مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ کی تحریرات کی روشنی میں
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
یہ بات تو اتر سے عوام وخواص کے نزدیک ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنھم کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے خصوصی تعلق تھا اور ان تینوں حضرات کو آپ کا قرب واختصاص حاصل تھا اور ان تینوں کے آپ کے ساتھ رشتے ہیں ۔دو صحابہ ؓکی صاحبزادیاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں اور ایک کے نکاح میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں تھیں اور کہیں اس کاذکر نہیں آتا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی مذمت کرتے تھے یا ان پر لعنت کرتے تھے بلکہ معروف یہی ہے کہ آپ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی تعریف فرماتے تھے۔ اب دوحال سے خالی نہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ تینوں حضرات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ظاہر ً اوباطناً صالح، وفادار اور سلیم العقیدہ اور صحیح العمل تھے یا یہ کہ وہ تینوں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد استقامت پر نہیں تھے اور (معاذ اﷲ ) دین سے منحرف تھے۔ دوسری صورت میں اگر اس حالت اور انحراف کے باوجو دان کو آپ کا تقرب حاصل تھا تو دو میں سے ایک بات ماننی پڑے گی یا توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کے حالات کا علم نہیں تھا یا علم تھا لیکن آپ معاذ اﷲ مداہنت کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے ہر صورت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان پر بڑا دھبہ اور بہت بڑا اعتراض ہے تو وہی بات ہوگی جو شاعر نے کی ہے:
فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ……::…… وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم
اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی تک تو وہ راہ راست پر تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی امت کے خواص اور اکابر اصحاب رضی اﷲ عنھم کے بارے میں بڑا دھوکا اور ناکامی ہوئی ہے، جس شخص کو اپنے بعد کی اطلاعیں دی گئی تھیں اور جس نے اپنے بعد ہونے والے واقعات کی خبردی اس کو اتنی بات نہیں معلوم تھی کہ اس کے اخص الخواص اسی طرح منحرف ہوجائیں گے اور احتیاط کا تو یہی تقاضا تھا کہ امت کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی خبر دے جاتے تاکہ وہ غلطی سے کہیں ان کو خلیفہ نہ بنائیں۔ اور جس شخص سے یہ وعدہ کیا گیا کہ اس کادین تمام ادیان پر غالب ہوگا اس کے اکابر وخواص کیسے مرتد ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی باتوں سے روافض ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر بہت بڑا اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے صحیح فرمایا ہے کہ دراصل روافض (اسی طرح وہ لوگ جو عدالت صحابہ کو مجروح کرنا چاہتے ہیں) نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مطعون کرنا چاہا تاکہ لوگ کہیں کہ برے آدمی تھے، اس لیے ان کے برے ساتھی تھے اگر اچھے آدمی ہوتے توان کے ساتھی بھی اچھے ہوتے۔ اس لیے اہل علم کا قول ہے کہ رفض زندقہ کی ایک سازش ہے (منہاج السنۃ، ج ۴،ص ۱۲۳)
فضائل صحابہ قطعی اور متواتر ہیں
امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی عدالت کو اسلام کی ایک اہم بنیادمانتے ہیں اور ان کو ان کی صداقت اور ثقاہت پر بڑایقین ہے ۔وہ ان کو اسلام کی تعلیم کا سچا نمونہ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تربیت اور فیض صحبت کا بہترین نتیجہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے فضائل ایسے قطعی اور متواتر ہیں اور قرآن مجید کی ایسی صریح نصوص وآیات سے اور ایسی احادیث وروایات سے ثابت ہیں کہ وہ کسی تاریخی روایت یا کسی غریب اور شاذ حدیث سے مشکوک نہیں ہوسکتے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’جب کتاب وسنت اور نقل متواتر سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے محاسن وفضائل ثابت ہوچکے ہیں تو یہ درست نہیں کہ وہ ایسی منقولات سے رد ہو جائیں جن میں سے بعض منقطع اور بعض محرف ہیں۔ اور بعض ایسی روایات ہیں جن سے ان ثابت شدہ حقائق پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوا کرتا۔ ہم کوکتاب وسنت اور اپنے پیشروؤں کے اجماع اور ان کی مؤید اور متواتر روایات اورعقلی دلائل سے اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل الخلق تھے اس یقینی اور متواتر چیز پر ان امور کا اثر نہیں پڑسکتا جو مشکوک ومشتبہ ہیں چہ جائے کہ جن کا باطل ہونا ظاہر ہوچکا ہے‘‘ (ج۳،ص ۲۰۹)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ اس کے قائل نہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم، انبیاء علیہم السلام اور حضو ر اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح معصوم تھے، ان سے گناہ کاصدور ہوہی نہیں سکتا لیکن وہ ضرور اس کے قائل ہیں کہ امت کے تمام لوگوں میں وہ سب سے زیادہ عادل، خدا تر س صادق القول، امین اور راست باز تھے۔ اگر ان سے غلطیاں یا گناہ ہوئے تو اس کے مقابلہ میں ان سے ایسے اعمال حسنہ اور خدا ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو راضی کرنے والے کام ہوئے جو ان سیئات کا کفارہ بن گئے اور بہرحال ان کے حسنات اور اعمال کا پلہ ان کی تقصیرات پر بھاری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی کے بھی گناہوں سے معصوم ہونے کے قائل نہیں چہ جائے کہ خطاء فی الاجتھاد کے بھی قائل نہ ہوں، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ لَھُمْ مَّا یَشَآ ءُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ۔ لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عنْھُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَھُمْ اَجْرَ ھُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (ترجمہ) اور جو سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی پرہیز گار ہیں، ان کے لیے جو کچھ وہ چاہیں گے ان کے رب کے پاس موجود ہوگا نیکو کاروں کا یہی بدلہ ہے تاکہ اﷲ ان سے وہ برائیاں دور کردے جو انہوں نے کی تھیں اور اﷲ ان کو ان کا اجردے ان نیک کاموں کے بدلہ میں جو وہ کیا کرتے تھے (الزمر ۳۳۔۳۴)
اﷲ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں :
اُوِلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْھُمْ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّئَا تِھِمْ فیِٓ اَصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ (ترجمہ) یہی وہ لوگ ہیں جن سے ہم وہ نیک عمل قبول کرتے ہیں جو انہوں نے کیے اور جنتیوں میں شامل کرکے ان کے گناہوں سے در گزر کرتے ہیں ۔یہ اس سچے وعدے کے مطابق ہے جو ان سے کیا گیا تھا۔(۱لاحقاف: ۱۶)
صحابہ کرام کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی :
وہ کہتے ہیں کہ ان بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجودجو انسانیت کا لازمہ ہیں مجموعی حیثیت سے انبیا علیہم السلام کے علاوہ افراد انسانی کا کوئی مجموعہ اور انسانوں کی کوئی نسل صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے بہتر سیرت وکردار کی نظر نہیں آتی اگر ان کی زندگی میں کہیں کہیں کچھ ہلکے سے دھبے اور داغ نظر آتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے سفید کُرتے میں کہیں بھی تھوڑی سی سیاہی نظر آجائے یہ عیب چینوں کا قصور ہے کہ ان کو اس کپڑے میں سیاہی کا نقطہ تو نظر آیا اور اس کپڑے کی سفیدی نظر نہ آئی۔دوسری جماعتوں کا تو حال یہ ہے کہ ان کا سارا نامہ اعمال سیاہ نظر آتا ہے کہیں کہیں ان سے سفیدی نظر آتی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام اخیارِ امت ہیں۔امت محمدی میں کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جو ان سے زیادہ ہدایت اور دین حق پر مجتمع اور تفرق واختلاف سے دور ہو۔ ان کی زندگی میں کوئی نقص کی بات بھی نظر آتی ہے تو اگر اس کا کسی دوسری امت کے حالات زندگی سے مقابلہ کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں معلوم ہوتی۔ غلطی اس شخص کی ہے جس کو سفید کپڑے کی تھوڑی سی سیاہی تو نظر آتی ہے مگر سیاہ کپڑے کی تھوڑی سی سفیدی نظر نہیں آتی۔ یہ بڑی نادانی اور بڑاظلم ہے اگر ان اکابرکا اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے مقابلہ کیا جائے تو پھر ان کی فوقیت اور ان کی ترجیح ظاہر ہو۔ باقی یہ کہ کوئی شخص اپنے دل میں کوئی خیالی تصویر بنائے یا کوئی معیار تجویز کرے جس کو اﷲ تعالیٰ نے پیدا ہی نہ کیا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک شخص اپنے دل میں ایک امام معصوم کا تصور قائم کرلیتا ہے۔ ایک شخص ایک اور ایسے امام کا تصور قائم کرتا ہے جس میں اور معصوم میں کوئی فرق نہیں اگرچہ اس کو صاف صاف معصوم نہیں کہتا۔ اور وہ تجویز کرتا ہے کہ عالم کو یا شیخ کو یا امیر کو یا بادشاہ کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور خواہ وہ کیسا ہی کثیر العلم ،کیساہی دیندار صاحب محاسن ہو اور اس کے ہاتھ سے اﷲ تعالیٰ نے کیسے ہی خیر کے کام کرائے ہوں لیکن یہ تجویز کرتا ہے کہ اس کو ایسا کامل العلم ہونا چاہیے کہ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو اور وہ کسی بھی مسئلہ میں غلطی نہ کرے وہ بشریت کے لوازم وخصائص سے پاک ہو ،کبھی اس کو غصہ نہ آتا ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں بلکہ بہت سے لوگ تو ان ائمہ کے متعلق وہ بھی تسلیم کرتے جو انبیاء تک کے لیے تجویز نہیں کرتے ہیں۔‘‘(منہاج السنہ، ج ۳ص ۲۴۲)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ اس پر بڑا زور دیتے ہیں کہ جس شخص کی ساری تاریخ پر نظر ہوگی اور اس نے مختلف قوموں اور امتوں اور ملتوں کے حالات پڑھے ہوں گے اور مختلف انسانی جماعتوں کا تجربہ کیا ہوگا اس کو اس بات کا یقین ہوجائے گاکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سے زیادہ متحد، حق کی پیر و،فتنہ اور افتراق سے نفور اور نفسانیت ودنیاداری سے دور کوئی جماعت نہیں گزری۔ وہ لکھتے ہیں:
جس شخص نے دنیا کے تمام فرقوں کے حالات اور واقعات کا اہتمام سے مطالعہ کیا ہے اور ان کے حالات کا تتبع کیا ہے وہ جانتا ہے کہ کوئی گروہ ایسا نہیں گزرا جو ہدایت ور شدپر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سے زیادہ مجتمع اور تفرق واختلاف سے ان سے زیادہ دور ہو۔ ان صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے شہادت دی ہے کہ وہ اس کی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔ وہ فرماتا ہے’’ تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان لاتے ہو‘‘ ہم مسلمانوں میں جو کچھ خیر ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی برکت ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ صحیح فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس علم ودین کا جو کچھ سرمایہ ہے، خیر وبرکت کا جوکچھ ذخیرہ ہے، شعائر اسلام کی بلندی، اسلام کی اشاعت، عمل خیر کے جو کچھ محرکات اور جوکچھ توفیق خیر ہے اور یہ پوچھئے تو عالم میں اس وقت جو کچھ صلاح وخیر نظر آرہی ہے وہ سب صحابہ کرام کی جاں فشا نیوں، اخلاص، علو ہمت، ایثار اور قربانیوں کا نتیجہ اور ان کے نفوس قدسیہ کی برکت ونورا نیت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ بڑے جوش سے لکھتے ہیں:
وَاَمَّا الْخُلَفَاءُ وَالصَّحَابَۃُ فَکُلُّ خَیْرٍ فِیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْاِیْمَانِ وَالْاِ سْلَامِ وَالْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ وَالْمَعَارِفِ وَالْعِبَادَاتِ وَدُخُوْلِ الْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃِ مِنَ النَّارِ وَاِنْتِصَارِھِمْ عَلَی الْکُفَّارِ وَعُلُوِّ کَلِمَۃِ اللّٰہِ فَاِنَّمَا ہُوَ بِبَرَ کَۃِ مَافَعَلَہُ الصَّحَابَۃُ الَّذِیْنَ بَلَّغُوا الدِّیْنَ وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُلُّ مُؤْمِنٍ آَمَنَ بِاللّٰہِ فَللصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ عَلَیْہِ فَضْلٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَکُلُّ خَیْرٍ فِیْہِ الشِّیْعَۃُ وَغَیْرُ ھُمْ فَھُوَ بِبَرَ کَۃِ الصَّحَابَۃِ وَغَیْرُ الصَّحَابَۃِ تَبِعٌ لِخَیْرِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ فَھُمْ کَانُوْا اَقْوَمَ بِکُلِّ خَیْرٍ فِی الدِّیْنِ وَالدَّنْیَا مِنْ سَائِرِ الصَّحَابَۃِ۔
اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمانوں کے پاس جو کچھ خیر ہے مثلاً ایمان واسلام۔ قرآن ۔علوم ومعارف، عبادات دخول جنت، جہنم سے نجات ،کفار پر غلبہ، اﷲ کے نام کی بلندی وہ سب صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی کوششوں کی برکت ہے۔ جنہوں نے دین کی تبلیغ کی اور اﷲ کے رستہ میں جہاد کیا ،جومؤمن بھی اﷲ پر ایمان لایا اس پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کا احسان قیامت تک رہے گا اور شیعہ لوگوں کو بھی کچھ خیر حاصل ہے وہ بھی صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی برکت اور غیرِ صحابہ کی خیر خلفائے راشدین کی خیر کے تابع ہے، اس لیے کہ وہ دین دنیا کی ہر خیر کے ذمہ دار اور سر چشمہ ہیں: (مطبوعہ: ’’الحق‘‘ اپریل، ۱۹۷۷ء)