راجا رشید محمود
مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان انگریز حکومت کا وفادار تھا شاید اسی لیے انگریزوں نے مرزا صاحب کو ’’نبوت‘‘ کے درجے پر فائز کیا اور ان سے جہاد کے خلاف آواز اٹھوائی۔ بہت سی کتابوں اور مضامین میں مرزا صاحب کے اس تخصص پر قلم اٹھایا گیا اور یہ ثابت کیا گیا کہ مرزا غلام احمد انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ لیکن حوالہ دیتے ہوئے اہل قلم نے محض کتاب کا نام یا زیادہ سے زیادہ اس کا صفحہ نمبر لکھا ہے۔ مرزا صاحب کی تصانیف عام طور پر دستیاب نہیں ہیں، بعض کتابوں پر سنِ اشاعت اور دوسری ضروری معلومات درج نہیں اور بعد کے ایڈیشنوں میں صفحہ نمبر کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ اس لیے میں نے صرف ان کتابوں سے مواد لیا ہے جو میرے ذاتی ذخیرہ کتب میں موجود ہیں اور ہر کتاب کے حوالے میں معلوم اور درج شدہ معلومات بھی فراہم کر رہا ہوں۔
والد مرزا غلام مرتضیٰ :
عبدالقادر (سابق سودا گرمل) نے مرزا صاحب کی زندگی پر ’’حیات طیبہ‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی اس میں ’’کتاب البریہ‘‘ (طبع اول حاشیہ صفحہ 134تا 146) کے حوالے سے مرزا صاحب کی تحریر درج کی ہے ’’میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بہ زمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔ چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب ’’تاریخ رئیسان پنجاب ‘‘میں ان کا تذہ کرہ کیا ہے۔ غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بسا اوقات ان کی دلجوئی کے لیے حکام وقت ڈپٹی کمشنر، کمشنران کے مکان پران کی ملاقات کرتے تھے۔‘‘ (1)
مرزا صاحب کے برعکس عبدالقادر نے گریفن کی کتاب کا نام ’’تذکرہ روسائے پنجاب‘‘ لکھا ہے اس میں ہے، اس خاندان نے 1857ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کیے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جبکہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر 46منٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سنددی جس میں یہ لکھا ہے کہ 1857ء میں خاندان قادیان ضلع گور داسپور کے تمام دوسرے خاندان سے زیادہ نمک حلال رہا۔ ‘‘ (2)
عبد القادر نے مرزا صاحب کے والد مرزا غلام مرتضیٰ کے بارے میں مزید لکھا ہے ’’جب پنجاب میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا(29،مارچ 1849ء) تو جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے آپ نے قدیم اصول کے ماتحت پوری طرح اس نئی حکومت کے ساتھ بھی تعاون کیا‘‘۔ (3)
بھائی مرزا غلام قادر:
مرزا غلام احمد کے بھائی مرزا غلام قادر کے بارے میں ’’سیرت نگار‘‘ عبدالقادر نے لکھا ’’مرزا غلام قادر صاحب یہ حضرت اقدس کے بڑے بھائی تھے۔ انگریزی حکومت میں کئی معزز عہدوں پر مامور رہے۔ اپنے ضلع گورداسپور میں دفتر ضلع کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے ہیں۔ ‘‘(4)
بیٹا مرزا سلطان احمد:
’’سیرت طیبہ‘‘ میں ہے کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت مختلف عہدوں پر فائز رہ کر ڈپٹی کمشنری اور بالآخرریاست بہاو لپور کے مشیر مال (ریونیومنسٹر) کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور پنشن پانے کے تھوڑے عرصہ بعد اپنے چھوٹے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے‘‘۔ (5)
پوتا مرزا عزیز احمد:
سیرت طبیہ ’میں ہے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے جنھوں نے بچپن میں ہی اپنے جدا مجد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پربیعت کرلی تھی۔ اے ڈی ایم کے عہدہ سے ریٹائر ہوکر پنشن پائی۔ اب مرکز سلسلہ میں ناظم اعلیٰ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔‘‘ (6)
خود مرزا غلام احمد:
’’سیرۃ المہدی‘‘ کے حوالے سے عبدالقادر نے لکھا ہے کہ ضلع گورداسپور میں ایک انگریز افسر آیا تو مرزا صاحب کے والد نے جھنڈا سنگھ کے ذریعے مرزا صاحب کو نوکری دلانے کے لیے بلا بھیجا۔ وہ آئے تو والد کو جواب دیا میں نے تو جہاں نوکر ہوناتھا ہوچکا ہوں۔ بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو؟ مرزا صاحب نے کہا: ہاں ہوگیا ہوں۔ اس پربڑے مرزا صاحب نے کہا: اچھا! نوکر ہوگئے ہو تو خیر (7)
شاید یہی نوکری تھی کہ انگریز حکومت نے انھیں ’’نبی‘‘ کے عہدے پر فائز کیا۔
لیکن آپ کو 1864ء کے قریب سیالکوٹ میں چند سال سرکاری ملازمت کرنی پڑی اور اس ملازمت کی وجہ سے آپ چار سال سیالکوٹ میں رہے۔ (8)
سیرت نگار ‘‘نے کھل کر نہ اسی محکمہ کا نام لیا ہے نہ مرزا صاحب کے عہدے کا جہاں ’’نبوت‘‘ کے عہدے سے پہلے انھیں ’’ٹرائل‘‘ پر ملازم رکھا گیا تھا۔ لیکن کچھ معلومات یوں نقل کی ہیں۔
’’اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے (اب اس عہدہ کانام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے)، کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہواکہ رات کو کچہری کے ملازم منشی،انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں، استاد مقرر ہوئے، مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزیں کی پڑھیں…… چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا، پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘ (9)
یعنی مرزا صاحب انگریز کے در پر دہ نوکر تھے۔ ظاہری طور پر چار سال کچہری کے ملازم منشی کے طور پر چاکری کی انگریزی بھی استاد سے پڑھی مختاری کا امتحان بھی دیا اور ماشاء اﷲ فیل ہوئے۔
رگ وریشہ میں شکر گزاری:
مرزا غلام احمد کی زبان شیطان ترجمان سے سنئے: ’’باعث اس کے کہ گورنمنٹ انگریزی کے احسانات میرے والد بزر گوار مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم کے وقت سے آج تک اس خاندان کے شامل حال ہیں اس لیے نہ کسی تکلف سے بلکہ میرے رگ وریشہ میں شکر گزاری اس معزز گورنمنٹ کی سمائی ہوئی ہے۔ میرے والد مرحوم کی سوانح میں سے وہ خدمات کسی طرح الگ نہیں ہوسکتیں جو خلوص دل سے اس گورنمنٹ کی خیر خواہی میں بجالائے۔ سن ستاون کے مفسدہ (جنگ آزادی کے بارے میں کہا، محمود) میں جبکہ بے تمیز لوگوں نے اپنی محسن گورنمنٹ کامقابلہ کرکے ملک میں شور ڈال دیا، تب میرے والد بزرگوار نے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کرکے اور پچاس سوار بہم پہنچا کر گورنمنٹ کی خدمت میں پیش کیے اور پھر ایک دفعہ چودہ سوار سے خدمت گزاری کی۔ اور انھی مخلصانہ خدمات کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ میں ہرلعزیز ہوگئے۔ چنانچہ جناب گورنر جنرل کے دربار میں عزت کے ساتھ ان کو کرسی ملتی تھی۔ انھوں نے میرے بھائی کو صرف گورنمنٹ کی خدمت گزاری کے لیے بعض لڑائیوں پر بھیجا اور ہر ایک باب میں گورنمنٹ کی خوشنودی حاصل کی۔ بعداس کے اس عاجز کابڑا بھائی مرزا غلام قادر جس قدر مدت تک زندہ رہا اس نے بھی اپنے والد مرحوم کے قدم پر قدم مارا اور گورنمنٹ کی مخلصانہ خدمت میں بہ دل وجان مصروف رہا۔ اب میری حالت یہ ہے کہ ہم نے اس گورنمنٹ کے وہ احسانات دیکھے جن کا شکر کرنا کوئی سہل بات نہیں اس لیے ہم اپنی معزز گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس گورنمنٹ کے اس طرح مخلص اور خیر خواہ ہیں جس طرح کہ ہمارے بزرگ تھے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس گورنمنٹ کو ہر ایک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے! خدا تعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے جیسا کہ اس کا شکر کرنا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔ اگرہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘ (10)
ممکن ہے مرزائی اس طویل تحریر کو ’’قرآن کی شہادت‘‘ قرار دیں کیونکہ یہ مرزا صاحب کی کتاب ’’’شہادۃ القرآن‘‘ کی زبان ہے۔ انھوں نے جنگ آزادی 1857ء کو ’’زمانۂ طوفان بدتمیزی اور غداری‘‘ قرار دیا اور اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ کے نام جے نکلسن،رابرٹ کسٹ کمشنر اور رابرٹ ایجر ٹن فنا نشل کمشنر پنجاب کے سرٹیفیکٹ بھی کتاب میں شائع کیے اور لکھا کہ ان دنوں میں مرزا سلطان احمد (فرزند مولف) کے لیے تحصیلداری کی خاص سفارش فنانشل کمشنر بہادر نے کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ’’عالموں کی تلوار قلم ہے اور فقیروں کا ہتھیار دعا‘‘ مولف نے ان ہتھیاروں کے ساتھ گورنمنٹ کی خیرخواہی ومعاونت سے دریغ نہیں فرمایا۔ یہ بھی کہا کہ ’’گورنمنٹ انگلشیہ خدا کی نعمتوں سے ایک نعمت ہے۔ یہ ایک عظیم الشان رحمت ہے یہ سلطنت مسلمانوں کے لیے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے‘‘۔ (11)
آگے کے پانچ چھ صفحات بھی اسی شکرگزاری کے جذبات سے مملو ہیں۔
کشتی نوح کے پتوار کاپہلا سرا:
مرزا صاحب کی تصنیف ’’کشتی نوح‘‘ کے پہلے دو صفحے ’’گورنمنٹ عالیہ انگریزی‘‘ کی مداحی میں یوں رقم کیے ہیں جس طرح اہل ایمان اپنے خالق ومالک کی تعریف سے آغاز کرتے ہیں۔ (12)
مرزا صاحب کی ’’وحی‘‘ کی حقیقت:
مرزا صاحب اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں اپنے والد کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہمارے معاش کے اکثر وجوہ انھی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریز کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے‘‘۔ (13)
یعنی مرزا صاحب اور ان کا سارا خاندان مرزا غلام مرتضیٰ کی ’’خدمات جلیلہ‘‘ کے صلے میں انگریز حکومت سے ملنے والے مشاہرے اور انعامات پرپلتے تھے۔
مرزا صاحب کا ’’اسلام‘‘:
مرزا صاحب نے ’’اسلام‘‘ کے عنوان سے سیالکوٹ میں یکم نومبر 1904ء کو جولیکچر دیا وہ ان الفاظ پرختم ہوا تھا۔
’’اخیر پرہم اس گورنمنٹ انگریزی کا سچے دل سے شکر کرتے ہیں جس نے اپنی کشادہ دلی سے ہمیں مذہبی آزادی عطا فرمائی۔ یہ آزادی جس کی وجہ سے ہم نہایت ضروری دینی علوم لوگوں تک پہنچاتے ہیں یہ ایسی نعمت نہیں ہے جس کی وجہ سے معمولی طور پر ہم اس گورنمنٹ کا شکر کریں۔ بلکہ تہہِ دل سے شکر کرنا چاہیے۔ ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس محسن گورنمنٹ کے سچے دل سے شکر گزار رہیں‘‘۔ (14)
سلطنت انگریزی تمام عیوب سے پاک ہے:
4نومبر 1905ء کو انھوں نے لدھیانہ میں جو لیکچر دیا اس میں حکومت کے آگے اپنے جھکے ہوئے سرکو مزید جھکایا اور کہا ’’اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایسی سلطنت اور حکومت میں پیدا کیا ہے جو ہر طرح سے امن دیتی ہے اور جس نے ہم کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے پوری آزادی دی ہے (کیوں نہ دیتے کہ اس مذہب کا بٹیر بھی تو انھوں نے ہی آپ کے ہاتھ میں تھمایا۔ محمود) ہر قسم کے سامان اس مبارک عہد میں ہمیں میسر ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہم ایک سلطنت کے نیچے ہیں جو ان تمام عیوب سے پاک ہے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہماری تبلیغ ہرجگہ پہنچ جاوے اس لیے اس نے ہم کو اس سلطنت میں پیدا کیا۔‘‘ (15)
دنیا کی واحدامن بخش گورنمنٹ:
مرزا صاحب نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اسے ’’امن بخش گورنمنٹ‘‘ قرار دیا اور کہا ’’میرا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا میں گورنمنٹ برطانیہ کی طرح کوئی دوسری ایسی گورنمنٹ نہیں جس نے زمین پر ایسا امن قائم کیا ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہم پوری آزادی سے اس گورنمنٹ کے تحت میں اشاعتِ حق کرسکتے ہیں یہ خدمت ہم مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں بیٹھ کر بھی ہرگزبجا نہیں لاسکتے۔ ہم پر اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہوگیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں۔‘‘ (16)
ٓاحادیث میں انگریزی سلطنت کی تعریف:
تریاق القلوب میں انھوں نے کہا ’’یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح حکم ہو کر آئے گا اور وہ اسلام کے تمام فرقوں پر حاکم عام ہوگا جس کا ترجمہ ’’انگریزی گورنرجنرل ہے‘‘ سویہ گورنری اس زمین کی نہیں ہوگی بلکہ ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی طرح غربت اور خاکساری سے آوے۔ سو ایسا ہی ظاہر ہوا تا کہ وہ باتیں پوری ہوں جو صحیح بخاری میں ہیں کہ’’ لِیَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ یعنی وہ مذہبی جنگوں کو موقوف کردے گا اور اس کا زمانہ صلح کاری کا ہوگا۔ جیسا کہ یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے اور سانپوں سے بچے کھلیں گے اور بھیڑیے اپنے حملوں سے باز آئیں گے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے زیر سایہ پیدا ہوگا جس کا کام انصاف اور عدل گستری ہوگا۔ سو ان حدیثوں سے صریح اور کھلے طور پر انگریزی سلطنت کی تعریف ثابت ہوتی ہے۔ (17)
آگے چل کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں‘‘۔ (18)
’’تریاق القلوب‘‘ کے آخر میں صفحہ نمبر 3میں مرزا صاحب نے ’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست‘‘ میں اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ کی انگریزوں کے لیے کی گئی جنگ آزادی 1857ء کے مجاہدین کے خلاف کاروائیاں گنوائیں اور لکھا کہ ’’جنھوں نے (والد) نے بہت سی مصیبتوں کے بعد گور نمنٹ انگریزی کے عہد میں آرام پایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دل سے اس گور نمنٹ سے پیار کرتے تھے اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی ایک میخ فولادی کی طرح ان کے دل میں دھنس گئی تھی۔ لیکن میں اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیر خواہی اور ہمددری میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کو؟ بیس برس کی مدت سے میں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اورعربی اور اردو انگریزی میں شائع کر رہا ہوں کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ اور دلی جانثار ہوجائیں اور اس گورنمنٹ محسنہ کے ناشکر گزار نہ بنیں اور نمک حرامی سے خدا کے گنہگار نہ ٹھہریں۔ کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اورعزت کی محافظ ہے۔ ‘‘(19)
دانا، دور اندیش اور مدبر گورنمنٹ:
کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ میں بھی کئی مقام پر انگریز کی تعریف وثنا میں رطب اللسان دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری مدبر گورنمنٹ کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ناظرین جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کس قدر دانا اور دور اندیش اور اپنے تمام کاموں میں بااختیار ہے اور کیسی کیسی عمدہ تدابیر اور رفاہ عام کے لیے اس کے ہاتھ سے نکلتی ہیں۔‘‘ (20)
انگریز حکومت کی اطاعت واجب ہے:
مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ چہارم میں لکھا ’’اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اٹھاوے اس کے ظل حمایت میں بہ امن وآسائش رہ کر اپنا رزق مقسوم کھاوے اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پرعقرب کی طرح نیش چلاوے اور اس کے سلوک اور مروت کا ایک ذرہ شکر بجالاوے، بلکہ ہم کوہمارے خداوند کریم نے اپنے رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اور منعم کا شکر بجالا ویں اور جب کبھی ہم کو موقع ملے تو ایسی گورنمنٹ سے بدل صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیب خاطر معروف اور واجب تلوار پر اطاعت اٹھاویں۔‘‘ (21)
مکہ مدینہ یا قسطنطنیہ والے درندوں کے بطور ہیں:
براہین احمد یہ حصہ پنجم میں ایک جگہ لکھا‘‘ میرے بیان میں کوئی ایسالفظ نہیں ہوگا جو گورنمنٹ انگریزی کے برخلاف ہو اورہم اس گورنمنٹ کے شکر گزر ہیں کیونکہ ہم نے اس سے امن اور آرام پایا ہے۔ (22)
معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے والد، بھائی، بیٹا پوتا اور وہ خود انگریز حکومت کے وظیفہ خوار تھے۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ تمام عیوب سے پاک تھی، دنیا کی واحد امن بخش حکومت تھی۔ ان کے نزدیک احادیث میں بھی اسی حکومت کی تعریف ہے۔ وہ اس حکومت کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں اور اگرچہ پچاس الماریوں ولی’’بانگی ‘‘ان کے دیگر تمام جھوٹوں کی طرح بہت بڑا جھوٹ ہے لیکن بہر حال انھوں نے قریبا اپنی ہرتحریر میں اس گورنمنٹ کی مدح وثناء کی ہے۔ مرزا صاحب مکہ، مدینہ اور قسطنطنیہ والوں کو اپنے لیے درندے تصورکرتے ہیں۔ شاید اسی لیے پاکستان میں اپنے کفر کا اعلان ہونے کے بعد قادیانی خلیفے اپنے نبی صاحب کے موجدومخترع ملک انگلستان میں جابسے ہیں۔
حواشی اور حوالہ جات
(1) عبد القادر (سابق سودا گرمل) حیات طیبہ۔ عبد اللطیف شاہد گجراتی پرنٹر پبلشر مسجد احمدیہ، بیرون دہلی دروازہ لاہور۔ مطبع اردو پریس لاہور ایڈیشن اول۔ 1959ء ص 7 (میرے پاس ایڈیشن دوم ہے جس پر عبد القادر نے 4 مارچ 1960 کو پیش لفظ لکھا) (2) حیات طیبہ ص 9 (بحوالہ ’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ جلد دوم ص 68-67) (3) ایضاً۔ ص 10 (4) ایضاً ص 12 (5)ایضاً ص 16 (6) ایضاً ص : 16 ۔(7)ایضاً24(بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اول۔ طبع اول۔ ص 48) (8) ایضاً۔ ص 25 (9) ایضاً ص 32-30
(10) مرزا غلام احمد قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ شہادۃ القرآن۔ نظارت اصلاح وارشاد ربوہ۔ 1968۔ ص الف تاد (پہلی بار سات سوکی تعداد میں پنجاب پریس، سیالکوٹ میں چھپی تھی۔ (11) شہادۃ القرآن۔ ص ذتا غ (12) مرزا غلام احمد قادیانی ’’سلطان القلم ‘‘کشتی نوح نظارت اصلاح وار شادربوہ س ن ۔ ص 7-4-3 ۔۔۔(13) مرزا غلام احمد حقیقۃ الوحی۔ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور۔ 1952۔ ص 210 ۔(14) اسلام (مرزا غلام احمد قادیانی کا لیکچر سیالکوٹ )الشرکۃ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ، س ن۔ ص 68 (15) لیکچر لدھیانہ، الشر کۃ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ س ن،ص 34-33(بنیادی طور پر مرزا صاحب کا یہ لیکچر ’’بدر‘‘ کی 20دسمبر 1906کی اشاعت میں چھپا)
(16) مرزا غلام احمد، ازالہ اوہام حصہ اول مطبع ریاض ہند،بار اول 1308ھ (میرے ذخیرہ کتب میں جونسخہ ہے اس کے گتے پر احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ، بطور ناشر درج ہے) (17) مرزا قادیانی تریاق القلوب ، ضیاء الاسلام پریس قادیان، ص 15(مرزا صاحب نے کتاب کے آخرمیں اپنے نام کے ساتھ 4نومبر 1900ء کی تاریخ لکھی ہے) (18) ایضاً ، ص 25 (19) ایضاً ، ص 307
(20) مرزا ـغلام احمد، آریہ دھرم مینجر بک ڈپو تالیف واشاعت قادیان۔ دسمبر 1936ء ص 62 (21) مرزا غلام احمد قادیانی،براہین احمدیہ (حصہ چہارم) حضرت مرزا غلام احمد فاؤنڈیشن لاہور ،طبع چہارم ، 1906ص (183پہلی بار کتاب سفیر ہند پریس ، امرتسر میں 1880ء میں چھپی کتاب کا پورا نام ’’البراہین الا حمدیہ علیٰ حقیقت کتاب اﷲ القرآن والنبوۃ المحمدیہ‘‘ ہے) (22) مرزا غلام احمد قادیانی براہین احمد یہ حصہ پنجم، احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور، س ن ، ص 215