حافظ عبدالمالک شاہین
اور فقہاء و علماءِ سلف کی نظر میں
دورِ نبوت سے لے کر اب تک یہود و نصاریٰ اور ان کے زندیق و گمراہ ایجنٹ گلشن اسلام کے اشجارِ ثمر بار پر کلہاڑا چلا کر اربوں فرزندانِ اسلام کے دلوں کو مجروح کر رہے ہیں۔ اپنے ماؤف الدماغ اور پراگندہ خیالات کے ذریعے فلسفی و منطقی مجہول بحث کے ترازو میں عصمت انبیاء، کمالات نبوت، خصائصِ رسالت اور منصب و مقامِ نبوت کو بزعم خویش تول کر نبوت کی معاندانہ تشریح کر رہے ہیں، العیاذباﷲ۔
حالانکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وجود مسعود سے یہ جہان روشن ہے اور سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، محبوبِ رب اکبر، شافع محشر، ساقیٔ کوثر صلی اﷲ علیہ وسلم کے آفتاب رسالت سے شرق و غرب، شمال و جنوب، ارض و سماء پوری آب تاب سے چمک رہے ہیں۔ شاعرِ نے کیا خوب کہا:
کتاب فطرت کے سرورق پر جو نامِ احمد نہ ہوتا
یہ نقشِ ہستی ابھر نہ سکتا وجودِ لوح و قلم نہ ہوتا
یہ محفل کن فکاں نہ ہوتی اگر وہ شاہِ اُمم نہ ہوتا
زمیں نہ ہوتی فلک نہ ہوتا عرب نہ ہوتا عجم نہ ہوتا
بہرحال نبی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی زندگی ایک مجسم قرآن ہے اور اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ انتقال کے بعد بھی آپ اپنی قبر شریف میں حیات ہیں اور آپ کے وجود کی فیوض و برکات جاری و ساری ہیں۔ آپ کے روضۂ اطہر پر جنت بھی قربان ہے۔ یہ محض شاعرانہ خیال نہیں بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’مَا بَیْنَ بَیْتِیْ و مِنْبَری رَوُضَۃٌ مِّن رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ‘‘۔ (میری حجرۂ مبارکہ اور منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔)تو گنبد خضراء اور روضۂ اقدس کا وہ مخصوص مبارک قطعہ جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کریمین آرام فرما رہے ہیں، اس کا کیا مقام ہو گا؟
اب ہم حیات انبیاء علیہم السلام کو احادیث نبوی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
حدیث نمبر: ۱۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اَلْأَنْبِیَاءُ أَحْیَاہُمْ فِیْ قُبُوْرِہِمْ یُصَلُّوْنَ ‘‘۔(ترجمہ: انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ بہ حوالہ خصائص الکبریٰ، ص: ۲۸۱، ج: ۲۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری ،ص: ۳۵۲۔ حضرت ملاعلی قاری نے المرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، ص: ۲۲۲ ۔ اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری، ۶۴، ج: ۲ میں اس حدیث کو صحیح لکھا ہے)
حدیث نمبر: ۲۔ حماد بن مسلم، ثابت بنانی، وسلمان تیمی رحمہم اﷲ نے روایت کیا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں: ’’ مَرَرْتُ عَلٰی مُوسٰی لَیْلَۃ أُسْرِیَ بی عِنْدَ الْکَثْیبِ الْأَحْمَر وَ ہُوَ قَائِم یُصَلِّی فِی قَبرہٖ ‘‘۔ (ترجمہ: میں معراج کی رات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جو سرخ رنگ کے ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں کھڑے ہو کرنماز پڑھ رہے تھے۔ بہ حوالہ صحیح مسلم، ص: ۲۷۸، ج:۲۔ نسائی،ص: ۲۴۲، ج: ۱۔ مسند احمد، ص: ۱۴۸، ج: ۲۔
حدیث نمبر : ۳۔ حضرت اَوس بن اَوس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمھارے افضل ترین دنوں میں سے ایک (دن) جمعہ ہے، اس میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور اسی دن اُن کی وفات ہوئی۔ اسی میں نفخۂ اولی ہو گا اور اسی میں نفخۂ ثانیہ ہو گا، سو تم جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ کیونکہ تمھارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم،ہمارا درود کس طرح آپ پر پیش کیا جائے گا؟ کہ آ پ (قانونِ قدرت کے تحت) مٹی میں ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَ نْبِیَاءِ ‘‘۔ (ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے زمین پر تمام انبیاء علیہم السلام کے اجساد (مبارک) حرام کر دیے ہیں۔ یعنی زمین ان میں تغیر و تبدل نہیں کر سکتی۔ بہ حوالہ ابوداؤد، ص: ۱۵۰، ج: ۱۔ دارمی، ص: ۱۹۵۔ نسائی، ص: ۲۳۔ ابن ماجہ، ص: ۷۸۔ حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن قیم، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا سرفراز صفدر رحمہم اﷲ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (بہ حوالہ تسکین الاتقیاء فی حیٰوۃ الانبیاء، ص: ۳۷،۳۹)
حدیث نمبر: ۴۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’ مَنْ صَلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلَّیٰ عَلی من بَعِیْدٍ أُعْلِمتُہ ‘‘۔ (ترجمہ: جس نے میری قبر مبارک کے پاس درود پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جو مجھ پر دور سے درود شریف پڑھے تو وہ مجھے فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ بہ حوالہ حیٰوۃ الانبیاء، امام بیہقی، طبع مصر ص: ۱۶۔ مدار الافہام، حافظ ابن قیم، ص: ۲۵)
حدیث نمبر: ۵۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ لِلّٰہِ مَلٰئکۃً سَیَّاحِیْن فِی الاَرْضِ یُبلِّغُوْنی مِن اُمتِی السَّلام ‘‘۔ (بے شک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں گھومتے ہیں اور میری اُمت کا سلام مجھ پر پہنچاتے ہیں۔ بہ حوالہ مصنف ابن ابی شیبہ، ص: ۵۱۷، ج: ۲۔ مسند احمد، ص: ۴۴۔ دارمی ۲۷۴۔ امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ القول البدیع ص: ۱۱۵)
حدیث نمبر: ۶۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ البتہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے(آسمان سے)، منصف اور امام عادل ہوں گے اور وہ پہاڑی راستوں سے یہاں (مدینہ منورہ) آئیں گے ’’وَ لَیَأْتِیَنَّ قَبرِیْ حَتَّی لیسلّمُ وَ لأَردُنَّ عَلیہ ‘‘۔(ترجمہ: اور میری قبر (مبارک) پر مجھے سلام پیش کریں گے اور بلاشبہ میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ بہ حوالہ مسند احمد، ص: ۲۹۰، ج: ۲، الجامع الصغیر،ص: ۱۴۰، ج: ۲) ۔ امام حاکم اور علامہ ذہبی رحمہما اﷲ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، غرض کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر نزول تواترسے ثابت ہے۔ نبی کریم علیہ السلام کا قبر اقدس میں باحیات ہونا اور صلوٰۃ و سلام کا سماع (سننا) متحقق ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب دینا بھی ثابت ہے اور اس کا انکار صحیح حدیث کا انکار ہے، جو صریح گمراہی ہے۔ نیز عیسیٰ علیہ السلام کا رفع آسمانی اور نزول کا انکار یا تاویل کرنے والا کافر ہے۔
حدیث نمبر: ۷۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ نے ارشاد فرمایا: ’’ مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَ مِنْبرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ و منبری علی حوضی ۔ (ترجمہ: میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض کوثر پرہے۔ صحیح بخاری، ص، ۲۵۳ ، طبع دہلی )
حدیث کی ایک روایت میں بیتی کے بجائے قبری بھی آیا ہے۔ یعنی آپ کی قبر اقدس اور منبر کے مابین کا حصہ ریاض الجنہ ہے۔ جب درمیانی حصہ کا یہ حال ہے تو روضۂ اقدس کی خاص جگہ کا کیا مقام ہو گا؟
حدیث نمبر: ۸۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات جمیع انبیاء و رسل علیہم السلام کو بیت القدس میں دو رکعت نماز پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سلام کیا، انھوں نے آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے دعاءِ رحمت کی۔( بہ حوالہ الدّرۃ الفاخرہ، امام غزالی، ص: ۱۶) اسی طرح آپ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو سلام کیا اور انھوں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے لیے دعاءِ رحمت فرمائی۔ (بہ حوالہ تسکین الاتقیاء، فی حیٰوۃ الانبیاء، ص: ۵۵)
اب قارئین کرام سے سوال ہے کہ انبیاء علیہم السلام پہلے زندہ تھے یا اﷲ تعالیٰ نے انھیں اس وقت زندہ کیا؟ جواب ظاہر ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پہلے سے زندہ تھے۔
حدیث نمبر: ۹۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اﷲ و رضوانہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے حجرہ مبارکہ میں جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم استراحت فرما ہیں، پہلے چادر کھلے داخل ہو جایا کرتی تھی، مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ میرے خاوند (نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور میرے والد سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ) ہی تو یہاں ہیں، جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ وہاں دفن ہوئے، فَوَاللّٰہ مَا دَخلْت الَّا و اَنا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر، اﷲ کی قسم میں باپردہ روضہ اطہر میں جایا کرتی اور یہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے حیا کے باعث تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے اس تامل سے سیدنا نبی کریم علیہ التسلیم کی حیات طیبہ اور سیدنا شیخین کریمین سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اﷲ عنہما کی حیات اقدس کا ثبوت ملتا ہے۔
حدیث نمبر: ۱۰۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے متعلق روایت ہے کہ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے، کوئی میخ ٹھوکنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تو اُن گھر والوں کو حکم بھیجتی تھیں ’’لَا تُؤْذُوْا رسولَ اللّٰہِ ‘‘ خبردار! نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس آواز سے تکلیف و ایذا نہ پہنچاؤ۔ (بہ حوالہ شفاء السقام ، ص: ۱۷۳۔ طبع مصر)
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے گھر کے دروازے مدینہ منورہ سے باہر جا کر بنوائے۔
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے روضۂ اقدس میں باحیات سمجھتے تھے۔
درج بالا دس احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے امام دار الہجرۃ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کی مشہور کتاب مؤطا امام مالک سے اقتباس نقل کرتا ہوں:
حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے قبیلہ بنو سلمہ کے دو بزرگ انصاری صحابی حضرت عمرو بن جموح اور حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحد میں شہادت کے بعد ان کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پہاڑی نالے نے ان کی قبر کی طرف رخ موڑ لیا اور اُن کی قبر کا ایک حصہ بہہ گیا۔ بہ امر مجبوری ان کی قبر کو کھودا کیا تاکہ ان کے جسد مبارک کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔ جب قبر کھودی گئی تو جسد مبارک بالکل صحیح سلامت تھے۔ ’’ کَأَنَّہُمَا مَاتَا بِالَأَمْسِ وَ کان اَحدُہُما قد جرح فوضع یدہ علی جرحہٖ فدفن وہو کذلک فأُمیطت یدہ عن جرحہ ثم ارسلت فرجعت کما کانت ‘‘۔ ترجمہ: پس ان دونوں (صحابہ کرام ) کو اس طرح پایا گیا کہ گویا وہ کل ہی فوت ہوئے ہیں، دونوں میں سے ایک کوایسا زخم لگا تھا کہ انھو ں نے(بہ وقت شہادت) اپنا ہاتھ اس(زخم) پر رکھ دیا تھا اور اسی طرح انکو دفن کر دیاگیا۔ جب قبر سے نکالنے کے بعد ان کاہاتھ اس زخم سے ہٹایا گیا اور پھر چھوڑ دیاگیا تو وہ ہاتھ بدستور زخم پر جا ٹکا۔ اﷲ اکبر! غزوۂ اُحد اور ان کی قبر کھولنے کا درمیانی عرصہ چھیالیس سال پر محیط ہے۔ بہ حوالہ مؤطا امام مالک، ص: ۱۷۷
یہ تو صحابۂ کرام کی شان اور مقام ہے اور شہداء کے متعلق قرآن مجید گواہ ہے کہ ’’ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحَیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ ‘‘(آل عمران: ۴۔ ترجمہ: جو اﷲ کے راستہ میں شہید ہوئے، ان کو مردہ نہ گمان کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اﷲ تعالیٰ انھیں (جنت) سے رزق دیتا ہے۔ سبحان اﷲ
یہ شہداء کا مقام ہے، اس کے اوپر صدیقین کا طبقہ ہے۔ ان کے اوپر انبیاء کا طبقہ ہے۔انبیاء کرام کے اوپر امام الانبیاء ،خاتم المعصومین، سید الاوّلین والآخرین، سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ ہے۔ ان کی زندگی بھی بابرکت اور حیات بعد الممات بھی بابرکت، جہاں سترہزار فرشتے روزانہ اور امت مسلمہ کے لاکھوں کروڑوں مسلمان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے ہیں۔ روضۂ اقدس پر حاضری اور صلوٰۃ و سلام کا ہدیہ پیش کرنا مسلمانوں کی متاعِ حیات اور عظیم سعادت ہے۔
قبرِ نبوی علی صاحبہ الصلاۃ والسلام کی زیارت:
’’ مَنْ زار قبری وَ جَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ ‘‘ پر مسلک اہل السنۃ والجماعت کا ایمان ہے۔ فتنۂ مماتیت اپنے انجام سے بے خبر ہے، جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقام و منصب کو تختۂ مشق بنا رہی ہے، العیاذ باﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ۔ کیاوہ کمالات نبوت اور خصائص رسالت سے اعراض کر کے کبھی شفاعتِ نبوی کی امیدوار ہو سکتی ہے؟ فیا للعجب!
عقیدہ حیات الأنبیاء اور سلف صالحین:
گزشتہ صفحات میں ہم نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حیات انبیاء علیہم السلام پر تفصیلاً بحث کی ہے۔ اب ہم اس عقیدے سے متعلق علماءِ سلف، ائمہ اربعہ کے فقہاء اور مسلک علماء اہل السنت والجماعت علماءِ دیوبند کے نظریات و عقائد پیش کرتے ہیں۔
۱۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (شافعی)، المتوفیٰ: ۱۵۲ھ فرماتے ہیں کہ:
’’ اِنَّ حیاتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبرہ لا یعقبُہا موت بل یستقر حیا والانبیاء احیاء فی قبورہم ‘‘ ۔(بہ حوالہ فتح الباری، شرح بخاری، ص: ۲۲، ج:۷، طبع مصر) ترجمہ: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں زندگی ایسی ہے، جس پر موت وارد نہیں ہوگی بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
۲۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ (حنبلی) ،المتوفیٰ: ۷۲۸ھ فرماتے ہیں:
’’ ان اﷲ تعالیٰ حَرَّمَ علی الارض اَن تاکل لُحوم الانبیاءِ علیہم السلام واخبر انہ یسمع الصلاۃ والسلام من القریب و انہ یُبلّغ ذالک من البعید ‘‘(بہ حوالہ مناسکِ حج، ص:۸۴، طبع دہلی)ترجمہ: بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کا گوشت کھائے، اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ قریب سے صلوٰۃ وسلام خود سنتے ہیں اور دور سے آپ کو صلوٰۃ و سلام پہنچایا جاتا ہے۔
۳۔ ملّا علی قاری (الحنفی) المتوفیٰ: ۱۰۱۴ھ، فرماتے ہیں:
المعتقد المعتمد انہ صلی اﷲ علیہ وسلم حَیٌ فی قبرہ کسائر الانبیاء فی قبورہم ‘‘(بہ حوالہ شرح شفاء، ص: ۱۴۲، ج: ۳، طبع مصر) ترجمہ: قابل اعتماد عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قبر (مبارکہ) میں زندہ ہیں جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سن سکتے ہیں اس شخص کے صلوٰۃ و سلام کو جو ان پر پڑھے۔ وان الانبیاء احیاء فی قبورہم فیمکن لہم سماع صلوٰۃ مَن صلّی علیہم (المرقاۃشرح مشکوٰۃ، ص: ۲۱۹، ج: ۲)
۴۔ محدث کبیر علامہ سخاوی رحمۃ اﷲ علیہ، المتوفی: ۹۰۲ھ فرماتے ہیں:
نحن نؤمن و نصدق بانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَیٌ یُرزقُ فی قبرہ ان جسدہ الشریف لا تأکلہ الارض والاجماع علی ہٰذا ۔ ترجمہ: ہمارا ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور آپ کووہاں رزق بھی ملتا ہے اور آپ کے جسد اطہر کو مٹی نہیں کھاتی اور اس عقیدہ پر اہلِ حق کا اجماع ہے۔ (بہ حوالہ القول البدیع، ص: ۱۲۵)
درج بالا حوالہ جات سے ائمہ اربعہ، احناف، شافعیہ، حنابلہ اور مالکیہ مسلک کے علماء کرام کا عقیدہ اورنظریہ واضح ہو گیا کہ یہ تمام حضرات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور سماع کے قائل ہیں اور اس عقیدہ پر ان کا اجماع ہے۔ اب ہم مسلک اہل سنت والجماعت علماءِ دیوبند کے عقائد و فتاویٰ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
عقیدۂ حیات الانبیاء و علماءِ دیوبند:
آج سے ایک سو اٹھارہ سال قبل ۱۳۲۴ھ میں بعض حالات کی بنا پر علماء و حرمین شریفین نے اکابر علماءِ دیوبند سے اُن کے عقائد و افکار جانچنے کے لیے ۲۶ سوالات کیے۔ چاں چہ اس وقت موجود اکابر علماء دیوبند نے اپنا مسلک واضح کیا اور اس پر اپنی تصدیق کی مہریں ثبت کیں۔ شارح ابو داؤد، فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ اﷲ نے ان جوابات کو تحریر کیا اور مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمن صاحب، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری، مفتی کفایت اﷲ دہلوی رحمہم اﷲ و دیگر علماء نے اس رسالہ پر اپنی تصدیقات تحریر فرمائیں اور فقط اعتماداً نہیں بلکہ تحقیقاً سب جواب دیکھ کر حضرت مفتی کفایت اﷲ قدس سرہ نے فرمایا کہ ’’ رَأیْتُ الأجوبۃَ کلَّہَا فوجدتہا احقۃ صریحۃ ‘‘ترجمہ: میں نے تمام جوابات خود دیکھے اور انھیں حق صریح پایا (بہ حوالہ تسکین الاتقیاء)
ان عقائد پر پھر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، جامع ازہر مصر اور شام کے علماءِ کبار جن میں احناف، شوافع، موالک اور حنابلہ مسلک کے علماء کرام شامل تھے، اس پر تصدیقات فرمائیں اور یہ رسالہ ’’المُہَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّدْ‘‘ (تیز ہندی تلوار بوسیدہ ہدفوں پر) کے نام سے عربی میں اور عقائد علماءِ دیوبند کے نام سے اردو میں شائع ہوا۔ چنانچہ اس مسئلہ میں ایک سوال اور اس کا جواب بعینہٖ رقم کیا جاتا ہے۔
السؤال الخامس: مَا قولکم فی حیات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبْرہ الشریف من ذلک امر مخصوص ام مثل سائر المسلمین رحمۃ اﷲ علیہم حیٰوۃ برزخیۃ ۔
ترجمہ: کیا فرماتے ہو، جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر شریفہ میں حیات کے متعلق کہ کوئی خاص حیات آپ کو حاصل ہے یا تمام مسلمانوں کی طرح برزخی حیات ہے؟
الجواب: (عربی متن کا اردو ترجمہ پیش خدمت کیا جا رہا ہے)ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قبر (مبارک) میں زندہ ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات دنیاکی سی ہے، بلامکلف ہونے کے اور حیات مخصوص ہے۔ آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ۔ اور ویسی (حیات) برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ تمام آدمیوں کو حاصل ہے۔ چناں چہ علامہ سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے رسالہ ’’انباء الاذکیا فی حیٰوۃ الأنبیاء‘‘ میں بہ تصریح لکھا ہے کہ علامہ تقی الدین سُبکی رحمہ اﷲ نے فرمایا ہے کہ انبیاء و شہدا ء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے۔ کیونکہ نماز زندہ کو چاہتی ہے۔ بس اس سے ثابت ہوا کہ کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہے اور اس معنی میں برزخی بھی ہے کہ عالمِ برزخ میں حاصل ہے۔ اور ہمارے شیخ مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب قدس سرہؒ کا اس مبحث میں ایک مستقل رسالہ ہے، (آب حیات) جو نہایت دقیق اور انوکھے طرز کا بے مثل ہے جو طبع ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ (بہ حوالہ المہند علی المفند، ص: ۱۳، کتب خانہ اعزازیہ، دیوبند)
۱۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اﷲ علیہ المہند کے سابقہ سوال کے بارے میں فرماتے ہیں: ہمارے اور ہمارے مشائخ کا یہی عقیدہ ہے کہ کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں (المہند، ص: ۳)
۲۔ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: جو کچھ اس رسالہ المہند میں لکھا ہے، حق اور صحیح ہے اور کتابوں میں بھی نص صریح کے ساتھ موجود ہے، یہی میرا عقیدہ ہے اور یہی میرے مشائخ کا عقیدہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس عقیدہ کے ساتھ زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔ میں ہوں بندۂ ضعیف عبدالرحیم عفی عنہ (بہ حوالہ المہند، ص: ۴۸)
۳۔ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: یُرید لقولہ الأنبیاء أحیاء مجموع الاشخص لا الارواح فقط ۔(بہ حوالہ حجۃ السلام، ص: ۱۳۶)
ترجمہ: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد (کے بموجب) انبیاء علیہم السلام کے زندہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فقط ان کی ارواح زندہ ہیں بلکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام روح و بدن کے مجموعے کے ساتھ زندہ ہیں۔ (بحوالہ تسکین الاتقیاء فی حیٰوۃ الانبیاء، ص: ۸۶)
۴۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو الدارداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے جسد اطہر کو کھا سکے۔ بس اﷲ کے پیغمبر زندہ ہوتے ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے ۔ روایت کیا اس کو ابن ماجہ نے۔ (بہ حوالہ نشر الطیب، ص: ۳۵۰۰)
۵۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : الانبیاء احیاء عند ربہم یُرزقون ۔۔ انبیاء علیہم السلام (قبروں میں) زندہ ہیں ، انھیں اپنے رب کے ہاں رزق ملتا ہے۔ (بہ حوالہ فتح الملہم شرح مسلم، ص: ۳۳۰، ج: ۱)
۶۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی حاضری جناب سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت اور آپ کے توسل کی غرض سے ہونی چاہیے، آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام مؤمنین کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ہے اور از قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت سے وجوہ سے اس سے قوی تر ہے۔ (بہ حوالہ مکتوبات شیخ الاسلام، ص: ۱۱۹، ج: ۱)
۷۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات فی القبر کے بارے میں میرا عقیدہ وہی ہے، جو اکابر علماءِ دیوبند کا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اسی جسدِ عنصری سے زندہ ہیں جو اس دنیا میں تھا۔ وہ حیات بہ اعتبار ابدان دنیوی بھی ہے اور بہ اعتبار برزخ برزخی بھی ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ابدان دنیوی کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہونا اہل سنت والجماعت کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے اور ہمارے اکابر علماء دیوبند نے اس پر مدلل اور مفصل ارشادات (تحریر) فرمائے ہیں۔ (اقتباس: کتاب مقام حیات)
۸۔ شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام اہل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز و عبادات میں مشغول ہیں اور حضرات انبیاء علیہم السلام کی یہ برزخی حیات اگرچہ ہم کو محسوس نہیں ہوتی لیکن بلاشبہ یہ حیات حسّی اور جسمانی ہے، اس لیے کہ روحانی اور معنوی حیات تو عام مؤمنین بلکہ ارواحِ کفار کو بھی حاصل ہے۔ (بہ حوالہ سیرۃ المصطفیٰ، ص: ۳۷۵، ج: ۲)
۹۔ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بلا خوف و تردد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تقریباً ۱۳۷۴ھ تک (۶۸ سال قبل) اہل السنت والجماعت کا کوئی فرد کسی بھی فقہی مسلک سے وابستہ دنیا کے کسی خطے میں اس بات کا قائل نہیں رہا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم و دیگر انبیاء علیہم السلام کی روح مبارک کا جسم اطہر سے قبر شریف میں کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور آپ عند القبر صلوٰۃ و سلام کا سماع نہیں فرماتے۔ کسی اسلامی کتاب میں عام اس سے کہ وہ کتاب حدیث و تفسیر کی ہو یا شرح حدیث و فقہ کی علم و کلام کی ہو یا تصوف و سلوک کی، سیرت کی ہو یا تاریخ کی، کہیں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی روح مبارک کا جسم اطہر کے ساتھ کوئی تعلق اور اتصال نہیں اور یہ کہ آپ عند القبر صلوٰۃ و سلام کا سماع نہیں فرماتے۔ مَنْ ادَّعی خلافہ فعلیہ البیان و لا یمکنہ ان شاء اﷲ تعالیٰ الی یوم البعث والجزاء والمیزان۔ترجمہ: جس کو اس کے خلاف دعوی ہو ، اُس پر جواب واجب ہے، لیکن یہ ناممکن ہے ، ان شاء اﷲ قیامت اور جزاء اور میزان کے دن تک ، وہ جواب نہیں دے سکتا۔ (راقم شاہیم میر محمد) تسکین الصدور، ص: ۳۸۲
۱۰۔ قائد احرار جانشین امیر شریعت ، راقم کے مرشد اور ہزاروں کارکنانِ احرار کے شیخ و مربّی، امام اہل سنت ، حسنی وحسینی سادات کے چشم و چراغ حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے عمر بھر ہر تقریر و بیان میں توحید و ختمِ نبوت کے ساتھ عصمتِ انبیاء و حیات انبیاء علیہم السلام، منصبِ نبوت و مقامِ صحابہ و اہلِ بیت علیہم الرضوان پر تفصیلاً گفتگو فرمائی۔ انھوں نے دستورِ احرار و مجلس خدام صحابہ ؓ میں پوری تفصیل و وضاحت کے ساتھ عقیدہ تحریر کیا کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم و دیگر انبیاء کرام علیہ السلام اپنی قبروں میں حیات ہیں۔ ان کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں جو فتنۂ مماتیت پر ضربِ کاری ہے۔ مسائلِ قربانی کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ممات النبی کے توہین آمیز عنوان کے ساتھ امت میں فتنہ برپا کرنے والے کسی گستاخِ رسول کا ہاتھ، قربانی کے جانور کو ذبح کے لیے نہ لگوائیں۔ (بہ حوالہ احکام و مسائل، ص: ۳۷۹)
حضرت شاہ جی ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کو بیسیوں بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، ان کے نعتیہ کلام کا ایک شعردرج کر رہا ہوں:
دعاءِ نیم شب آہِ سحر گاہی کا ثمرہ ہے
کہ اب وہ خواب میں محروم فرمایا نہیں کرتے
فتنۂ مماتیت کے علم برداروں کو کبھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہیں ہو گی۔
۱۱۔ حضرت مولانا میاں مسعود احمد صاحب، سجادہ نشین خانقاہ دین پور شریف، فرماتے ہیں: الحمدﷲ! اکابرین دین پور شریف سید العارفین حضرت خلیفہ غلام محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت اقدس مولانا عبدالہادی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا سراج احمد رحمۃ اﷲ علیہ، سجادہ نشینان دین پور شریف کا عقیدہ اس مسئلہ میں اثباتِ حیات (پر) تھا اور ہے اور ان شاء اﷲ رہے گا۔
بفضلہ تعالیٰ فقیر بھی اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس مسئلہ میں اثبات حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کاقائل ہے۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم ہند سے پہلے حضرت اوّل (خلیفہ غلام محمد حیات) کے متعلق میرے دادا جان حضرت مولانا میاں عبدالہادی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت اوَّل نے خان پور میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا، جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ نے حیات انبیاء علیہم السلام کے موضوع پر تقریر فرماتے ہوئے اس مسئلہ کو پوری شرح وبسط ساتھ واضح فرمایا۔ اور اس فتنہ کے مضمرات سے (لوگوں کو)آگاہ فرمایا۔ اسی طرح حضرت اقدس ثانی (مولانا) عبدالہادی رحمۃ اﷲ علیہ نے تقسیمِ ہند کے بعد اپنے متعلقین و مریدین و حلقہ میں دورہ فرما کر اس فتنہ (مماتیت) کے اثرات بد سے آگاہ فرمایا۔ بندہ ناچیز( حضرت میاں مسعود احمد مد ظلہ العالی زیبِ سجادہ درگاہِ عالیہ دین پور شریف ۲۶ ذی الحجہ ۱۴۲۰ھ)ایک خط سے اقتباس جو تسکین الاتقیاء کے مؤلف کے نام تحریر کیاگیا۔
امید ہے کہ متلاشیانِ حق کے لیے یہ مضمون حیات انبیاء علیہم السلام فائدہ مند ہوگا۔ لیکن ہٹ دھرم اور تعصب پسند کا کوئی علاج نہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس عقیدہ حیات الانبیاء علیہم السلام پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے اور اﷲ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت اور شفاعت عطا فرمائے۔ آمین بجاھک یا رب وبطفیل نبیک و حبیبک و خلیلک محمدنِ النبی الامّی واٰلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین ۔