تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار ساتویں قسط راج پال کافتنہ ۱۹۲۷ء:

تالیف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ

بظاہر ایک قابل اعتراض تحریک اپنے دورِ اوّل میں احرار نے بھی جاری کی۔ شدھی اور سنگھٹن کی مسموم فضا سے فائدہ اٹھا کر آریہ ویروں نے ایک بہت ناپاک حرکت شروع کی۔ یعنی غریب عوام کی آخری پناہ گاہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ناپاک حملے آغاز کردیئے ۔ شہروں میں ٹولیاں بنا کر اور جلوس نکال کر مجسم نمازو دعا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر برملا اتہام لگانے اور ان کے متعلق اخلاق سوز شعر پڑھنے لگے۔ ’’رنگیلا رسول ‘‘نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے صبر کا متحان لینا چاہا۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق مسلمان عاشقانہ احساس رکھتا ہے۔ اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے بدمعاشوں نے ایکا کرکے دنیا کے افضل ترین انسان پر کیچڑ اچھالنا اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ اس لیے بدمعاشوں کا انجام بدنصیبی کے سوا کچھ نہ ہونا چاہیئے چنانچہ وہ والہانہ جان پر کھیل کر خون کی ہولی کھیل جاتا ہے۔ ہماری جماعت کے افراد بلا استثنا علم بردارِ مساوات محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی شے محبت کے متوالے ہیں۔ انھوں نے مصلحت اندیش عقل کے خلاف اور عشق کے مطابق قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ برملاکہہ دیا کہ نورِ نبوت کے کیرکٹر کے خلاف کہنے والی زبان نہ رہے یا سننے والے کان نہ رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خنجر نے بدزبانوں کی زبان کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ ، مولانا حبیب الرحمنؒ ، غازی عبدالرحمنؒ ، بشیر رفیقی اور دوسرے دوست اگرچہ سال سال کے لیے جیل چلے گئے مگر سوامی شردھانند’’ رنگیلا رسول‘‘ کے ناشرراج پال اور کئی ایک بدگو نیکوں کے پاک دامن پر بدنامی کا داغ لگانے کے باعث ذرا جلدی دوسرے جہان میں جواب دہی کے لیے پہنچادیئے گئے۔ قتل سب عشق کے قانون کے مطابق ہوئے۔ ہمیں ابھی ملک شریعت کا قانون معلوم نہ تھا۔ نہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ہمارے عمل کی غلطی تھی کیونکہ عشق اور شریعت اکثر متصادم رہتے ہیں۔ عاشق اکثر محبت کی وارفتگی میں شریعت کی حدود کو روندتا نکل جاتا ہے اور سمجھتا یہی ہے کہ میں برسر حق ہوں۔
چُھوت:
ہندو دھرم ایک عجیب نازنین مذہب ہے کہ کسی اپنے کے ہاتھ لگنے سے میلا ہو جاتا ہے اور بیگانے کا سایہ پڑنے سے ناپاک ہوجاتا ہے۔ کسی عاشق صادق کو بھی ایسے مشکل محبوب سے واسطہ نہ پڑ ا ہوگا۔ ہمیں ہندوؤں کی بعض ادائیں پسند ہیں۔ انھیں دل دے کر لینا نہیں چاہتے، مگر وہ ہماری محبت کے روادار نہیں۔ مجلسی لحاظ سے عجیب متشکک ومترددقوم ہے۔ کسی لاجونتی کو دیکھو جو صبح جل بھرنے جمنا جارہی ہو، یا پوجا کا سامان سج کر مندر میں آرتی اتانے چلی ہو کسی مسلمان رہ گزر کے سایہ سے بچنے کے لیے اس بیچاری کو کتنا تر دد رکھنا ہوتا ہے ۔ ادھر ادھر سے کتنے زاویے کاٹ کر اسے چلنا پڑتاہے ۔ جسم مسلمان کے جسم سے نہیں بلکہ پلوپلو سے چھوجائے تو بھی نہ بھوجن موہن کے قابل، نہ جل چلو بھر پینے کے لائق۔ کہو ایسی قوم سے کس بدھ ملنا ہو؟ کانگریسی مسلمان ہر صبح اُٹھ کر مسلمانوں کو گالیاں دینا پیشہ بنا لیتا ہے کہ کم بخت ہندوؤں سے مل کر ہندوستان کو آزاد نہیں کرالیتا۔ مگر وہ جوشِ لیڈری میں ہندوکی مجلسی زندگی کے سب سے نمایا ں اور تکلیف دہ پہلو کو یکسر نظرانداز کر جاتا ہے کہ ہندو چھوئی موئی قوم کا ایک فرد ہے۔ جو عام طور پر مسلمان کے سایہ سے بھی بدکتی ہے۔ بلکہ کسی ہندو محلہ میں کسی مسلمان دوست کا گزرنا آسان نہیں کہ جائے اور جاکر کسی ہندودوست کو بلالائے ۔ اوّل تو ہر ہندو محلے پر آہنی سلاخوں کے دروازے لگے ہیں پہرہ دار تمہاری مداخلت پر اعتراض کریں گے۔ جہاں آہنی دروازے نہیں وہاں بھی ہندومعز ترین مسلمان کوآوارہ دیویوں کا درشن ابھلاشی اور عشق کی چوٹ کھا کر محبت کا آوارہ متلاشی سمجھ کر اپنے محلوں میں آنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اگر کسی کو تجربہ نہیں تو وہ کسی ہندو محلے کا رُخ کرکے دیکھ لے۔ غریب مسلمان ہوگا تو وہ دولت کا چور سمجھا جائے گا۔ اچھے لباس میں ہوگا تو حسن کا ڈاکو تصور کیا جائے گا۔ اگر ایسے شبہات عزت و عصمت تک محدود ہوں تو قابل اعتراض نہیں ۔ آوارہ مزاج لوگوں سے عورتوں کی عصمت بچانا پرم دھرم ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ مال تجارت میں بھی ’’مجھے نہ چھوؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ کیاکوئی مسلمان ہندو حلوائی کی دوکان کے قریب پھٹک سکتا ہے۔ یہ ستم ظریف مسلمان کے ہاتھ چھوا ہوا زرقند بھی ہاتھ سے نہ لیں گے۔ بلکہ اس غرض کے لیے کاٹھ کی ڈوئی استعمال کی جاتی ہے۔ مسلمان کو پانی پلانے کے لیے ایک بانس کی لمبی نالی برتی جاتی ہے۔ یا خدا…… ہندوستان کے مسلمان کو کس ہمسایہ سے سابقہ پڑا ہے جومحبت کے تمام دروازوں کو ہم پر بند کیے بیٹھا ہے۔
اس نفرت زا چھوت کا اثر ہمارے ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہے۔ صدیوں سے عملاً ہمارا تجارتی بائیکاٹ جاری ہے۔ نہ صرف مجلسی طور پر ہم کمتری محسوس کررہے ہیں بلکہ مالی طورپر بھی مسلمان برباد ہے۔ کیونکہ وہ محض ایک گاہک کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمان ہی ہندو کا خریدار ہے۔ ہندو مسلمان کی دکان کا گاہک نہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ خریدار آخر ایک دن پونجی ختم کر بیٹھتا ہے۔ ہماری دولت تو ہندو کے گھرجاتی ہے۔ ہندو کی پائی مسلمان کے گھر نہیں جاتی۔ اس طرح قارون بھی لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اربابِ علم فطرتِ انسانی پر بدسلوکی کے اثر کو دیکھیں۔ مسلمان ہندو سے دست بگریباں ہو کر کیوں خوش ہے وہ اس لیے اس کی انسانیت اس سلوک کا انتقام چاہتی ہے۔ وہ ہندو کو مار کر ہی خوش نہیں۔ بلکہ کسی نہ کسی رنگ میں اس سے جھگڑا جاری رکھ کر اسے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ فطرت کے ان تقاضوں کو گاندھی کے مضامین اور مولانا آزاد کے وعظ پورا نہیں کر سکتے۔ جب تک ہندو ومسلمان میں چھوت خلیج حائل ہے۔ ہندوستان کے مسائل کا اطمینان بخش حل مشکل ہے۔ ہندوستان کے سیاسی گروہ کو یہ ثمر حاصل نہیں کہ وہ کہہ سکے کہ اس نے سائنٹیفک طریقے سے ہندومسلم سرپھٹول کے اصل اسباب معلوم کیے ہیں۔ ہم علم و عقل کو آزمائشوں میں ڈال کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمان کو ہندو کے سلوک سے برحق غصہ ہے۔ ممکن ہے کہ بعض دفعہ وہ خون ناحق کا باعث بھی ہوتا ہے۔ مگر قلوب میں آگ لگا کر امن کی امید رکھنا نادانی ہے ۔ دانائی کا تقاضایہ ہے کہ سب سے پہلے ہندو انقلاب حال کی کوشش کرے۔ محض انقلاب زندہ باد کے نعرے آزادی کے دن قریب نہ لاسکیں گے۔
لیکن محض ہندو کی نیک دلی پر اعتماد کر کے بیٹھ جانا مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ ہندو قوم فرشتوں کی جماعت نہیں جن مسلمانوں کے دل میں چھوت کے باعث ہو ک اٹھتی ہے اور اس میں اپنی تباہی کا خطرہ دیکھ رہے ہیں۔ ان کا فرض ہے وہ آتش بجاں مجاہدوں کی طرح حالات سے جنگ کرنے نکلیں ۔ ہندو کو اصلاح میں صدیاں لگیں گی۔ عراق سے تریاق آنے سے پہلے مارگزیدہ مرجائے گا۔ اس لیے چھوت کے باعث مسلمان کو اقتصادی اور سیاسی موت سے بچانے کا کوئی اورجتن کرنا چاہیے۔ کیا اس کے سوا کوئی چارہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک الگ اقتصادی نظام کی داغ بیل ڈالی جائے مگر اس طرح کہ ہندوؤں کی مجلسی تنگ دلی کی بھی اصلاح ہوتی جائے اور مسلمان ذلت اور پریشانی سے بھی بچ جائے وقت اور ماحول کے تقاضے کے پیشِ نظر یہی تجوید سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان بطور قوم کے صرف اس ہندو کے ہاتھ کی چیز لے کر کھائیں یا استعمال کریں۔ جو مسلمان کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی چیز کھا سکتا ہو۔ یا استعمال کرتا ہو یہ کہنا کہ ہندو نجس ہے۔ اس لیے اس سے چھوت لازم ہے غلط ہے۔ کیوں کہ بروئے اسلام ہر انسان جوٹھا تک پاک ہے۔ یہ تجویز تو چھوت کا جواب ہے۔ مذہب نہیں نہ ہم ملک میں جھگڑا پیدا کرنے کے حق میں ہیں لیکن چھوت کے باعث یقینی چھوت سے بچنا چاہتے ہیں۔
ہم نے ۱۹۲۵ء میں چھوت کے خلاف آواز اٹھا کرگو یا مسلمان کے دل کے تار کو مضراب سے چھیڑ دیا۔ یوں معلوم ہوا کہ سازبے آواز کو زبان مل گئی۔ اور ساری قوم سرمست ہو کر جھوم گئی کیونکہ آواز اس کے اپنے دل کی صدا کی بازگشت تھی۔ اپنا گا یاہواراگ کس کومیٹھا نہیں لگتا۔ اپنی بنسری کی دھن پر قوم خود ناچنے لگی۔جگہ جگہ دوکانیں کھلنے لگیں۔ مگر ہندو پریس کا شور رنگ لایا۔ ہندو انگریز میں مالیات کے متعلق کچھ ذہنی اتحاد ہے سرمیلکم کی حکومت نے اس مجلسی تحریک کو شرانگیز قرار دیا۔ افسران ضلع کے نام احکام صادر کر دیے کہ اس اقتصادی تحریک کو کچل دینا چاہیے۔ افسران ضلع کامزاج مشرق کے روایتی معشوقوں کی طرح نازک ہوتا ہے وہ کسی معقول بات کو سننا گوارا نہیں کرتے ہم نے ہر چند کہا۔ کہ اس تحریک کو سیاسیات سے کوئی علاقہ نہیں مگر ان میں تاب سخن کہاں؟ غریب لوگ افسر ان کے ہاتھ میں شاہین کے پنجہ میں شکار کی طرح عاجز اور بے بس ہوتے ہیں۔ نئے مسلم دوکانداروں پر آفت آگئی۔ متعدد مقامات پر ان کی گرفتاریاں کر لی گئیں اور مدتوں مقدمات چلتے رہے حکومت وقت کے خلاف صف آراہونا اور باوجود افسر ان کی سختیوں کے تجارت کوجاری رکھنا ناممکن ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری تحریک کو دھکا لگا۔ خاص کر کانگریسی حلقوں کی طرف سے ہم ملزم گردانے جانے لگے کہ تم نے مسلمانوں کو نئی مصیبت میں پھنسا دیا۔ اور ایک فرقہ وارانہ بھوت کھڑا کردیا ہم نے سر میلکم ہیلی گور نر پنجاب کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ اور بپھر گیا۔ مدتوں تک پریشانیوں میں کوئی صورت سمجھ میں نہ آئی۔لیکن اتنی بات اور واضح ہوگئی۔ ہندو اور انگریز کا کم از کم اقتصادی تحریکات میں اتحاد ہے۔ انگریز اس خالص مجلسی تحریک کو کسان اور مزدور کی تحریک کی طرح سرمایہ داری کے خلاف ہی بغاوت سمجھتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ دنیا میں اوپر والے اوپر اور نیچے والے نیچے رہیں۔ اور کسی گوشے سے انقلاب کی آواز نہ اٹھے مباد انظام سرمایہ داری کی کوئی اینٹ کسی وجہ سے ہل کر ساری عمارت کے دھڑام سے گرجانے کا باعث نہ ہو۔
سلطان ابنِ سعود:
مکے کا شریف حسین انگریزی تدبیروں کا کامیاب مہرہ تھا جس نے سارے عرب میں بغاوت کی آگ پھیلا دی۔ لیکن جنگ کے بعد اپنے سنہری خوابوں کو بالو ریت میں بدلا دیکھ کر انگریز کے خلاف بھی ہاتھ پاؤں ہلانا چاہتا تھا۔ انگریز کی بساطِ سیاست پر ایسے بیسیوں مہرے موجود رہتے ہیں جنھیں وہ ضرورت کے وقت کام میں لانے کے لیے زیر نظر رکھتا ہے۔ اس نے شریف حسین کو ابنِ سعود سے مات دلائی اور اسے بھی ترکوں کے آخری خلیفہ کا ساانجام دیکھنا پڑا اور غریب الوطنی کی موت قبول کرنا پڑی ۔ اب ابنِ سعود کا سارے عرب میں طوطی بولنے لگا۔ خشک قسم کا وہابی تھا۔ مکے مدینے میں قدم رکھا تو بھونچال لے آیا قُبوں کو گراکر ہموار کردیا۔ اس کام سے شریعت کا اوّل اجرا ہوا۔ ہندوستان میں صاحب قبرسے زیادہ قبہ محترم ہے، یہاں ایک ہنگامہ برپاہوا۔ حج کے موقع پر مولانا محمد علی ، سید سلیمان ندوی کی سرکردگی میں ایک وفد بھیجا گیا۔ کہ حالات کی تحقیق کر کے مجلسِ مرکزیہ خلافت میں رپورٹ کرے مولانا محمد علی مرد مجاہد تھے۔ رائے قائم کرکے دنیا سے برسرِ پیکار ہو کر سب سے منوانا چاہتے تھے۔ مکے میں پہنچ کر ابنِ سعود کے گلے کا ہار ہوگئے، مرکز اسلام میں جمہوریت کا اعلان کردے۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ کم ز کم سرزمین پاک ہی میں حکومت الٰہیہ کانقشہ قائم ہو۔ جہاں شاہ گدا کا وجود نہ ہو او راسلامی براداری میں پوری پوری برابری ہو۔ ابنِ سعود نے انھیں نگاہ تیز سے دیکھا ۔ دونوں طرف سینوں میں مخالفت کے تیر ترازوہوئے۔ ان کی واپسی پر ہنگامہ اور بڑھاسنی اور وہابی دست بگریباں ہوئے۔ احرار کے موجودہ گروہ نے زیادہ دلچسپی نہیں لی تاہم مجلسِ خلافت پنجاب کے طبقۂ اولیٰ میں وہابی عنصر زیادہ تھا۔ مولانا محمد علی اور مولانا آزاد کی چشمک میں وہ مولانا آزاد کاحامی تھا۔ ان کی سرگرمیوں نے سب کو ملوث کرلیا ہمارے گروہ میں کچھ دو دلی سی پائی جاتی تھی۔ ہم شریف حسین کے دیس بدر ہونے پر خوش تھے کہ غدار اپنے انجام کو پہنچا مگر قبے گرانے کے متعلق متذبذب تھے۔ اس دودلی میں علم و اعتقاد کی جنگ تھی۔ علم کہتا تھا کہ اسلام کے بوریا نشین بزرگوں نے اپنے دوران زندگی میں نہ اپنے مکان میں پختہ اینٹ لگائی نہ کسی کے لگنے دی۔ علم عقل سے اپیل کرتا تھا کہ دیکھو کہ سب قبے اور مقبرے سرمایہ داروں کی سنگ دلی کا نتیجہ ہیں، جنھوں نے غریبوں کا خون عمر بھر چوسا اور اپنی دولت کا قلیل حصہ اپنے اعتقاد کی نمائش کے لیے بزرگوں کی قبروں پر لگادیا اور غریب بدستور پڑوس میں بھوکے بیٹھے رہے۔ جانتے ہو کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ مسلمان بادشاہوں اور شہنشاہوں نے جب غریب مسلمانوں کی ہڈیوں پر سلطنت کی عمارت کھڑی کی اور اپنے آرام و عیش کے لیے محلات تعمیر کیے توا ن پاک بزرگوں کی غریبانہ قبروں کو دیکھ کر شرمندہ ہوئے اور ان قبروں کی سادگی سے اپنے محلات کی میناکاری کا مقابلہ کر کے کچھ دل میں اداس سے رہنے لگے۔ا ن کے لیے آسودہ زندگی بسر کرنے کا اور کوئی سوائے اس کے ذریعہ نہ تھا کہ بزرگوں کی قبریں بھی سرمایہ داری کی ہنستی بولتی تصویریں نظر آئیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے عیش محل کا بچاہوا سامان عمارت ان پاک ہستیوں کی قبروں پر استوار کیا تاکہ دنیا جان لے کہ ان بزرگوں کو غریب عوام سے کچھ تعلق نہ تھا۔ اگر ان کا ناطہ تھا تو ان امراء اور رؤ ساء سے۔ دیکھو سر مایہ داروں نے بزرگوں کی قبروں پر نمائش کر کے بھی دین حنیف کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اسی لیے جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبرمبارک کا کچا حجرہ گراکر عالی شان عمارت بنانا چاہی تو مدینے کی عوام بچوں کی طرح بلکتے گھروں سے باہر نکلے اور التجا کی کہ خدارا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کچی آرام گاہ کو گراکر پختہ محل کھڑانہ کرو۔اسے اسی حال میں رہنے دو تاکہ آنے والی نسلیں اندازہ کرسکیں کہ مہرِ نبوت نے کس طرح بسر اوقات کی۔ شاید امراء اور روساء نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ غریبی کو دیکھ کر سامان سرمایہ داری سے نفرت کریں لیکن امراء بنو امیہ کو تو محلات میں رہنے کا جواز چاہیے تھا۔ جس امت کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا ہو اور ایک ٹاٹ اور کھاٹ جس کے گھر کا سامانِ آرائش وآسائش ہو۔ اس امت کے افراد سرمایہ دارانہ زندگی کیسے بسر کریں۔ عوام کی نظروں سے دین کے والی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سادہ قبر کو سجا کر ہی اپنے محلات کو جواز ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ انھوں نے لوگوں کی آنسو بھری اپیلوں کی کچھ پروانہ کی۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاک حجرے کو گرایا اور اس پر پختہ عمارت تعمیر کردی تاکہ سادگی پسند اور غریب کی اصل زندگی کی طر ف مسلم عوام کا دھیان ہی نہ جائے۔ اگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر اصل حال میں ہوتی تو اس کی زیارت سے سرمایہ داروں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت قائم رہتی۔ اور اس طر ح نظام سرمایہ داری کے چکنا چور ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ بنابراین نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے فرماں بردار ساتھیوں کو ایک امر کبیر اور سرمایہ داروں کے طریقے رکھنے والے ظاہر کرنا ان کے لیے بے حد مفید تھا۔ اب جبکہ مسلمان عوام کی دل و دماغ کی ساخت سرمایہ داری کی مشین میں تیرہ سوبرس ڈھل کر بدل گئی۔ تو ابنِ سعود کا ظہور ہوا عوام کی عقیدت اب شان سرمایہ داری سے ہوگئی۔ اور سرمایہ داری کا جادو چل چکا تھا۔ اب قبے گرے تو مسلمان عوام نے سمجھا کہ دین کی بنیادیں ہل گئیں۔ خدا کا سادہ دین تو نگاہ سے اوجھل ہوچکا تھا یہی کچھ اسلام تھا جو ان کی آنکھوں کو نظر آتا تھا۔ عالی شان عمارتوں کا گرجانا دین کی عمارات کاگرجانا قرارپایا۔ مسلمان مسجدوں میں آہ وزاری کرنے لگے۔
بیچارہ ابنِ سعود بھی سرمایہ دارانہ ماحول کا پرورش یافتہ تھا۔ اسے خود اسلام کا منشا معلوم نہ تھا اس نے چند قبے گرائے مگر خود شاہانہ بسر اوقات کرنے لگا۔ اس بھلے آدمی سے کوئی پوچھے کہ اگر تمہیں خود محلات میں رہنا ہے تو قبوں کو گرانے سے کیا مطلب ۔ لیکن اصول کو سمجھ کر فروع کی پیروی کرنے والے دنیا میں خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ وہ شاہانہ لباس اور بادشاہی سطوت کو نگاہِ نفرت سے دیکھتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ جلوے اسلام کی ضد ہیں۔ غرض نہ قبے گرانے والوں نے نہ اس پررونے والوں نے اپنے عمل کی حقیقت کو سمجھا۔ ورنہ اگر قبے گرانے تھے تو پہلے اپنے محلات کو مسمار کر کے ہموار کرتا۔ اور شاہانہ تزک و احتشام چھوڑ کر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا اسلوب اور اصول اختیار کرتا۔
حالات متذکرہ کے پیش نظر تو ہم خاموش رہے مگر مولانا محمد علی اورمولانا آزاد کے پیروکار گروہوں میں خوب چلتی رہی۔ مولانا آزاد کی ہمدردیاں مسلمہ طورسے ابن سعود کے ساتھ تھیں مولانا حسرت موہانی نے خوب سرگرمی دکھائی۔ اوران کے مقابلے میں طبیعت کے تقاضوں سے مجبور مولانا ظفر علی خان بیچارے ابن سعود کے لیے کراچی میں ذلت اٹھاتے رہے۔ ان سب جھنگڑوں اور اختلافات کا آخری نتیجہ پنجاب مجلس خلافت کی مرکز سے علیحدگی ہواکیونکہ مولانا عبدالقادر قصوری اس وقت جماعت کے لیڈر تھے۔ اور جماعت اہل حدیث میں بھی ان کا خاص درجہ تھا اور مولانا آزاد سے گہرا تعلق بھی۔
میری ذات کا جھگڑا:
غرض ۱۹۳۰ء ختم ہو کر ۱۹۳۱ء کا آغاز ہوا۔ تو ایک طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ساری امیدوں پر پانی پھرچکا تھا۔دوسری طرف مجلس خلافت جومسلمانوں کی بڑھتی مرادوں اور اٹھتی امنگوں کا مرکز تھی چپ بے جان ہوکر رہ گئی۔ ہم کانگریس اور خلافت دونوں جماعتوں کے عہدیدار تھے۔ اب خلافت مرکزیہ سے علیحدگی کے باعث صرف کانگریس کے رکن رہ گئے جیسا ابتداء میں ذکر ہوا ۔ مجلس احرار کے موجودہ گروہ نے باوجود مولانا محمد علی شوکت علی گروپ کی پوری علیحدگی اورمسلم کانفرنس بنانے کے مسلمانوں کی کانگریس کے لیے قربانیوں میں زیادہ فرق نہ آنے دیا۔ میری بدقسمتی کہ مولانا آزاد جب خود گرفتار ہوئے تو اپنی جگہ پر کرنے کے لیے بغیر میرے مشورے کے مجھے نام زد کرگئے۔ باوجود اس کے کہ خرابی صحت کی بنا پر میں جیل نہ جانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے خلاف قانون اجلاس منعقدہ دہلی میں شامل ہو کر ڈاکٹر انصاری پریزیڈنٹ پٹیل، پنڈت مالویہ اوردوسرے دوستوں کے ساتھ گرفتار ہو کر سزایاب ہوا۔ اس کے بعد گاندھی ارون پیکٹ کی بنا پر سب اسیرانِ سیاسی کی رہائی عمل میں آئی اور کراچی میں کانگرس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ مہاتماگاندھی نے مولانا آزاد اور مولانا عبدالقادر قصوری کے مشورے سے ڈاکٹر عالم کو نئی ورکنگ کمیٹی کا ممبر نام زد کردیا۔ ان کا نام زبان سے نکلتے ہی ساراپنڈال مخالفانہ آوازوں سے گونج اٹھا جو لوگ پنڈال میں موجود تھے۔ میں ان کی دیانت داری پربات چھوڑتاہوں کہ وہ شہادت دیں کہ آیا وہ مخالفت کیا کسی پہلے سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی؟ میرا یقین ہے کہ ایسانہ تھا۔ میں دیانت داری سے اعلان کرتاہوں کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کی نامزدگی کا گاندھی جی کے اعلان ہی سے پتہ لگا۔ البتہ مجھ سے یہ بھول ضرور ہوگئی کہ میں مہاتما گاندھی سے وہیں سب کے سامنے یہ کہہ بیٹھا کہ مولانا عبدالقادر قصوری ہی کو نامزد کردیا جاتاتو بہتر تھا۔ یہ نہیں کہ میں ڈاکٹرصاحب کے پھلنے پھولنے سے خار کھاتا تھا۔ بلکہ دانا دوست کی طرح اس بلندی پر جانے سے ضرور روکنا چاہتا تھا جہاں چڑھ کر گرنے سے اس کی شہرت اور ساتھیوں کی عزت میں فرق آتا بہت سی خوبیوں کے ساتھ ان میں بعض ایسی کمزوریاں ہیں جو نزدیک رہنے والوں کو نظرآتی ہیں۔ ورنہ دور کے ڈھول تو ہر شخص کو سہانے معلوم ہوتے ہیں۔
بس میری اتنی سی کہی کی ڈاکٹر صاحب نے دل میں گرہ باندھ لی۔ مولانا عبدالقادر نے نہ میری سنی نہ گاندھی جی کی مانی۔ مجھے ملال ہواکہ ایک دانا نادانی کررہا ہے اور جان بوجھ کر مکھی نگلنا چاہتا ہے۔ بعض وقت تو بدظنی نے یہاں تک کہا کہ مولانا کو ڈاکٹر صاحب سے بیر لینا مقصود ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ بڑی بلندی سے ایسا گرے کہ گر کر اٹھنا محال ہو جائے۔ سچ پوچھو تو وہ ایسا گراکہ سیاسیات میں بے ٹھکانے ہو گیا۔ باوجود فطرتی اور سیاسی اختلاف کے مجھے ان سے بے حد محبت ہے۔ نقائص سے کس کی ذات پاک ہے میں جو قلم لے کر محاسبہ کررہا ہوں کہاں کا فرشتہ ہوں بس اﷲ کی ذات پاک ہے یا وہ جن کا دامن خدا خود بچائے۔
یہ چھوٹا سا واقعہ غلط طور سے احرار اور کانگریس کے سیاسی تعلقات میں اہمیت اختیار کرگیا۔ آنے والے واقعات نے اس رائی کو پہاڑ بنا دیا۔ا گرچہ نہرورپورٹ دریائے راوی کی نذر کردی گئی تھی۔ تاہم ڈاکٹر انصاری مرحوم برابراس کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے غوطے لگارہے تھے۔ وہ سکھوں کی کبھی نہ مطمئن ہونے والی قوم کو کچھ مزیدحقوق دے کر مطمئن کرنا چاہتے تھے۔ احرار گروپ کے لیے مشکل یہ تھی وہ نہرورپورٹ مسلمانوں میں مقبول بناتے وقت کافی زخم اٹھا چکا تھا۔ اب اس کی قوت برداشت کسی مزید بوجھ کی متحمل نہ تھی۔ لیکن ڈاکٹر مرحوم نے بطور کانگریس کے صدراور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر فرید پور میں ہنگامی تقریر کی او ر سکھوں کو نہرورپورٹ کی تجویزوں سے زیادہ حقوق دینے کا اعلان کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ نیک دل ڈاکٹر نیک نیت لیڈر کی طرح کچھ گھر سے دے کر جھگڑا چکانے کی امیدوں میں ہمیں از سر نو کانٹوں میں گھسیٹ کر پھر سانپوں سے کھیلنے کے لیے جا رہا ہے۔ میں نے بھی مدرسے کی مارسے ڈر کر جماعت سے بھاگ جانے والے لڑکے کی طرح استعفاء کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاکٹر انصاری صاحب کو لکھ دیاکہ پنجاب کے سودے میں تورتی کی گنجائش نہیں آپ دھڑیاں تول رہے ہیں۔ جب قوم نے نہرورپورٹ کو نہ مانا تو مزید حقوق دینے پر اس کو کیسے آمادہ کر سکیں گے اس لیے میں پنجاب کی سیاسی گتھی سلجھانے میں اور گنجائش نہ پاکر مستعفی ہوتاہوں۔
میری عام عقل تقاضا کرتی تھی کہ جب نہرورپورٹ ایک لاوارث کی موت مرچکی ہے تو اب مخلوط انتخاب کی قبر پر مجاوربن کر بیٹھا رہنا کہاں کی دانائی ہے۔ ہم نے نہرورپورٹ کے ذریعے سیاسیات میں پہلی دفعہ مخلوط انتخاب کے تصور کو اپنایا۔ جب ہم ۱۹۲۸ء میں آل انڈیا کانفرنس لکھنو پر چلے تھے تو اس سے چند دن قبل پنجاب خلافت کمیٹی نے علیحدہ انتخاب پر قائم رہنے کا ریزولیوشن خاص طور پر منظور کیا۔ مولانا مظہر علی خود لکھنو نہیں گئے مگر ان کا ذوق ہی معلوم ہوتا تھا کہ علیحدہ انتخاب کے علاوہ کوئی صورت قطی منظور نہ کی جائے۔
مولانا ظفر علی خان ، ڈاکٹر عالم ، میاں سراج الدین پراچہ نے لکھنو پہنچ کر جان کی بازی باندھ لی کہ ہم مخلوط انتخاب کے بغیر دم نہ لیں گے۔ مولانا عبدالقادرؒ ، غازی عبدالرحمنؒ ،مولانا حبیب الرحمنؒ نے اپنے دل کے دروازے کھلے رکھے کہ رپورٹ پر مزید غور کر کے رائے قائم کی جائے۔
میرا اس رپورٹ کو پڑ ھ کر ذہن یہ ہوا کہ پنجاب کے ہندو اور سکھ اس رپورٹ کی بنیادوں کو قبول نہ کر سکیں گے اور یہ وقت ہے کہ ہم ہندو اور سکھ کی صداقت کا امتحان کریں۔جیسا میں نے عرض کیا ہے ہم مرکز میں فیڈریشن کی انتہائی صورت قبول کر کے صوبوں کومکمل آزادی دی جانے کے حق میں تھے۔ اور بنابررائے دہندگئی بالغاں مخلوط انتخاب کو منظور کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ بظاہر اس میں مسلمانوں کا کوئی نقصان نظرنہ آتا تھا۔ مولانا مظہر علیؒ اور سید عطاء اﷲ شاہ صاحبؒ کو بدقت تمام نہرورپورٹ پر رضامند کر لیا گیا۔ مگر چارسال کے تجربے کے بعد معلوم ہوا کہ پنجاب کے ہندو اور سکھ تو اس رپورٹ کو صبح سمن کامنہ دیکھنے کے برابر اپنے لیے بدفال سمجھتے ہیں۔ ہم اس مرد ے کو کہاں تک چھاتی سے بندریا کی طرح چمٹا ئے پھریں؟
میں نے ہندو پریس اور ہندو اور سکھ دوستوں کا عجب ذہن پایا۔ وہ نہرورپورٹ کو قبول بھی نہ کرتے تھے۔ اور یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ مسلمان کانگریسی کارکن مخلوط انتخاب کے خلاف اعلان کریں۔ نہرورپورٹ کے مردے کو راوی گھاٹ جلانے اور راکھ کو اس کی لہروں میں بہانے کے بعدہندوؤں کا توحق تھا کہ وہ کسی شونتی کی طرح نہرو رپورٹ کی چتا میں جل کر راکھ ہوجاتے۔ یا کسی لاجونتی کی طرح عمر بھر اس کی یاد میں رویا کرتے۔ مگر یہ کام انھوں نے مسلمانوں کے سپرد کرنا چاہا۔ مسلمان عدت کے دن پورے کرنے کے بعد بیوہ کو دو دن گھر بٹھا نا اسلامی منشاء کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اور بیوی کی موت کے دس دن بعد ایمان کو بذریعہ شادی قائم رکھنے کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی دوستی کا حق ادا کیا نہرورپورٹ کے کریا کرم کے بعد تک برابر ماتم کیا۔ اور ہائے مخلوط انتخاب وائے مخلوط انتخاب پکارتے رہے۔ آخر بالوں کی سیاہی سفیدی میں تبدیل ہونے لگی پھر دھیان آیا صبر کرو۔ اور محبت کی خیالی دنیاسے نکل کر عمل کی دنیا میں آؤ۔ عشق کی راہوں میں پڑ کرنا کارہ بیٹھے رہنے سے کیا فائدہ پچھلے تجربے کی روشنی میں عمل کی نئی راہ تلاش کرو۔
پھر علیحدہ انتخاب:
کانگریس کمیٹیوں کے نئے انتخاب شروع ہوئے۔ امرت سر میں غازی عبدالرحمن اور ڈاکٹر کچلو ایک مملکت میں دو سرداروں کی طرح حریفانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو ایثار پیشہ اور زبان آور تھا۔ لیکن اس کی سعی و عمل کا دائرہ زیادہ تر ہندو اور سکھ حلقہ تھا۔ وہ مسلمانوں سے نامانوس تھا لیکن آزادی کا دل دادہ ہونے کے باعث مسلمانوں میں نا مقبول بھی نہ تھا۔ غازی صاحب کا سارا کام اور نام مسلمانوں میں تھا۔ وہ زبان آور توڑ جوڑ کاآدمی تھا۔ کچلو کو سیاسیات میں تنگ تو کر سکتا تھا لیکن بے دخل کرنے کے ذرائع پر قادر نہ تھا۔ جس ایثار پیشہ شخص کی پشت پر سرمایہ ہو وہ مفلس مخلص کوناک چنے چبوا سکتا ہے۔ امرت سر کی صدارت کے لیے ان دونوں میں رسہ کشی ہوئی۔ ادھر شہر کی سرمایہ دار ہندو آبادی ڈاکٹر کچلو کی پشتیبان تھی اور غازی صاحب کے ساتھ محض ماجھے گامے تھے۔ سید عطاء اﷲ شاہ پولنگ افسر تھے، سرمائے نے زور دکھایا بے زری بے بسی کے دانت نکالے کھڑی تماشہ دیکھتی رہی ہندوہجوم نے شاہ صاحب کو بھی دھر لیا عجب ہنگامہ ہو ا ۔ شاہ صاحب تو پہلے ہی مخلوط انتخاب کے متعلق کچھ زیادہ پرجوش نہ تھے۔ انھیں اس واقعہ سے عبرت ہوئی انھوں علیحدہ انتخاب کے لیے ایک ریزولیوشن مرتب کیا غازی صاحب کی اس میں کھلی تائید شامل تھی، میں یہ ریزولیوشن امرت سر سے لے کر لاہور مولانا مظہر علی کے پاس آیا ان کا حال شاہ صاحب کی طرح تھا کہ مخلوط انتخاب پر پہلے ہی زیادہ خوش نہ تھے۔ مولانا حبیب الرحمن صاحب کو گاندھی ارون پیکٹ کے ماتحت بھی گورنمنٹ نے ایک خطرناک شخصیت قرار دے کر رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کی آمد کا کچھ دن اور انتظار کیا گیا۔ نہرورپورٹ کے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد ہمارے مخلوط انتخاب کو چمٹے رہنے کو نامناسب سمجھ کر علیحدہ انتخاب سے وابستگی کا احرار کانفرنس میں اعلان کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ مولانا حبیب الرحمن کی صدارت میں ’’حبیبیہ ہال‘‘ لاہور میں ’’احرارکانفرنس کی گئی اور کامیاب رہی جن کے لیے صلح کے قدم بڑھائے تھے۔ انھوں ہی نے صلح کا ہاتھ کھینچ لیا۔ اور نہرورپورٹ پر دستخط کر کے مکرے تو لوٹ کر اپنے گھر واپس آنا ہی دانائی تھا مگر ہندو پریس نے بڑا واویلا مچایا کہ احرار کانگرس کے غدار ہوگئے۔ ہم حیران کہ کس غلط الزام میں دھرے جارہے ہیں ، نہ کوئی سکھوں کو مطعون کرنے والا تھا نہ ہندوؤں سے بازپرس کرنے والا جنھوں نے نہرورپورٹ سے خود بغاوت کی تھی۔ وہی علیحدہ انتخاب پر ہمیں ملامت کرتے تھے، عجب بے انصاف دنیا ہے کہ جو عمل خود کھلے بندوں کرتی ہے اسی کا طعنہ اوروں کو دیتی ہے۔ خود نہرورپورٹ کو قبول نہ کیا اور ملک میں فتنہ پیدا کیا۔ہمارے اعلان پر جو نہرورپورٹ کو غرقاب کرنے کا قدرتی نتیجہ تھاـ، آسمان سر پر اٹھالیا۔ یہ کیا انصاف ہے کہ تم مخلوط انتخاب کے کسی فارمولا کو تسلیم نہ کر و اور ہمیں علیٰحدہ انتخاب پر دھر رگڑ و۔ لیکن طاقت کے غرور میں انصاف کی کون پروا کرتا ہے ہندوؤں کا پریس مضبوط تھا کانگریس اپنے عروج پر تھی۔ احرار بیچارے چکی کے دو مضبوط پاٹوں میں بری طرح پسے جارہے تھے۔
جواہر لا ل اور احرار:
حالانکہ اس ریزولیوشن کی ترتیب میں میرا کچھ حصہ نہ تھا، مگر ڈاکٹر عالم اور کچھ دوسرے آدمیوں کو ناجائز شُبہ گزرا کہ اس ریزولیوشن کا مجوز میں ہوں۔ اور کانگریسی حلقوں میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ احرار پارٹی کا بانی افضل حق ہے۔ اور کانگریس سے بگڑ کر یہ اس لیے بنائی ہے تاکہ ورکنگ کمیٹی کا ممبر نہ لیے جانے کا انتقام لے سکے۔ حالانکہ سب دوست جانتے ہیں کہ میں اپنے حال میں خوش رہنے والا شخص ہوں۔ ۱۲ ؍برس سے احرار میں ہوں مگر معمولی حیثیت سے کام کرنے پر مطمئن ہوں۔ کبھی عہدے کی آرزو نہیں کی۔ اگر ورکنگ کمیٹی کا ممبر ہونا فخر ہے تو یہ فخر تو نمایا ں طور سے مجھے حاصل ہوچکا تھا اور اس تاریخی ورکنگ کمیٹی کا ممبر رہ چکا ہوں جو خلافِ قانون قرار پاکر سزایاب ہوئی تھی اور جس میں کانگریس کے قابل عزت افراد شامل تھے۔ اگر یہی میری آرزو تھی تو اس کی تکمیل بوجہ احسن ہوگئی تھی۔ اب اور کیا چاہیے تھا؟ مگر شبہات پیدا کرنے والی سرگوشیاں فرشتہ لوگوں کو بھی بدظنی پر مائل کر دیتی ہیں۔ چنانچہ کانگریس کے فرقہ وار لیڈروں نے ہماری جماعت کے مقتدر لیڈروں کو بلا کر انہی سرگوشیوں کے زیرِ اثر کہا کہ ہوشیار! افضل حق بہت بڑی رقم کے عوض سرفضل حسین کے ہاتھ بک گیا ہے۔ خداخوش رکھے میرے ساتھیوں کو انھوں نے ناراض ہو کر جواب دیا کہ گفتگو یہیں ختم کردی جائے۔ اس کی سیرت میں ہم ایسی خامی نہیں پاتے۔ مگر بری خبر اور بدظنی پر پرواز پیدا کر کے ہر جگہ پہنچتی ہے ۔ پنڈت جواہر لال نے سنی تو میری کہانی میں نام لیے بغیر مجلس احرار کے معرض وجود میں آنے کا سبب ورکنگ کمیٹی کی ممبری کو قرار دیا۔ بعض دانا بھی کیسی نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔مگر کون سا قلم لاؤں جو جواہر لال جیسے سرمایہ دار سوشلسٹ لیڈر اور مصنف کے نقشِ باطل کے ساتھ حرف غلط کا ساسلوک کر سکے۔ میاں سرفضل حسین ایک ہوشیار سیاست دان تھا، مگر ہم آٹھ برس اکٹھے کو نسل میں رہے تھے تاہم سیاسی بلی کتے کا بیررہا۔ ایک دوسرے کی عزت کرنے کے باوجود سیاسیات میں ہمیشہ بطور مخالف کے کام کیا۔ سرظفر اﷲ کی تقرری کے بعد تو دلوں میں تلخی پیدا ہوگئی۔ غرض میری اور ان کی زندگی میں باہم تعاون کا کبھی موقع نہیں آیا۔ یہ جواب تو ان کانگرسی لیڈروں کے لیے ہے جنھوں نے میرے عزیز دوستوں کو بلا کر مجھ سے بدظن کرنے کی سعی ناکام کی مگر جواہر لال کے ملفوظات کا سوائے صبرو شکر کے کیا جواب دوں۔ ہاں ہمارے متعلق ان کی رائے دوست و دشمن دونوں کے مطالعہ کے لائق ہے جو درج ذیل ہے او ر خاص اہمیت کی چیز ہے:
’’کراچی کانگریس کی آخری کارروائیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے آئندہ سال کے لیے نئی ورکنگ کمیٹی منتخب کی اس کی کمیٹی کا انتخاب آل انڈیا کانگریس کمیٹی کرتی ہے۔ مگر کچھ عرصے سے یہ طریقہ رائج ہو گیاہے۔ کہ جو شخص کانگریس کا صدر ہوتا ہے۔ وہ گاندھی جی اور کبھی کبھی بعض اور رفیقوں کے مشورے سے ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کے نام تجویز کرتا ہے اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی اس تجویز کو منظور کر لیتی ہے۔ کراچی میں جو ورکنگ کمیٹی کا انتخاب کیا گیا اس سے ایک ناخوش گوار نتیجہ پیدا ہوا جس کا ہم لوگوں کو اس وقت خیال بھی نہ تھا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے بعض ممبروں کو اس انتخاب پر خصوصاًایک مسلمان کے نام پر اعتراض تھا۔ شاید انھیں یہ شکایت بھی تھی کہ ان کے حلقے میں سے کوئی بھی نہیں لیا گیا ظاہر ہے کہ پندرہ آدمیوں کی آل انڈیا کمیٹی میں ہر گروہ کی نمائندگی ناممکن تھی۔ اور اصل نزاع جس کا ہمیں کچھ علم نہیں تھا محض ذاتی اور مقامی تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اعتراض کرنے والا گروہ رفتہ رفتہ کانگریس سے علیحدہ ہوگیا۔ اور اس نے مجلس احرار کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائی پنجاب کے بعض نہایت سرگرم اور ہر دل عزیز مسلمان کانگریسی کارکن اس انجمن میں شریک ہوگئے۔ اور انھوں نے پنجاب کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ لوگ زیادہ ترنچلے اوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اورا ن کا عام مسلمانوں پر بڑا اثر تھا۔ یہ ایک زبردست انجمن بن گئی۔ جواونچے طبقے کے فرقہ پرست مسلمانوں کی فرسودہ جماعت سے کہیں زیادہ قوت رکھتی تھی ۔ اس لیے کہ اس جماعت کی کارروائیاں محض ہوائی تھیں یا یوں کہنا چاہیے کہ دیوان خانوں اور کمیٹی کے کمروں تک محدود تھیں۔ لازمی طور پر احرار کی انجمن رفتہ رفتہ فرقہ پرستی کی طرف مائل ہوگئی۔ مگر چونکہ ان کا تعلق عام مسلمانوں سے تھا۔ اس لیے وہ ایک زندہ جماعت تھی۔ اور بعض مہم معاشی خیالات بھی رکھتی تھی۔ آگے چل کر دیسی ریاستوں خصوصاًکشمیر کے مسلمانوں کی شورشوں میں جہاں بدقسمتی سے معاشی شکایتیں فرقہ پرستی میں گڈمڈ ہوگئی تھیں احرار نے بہت اہم حصہ لیا۔ احرار پارٹی کے بعض لیڈروں کے کانگریس سے الگ ہوجانے سے پنجاب کی کانگریس کو بہت نقصان پہنچا۔ مگر کراچی میں ہمیں اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کے الگ ہوجانے کی وجہ صرف وہ ناراضی ہی نہیں تھی جو ورکنگ کمیٹی کے انتخاب سے پیدا ہوئی۔ یہ تو محض علامت تھی جس سے صورت حال کا اظہار ہو گیا۔ اصل اسباب کچھ اور تھے۔‘‘
جہاں تک ورکنگ کمیٹی کی ممبری کا احرار کے معرض و جود میں آنے سے تعلق ہے، یہ تحریر ایک کہہ مکرنی ہے جس میں پنڈت جواہر لال باوجود سب کچھ کہہ کر نہ کہنے کے دعویدار ہیں۔ الزام دے کر خود دامن بچاجانے والے لوگوں کی برپاکر دہ مصیبتوں سے خدا سب کو بچائے۔ میری ذات سے الگ احرار کی صفات کے متعلق پنڈت کا بیان ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تہہ کو پہنچنے کے لیے اچھے دل و دماغ کی ضرورت تھی۔ شاید احرار کے بہترین ہمدردوں نے احرار ذہن و مزاج کو اس طرح صاف نہ سمجھا ہو۔ احرار کی ساخت اور ذہنی افتاد کا پورا تجزیہ کرنے سے پہلے ضرورت ہے کہ میں شخصی بحث کو یہ کہہ کر ختم کردوں کہ اگرمیرے اشارے کو سمجھ کر محترمی ڈاکٹر صاحب کے علاوہ اور کسی کو ورکنگ کمیٹی کا ممبر بنا دیا جاتا تو خود کانگریس اور ڈاکٹر صاحب کے لیے بہتر ہوتا۔ لیکن ’’نچلے طبقے کے لوگوں‘‘ یعنی بقول پنڈت جواہر لعل احرار کے نیک مشورے کو پائے حقارت سے ٹھکرادینا اربابِ اقتدار کے بس میں تھا مگر اپنے غلط عمل کے نتائج سے بچ نکلنا مشکل ہوگیا۔ باوجود ڈاکٹر عالم صاحب کی بہت سی خوبیوں کے کانگریس اور ان میں نباہ نہ ہوسکا۔ انھوں نے بہت تھوڑے عرصے میں کانگریس اور گاندھی جی کے لیے تلخ تجربوں کا بہت بڑا سرمایہ فرہم کر دیا۔ ہم میں سے کوئی نہ ان کی ترقی در جات پر خار کھانے والا تھا اورنہ عہدوں کے لیے بے تاب تھا۔ ہم نے بھولے سے گاندھی جی کو ایک نیک مشورہ دیا اس کو قبول نہ کر کے خودہی کانگریس نے تھوڑے عرصے کے بعد اس کی صحت کی تصدیق کردی۔ مجلس احرار تو اس واقعہ سے تین سال پہلے بن چکی تھی ہاں یہ سچ ہے کہ کسی آزاد اقدام کا اسے موقع نہ ملا تھا۔
البتہ نہرورپورٹ کے غرقاب ہونے کے نتیجے کے طور پر جب ہم علیحدہ انتخاب پر واپس چلے گئے، تو ہندو پریس نے جو شورِ قیامت اٹھایا اس نے ہماری پوزیشن کو علیحدہ جماعت کے طور پر نمایاں کردیا۔ اس شور و شر سے خیر کی صورت پیدا ہوئی ہمیں خود اپنے الگ وجود کا احساس ہوگیا۔ اور ہم اپنے نفع نقصان کو خود سوچنے لگے۔ اپنی منزل معین کرکے ناتواں قافلے کے قافلہ سالاربن گئے۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.