مولانا محمدمنظورنعمانی رحمہ اﷲ
حضر ت مولاناعبیداﷲ سندھی اپنے استاد اور مربی حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ کے خفیہ سیاسی مشن پر انہی کے حکم سے 1915ء یعنی پہلی جنگ عظیم کی ابتدائی دور میں ہی کابل تشریف لے گئے تھے۔ پھر اس وقت کی حکومت ہند نے انہیں جلا وطن قرار دیا اور قریباً 25سال وہ ہندوستان واپس نہ آسکے، میں نے کبھی ان کو دیکھا نہیں، ا پنے اساتذہ سے ان کے بارے میں جو کچھ سنتا رہا تھا اس کی بناء پر ایک جلیل القدر عالم اور مجاہد کبیر کی حیثیت سے دل میں ان کی بڑی عظمت و وقعت اور زیارت کی بڑی تمنا تھی۔
1937ء میں جب انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ملک کے تمام صوبوں میں ایک دفعہ قومی حکومتیں قائم ہوئیں، تو انہیں ہندوستان آنے کی اجازت ملی اور وہ غالبا 1939ء میں تشریف لائے۔ آتے ہی انہوں نے چند بیانات اخبارات میں دیے، جو ہم جیسوں کو ہضم نہ ہوسکے اور ہم لوگوں نے محسوس کیا کہ مولانا بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ اسی زمانہ میں صدر کی حیثیت سے جو خطبہ انہوں نے دیا اور اس میں جو رہنمائی کی، خود جمعیۃ العلماء نے اس کے قبول کرنے سے اپنے آپ کو مجبور سمجھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے، اس کے بعد جمعیۃ کے کسی اجلاس میں مولانا نے صدارت نہیں کی۔ ممدوح کی ان باتوں کی وجہ سے ان کی وہ علمی و دینی عظمت دل سے بالکل نکل گئی، جو بیسیوں برس سے قائم تھی، بلکہ ایک طرح کا بُعد اور توحش سا پیدا ہوگیا، اور یہ حال تنہا میرا نہیں تھا جہاں تک یاد ہے ہمارے تمام دینی حلقہ کا یہی حال تھا۔ یہاں تک کہ حضرت مولا نا سید حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ کو دارالعلوم دیو بند کے صدر اورجماعت دیوبند کے زعیم کی حیثیت سے ایک مفصل بیان شائع کرنا پڑا، جس میں مولاناسندھی رحمہ اﷲ کے مقام اور ان کی قربانیوں کا پورا اعتراف کرتے ہوئے ان کی باتوں سے اپنا عدم توافق ظاہر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ مولانا کی یہ ذہنی کیفیت اور یہ عدم توازن فلاں فلاں اسباب کی وجہ سے ہے۔
میں نے اسی زمانہ میں اپنے ماہنامہ (الفرقان) کا ……جو اس وقت بریلی سے نکلتا تھا……شاہ ولی اﷲ نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت عبیداﷲ سندھی رحمہ اﷲ چونکہ اپنے افکار و نظریات کے سلسلہ میں حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ کا نام بہت زیادہ استعمال فرماتے تھے، اور اپنی فکر کا ماخذ انھی کے فلسفہ کو بتاتے تھے، اس لیے میں نے ان سے مراد آباد کی ایک ملاقات میں حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ پر ایک مقالہ لکھنے کی درخواست کی۔ مولانا نے منظو رفرما لیا، اور چند دنوں کے بعد پورے دس صفحے کا مقالہ املاء لکھوا کر بھیج دیا جو شاہ ولی اﷲ نمبر میں اور اس کے بعد کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے، اور جو بلا شبہ مولانا ممدوح کا شاہکار ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اﷲ نے اس مقالہ کو شاہ ولی اﷲ نمبر میں پڑھ کر اسی زمانہ میں لکھا تھا کہ اس مقالہ نے ثابت کردیا ہے کہ مولانا سندھی رحمہ اﷲ کی شاہ ولی اﷲ کے علوم پر کس قدر گہری ہے، اور حکمت الٰہی کی معرفت میں ان کا مقام کتنا بلند ہے۔
مولانا موصوف نے ا پنے اس مقالہ میں ان باتوں کو بالکل نہیں چھوا تھا جن کو وہ شاہ صاحب کے نام لے کر ان کے فلسفہ کا حوالہ دے کر نیشنلزم اور نظریہ وطنیت کے سلسلہ میں اس زمانہ میں بیان کیا کرتے تھے، جس سے ہم جیسوں کو سخت بُعد اور توحش ہوتا تھا۔ اس مقالہ کے مطالعہ کا اور اس سلسلہ میں مولانا سے جو خط و کتاب کرنی پڑی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کے بارے میں ذہن نے یہ اعتراف توکر لیا کہ ان کا علم بہت عمیق ہے او ریہ بھی اندازہ ہو اکہ عوامی اور اخباری بیانات میں جدید طبقہ کو اپنی طرف کھینچنے اور قریب کرنے کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے الفاظ اور تعبیرات میں بہت زیادہ آگے چلے جاتے ہیں، لیکن اس سلسلہ کی ان باتوں و بیانات کی وجہ سے جو بُعد اور توحش دل میں پیدا ہو چکا تھا، اس کا کافی حصہ باقی رہا۔
1941ء میں راندیر ضلع سورت میں ایک دینی مدرسہ کی دعوت پر جلسہ میں میرا جانا ہوا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی رحمہ اﷲ بھی جلسہ میں مدعو ہیں، اور تھوڑی ہی دیر میں تشریف لانے والے ہیں۔ دوگھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ مولانا تشریف لے آئے، ہم دونوں کا انتظام ایک ہی بلڈنگ بلکہ ایک ہی کمرے میں تھا، جلسہ تو صرف ایک ہی دن کا تھا لیکن راندیر کے علماء اور عمائدین سے ہماری جماعت دیوبند اور اس کے اکابر کے جو دیرینہ تعلقات ہیں ان کی وجہ سے کئی دن تک ہم دونوں کا وہاں قیام رہا۔ پہلی رات کو یہ واقعہ پیش آیا کہ عشاء سے کافی دیر بعد تک مقامی محبین و مخلصین کی مجلسیں اسی کمرہ میں لگی رہیں، ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد حضرت مولانا اپنے بستر پر لیٹ گئے اور یہ ناچیز اپنے بستر پر۔ ہم دونوں الگ الگ دو مسہریوں پر تھے۔ میں حسب عادت لیٹتے ہی سو گیا۔ آدھی رات کے بعد میری آنکھ کھلی، تو میں نے دیکھا کہ مولانا بجائے مسہری کے اپنے مصلے پر لپٹے ہوئے نیچے فرش پر سو رہے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ شائد نوافل کے لیے سویرے اٹھ گئے تھے اور اس سے فارغ ہو کر وہیں لیٹ گئے ہیں، لیکن مولانا اخیر شب میں اٹھے اور نوافل وغیرہ میں فجر تک مشغول رہے۔ دوسری شب کو بھی بالکل ایسا ہی واقعہ پیش آیا، پھر تیسری کو بھی یہی ہوا کہ رات کی مجلس برخاست ہونے کے بعد ہم دونوں اپنی اپنی مسہریوں اور اپنے اپنے بستروں پر لیٹ گئے، کسی وجہ سے اس رات تھوڑی ہی دیر بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مولانا اسی طرح اپنے مصلے میں لپٹے ہوئے نیچے فرش پر سور رہے ہیں۔ چونکہ کئی دن اور کئی رات ساتھ رہنے سے تھوڑی سی بے تکلفی ہوگئی تھی اور ان کی زندگی کے بعض وہ پہلو سامنے آگئے تھے جن کا ان کے بارے میں تصور بھی نہ تھا، اس لیے تیسری رات کے اس تجربہ اور مشاہدہ کے بعدصبح کو بعد فجر میں نے تنہائی میں مولانا سے دریافت کیا کہ آپ رات کو مسہری پر لیٹتے ہیں لیکن ان تین راتوں میں جس وقت بھی میری آنکھ کھلی، میں نے آپ کو نیچے فرش پر آرام فرماتے ہوئے دیکھا، یہ کیا بات ہے؟ مولانا نے پہلے تو مجھے ٹالنا چاہا لیکن جب میں نے اصرار کیا تو بتایا کہ میں نے اپنی سیاسی زندگی کی بعض ایسی سنگین غلطیوں کی بناء پر جو یاد رکھنے کے لائق ہیں، اپنے پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کر لی ہیں جو مجھے وہ غلطیاں یاد دلاتی ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ انقلابیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو خود اپنے کو سزا دیں اور ان کو یاد رکھیں۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں رات کو پلنگ پر نہیں سوتا، پھر میرے اصرار پر ان غلطیوں اور پابندیوں کی کچھ تفصیل بتائی، فرمایا کہ: ایک زمانہ میں موزے پہننے کا میں اتنا سخت عادی تھا کہ مئی، جون میں بھی بغیر موزے کے مجھے تکلیف ہوتی تھی، لیکن جب مجھ سے اپنے مشن میں ایک غلطی ہوگئی تو میں نے موزہ نکال دیا، پھر ایک اور غلطی مجھ سے ہوئی تو میں نے رات کو پلنگ پر سونا چھوڑا۔ یہاں شروع رات میں میں اس لیے پلنگ پر لیٹ جاتا ہوں کہ تمہیں پلنگ پر سونے میں تکلیف نہ ہو، جب میں اندازہ کرتا ہوں کہ تمہیں نیند آگئی تو میں اپنے معمول کے مطابق نیچے اتر کر سو جاتا ہوں‘‘۔
جہاں تک مجھے یاد ہے ان غلطیوں کی تفصیل مولانا نے مجھے نہیں بتائی، جن کی وجہ سے مولانا نے اپنے اوپر یہ پابندیاں عائد کر لی تھیں۔ ہاں تیسری غلطی مولانا نے صراحت کے ساتھ بتائی اور وہ یہ کہ کابل میں قیام کے زمانہ میں جب افغانستان کا اقتدار امان اﷲ خان کے ہاتھ میں تھا اوروہ میری مانتے تھے تو میں نے ا نگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے ان سے اصرار کیا۔ ان کی ذاتی رائے نہیں تھی، میں نے اپنے اصرار سے پورا بوجھ ڈال کر ان کو مجبورسا کردیا۔ آخرکار انہوں نے میری بات مان لی، جنگ ہوئی او رتینوں محاذوں پر ہوئی، ایک محاذ کی کمان جنرل نادر شاہ کے ہاتھ میں تھی، دوسرے محاذ پر ان کے ایک دوسرے بھائی کے ہاتھ میں اور تیسرے محاذ پر ان کے ایک چھوٹے بھائی ولی خان کمانڈر تھے۔ میں ان ہی کے ساتھ اسی محاذ پر تھا۔ جنگ کا انجام یہ ہوا کہ جس محاذ پر نادرخان تھے اس پر انہوں نے انگریزی فوج کو شکست دی اور کافی نقصان پہنچایا۔مگر خاص کر جس محاذ پر جنرل ولی خان کیساتھ میں تھا، اس محاذ پر ہمارا بڑا نقصان ہوا اور جنگ کے مجموعی نتیجہ میں افغانستان کو بہت نقصان پہنچ گیا اور میں نے اس سارے نقصان کا ذمہ دار اپنے آپ کو قرار دیا۔ کیونکہ میں نے اس جنگ کے لیے اصرار کیا تھا۔ اپنی اس غلطی کو یاد رکھنے کے لیے اس دن سے میں نے اپنی ٹوپی سر سے اتار دی (یاد رہے کہ مولانا ہر وقت سر سے برہنہ رہتے تھے، نماز بھی عام طور پر اسی طرح پڑھتے تھے)۔
جس دن مولانا نے میرے اصرار پر اپنے یہ واقعات بیان فرمائے،اس دن کی بات ہے مولانا نے مجھ سے فرمایا: میں ہندوستان میں ایک کام کرنا چاہتا ہوں (مولانا کا مقصد سیاسی کام سے تھا) کیا میرا ساتھ دوگے؟ میں نے صفائی سے عرض کیا، میں غالباً آپ کا ساتھ نہیں دے سکوں گا، مولانا نے مجھ سے وجہ دریافت نہیں فرمائی، میں نے خود عرض کیا کہ آپ بعض ایسی باتیں کرتے ہیں جو ہم جیسوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں اور ہم کسی طرح ان سے اتفاق نہیں کرتے، اس لیے میں آپ کے ساتھ چلنے کا وعدہ نہیں کرسکتا۔ مولانا اس پر کچھ نہیں بولے اور چند منٹ خاموش رہنے کے بعد فرمایا:
’’میرا اندازہ ہے کہ تم چین سے نہیں بیٹھو گے،کچھ نہ کچھ کرو گے، اس لئے میں تمہیں دو نصیحتیں کرتا ہوں جو میری سیاسی زندگی کے تجربوں کا نچوڑ ہے، ایک یہ کہ کسی ایسی بات کو کبھی نہ راز سمجھو جو تمہارے سواکسی دوسرے کے علم میں آچکی ہو، اگرچہ وہ تمہارا کتنا ہی خاص الخاص ہو۔ راز بس اسی وقت تک راز ہے، جب تک سینہ میں رہے۔ہماری ناکامی کا بڑا سبب ہماری یہی غلطی تھی کہ ہم ان باتوں کو راز سمجھتے تھے، جو ہمارے سینوں سے باہر نکل چکی تھیں، بالکل انفراد ی کام راز نہیں ہو سکتا، اس لیے جو کچھ کرنا ہو میدان میں آکر کرو اور اس کے نتیجہ کے لیے پوری طرح تیا رہو کر آؤ۔
دوسری نصیحت تمہیں یہ کرتا ہوں کہ کبھی اس بنیاد پر نہ سوچو کہ ہندوستا ن سے باہر فلاں فلاں ملکوں میں مسلمان بستے ہیں وہ اسلامی رشتہ سے تمہاری کوئی مدد کر سکیں گے، مدد درکنار وہ تم پر اتنا بھی اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں کہ تمہیں آزادی سے اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت دیں، تم اگر قرآن ہاتھ میں لیکر قسم کھا کر کہو گے کہ میں مسجد میں نماز پڑھوں گا اور بیٹھ کر اﷲ کے بندوں کو قرآن کا درس دوں گا تو وہ اس بارے میں بھی تم پر اعتماد نہیں کریں گے، اور تم کو اس کی آزادی نہیں دیں گے‘‘ ۔
مولانا کی ان نصیحتوں کو راقم السطور کے دل نے ایسا قبول کیا کہ یہ دونوں باتیں عقیدہ سی بن گئی ہیں اور بیس سال کا تجربہ ان کی برابر تصدیق و توثیق کررہا ہے۔
’’راندیر‘‘ کے اس قیام کے آخری دن کا واقعہ ہے، ایک صاحب خیر کے یہاں دعوت ہوئی، ہمارے ساتھ راندیر کے اکثر علماء و عمائد بھی مدعو تھے، کھانے سے فارغ ہو گئے توان صاحب کی طرف سے ایک بند لفافہ میں مولانا کو کوئی ہدیہ پیش کیا گیا، مولانا نے اس کوقبول فرما کر جیب میں رکھ لیا۔ ایک صاحب جو یو پی کے کسی مدرسہ کے غالبا سفیر تھے وہ بھی کھانے میں شریک تھے، انہوں نے مولانا کے سامنے ان صاحب کی خاص طور پر ان کی جود وسخا کی تعریف شروع کی، مولانا نہایت برافروختہ ہوکر ان کو ڈانٹا اورفرمایا تم ہم کو مشرک بنانا چاہتے ہو، ہم یہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ایک بندہ کے ذریعے عطافرمارہا ہے، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ان بندوں کو معطی سمجھیں اور یہ بھی اپنے کومعطی سمجھنے لگیں۔
اس سفر میں میں نے مولانا سے عرض کیا کہ حضرت شیخ الہند کی خفیہ سیاسی تحریک کے بارے میں ہم نے مختلف لوگوں سے متضاد باتیں سنی ہیں، کسی مستند ذریعے سے اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا،اگر آپ کے اصول اور مصالح کے خلاف نہ ہو تو اس کو میں آپ سے سننا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا: اب تو بس وہ ایک تاریخ ہے، ان شاء ﷲ کسی موقع پر تم کو بتاؤں گا‘‘
چنانچہ واپسی میں جب ہم اسٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوئے اور اطمینان کی تنہائی کا موقع ملا تو مولانا حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ کی سیاسی تحریک اور اس سلسلہ میں اپنے سفر کابل کے بارے مجھے تفصیل سے بتایا۔