت رہے۔
’’محمود ہزاروی‘‘ کی وفات (25دسمبر 1992ء) کے 24 سال بعد جنوری 2017ء میں پروفیسر قاضی طاہر الہاشمی نے محمود ہزاروی کے ایک مرید کی غلط بیانیوں کی نشاندہی کے لیے کتاب ’’رودادِ مقدمات‘‘ مرتب کی جو اس مقدمے کی ساری روداد پر مشتمل ہے۔ خود پروفیسر طاہر ہاشمی صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد میں سرکاری ملازم کی حیثیت سے تدریسی فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ اس لیے پہلے انہوں نے راقم کے خلاف پرنسپل صاحب کو تحریری درخواست دلوائی، پھر وفاقی وزیرِ تعلیم اور ڈائریکٹر محکمہ تعلیم صوبہ سرحد کی طرف سے انکوائری کروائی۔ توہین عدالت اور کوہاٹ کے مقدمات میں پیشی کی تاریخوں کے علاوہ صرف ایبٹ آباد کی ’’پیشیاں‘‘ ملاحظہ فرمائیں:
کل سماعتیں 298-A
1985ء ________ 15
1986ء ________ 19
1987ء ________ 18
1988ء ________ 07
1989ء ________ 04
1990ء ________ 24
1991ء ________ 19
1992ء ________ 15
121 ______ سماعتیں/ تاریخیں
استغاثہ کی کل سماعتیں
1986ء ________ 04
1987ء ________ 21
1988ء ________ 14
1989ء ________ 12
1990ء ________ 14
1991ء ________ 16
1992ء ________ 05
86 ________ سماعتیں/ تاریخیں
اس مقدمے کی مکمل روداد پڑھنے کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔
یہ تھا پروفیسر طاہر ہاشمی صاحب کا مختصر سا تعارف۔ بندہ ناچیز کو (عمران گوندل) اپنے کسی ذاتی کام کی وجہ سے ایبٹ آباد جانا ہوا تو سوچا کہ حویلیاں پروفیسر قاضی طاہر ہاشمی صاحب سے کیوں نہ ملاقات کی جائے؟ ان کی بعض کتب پر چند سوالات جو میرے ذہن میں تھے ان کا تسلی بخش جواب وہ خود ہی دے سکتے تھے۔ اسی غرض سے فیس بک کے ایک دوست جو قاضی طاہر ہاشمی صاحب کی کتابوں کی کمپوزنگ بھی کرتے ہیں بھائی محمد اعجاز صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے قاضی صاحب سے بات کرکے ملاقات کا ٹائم لے دیا۔ کیونکہ میرا ارادہ یہ تھا کہ جمعہ والے دن وہاں جاؤں تو قاضی صاحب نے یہ بھی کہا کہ آپ تشریف لیائیں اورجمعہ کے مجمع سے کچھ خطاب بھی فرما دیں لیکن سفر کی وجہ سے اور بعض ٹریفک کے حالات کی وجہ سے میں دیر سے پہنچا۔ اس وقت قاضی صاحب خود منبر پر جلوہ افروز ہو چکے تھے اور بیان فرما رہے تھے۔ میں پہنچا ، نماز جمعہ ادا کی اور عشاء کی نماز تک ان سے ایک لمبی اور طویل علمی مباحث پر مشتمل گفتگو رہی۔ میرے اکثر سوالات کا جواب قاضی صاحب بڑے تحمل بردباری سے اور خندہ پیشانی سے دیتے رہے۔ ان سے ملاقات بہت دلچسپ رہی اور مجھ جیسے طالب علم کے لئے بہت فائدہ مند اور نفع مند ثابت ہوئی۔ نماز مغرب کی امامت کے لیے قاضی صاحب نے مجھے کہا جس سے میں نے سعادت سمجھ کر قبول کیا اور ان کی مسجد میں نماز مغرب کی امامت بندہ ناچیز نے کی۔
اپنے بڑھاپے اور کمزوری اور بیماری کے احوال کے با وجودبھی قاضی صاحب نے مجھے بہت زیادہ وقت دیا جس کا مجھے بالکل اندازہ نہ تھا۔ میری توقع سے بڑھ کر مجھ سے گفتگو کی، توجہ دی اور اپنے دینی اور دفاع صحابہ کے حوالے سے جس کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا ہوا اس سے مجھے آگاہ کیا جو میرے لئے بے حد مفید ہے۔ بہرحال مجھے قاضی صاحب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور علمی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہوا بڑی کریم شفیق اور محبت والی شخصیت تھے۔ پھر طنز و مزاح بھی بہت اچھے علمی اور سلجھے ہوئے انداز سے فرماتے تھے۔ مجھے ان کی شخصیت میں بے شمار خوبیاں نظر آئے۔
جہاں تک ان کی خامیوں کی بات ہے تو مجھے ان کا سب سے بڑا جرم اور خامی جو محسوس ہوئی، وہ جس کے چرچے سوشل میڈیا پر ان کے مخالفین کی محنت کے نتیجے میں زبان زدِ عام ہیں، ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ جن حضرات نے سیدنا معاویہ بن ابی سفیان جیسی عظیم بابرکت صاحب فضیلت اور قدآور شخصیت کواپنے ذاتی فکری اوراجتہادی فہم وفراست کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا تھا، پروفیسر قاضی طاہر ہاشمی صاحب نے ہمت اور جرات سے کام لیتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ کو اس کٹہرے سے نکال کر اس کٹہرے میں ان حضرات کو کھڑا کیا جنہوں نے سیدنا معاویہ کو اس کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے اپنی علمی اور اجتہادی فکر سے حضرت معاویہ کو ان کے بعض اجتہادی معاملہ فہمی کی بنیاد پر مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک پروفیسر طاہر ہاشمی صاحب کا یہی ایک جرم ہے کہ انھوں نے ایک مظلوم صحابی رسول کا دفاع کیا جیسا کہ ایک مسلمان کا حق اور فرض تھا۔ جب بعض اسلاف نے جمہور اہل سنت کے مذہب کے برخلاف حضرت معاویہ کو اس کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی قاضی صاحب نے ایسی صحابی کی وکالت کرتے ہوئے انہی اکابر کو ناقدین معاویہ کی شکل میں اس کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ جس پر بعض اکابر کا دفاع کرنے والے حضرات قاضی صاحب سے سخت ناراض اور نالاں ہیں اور انہیں اکابر اور سلف صالحین کا باغی ناصبی کہتے ہیں اور اس کے علاوہ انہیں بد نام کرنے کے لیے نہ جانے کن کن القاب سے مخاطب کرتے ہیں۔ جہاں تک میری ان سے گفتگو رہی ہے، ان میں دفاع صحابہ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔اپنے اس مشن کو وہ اپنے والد محترم اور اپنے رہنما یعنی حضرت علامہ غلام غوث ہزاروی رحمہما اﷲ سے اخذ کرتے تھے جن کے مشن پر وہ تا دمِ آخر اپنے طریقے سے کاربند رہے۔ ان بزرگوں سے ان کی کافی محبت محسوس ہوئی اور خصوصا اکابر علمائے دیوبند دیگر مسالک کے علماء کا وہ احترام اپنی جگہ بالکل کرتے تھے اور اہل سنت والجماعت کو ہی مذہب حق سمجھتے تھے۔ جن بعض اکابر سے انھوں نے علمی اختلاف کیا ہے وہ صرف حضرت معاویہ کے حوالے سے ہے جن کی عبارتوں کو محمود شاہ ہمیشہ عدالتوں میں پیش کرتا رہا، قاضی طاہر ہاشمی نے انھی عبارتوں پر اکابر سے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اختلاف کیا اور ان پر نقد کیا۔
ملاقات کے دوران قاضی صاحب نے اپنی مسجد میں جو انہوں نے اپنے زیر نگرانی کام کروایا اس کے بارے میں بھی معلومات دیں اور ان کی مسجد کا بلند و بالا مینار دیکھ کر خوشی ہوئی۔جو قریباً120 فٹ بلند ہے اس پر بندہ کے ساتھ اوپر تشریف لے گئے اور شہر کی مزید معلومات بھی فراہم کی اور ان کے قریب ہی سیّد محمود شاہ المشہور محدث ہزاروی کا مسجد و دربار بھی تھا جو مجھے دکھایا بھی اور بتایا بھی۔
ایک ضروری وضاحت جس کا کرنا بہت ضروری ہے یہ ضروری نہیں کہ پروفیسر طاہر ہاشمی صاحب کی تمام علمی باتوں سے میں متفق ہوں ان کی بعض باتوں سے مجھے بھی اختلاف ہے مگر میں ان کا احترام کرتا ہوں اور ان پر بہتان بازی اور الزام تراشی سے میں ان لوگوں کے ساتھ ہرگز نہیں کھڑا جو بلاوجہ بغیر سوچے سمجھے ان پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں جہاں ان سے علمی اختلاف ہے وہ اپنی جگہ ہے اور یہ میرا حق ہے۔
اللہ پاک حضرت قاضی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آپ میرے استاذ محترم تھے۔ مین نے ان سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد میں پڑھا ہے۔ اور حویلیاں کے قیام کے دوران شب و روز آپ کی مجلس مین گزارنے کا شرف حاصل رہا ہے۔آخری وقت تک ان سے رابطے میں رہا ہوں۔ مجھ پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ آپ نے جو تحقیقی کام کیا ہے کئی مولویوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ یعنی اس قدر اعلی کا م ہے۔ جو رہتی دنیا تک رہے گا۔ اللہ پاک استاد محترم کے دراجات بلند فرمائے۔ آمین بجاہ نبی الامین ۔
(ڈاکٹر سردار فیاض الحسن پی ایچ۔ڈی انگلش: امریکہ)