حافظ عبیداﷲ
جماعت مرزائیہ جس طرح قرآن وحدیث اور دوسرے بزرگان وصوفیاء کرام کی عبارات میں تحریف معنوی کرکے اپنی خود ساختہ نبوت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے، ایسے ہی حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ کے مختلف مقامات سے ناتمام عبارات ماقبل ومابعد کے الفاظ حذف کرکے پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مولانا بھی اجراء نبوت کے قائل تھے حالانکہ مولانا اپنی اسی کتاب میں منکر ختم نبوت کو کافر ومرتد کہتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ مرزائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ بھی دانستہ یا نادانستہ اس بات پر مصر ہے کہ حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ اجراء نبوت کے قائل ہیں اور قادیانیوں نے انہی کی عبارات کو دلیل بناکر مرزا قادیانی کی نبوت کو ثابت کیا ہے، ہمارے خیال میں یہ حضرات مولانا نانوتویؒ کے ساتھ بغض کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں کیونکہ مرزائی تو حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اﷲ دہلویؒ، ملا علی قاریؒ، شیخ محی الدین ابن عربیؒ اور شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ وغیرہم کی عبارات بھی اپنے حق میں پیش کرتے ہیں تو پھر صرف مولانا نانوتویؒ پر یہ غصہ اور ناراضگی کیوں؟ کہ مرزائی صرف ان کی عبارات سے اپنا عقیدہ ثابت کرتے ہیں؟ اصل میں بہت سے لوگ قصور فہم کی وجہ سے مولانا کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوئے اور کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر مولانا کی کتاب کے مختلف مقامات سے ناتمام عبارتوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا جس سے سادہ لوح عوام تردد میں پڑگئے، اﷲ ہمیں عدل وانصاف کے ساتھ کام لینے کی توفیق دے۔
ہم سب سے پہلے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی وہ عبارات پیش کرتے ہیں جن کے اندر صاف طور پر انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کا زمانہ آخری ہے، اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے آنے کا احتمال نہیں، جو اس کا قائل ہو اسے کافر سمجھتا ہوں وغیرہ، اس کے بعد ہم مولانا کی تحذیر الناس کی اس عبارت (یا عبارت کے ٹکڑوں) پر بات کریں گے جنہیں لے کر جماعت مرزائیہ اور ہمارے کچھ نا سمجھ مسلمان دوست بھی مولانا کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوئے۔
’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جواس میں تاویل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں‘‘
مولاناؒ لکھتے ہیں:
’’اپنا دین وایمان ہے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تاویل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم، کورنگی، کراچی)
واضح رہے کہ مولانا نانوتویؒ کی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ کی کچھ عبارات پر ایک صاحب علم مولانا عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا کے سامنے چند اعتراضات واشکالات خطوط کی صورت میں پیش کیے تھے جن کاجواب مولانا نانوتویؒ نے دیا، مناظرہ عجیبہ اسی سلسلے کی خط وکتابت کا مجموعہ ہے، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’مناظرہ عجیبہ‘‘ گویا ’’تحذیر الناس‘‘ کی شرح ہے جس میں حضرت نانوتوی ؒنے تحذیر الناس میں لکھی گئی عبارات کی تشریح اوروضاحت فرمادی۔
مولانا نانوتویؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں…‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 9 ، مکتبہ قاسم العلوم، کورنگی، کراچی)
لیجیے مولانا صاف لکھ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی یعنی آپ کا تمام انبیاء کے آخر میں مبعوث ہونا تو ایسی بات ہے جو سب کے نزدیک مسلم ہے، اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں۔خاتمیت زمانی سے انکارنہیں بلکہ منکروں کے لئے انکار کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’حاصل مطلب یہ ہے کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں بلکہ یوں کہیے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاؤں جما دیے،اور نبیوں کی نبوت پر ایمان ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا …‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 71، مکتبہ قاسم العلوم، کورنگی، کراچی)
یہاں ایک بار پھر صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی سے مولانا کو انکار نہیں، اسی طرح آپ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو افضل الرسل سمجھتے ہیں اور آپ کے ہم مرتبہ کسی کو نہیں سمجھتے۔
پھر مولانا عبدالعزیز صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’آپ ہی فرمائیں تأخرِ زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا اور کہاں باطل کیا؟ مولانا میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں، اہل زبان میں مشہور ہیں‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 52)
آگے چلنے سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مولانا نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کا رسالہ ’’تحذیر الناس‘‘ در اصل ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا جس میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ایک اثر جس میں سات زمینوں اور ان کے انبیاء کا ذکر ہے اور جسے امام بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جلد 2 صفحہ 268، باب بدء الخلق، روایت نمبر 832،طبع مکتبۃ السوادی) کو درج کرکے اس کی آیت خاتم النبیین کے ساتھ تطبیق دریافت کی گئی تھی کہ آیا بیک وقت آیت اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس اثر پر عقیدہ رکھنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب تین طرح سے ممکن تھا:
نمبر 1: آیت اور اس اثر میں تعارض ہے لہذا حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے اس اثر کو غلط سمجھا جائے۔
نمبر 2: یہ اثر صحیح ہے، پھر آیت کے ساتھ اس کی تطبیق یوں ہے کہ آیت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت صرف ہماری اس زمین کے اعتبار سے بیان کی گئی ہے اور آپ صرف اس زمین کے خاتم النبیین ہیں۔
نمبر 3: آیت اور ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے اثر دونوں کو تسلیم کرکے ایسی تطبیق دی جائے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت صرف اس زمین تک محدود نہ رہے بلکہ باقی زمینوں بلکہ ساری کائنات پر محیط ہو۔
چنانچہ کچھ لوگوں نے پہلی یا دوسری صورت اختیار کی، لیکن مولانا نانوتویؒ نے آیت اور اثر ابن عباسؓ دونوں کو صحیح قرار دے کر تیسرا جواب اختیار کیا۔ مولانا کی ساری کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہماری زمین کے اعتبار سے تو خاتم النبیین ہیں باعتبار خاتمیت مرتبی کے بھی اور باعتبار خاتمیت زمانی کے بھی، لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاتمیت صرف اسی زمین تک محدود نہیں بلکہ پوری کائنات کے بھی خاتم النبیین ہیں، اور چونکہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں مزید چھ زمینوں اور ان میں ہونے والے نبیوں کا بھی ذکر ہے تو اگر بالفرض ہزار زمینیں بھی اور ہوتیں اور ان میں سلسلہ نبوت جاری ہوتا اور چونکہ ان کے انبیاء کے بارے میں یہ تصریح نہیں آئی کہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے ہوئے یا بعد میں تو دونوں احتمال موجود ہیں پس اگر وہ انبیاء بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے آئے تو ان کے لئے بھی آپ خاتم النبیین ہیں زمانے کے لحاظ سے بھی اور مرتبے کے لحاظ سے بھی اور اگر بالفرض (جی ہاں اگر فرض کیا جائے کہ) دوسری زمینوں کے انبیاء آپ کے ہم عصر یا بالفرض آپ کے بعد ہوں تو بھی آپ ان تمام نبیوں کے بھی خاتم ہوتے لیکن صرف ختم نبوت مرتبی اور ذاتی کے لحاظ سے۔ مرزائی مربیوں نے مولانا کی اس بات کو جو ختم نبوت مرتبی سے متعلق ہے سیاق وسباق سے کاٹ کر اس طرح پیش کیا کہ گویا یہ ختم نبوت زمانی سے متعلق ہے اور محض اتنے ہی حصے کو مولانا کا عقیدہ بتا کر دھوکہ دیا اور مولانا نے خاتمیت زمانی کے بارے میں جولکھا اسے یکسر ذکر نہ کیا گیا۔
فائدہ:
ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم زمانہ کے لحاظ سے اﷲ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملنی اور نہ کسی نبی کا پیدا ہونا ممکن ہے، یہ شان آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس وقت حاصل ہوئی جب تمام انبیاء یکے بعد دیگرے دنیا میں تشریف لاچکے اور سب سے آخرمیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا، جبکہ ختم نبوت مرتبی کا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد تمام مراتب ختم ہیں اور آپ مرتبے کی لحاظ سے بھی تمام انبیاء سے آخر ہیں اور شان کے لحاظ سے اﷲ کے آخری نبی ہیں، ختم نبوت مرتبی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس وقت بھی حاصل تھی جب ابھی حضرت آدم علیہ السلام خلعت نبوت سے سرفراز نہ ہوئے تھے، اس ختم نبوت مرتبی کے ہوتے ہوئے تمام انبیاء کرام یکے بعد دیگرے تشریف لاتے رہے، معلوم ہوا کہ صرف ختم نبوت مرتبی اپنی ذات کے لحاظ سے اور نبیوں کو مانع نہیں، لیکن عقیدے کے لئے صرف یہی ختم نبوت مرتبی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ختم نبوت زمانی کا اقرار بھی لازم ہے جیساکہ مولانا نے متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی ہے (جن میں سے کچھ حوالے پہلے بیان ہوئے اور چند آگے بیان ہوں گے)۔
تو مولانا نانوتویؒ کے مطابق آیت خاتم النبیین سے ختم نبوت مرتبی اور ختم نبوت زمانی دونوں ثابت ہیں، چاہے ختم نبوت مرتبی کو آیت کا مدلول مطابقی لیا جائے اور ختم نبوت زمانی کو اس کا مدلول التزامی، یا دوسری صورت یہ کہ ختم نبوت کو عام اور مطلق رکھا جائے اور ختم نبوت زمانی ومرتبی (بلکہ ایک تیسری قسم ختم نبوت مکانی) کو بھی آیت خاتم النبیین کا مدلول مطابقی قرار دیا جائے، اور اس دوسری صورت کو مولانا نے اپنا مختار بتلایا ہے، بہرحال دونوں صورتوں میں سے جو بھی اختیار کی جائے ختم نبوت زمانی کا اقرار دونوں میں موجود ہے اور ختم نبوت مرتبی اس کے علاوہ ایک اور فضیلت ہے۔
’’خاتمیت زمانی کا منکر کافر ہے ‘‘
مولانا نانوتویؒ لکھتے ہیں:
’’سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو ثبوت خاتمیت زمانی ظاہر ہے ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے اور تصریحات نبوی مثل [أنت منی بمنزلۃ ہارون لموسیٰ الا أنہ لا نبی بعدی۔ اوکما قال] جو بظاہر بطرز مذکور اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ہے کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے پھر اسی پر اجماع بھی منعقد ہوگیا گو الفاظ مذکور بسند تواتر منقول نہ ہوں سو یہ عدمِ تواتر الفاظ باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض ووتر وغیرہ، باوجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں جیسا اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا اب دیکھیے کہ اس صورت میں عطف بین الجملتین اور استدراک اور استثناء مذکور بھی بغایت درجہ چسپاں نظر آتا ہے اور خاتمیت بھی بوجہ احسن ثابت ہوتی ہے اور خاتمیت زمانی بھی ہاتھ سے نہیں جاتی‘‘۔ (تحذیر الناس، صفحہ 12 و 13، دار الاشاعت کراچی)
اس عبارت میں مولانا نے ختم نبوت زمانی کو نہ صرف یہ کہ منطقی دلیل ہی سے تسلیم کیا ہے بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ ختم نبوت زمانی لفظ خاتم النبیین سے ثابت ہے جو قرآن میں موجود ہے اور حدیث شریف اور اجماع امت سے بھی ثابت ہے اور جس طرح فرائض وغیرہ کی رکعات کی تعداد کا منکر کافر ہے اسی طرح ختم نبوت زمانی کا منکر بھی کافر ہے۔
اور مناظرہ عجیبہ میں ہے:
’’بلکہ اس سے بڑھ کر لیجیے (تحذیر الناس کے) صفحہ نہم کی سطر دہم سے لیکر صفحہ دہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں اور اسی تقریر کو اپنا مختار بتایا ہے‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 70، مکتبہ قاسم العلوم کراچی)
پھر یہ بھی لکھا:۔
’’اگر خاتم کو مطلق رکھیے تو پھر خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی تینوں اس سے اسی طرح ثابت ہو جائیں گے جس طرح آیت ’’انما الخمر والمیسر والانصاب رجس من عمل الشیطان‘‘میں لفظ رجس سے نجاست معنوی اور نجاست ظاہری دونوں ثابت ہوتی ہیں اور اس ایک مفہوم کا انواع مختلفہ پر محمول ہونا ظاہر ہوتا ہے‘‘۔ (مناظرہ عجیبہ، صفحہ 53)
اور آگے لکھا:
’’بالجملہ جیسے اخبار قیام ِ زید وعمرو مخالف ومعارض قیام زید نہیں بلکہ مع شیء زائد اس کی تصدیق ہے، ایسے ہی اس صورت میں میری تفسیر مع شیء زائد مصدقِ تفسیر مفسران گذشتہ ہوگی نہ مخالف اورمعارض‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 53)
پھر لکھا:
’’اور سنیے آپ خاتمیت زمانی کو معنی مجمع علیہ فرماتے ہیں اگر یہ مطلب ہے کہ خاتمیت زمانی مجمع علیہ ہے خاتم النبیین سے ماخوذ ہو یا کہیں اور سے تو اس میں انکار ہی کسے ہے، اور اگر یہ مطلب ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے مراد ہونا مجمع علیہ ہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے جو یہ آپ پردہ میں آوازہ خرقِ اجماع کستے ہیں، تحذیر (یعنی تحذیر الناس۔ ناقل) کو غور سے دیکھا ہوتا تو اس میں خود موجود ہے کہ لفظ خاتم تینوں معنوں پر (یعنی خاتمیت زمانی، مرتبی اور مکانی۔ ناقل) بدلالت مطابقی دلالت کرتا ہے اور اسی کو اپنا مختار قرار دیا تھا…‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 115)
معلو م ہوا کہ مولانا تو خاتمیت زمانی ومرتبی بلکہ مکانی کو بھی آیت خاتم النبیین سے ثابت فرمارہے ہیں۔ اور یہ بیان فرمانا چاہ رہے ہیں کہ عام طور پر آیت خاتم النبیین سے صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت زمانی ہی ثابت کی جاتی ہے،جبکہ میرے نزدیک اس آیت سے ختم نبوت مرتبی اور زمانی دونوں بلکہ ایک تیسری قسم ختم نبوت مکانی بھی ثابت ہوتی ہیں۔ یہ ہے وہ فرق جس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ مولانا نے گذشتہ مفسرین کی تفسیر کے خلاف تفسیر کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے مفسرین سابقین کی تفسیر کو قبول کرتے ہوئے ختم نبوت مرتبی ومکانی کا ایک اضافی نکتہ بیان فرما یا ہے۔
قارئین محترم! ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی پر الزام لگانے سے پہلے اس کی تمام عبارات وبیانات کو پڑھا اور سمجھا جائے، اگر اس نے اپنی کسی بات کی تشریح وتوضیح خود کی ہے تو اسے قبول کیا جائے، یہ ہرگز انصاف نہیں کہ کسی کی بات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر، یا شرط کو جزا سے، اور جزا کو شرط سے کاٹ کر، ایک فقرہ ایک صفحے سے لے کر اور دوسرا فقرہ کسی اور صفحے سے لے کر خود ایک عبارت ترتیب دے کر اس پر فتوی لگا دیا جائے۔ انصاف تو یہ تھا کہ جب مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ نے خود فرمادیا کہ:
’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم، کورنگی، کراچی)
تو پھر نہ کسی الزام کی گنجائش نظر آتی ہے اور نہ کسی اعتراض کی۔
فیصلہ کن بات:
جہاں تک جماعت مرزائیہ کا تعلق ہے ان سے یہ کہوں گا کہ اگر عقائد کے باب میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کی تحریر کوئی وزن رکھتی ہے تو جس کتاب کے فقرے سے وہ اجراء نبوت کے عقیدے پر استدلال کرتے ہیں اسی کتاب میں جیساکہ بیان ہوا مولاناؒ ختم نبوت زمانی کے منکر کو قرآن کریم، حدیث متواتر اور اجماع امت کا منکر اور کافر کہتے ہیں، اس لئے مولانا کی تحریر سے استدلال کرتے ہوئے وہ بے شک اجراء نبوت کا عقیدہ رکھیں لیکن از راہ انصاف (اگر وہ انصاف نام کی کسی چیز سے واقف ہیں تو) اجراء نبوت کا عقیدہ رکھنے والے کو کافر بھی قرار دیں۔ اگر یہ دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں تو ضرور کرنی چاہئیں، اور اگر جمع نہیں ہوسکتیں تو اس سے ثابت ہوگا کہ انہوں نے مولانا نانوتویؒ کی جس عبارت سے اجراء نبوت کا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس کامطلب نہیں سمجھے، اور یہ ’’نا سمجھی‘‘ شاید انہیں ان کے پیشوا مرزا قادیانی سے ورثے میں ملی ہے کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی تو اپنے اوپر ہونے والے (بزعم خود) وحی والہام کا مطلب بھی نہیں سمجھ پاتا تھا ، اور کبھی تو کسی ہندو سے اس کا مطلب پوچھا کرتا، کبھی اپنے کسی مرید سے بذریعہ خط اس کا مفہوم معلوم کیا کرتا اور کبھی بااقرار خود بارہ بارہ سال تک اپنے اوپر ہونے والی وحی کو نہ سمجھ کر اس میں تاویل کرتا رہا ۔
اور جہاں تک میرے ان کرم فرماؤں کا تعلق ہے جو اپنے آپ کو ”مجاہدین ختم نبوت” بھی کہتے ہیں اور پھر آنکھ بند کرکے مکھی پر مکھی مارتے ہوے یہ نعرے لگاتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اﷲ ختم نبوت زمانی کے منکر تھے اور وہ اجراء نبوت کا عقیدہ رکھتے تھے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اﷲ سے ڈریں، صرف اپنے مسلکی تعصب کی وجہ سے انصاف کا خون نہ کریں، اور مولانا کے یہ الفاظ پڑھیں:
’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘۔(مناظرہ عجیبہ، صفحہ 144، مکتبہ قاسم العلوم، کورنگی، کراچی)
جب خود مولانا نے واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان فرما دیا تو پھر آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کفر کے فتووں کی توپیں چلاتے جائیں؟ دنیا کا وہ کونسا مفتی ہے جو ایسے آدمی پر منکر ختم نبوت ہونے کا فتویٰ صادر کرے جو صاف اور واضح الفاظ میں اقرار کرے کہ ’’اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی اورنبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تأمل کرے اسے کافر سمجھتا ہوں‘‘؟
نیز مکتب دیوبند کے ہزاروں لاکھوں علماء و مفتیان کرام ہوئے، آج بھی ان کے دار الافتاء موجود ہیں، کیا کسی ایک مفتی یا کسی ایک عالم نے یہ فتویٰ دیا کہ ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہے‘‘؟ کیا علماء دیوبند منکرِ ختم نبوت کو کافر نہیں کہتے؟ کیا عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت نامی تنظیم اسی مکتب دیوبند سے منسلک نہیں؟ کیا علماء دیوبند کا ردِّ قادیانیت پر لٹریچر موجود نہیں؟ تو پھر کتنی نا انصافی ہے کہ بیک جنبش قلم لکھ دیا جائے کہ ’’مکتب دیوبند والے تو ختم نبوت کے منکر ہیں‘‘؟
اعدلوا ھو أقرب للتقوی۔