مفکر احرارچوہدری افضل حق رحمہ اﷲ (آٹھویں قسط)
الگ آغاز سفر جولائی ۱۹۳۱ء:
تم نے آخر پنڈت جواہر لال لعل کی زبانی ’’میری کہانی ‘‘ میں احرار کے متعلق سچ سن لیا کہ یہ لوگ زیادہ تر نچلے اور اوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی زمانہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنا کتنی ذلت کی بات ہے۔ لیکن ہم کسی حال میں احرار کی ذات کو اس ذلت سے نہیں بچا سکتے۔ پھول کے ساتھ کانٹا ضرور ہوگا۔ احرار کا یہ گروہ زمانے اور حالات سے بغاوت کرنے کے لیے پیدا کیا گیاہے۔ اگر ہماری بغاوت کامیاب ہوگئی تو جن کی آنکھوں میں آج خار کی طرح کھٹکتے ہیں۔ پھول کی طرح ان کی دستار کی زینت بنیں گے۔ لیکن ہم انتظار اور آرزو میں آہیں بھر کر زندگی کے دن پورے کرنے نہیں آئے ۔ ہم میں سے سب سے بااثر دوستوں نے برملا سٹیج پر کہا کہ احرار غریبوں کی جماعت ہے۔ ایک تو اس لیے کہ مجلس احرار کی حقیقت یہی ہے دوسرے یہ آواز غریبوں کی طرف سے سرمایہ داری کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ میں ڈرتا تھا کہ برملا ایسا کہنا مصیبتوں کو دعوت دینا ہے ایسا نہ ہو کہ جوشِ خطابت میں ہم اپنی کہی بات کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھیں اور جب اس کا درد ناک نتیجہ بھگتنے کا وقت آئے تو گھبرا جائیں۔ غریب ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو اکثر دنیا میں امن نہیں ملا۔ لیکن میری ہزار احتیاطوں کے باوجود شیروں نے روباہ مزاجی اختیار کرنے سے انکار کردیا اور برابرغریب جماعت کے ادنیٰ فرد ہونے کا اعلان کرتے رہے۔
آسمان نے کہا کہ تم سچ مچ اس دعوے پر قائم ہوتو آؤ میدانِ امتحان میں اترو۔ کشمیر کے مسلمانوں کی درد ناک پکار کیا تم نے سنی؟ اور کیاان کی آشفتہ حالی کا جائزہ لیا؟ مصر کے فراعنہ کی تاریخ موجود ہ ریاستی مزاج میں دہرائی جارہی ہے خطۂ جنت نشان میں مسلمان بنی اسرائیل کی سی ذلت اور مصیبت کی زندگی بسر کررہا ہے۔ بے شک کچھ دھیمی سی آوازیں سنی گئیں۔ مدد کے لیے کچھ آہستہ سی پکار کانوں تک پہنچی ۔احرار کی ورکنگ کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ مگر اس کام (کی قیادت) کا بیڑا کون اٹھائے۔ اب تک تو ہم سپاہی تھے۔ اچانک فوج کی کمان سنبھالنے کے لیے جو حوصلہ درکار ہوتا ہے شاید اس کی کمی کے باعث کمرِ ہمت باندھ کر چل دینے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں ابھی جیلوں سے نکل کر آئے تھے طبیعت میں تھکن تھی۔ گھروں کا حال میر مرحوم کے روایتی گھر کا ساتھا۔ ایسے وقت میں کون انسان ہے جو پریشان نہ ہو۔ ورکنگ کمیٹی کیا تھی، ہر ممبر تذبذب کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ ہم میں خواجہ غلام محمد کم عمر من چلا ممبر تھا۔ وہ ہر وقت سانپوں سے کھیلنے اور آگ میں خود کودنے پر آمادہ رہتا تھا۔ کہا گھنگور گھٹا کا پہلا قطرہ بننے پر میں آمادہ ہوں۔ جی نہ چاہاکہ ایک عزیز ازجان نوجوان کے کندھے پر بوجھ ڈال کر خود سبکدوش ہونے کی سعی کی جائے۔ مناسب سمجھا کر چندے اور تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں ۔ پھر مل کر حالات کا جائزہ لیں شاید کوئی صورت سمجھ میں آجائے۔
پامال روشوں پر انسان بے کھٹک چل نکلتا ہے…… جانے بوجھے ہوئے راستوں پر چلنا سب کے لیے آسان ہے مگر جوراہ کبھی دیکھی نہ ہو اس سے سب کو جھجک آتی ہے۔ کہ کیا جانے پہلے ہی قدم پر کیا قیامت چھپی ہو؟ ہر گھاس میں ناگ اورجھاڑی کے پیچھے شیر کا گمان گزرتا ہے۔ انگریزی حکومت کے خلاف صف آرا ہونا آزمائے میدان میں اترنا تھا، ریاستی دنیا ایک پوشیدہ جہان تھا۔ اندھیرے میں چھلانگ لگا نا جان پر کھیل جانا ہے۔ کیا جانے کہاں قدم پڑے، کس گڑھے میں گرے ؟اہل خطہ کی دھیمی آوازیں خاموش ہوگئیں اورہم سب کی آنکھیں پھر آزادیِ وطن کے مسئلے کی طرف منعطف ہوگئیں۔
ہم مہاتما جی اور کانگرس کی لندنی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ کانگریس کا جنگی ذہن اور انقلابی شعور جوں کا توں قائم رہے اور کہیں یہ جماعت بھی پھسل کر تعاون کی دلدل میں نہ پھنس جائے ۔کیونکہ انگریزی حکومت سے ٹکرانے کا ایک ذوق سا طبیعت میں پیدا ہوچکا تھا، اس لیے گاندھی جی کو اپنے تعاون کا یقین دلانے کے لیے سید عطاء اﷲ شاہ اور مولانا حبیب الرحمن صاحب ممبئی گئے لیکن مہاتماجی کی روح لندن کے متعارف کوچوں کی دوبارہ سیر کے لیے بے تاب تھی۔ چھوٹا بھائی بڑے بھیا کو کھل کر مشورہ نہیں دے سکتا۔ گورو کوکون کہے کہ بوڑھے بابا کرم کرو، انگریزی عنکبوت کے تاروں میں مکھی بن کر نہ پھنسو۔ مہاتما جی نے ہماری کراچی میں نہ سنی وہ بمبئی میں کیا سنتے۔ بڑوں کی باتیں بڑی ہوتی ہیں، مہاتماجی کی مصلحتیں یا وہ جانیں یا ان کے گہرے یار سمجھیں ہم تم کون ہیں جو آفتاب کو چراغ دکھائیں؟
کشمیر شور ِ قیامت:
اس دوران میں کشمیر پھر دیوارِ گریہ بن گیا۔ سری نگر نے خون شہدا کے باعث کر بلا کی سی صورت پیش کی۔ مولانا مظہر علی کچھ تاریخِ کربلا کی رعایت سے بے تاب ہوئے اور اِقدام کی سوچنے لگے۔ ابھی ہماری سست فکری کسی منزل پر نہ پہنچی تھی کہ کچھ عافیت کو ش مسلمان شملے کی بلندیوں سے بادل کی طرح گرجے اور حکومت کشمیر پر بجلی بن کر گرنے کی دھمکیاں دینا شروع کیں اور ایک درخواست بھیج کر تحقیقاتی کمیشن کی اجازت چاہی۔ ریاستی حکومت جانتی تھی کہ یہ گرجنے والے برسیں گے نہیں اس لیے درخواست پر نامنظور لکھ بھیجا۔ بہت اچھلے بہت کودے مگر کچھ دیر بعد تھک کر بیٹھ گئے۔ ان خانہ برباد رؤسا اور امراء نے غضب یہ ڈھایا کہ مرزا بشیر محمود قادیانی کو اپنا قائد تسلیم کرلیا۔ جمعیت العلماء نے ستم یہ کیا کہ اس بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کر دیا۔ اس شخص نے اہلِ خطہ کی یہ خدمت کی کہ مرزائی مبلغ بھیج کرسرکاری نبوت کی اشاعت شروع کردی۔اور دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا کہ پورے اسلامی ہندنے اسے لیڈر مان کر اس کے باپ کی نبوت کی تصدیق کردی ہے۔ کشمیر کا سادہ دل اور مصیبت زدہ مسلمان ہر کس و ناکس کو اپنا ہمدرد سمجھ کر ا س کی طرف متوجہ ہوتا تھا اس لیے باخبر اہل مذہب کو مرزائی مبلغوں کے ہاتھوں مسلمانانِ کشمیر کے ار تداد کا خطرہ لاحق ہو گیا۔
میں ان دنوں اپنے گاؤں گڑھ شنکر میں بیٹھا ان واقعات اور حالات کا جائزہ لے رہا تھا ۔ اس پیدا شدہ صورتِ حال سے گھبرا گیا اور لاہور پہنچا میں نے دیکھا کہ مولانا داؤد غزنوی ٹانگے پر سوار پریشان سے جارہے ہیں۔ پوچھا کدھر کا عزم ہے؟ کہا کہ مرزائی قیادت مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہوگی، میں شہر کے علماء سے مل کر ان کی قیادت کے خلاف اعلان کرانا چاہتا ہوں۔میں نے کہا کہ بھائی محض کاغذی بم قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کو کافی نہیں۔ اب تو بڑی قربانی ہی مشکلات کا حل ہے، سواری چھوڑ دو تاکہ دفتر میں بیٹھ کر تدبر کے گھوڑے دوڑائیں، ہمت مردانہ سے قسمت پر کمند پھینکیں۔ اور تدبیر سے تقدیر کو بدلیں۔
اسی دن یا اگلے دن علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال کی صدارت میں محمڈن ہال میں عمائدین شہر کا جلسہ تھا، جس میں کشمیر کی اوس پڑی قسمت زیرِ غور تھی۔ مولانا مظہر علی، غالباً مولانا داؤد غزنوی بھی اور میں بھی محمڈن ہال گئے۔ خیال یہ تھا کہ کوئی تدبیر لڑاکر مرزا بشیر کی کشمیر کمیٹی کے مقابلے میں احرار کے حق میں ان لوگوں کی تائید حاصل کی جائے۔ باقی حاضرین طبقۂ اولیٰ سے متعلق تھے۔ وہ احرار کے نام پر حقارت سے منہ بسورتے تھے۔ مگر ڈاکٹر صاحب احرار کو آگے بڑھانے پر بضد تھے۔ بہر حال ہم بزوری و بزاری ان کا اعلان اپنے حق میں کروانے میں کامیاب ہوگئے بس تھوڑی سی کھڑے ہونے کو جگہ ملی تھی، بیٹھنے اور پاؤں پسار کر ساری جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے ہمت درکار تھی۔ لیکن اب طبیعتوں میں زیادہ تذبذب نہ تھا۔ احرار سپاہی تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد پھر نئے اقدام کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ احرار لیڈروں کو جیل کی سڑک بہشت کی روشوں کی طرح گل ریز اور عنبربیز معلوم ہوتی ہے۔ کانگریس حکومت سے ٹکر نہ لینا چاہتی تھی اب ہم سب کشمیر کے معاملے کو ہمت اور حوصلے سے سلجھانے پر آمادہ تھے ۔ ملک کا ماحول یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں باوجود غریبوں کا دم بھرنے کے رئیسوں کی منظور نظر رہنا چاہتی تھیں۔ آل پارٹیز کانفرنس منعقدہ لکھنو ۱۹۲۸ء میں رؤسا کی حیثیت برقرار رکھنے کی ایک دفعہ کا خاص اضافہ کیا گیا۔ گاندھی اور مالوی تو ریاستوں کے مسلمہ راج گورو ہیں، اوروں میں مخالفانہ زبان ہلانے کی جرات کہاں؟ رؤسا کے متعلق ہمارا تصور پیٹ کے پجاریوں اور حسن کے بے پناہ ڈاکوؤں سے زیادہ نہ تھا۔ خونِ غریباں جن کی رنگ وبو کا سامان ہے۔ ہم پورے سکونِ قلب کے ساتھ رئیسوں کا سکون دل برباد کرنے پر آمادہ تھے۔ غریب ہندوہو یا مسلمان ہماری توجہ اور مدد کا مستحق ہے، مگر کشمیر کے مسلمان کی کیفیت سمجھنے کے قابل ہے۔ وہاں کا ہر ہندو…… عام اس سے کہ غریب ہو یا امیر…… مسلمان کو رمضانی مار کھانے کی نشانی سمجھ کر راہ چلتے اس کے حصہ اسفل پر ایک ٹھوکر رسید کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ حاکمِ وقت کے ہم مذہب ہونے کے باعث اپنے آپ کو خاص امتیازات کا حامل خیال کرتا تھا۔ ایسی دوگونہ غلامی کشمیر کے مسلمان کی اس وقت کی قسمت تھی۔ رؤسا اور احرار کی آویز ش طبعی اور طبقاتی آویزش کے علاوہ مذہبی بھی ہے۔ فطرت انسانی اور قلب سلیم نے عدم مساوات کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ احرار غریب طبقے سے متعلق ہونے کے باعث طبقہ اولیٰ کو نیچا دکھانے میں خاص خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اسلام طبعی مذہب ہونے کے باعث ہر قسم کی سرمایہ داری کا کھلا دشمن ہے۔ اس لیے جماعت کا ہر فرد انتہائی قربانی پر آمادہ تھا لیکن ایسی آلودگی کے باوجود حزم و احتیاط شرطِ دانائی اور کامیابی ہے۔
کشمیر تحریک کی رہنمائی:
ہماری جماعت میں مولانا حبیب الرحمن، مولانا مظہر علی ، شیخ حسام الدین اور اب عزیز شورش کے اضافے سے چار آدمی ایسے ہیں جو پا نی کے بہاؤ میں شیر کی طرح سیدھے تیر سکتے ہیں اور اندھیرے میں بے خطر کو دجاتے ہیں۔ اور طارق کی طرح جب آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ تو واپس لوٹنے کے سارے سامان سپردِ آتش کر کے بڑھتے ہیں تاکہ فتح اور موت کے خلاف کوئی راہ گریز نہ رہے۔ اسی دل اور دماغ کا ایک اور نوجوان ہم کھو بیٹھے جس کا ہمیں بڑاافسوس ہے۔ خواجہ غلام محمد ان ساری خوبیوں کے علاوہ ان تھک نوجوان تھا۔ کام اس کے سپرد کر کے میں ہمیشہ مطمئن ہوجاتا تھا کہ وہ کامیاب لوٹے گا۔ مگر خامی یہ تھی کہ دریادل اور شاہ خرچ تھا، اس حال میں بیوی اس سے بھی بڑھی ہوئی ملی۔ یہ اس بارے میں چالیس تھے تو وہ پینتالیس تھی۔ مہمان آجا ئے تو جان لڑا دیتی تھی، چولھے میں چرخہ جلاتی اور زیور بیچ کر پکوان بناتی۔ پھر بھی خیال گزرتا کہ مہمان کی خاطر داری میں کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ کتابی کیرکٹر عمل کی دنیا میں ناکام رہتے ہیں۔ آمدن سے خرچ بڑھانے والا ہمیشہ ادھار نہ بیچنے والے کی طرح پریشان حال رہتا ہے۔ یہی پریشانیاں اسے احرار کے مقصد ِعظیم میں شامل رہنے میں مانع ہوئیں اور بالآخر اسے ملازمت اختیار کر کے کنارہ کرنا پڑا۔
ابتدائی مراحل:
قصہ مختصر میرے وجدان نے ہمیشہ جماعتی فیصلوں کے بعد تحریکوں کو ان ہی کے سپرد کرنے کو کہا ہے۔ جب مولانا مظہر علی نے اِقدام کی ذمہ داری اٹھائی میں مطمئن ہوگیا۔ مولانا حبیب الرحمن اور حضرت شاہ صاحب بمبئی سے اپنے مشن میں ناکام لوٹے یعنی اربابِ کانگرس کو راؤنڈٹیبل کانفرنس میں شمولیت سے باز نہ رکھ سکے۔ اس عرصے میں کشمیر میں گولی چلائی گئی، ایک بے گناہ شہید اور کئی ایک مجروح ہوئے۔ ایسا معلوم ہو اکہ سارے خطے کو آگ لگ گئی ہے اور پوری ریاست اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ ریاستی مظالم سے تنگ آئی اور بھوکوں ماری مخلوق کی شمع زندگی بجھنے سے پہلے ایک آخری تڑپ دکھانے پر آمادہ تھی۔ خبروں پر سنسر اور آمدورفت پر پابندی کے باعث خیالات میں بھیانک بھوت ناچنے لگے ۔ سچی خبروں پر پابندی جھوٹی افواہوں کے دروازوں کو چوپٹ کھول دیتی ہے۔ تخیلات کی دنیا میں گڑبڑی سی مچ جاتی ہے اور دماغوں میں عام پریشانی پیدا ہوجاتی ہے۔ پورے شمالی ہند کے مسلمان کشمیر کی افواہوں سے بن پانی کے مچھلی بنے ہوئے تھے۔ قرار یہ پایا کہ مولانا فوراً ریاست کو تحقیقاتی وفد کے لیے لکھ دیں ۔ اجازت نہ بھی ملے تو بھی اپنے مذہبی رجحانات کے مطابق علی !علی! کہہ کر جائیں دیکھا جائے گا۔ بس یہی بے سروسامانوں کا سامان ہے۔ احرار کے پاس توکل کے سوا کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگر بڑے اقدامات کا بیڑا اٹھالیتے ہیں۔ اب جو ریاست کے پاس ہمار اعریضہ پہنچا تو انھوں نے سرکار انگریزی سے پوچھا کہ یہ احرار کیا بلا ہیں۔ ادھرانگریزی سرکار بھی بے خبر نہ تھی وہ ہمارے مزاج اور ذہن سے واقف تھی کہ ان بادلوں کے آوارہ ٹکڑوں میں طوفان پوشیدہ اور بجلیاں لرزرہی ہیں۔ انھوں نے بھی دریافت شروع کی کہ تمہارے کیا ارادے ہیں؟ لاہور کے مقامی افسروں کی معرفت حکام بالاتک یہ خبر پہنچادی گئی کہ اگر اجازت نہ دی گئی تو ہم بن بلائے مہمان کی طرح ریاست میں چلے جائیں گے۔ جواب ملا کہ اگر انھوں نے جیل کا مہمان بنایا تو؟ جواب الجواب میں کہا گیا کہ ہم بھی آفت جان بن جائیں گے۔ یہ سن کر بر ٹش سرکار نے ریاستی دربار کو لکھا کہ یہ بے ڈھب کے لوگ ہیں، کہیں مرزا بشیر کی کشمیر کمیٹی نہ سمجھ لینا ۔یہ امراء نہیں عوام کے نمائندے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنی پگڑی پہلے ہی بغل میں دابے پھرتے ہیں اور دوسروں کی اچھل جائے تو افسوس نہیں کرتے۔ اس سرکاری تحقیقات میں بھی کچھ عرصہ گزرگیا۔ تاہم خاموش ہم بھی نہیں رہے برابر ’’یوم کشمیر ‘ ‘ منانے اور عوام کو اپنا ہمدرد بنانے میں مصروف رہے۔ آخر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور حسب الحکم ورکنگ کمیٹی بلارختِ سفر باندھے سری نگر کی نیت کر کے چل پڑے۔ اسٹیشن پر پہنچ کرمعلوم ہواکہ لاہور سے گوجرانوالہ تک وفد کے چار ممبروں کا پورا کرایہ نہیں۔ اتنے عزم اور یہ وسائل…… اپنی بے بسی پرہنسی توآئی مگر عاشقوں کی منزلیں یوں ہی طے ہوا کرتی ہیں۔ راہ روانِ منزلِ محبت پلے باندھ کر کب چلے ہیں کہ ہم چلتے۔
خدا خود میر سامان است ارباب توکل را
مالی پریشانیوں میں منزل کھوٹی کردینا مسلمانوں کا کام نہیں چنانچہ میں اور مولانا مظہر علی تو گوجرانوالہ روانہ ہوگئے۔ خواجہ غلام محمد اور ایک اور عزیز جو وفد کے ممبر تو نہ تھے مگر دفتری ضرورتوں کے لیے ہمراہ تھے، لاہور میں رہے۔ چوہدری اﷲ بخش گنائی کو، جولاہور کے مخلص دوستوں میں سے ہیں، معلوم ہوا کہ مالی مجبوریاں مانعِ سفر ہیں تو بیوی کا زیور رہن رکھ ساڑھے تین صد روپیہ واپس کردیا کہ زا دِ راہ کے ہم کفیل ہیں۔ رات کو گوجرانوالہ میں جلسہ عام ہوا، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی تقریر اورکشمیر کا مسئلہ…… چھن چھن کے دماغ سے اترے موتیوں کی مالابن بن کر منہ سے جھڑے۔ سننے والوں میں آگ لگادی اور سامانِ سکون چھین لیا۔ صبح شہرکا رنگ اور تھا،گھر گھر کشمیر کے مظالم کی داستانیں بیان ہورہی تھیں اور بازاروں میں بچے ٹولیوں میں ’’احرار زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کررہے تھے۔ اس حوصلہ افزائی سے ہمارے دل دگنے ہوگئے۔ نیک دعائیں دیتے ہوئے اس شہر سے چلے اور سیالکو ٹ پہنچے۔ یہ مقام زندہ دل اور پر جوش لوگوں کی بستی ہے۔ احرار کا یہ’’ مدینہ‘‘ نیکی کی تخت گاہ اور بروں کے ہاتھوں بھاگے ہوئے لوگوں کی آخری جائے پناہ ہے۔ جب سٹیشن پر پہنچے تو بڑا زدحا م تھا۔ لوگوں کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ ہمیں ایک نظارۂ طائرانہ سے معلوم ہوگیا کہ اہلِ شہر کے قلب کی کیفیت کیا ہے۔ اگلے روز مختلف شہروں کے احرار والنٹیروں کا اجتماع تھا۔ شہر کے مردوزن تماشائی تھے۔ بڑی چہل پہل تھی جموں کا گورنر خود حالات کا جائزہ لینے سیالکوٹ میں موجود تھا۔ اس نے غریبوں کے یہ ٹھاٹھ دیکھے تو بڑا متاثر ہوا اور وزیر اعظم کشمیر کو بذریعہ تار کہا کہ احرار وفد کو داخلے سے روکنا ریاست کی فوری پریشانی کا باعث ہوگا یوں گورنر نے ہمارے داخلے کی اجازت حاصل کرلی۔
مرزا بشیر الدین محمود بھی شہر پر اپنا رنگ جمانے آیا مگرمجمع کو مخالف پا کر چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ کچھ بولاتو سہی مگر عوام کے نقارخانے میں سرکاری طوطی کی کون سنتا ہے۔ لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے، کسی کے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ بہت زور مارا مگر شور نہ تھما جب سعی ٔ بے سود سے گلا بیٹھ گیا تو ناچارمرزا صاحب بھی بیٹھ گئے اور ایسے بیٹھے کہ کسی شہر میں جا کر احرار کے خلاف اور کشمیر کمیٹی کے حق میں کھڑے ہو کر کچھ کہنے کی پھر جرات نہ ہوئی۔ ورنہ ان دنوں انھیں بھی مرزائیوں کا سید عطاء اﷲ بننے کا شوق چرایا ہوا تھا زعمِ باطل یہ تھا کہ میں سید موصوف کی طرح بے قابو مجمع کو جادو بیانی سے مسحور کر سکتا ہوں۔
کشمیر میں داخلہ: اکتوبر ۱۹۳۱ء
دروازے کے نقش ونگار سے گھر کی خیر وخوبی کا قیاس کرلیا جاتا ہے۔ بعض اربابِ بصیرت کو تو کھنڈرات سے عمارات کی عظمت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ جموں اگرچہ کشمیرجنت نظیر کا کو چۂ غیر آباد ہے۔ مگر اس کی شگفتگی، اس وادیٔ گل خیروگل ریز کی طرف اشارہ کرنے لگی۔ جموں اسٹیشن کے پہنچنے سے پہلے گھنے درختوں کا گہرا سایہ اور متوالی ہوائیں ذوقِ نظروفرحتِ قلب کا سامان بن گئے۔ گاڑی سے اترے تو ریاست کا عملہ موجود تھا۔ سی آئی ڈی تو یوں بھی سرگرم اور بدکتی رہتی ہے، ایسے موقعوں پر توان کا بیاہ میں نائن کی طرح نمایا ں نظر آناضروری تھا۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ خفیہ عملہ کبھی ظاہر نہ ہو۔ مگر یہ ہندوستان ہے، یہاں طاقت کے اظہار اور شان و شوکت کی بنا پر حکومت کی جاتی ہے۔ خدمت کی بجائے رعب و داب ہی سلطنت و ریاست کا اصل اصول سمجھا گیا ہے ۔ محبت کی بجائے مرعوب کر کے کام نکالنے کو عمدہ حکمت عملی تصور کیا جاتا ہے۔ پھر اس ملک کی سی آئی ڈی کو کیا پڑی کہ کراماً کاتبین کی طرح خاموش اور نظر سے اوجھل رہ کر کام کرے؟ کیوں وہ انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق انا الموجود لا غیری کے دعووں میں کسی سے پیچھے رہے؟
غرض گاڑی سے اترے ریسٹ ہاؤس میں پہنچے غیر سرکاری دوستوں کا دن بھرتا نتابندھا رہا۔ مجھے سیالکوٹ ہی میں کچھ حرارت سی ہوگئی تھی۔ اب حرارت نے بخار کی صورت اختیار کی۔ مولانا مظہر علی ہی ملاقاتیوں سے باتیں کرتے رہے۔ میں لیٹا لیٹا بخار کا لطف اٹھا تا رہا۔ ہلکابخار بھی گرم حمام میں غسل کی طرح طبیعت کو آسودہ کرتا ہے، البتہ بڑھ جائے تو بلابن جاتا ہے۔ بخار کے مزے لیتے لیتے دوسرے دن نمازِ جمعہ پڑھنے جو گیا تو واپس آنا قیامت ہوگیا۔ طبیعت کا عنوان دیکھ کر اندازہ کیا کہ معمولی بخار نہیں۔ احتیاط کے تقاضے کو مدنظر رکھ کر چاہا کہ لوٹ جاؤں مگر دوستوں نے اصرار کیا اور ضمیر نے طعنہ دیا کہ عشق کی اوّل منزل میں قدم رکھتے ہی گھر یاد آیا راستے میں مرگئے تو کیا جلال الدین اکبر کو وارثِ تاج وتخت نہ ملے گا؟
بہر حال میں نے سفر میں ساتھیوں کا ساتھ نہ چھوڑا یہ بخار بعد میں تپ محرقہ ثابث ہوا۔ مجھے کوئی تکلیف نہ تھی ایک ہلکا سا نشہ بلکہ تھوڑا سا سرور تھا جس سے لطف سیروسفر دوبالا ہوگیا۔ جموں سے کچھ میل دور خشک پہاڑ ماتھے پر حوصلہ شکن تیور ڈالے مسافر کو آگے بڑھنے سے ڈراتے ہیں۔ گویا حریم حسن کے یہ سخت مزاج چوکیدا رزبانِ حال سے ہر آنے والے کو پکارتے ہیں کہ ادھر نہ آؤ لوٹ جاؤ !۔تاکہ خطہ کشمیر کے بے نقاب حسن پر نامحرم گستاخ نگاہ نہ ڈال سکے۔ لیکن بے باکی کے اس نقلاب انگیز دور میں حسن خود بے نقاب رہنے پر مصر ہے اور ریاست نے دیدار عام کی اجازت دے رکھی ہے۔ اب یہ خشک پہاڑ اور چٹیل میدان شوقِ دیدار کو ذرازیادہ تیز کرنے کے کام آتے ہیں اور بس۔
کشمیر کے نظر افروز نظاروں کے حسنِ تصور میں سفر کا یہ خشک حصہ بھی رنگین وادی کی طرح ہی کٹا ہر لحظہ گمان گزرتا تھا وہ ارضی جنت کا دروازہ آیا۔ فی الواقع جب ہم درِجناں پر پہنچے تو دوزخیوں کو اس کا پہرے دار پایا۔ نظر اٹھا کرغو رسے دور دور دیکھا ہر طرف مصیبت کی ماری فاقے سے بے حال مخلوق جنت میں دوزخ کا نمونہ پیش کررہی تھی۔ اونچی جگہ سے دریا کے دھارے کودیکھو تو چمک میں چاندی کا پگھلا دریا دکھائی دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی خاموش ندیاں زلفِ یار کی طرح پرپیچ اور سانپ کی طرح لہر کھا کر گزرجاتی ہیں۔ سبزہ و گل نے ساری وادی کو سہاگ کا جوڑا پہنا یا ہوا ہے نظارہ ہر جگہ دامن دل تھام کر کہتا ہے کہ:
جا ایں جا است
بلوری چشمے طنبورہ بجاتے ہیں۔رنگا رنگ پرندے خوشی سے گاتے ہیں یہ سرزمین پاک سولہ سنگار کیے حسن ونورسے بھر پور شاطر کی طرح اچھوتی موسیقی اور قدرتی فضا کی سحر انگیز دھن پرمصروف رقص نظرآتی ہے وہاں کے وجد آفرین سمے کو دیکھ کر کون جھوم نہیں جاتا مگر ان مد بھری ہواؤں اور سرور انگیز فضاؤں میں اس جنتِ ارضی کا اصل باشندہ برگِ سرمادیدہ کی طرح آزردہ اور بدحال ہے ۔ عورتیں حسین جسم کو چیتھڑوں میں چھپا ئے پھرتی ہیں۔ بچے بھوک سے بوڑھے نظر آتے ہیں۔ مایوسی سب کے ماتھے پرنمایا طور پر لکھی ہے انسان نے انسان کا کیا حال کردیا ہے؟
(جاری ہے)