غلام مصطفی پہلی قسط
کتب لغت و جغرافیہ میں مقامِ فدک کا ذکر:
قاموس:فدک ایک گاؤں ہے خیبر میں ۔ مصباح اللغات: وہ ایک بلدۃہے یعنی آبادی جو مدینہ سے دو روز کی مسافت پر ہے۔ لسان العرب:خیبر سے ایک منزل دور۔ مراصد الاطلاع علی السماء والقبا، مطبوعہ جرمنی جلد دوم صفحہ نمبر 337: فدک ایک گاؤں ہے حجاز میں مدینے سے دو یا تین دن کے فاصلے پر واقع ہے، اُسے خدا تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو فئے کیا تھا۔ اس میں چشمے اور کجھور کے درخت تھے۔ معجم البلدان یا قوت حموی: فدک ایک گاؤں ہے مدینہ سے دو تین دن کے فاصلے پر۔ فتح الباری شرح بخاری، جلد نمبر 6:فدک ایک قصبے کا نام ہے اس میں اور مدنیہ میں تین دن کا فاصلہ ہے۔ مجالس المومنین جلد نمبر 1صفحہ 48قاضی نور اﷲ شو ستری ۔
روافض کے نزدیک فدک کی حدود:
لیکن بعض حضرات نے اس باغ کی جو حقیقت اور حدود اربعہ بیان کیا ہے، انسانی عقل اُس کو سُن کر دنگ رہ جاتی ہے، کیونکہ اُنہوں نے اس کا جو حدود اربعہ بیان کیا ہے اس میں قربیاً نصف کرہ ارض آجاتا ہے۔
مہدی عباسی نے امام موسیٰ کا ظم سے عرض کی آپ فدک کی حدود بیان فرما دیں تو امام نے کہا! ایک حد اُس کی اُحد پہاڑ ہے، دوسری حد اُس کی عریش مصر ہے، تیسری حد اُس کی سمند ر کاکنارہ ہے، اور چوتھی حد اُس کی دومتہ الجندل ہے۔ بحوالہ، بہار الانوار صفحہ نمبر 101، اصول کافی جلد نمبر 1صفحہ نمبر 543، نہران (شیعہ کتب)
چنانچہ رافضی عالم مُلاّ باقر مجلسی نے مناقب ابن شہر آشوب سے بڑی ثقاہت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے سید موسیٰ کاظم سے کہا کہ میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ وہ ’’فدک‘‘ لے لیجئے جس کے لیے آپ اور آپ کے باپ دادا کہتے آئے ہیں کہ وہ ہم سے غصب کرلیا گیا ہے۔
آپ نے ہارون الر شید کی اس استدعا کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ ہارون الرشید نے کئی دفعہ موسیٰ کا ظم سے اس بارہ میں کہا لیکن آپ نے مثبت اور منفی میں اُس کا کوئی جواب نہ دیا۔ آخر جب خلیفہ نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اُسے ہرگز لینے کے لیے تیار نہیں ہوں جب تک کہ وہ مجھے صحیح حدود کے ساتھ نہ دیا جائے، ہارون الرشد نے کہا کہ:آپ مجھے اس کا حدود اربعہ بتائے؟ سید امام موسیٰ نے کہا کہ اگر میں نے اُس کے حدود بتلائے تو پھر آپ مجھے وہ ہرگز دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ہارون الرشید نے حلفاً کہا کہ میں آپ کو وہ ضرور دوں گا۔ خلیفہ کے اس اقرار پر سید موسیٰ کاظم نے اس کے حدود بیان کیے کہ اس کی ایک حد عدن ہے۔ یہ سن کر ہارون الرشید کا چہرہ متغیرہوگیا۔ پھر دوسری حد بتلا ئی کہ وہ سمرقند ہے، یہ سُن کر ہارون الرشید کا چہرہ ٹمٹمانے لگا۔ پھر موسیٰ کاظم نے کہا کہ اُس کی تیسری حد افریقہ ہے۔ موسیٰ کاظم کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر ہارون الرشید کا چہرہ سیاہ ہوگیا۔ پھر موسیٰ کاظم نے کہا کہ اس کی چوتھی حد سمندر کا وہ کنارہ ہے جو آرمینیہ سے ملا ہوا ہے۔ تب ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت آپ نے ہمارے لیے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ سیدنا موسیٰ کاظم نے کہا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا تھا کہ اگر میں تمہیں فدک کے حدود بتاؤں گا تو تم وہ مجھے ہرگز نہیں دو گے۔ اس پر خلیفہ ہارون الرشید نے سیدنا موسیٰ کاظم کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ بحوالہ بہار الانوار صفحہ نمبر 101۔ اصول کافی، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 543، تہران۔
اصلیت کیا ہے:
بنو قریظہ اور خیبر کے بعض قبائل نے اہل اسلام سے مرعوب ہو کر جو جائیدادیں اہل اسلام کے سپرد کیں تھیں۔ قرآنی اصطلاح میں وہ مالِ فئے کہلاتا ہے۔ اُن کے آٹھ مصارف سورت حشر میں مذکورہ ہیں۔ یہ جائیدادیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تحویل میں تھیں۔ کیونکہ کسی مسلمان مجاہد کا ان میں حصہ نہیں تھا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی صوابدید سے مذکورہ بالا مصارف میں کُلًایاجزاً کمی بیشی کے ساتھ خرچ کرتے تھے اپنا ذاتی اور رشتے داروں کا خرچہ بھی اسی سے نکالتے تھے۔ اصول کافی میں تصریح ہے کہ یہ جائیداد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد امام جانشین کی تحویل میں چلی جاتی ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق اُن میں تصرف کرتا ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ جب اس حیثیت سے جانشین مقرر ہوئے تو سیدہ فاطمہ الزہراہ نے خلیفہ کی یہ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے بذریعہ قاصد یہ مطالبہ کیا کہ فدک نامی شہر کی جائیداد جس کی آمدنی ہم استعمال کرتے ہیں براہ راست میری تحویل میں دے دیں۔
سیدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا! یہ وراثت کی سی شکل ہے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان میں نے سُنا ہے کہ پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اُن کا ترکہ صدقہ عام ہوتا ہے آپ کو خرچہ کے لیے وہ آمدنی ملتی رہے گی۔ جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں ملا کرتی تھی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رشتہ داری مجھ کو سب سے زیادہ عزیز ہے لیکن میں بطور ورا ثت وہ جائیداد آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔
کیونکہ اگر نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف چلوں گا تو گمراہ ہوجاؤں گا۔ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا یہ معقول جواب سُن کر خاموش ہوگئیں۔ پھر اس مسئلہ پر آپ سے کوئی بات نہیں کی حتیٰ کہ چھ 6ماہ بعد رحلت فرما گئیں۔ یہ ہے اس سارے واقعہ کی اصل حقیقت جس کو بنیادبنا کر روافض صبح وشام حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم بالخصوص حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ پر دشنام طرازی کا بازار گرم رکھتے ہیں۔
واقعہ فدک پر رافضی مؤقف:
جب آقا نا مدار علیہ السلام اس دنیا سے رحلت فرماگئے اور سیدنا ابوبکر صدیق مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا دربار صدیقی میں تشریف لے گئیں۔ اور اپنے بابا کی جائیداد میں سے حصہ مانگا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے معاذ اﷲ ایک جھوٹی حدیث اپنی طرف سے سنا کر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا کو اُن کے حق سے محروم کردیا اور وہ اتنی دل بر داشتہ ہوئیں کہ تادم وفات ان سے بات تک نہ کی!
تجزیہ:
پہلے ہم کتب روافض کی روشنی میں یہ دیکھتے ہیں کہ کیا حضرات انبیاء کرام کی وراثت مالیہ ہوتی ہے؟
پہلی دلیل، اصول کافی باب العالم والمتعلم صفحہ نمبر 8۔
سیدنا امام جعفر صادقؒ نے فرمایا! کہ خُدا کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا! علماءِ دین پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لیے خدا کے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کسی کو سونے چاندی کا وارث نہیں بناتے ہیں ْ۔پس جس نے علم دین حاصل کیا وہ بڑا نیک بخت ہے اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔
بحوالہ، اصول کافی صفۃ العلم والفضیلیہ صفحہ نمبر 7جلد نمبر 1۔
امام جعفر صادقؒ نے فرمایا! علمائے دین اسلام پیغمبروں کے وارث ہیں اور یہ اس لیے کہ پیغمبروں نے کسی کو سونے چاندی کا وارث نہیں بنایا ۔جس کسی نے ان بزرگوں کی حدیثوں میں سے کچھ حاصل کرلیا اُس نے بڑا بھاری نصیبہ حاصل کرلیا۔
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اپنے بیٹے محمد بن حنفیہؒ کو وصیت فرماتے ہیں:
بحوالہ،من لایضرہ الفقیہ، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 346۔
علم دین حاصل کر واس لیے کہ علمائے دین ہی پیغمبروں کے وارث ہیں ۔تحقیق کہ پیغمبروں نے کسی کو سونے چاندی کا وارث نہیں بنایا لیکن اُنہوں نے علم دین کا وارث بنایا۔
فریق مخالف کی کتب معتبرہ سے ثابت ہوا کہ حضرات انبیاء علیہ السلام کی مالی وراثت نہیں ہوتی۔ اب دوسرے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں کہ! صرف سیدنا ابوبکر صدیق ہی راوی ہیں یا دیگر حضرات صحابہ کرام بھی؟
مخالفین بالخصوص نائب امام خُمینی کا اپنی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ میں یہ کہنا کہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حدیث پیش کرکے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا اور دیگر شرعی وارثوں کا حق وراثت تلف کردیا۔ معاذ اﷲ، ایک جھوٹی حدیث بنا کر جس کے راوی سوائے سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے کوئی اور نہیں تھے۔
یہ باطل نظر یہ اُن کے بے بنیاد اور باطن کی سیاہی کی پیداوار ہے۔ بخاری شریف، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 335، اوربخاری شریف، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 995 میں یہ حدیث موجود ہے۔ اسی طرح مسلم شریف جلد نمبر 2صفحہ نمبر 92پر یہ حدیث موجود ہے
مشہور مُحدث امام ابوبکر احمد بن علی بن سعید الاموی المروزی، ’’حَسن‘‘ سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر سے اپنی وراثت طلب کی تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا کہ ہم نے خود آنحضرت سے سُنا کہ میری وراثت تقسیم نہیں کی جاسکتی ۔ نیز یہ یادرکھنا چاہیے کہ یہ حدیث جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے جواب میں ذکر کی ہے، یہ صرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا قول ہی نہیں بلکہ اس کے قول نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے پر دس صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سے روایت منقول ہے۔
(1) سیدنا علی رضی اﷲ عنہ (2) سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ
( 3) سیدہ عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین رضی اﷲ عنھا (4) سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ
(5) سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ (6) سیدنا طلحہ رضی اﷲ عنہ
(7) سیدنا زبیر رضی اﷲ عنہ (8) سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ
(9) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ (10) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
یہ سب حضرات سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے تصدیق کنندہ ہیں۔ ایسے مشہور فرمان رسول کو کیسے ترک کیا جاسکتا ہے۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اس فرمان پر علمدر آمد کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں۔
اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی اس صداقت ودیانت داری پر بعد کے خُلفا ء نے مہر تصدیق ثبت کردی۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ان امور یعنی فدک وغیرہ ،اموال بنی نضیر وغیرہ میں وہی دستور جاری رکھا جو کہ خلیفہ اؤل سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے روا رکھا۔
اس طرز و طریق صدیقی سے اختلاف نہیں کیا حالانکہ حق داروں کے حقوق ہمارے عقیدہ کے موافق سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے زمانہ خلافت میں صحیح طور پر دلوائے اور پورا پورا انصاف ،انصاف خواہوں کے حق میں کیا ۔سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت میں ہمارے نزدیک ہر ایک کے ساتھ برا بر انصاف ہوتا رہا ہے۔
تو اہل بیت نبویؐ سے اور آل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ عدل وانصاف تو یقینا ہونا لازمی تھا اور ہوا اور ضرور ہوا۔
پھر دوسری تائید کہ خلافت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ رشتہ دار ان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں عین انصاف تھا۔ یہ ہے کہ سیدنا امام حسن رضی اﷲ عنہ نے اپنی ششماہی خلافت میں بھی قرابت دار ان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے وہی سلوک روا رکھا۔
جس طرح سید ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے روا رکھا تھا۔ اور اجتماعی فریقین کی شہادتیں جن کو کبھی بھی نہیں جھٹلا یا جاسکتا خود بنی ہاشم خلفاء کا عمل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے فیصلہ کے حرف حرف کی تصدیق کررہا ہے تو خلیفہ اؤل سیدنا ابوبکر صدیق کیوں مور دمطاعن ٹھہرے۔ (جاری ہے)