مولانا حبیب الرحمن اعظمی
اسلام کی تاریخ میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا طبقہ وہ منتخب اور برگزیدہ طبقہ ہے، جسے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور امت کے درمیان قابل اعتماد واسطہ کی منفر د حیثیت حاصل ہے۔ پیغمبر اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے یہ ساتھی ہی، آپ کے پیغامِ ہدایت ورحمت اور آپ کی سعادت بخش تعلیمات کو پورے عالم میں پہنچانے والے ہیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کے اس داعیانہ کردار کا اعلان خود رب علیم وخبیر نے اپنے رسول کے ذریعہ ان الفاظ میں فرمایا: ’’قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِی اَذْعُوْ الی اﷲِ عَلیٰ بَصیْر ۃ اَنَا وَمنْ اتَّبَعْنی ‘‘ آپ اعلان کردیں کہ یہ میرا راستہ ہے، بلا تا ہوں اﷲ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور میرے ساتھی۔
مطلب یہ ہے کہ کسی اندھی تقلید کی بنیاد پر نہیں، بلکہ حجت وبرہان اور بصیرت دو جدان کی روشنی میں، میں اور میرے اصحاب دینِ توحید کی دعوت دے رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو پیغمبر انہ نورِ بصیرت عطا فرمایا تھا، ہر صحابی رسول کا دل ودماغ آپ کی صحبت ومعیت کی برکت سے اس نور سے روشن ہوگیا تھا اور دعوت الی اﷲ علی وجہ البصیرۃ میں وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست وباز واور رفیق کاربن گئے تھے۔ حدیث پاک ’’ماانا علیہ واصحابی‘‘ میں پیغمبر اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اپنے اصحاب کی اسی رفعت شان اور بلند ترین داعیانہ کردار کو نمایاں فرمایا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت در حقیقت امام المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کا جزء ہے، عام شخصیات ورجال کی طرح انھیں صرف کتب تاریخ کی روشنی میں نہیں، بلکہ قرآن وحدیث اور سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے آئینہ میں دیکھا جائے گا۔
معروف شارح حدیث وسیرت قاضی عیاض مالکی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
ومن تو قیرہ صلی اﷲ علیہ وسلم توقیرُ اصحابہ، وبرُّھم ومعرفۃ حقھم، والا قتداء بھم وحسن الثناء علیھم والا ستغفار لھم، والا مساک عمّا شجر بینھم، ومعاداۃ من عادا ھم، والا ضراب عن اخبار المؤر خین وجھلۃ الرواۃ (الأ سالیب البدیعۃ: ص ۸)
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی توقیرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی توقیر کا ایک حصہ ہے، ان سے بھلائی کا معاملہ کرنا، ان کے حق کو پہنچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی مدح وستائش کرنا، ان کے حق میں دعائے استغفار کرنا، ان کی باہمی آویزش کے ذکر سے زبان وقلم کو روکنا، ان سے عناد رکھنے والوں سے عناد اور دشمنی رکھنا، مؤرخین اور ناواقف راویوں کی ان کی خلاف شان روایتوں سے اعراض کرنابھی (حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کی وجہ سے ہے)۔
شیخ الا سلام مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ سابق صدر المدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز میں:
’’صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی شان میں جو آیات وارد ہیں، وہ قطعی ہیں، جو احادیث صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں، وہ اگرچہ ظنّی ہیں: مگر ان کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میں آیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہوگا تو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہوگا۔ ‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام ، ج ا، ص ۲۴۲ مکتوب ۸۸)
آیات پاک:
اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ المُھَا جِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عنہ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَ نْھَارُ خَالِدِیْنَ فیھَا اَبَداً ذالِکَ الفَوْزُ الْعَظِیم۔
اور جولوگ قدیم ہیں، سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے، جو لوگ ان کے پیرو ہیں، نیکی کے ساتھ، اﷲ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اﷲ سے، تیار کررکھے ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں، رہا کریں اس میں ہمیشہ، یہی ہے بڑی کامیابی!
مُسنِد ہند سراج الامت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اﷲ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے، جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایا ہے، تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں وہ سب ساقط ہوگئے۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ عالم الغیب ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں بندہ سے فلاں وقت میں نیکی اور فلاں وقت میں بدی صادر ہوگی، اس کے باوجود جب وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ میں نے اسے جنتی بنا دیا، تو اسی کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہوگیا کہ ان کی تمام لغزشیں معاف کردی گئی ہیں، لہٰذا اب ان مغفور بندوں کے حق میں کسی کا لعن طعن اور برا بھلا کہنا، حق تعالیٰ پر اعتراض کے مترادف ہوگا۔ اس لیے کہ ان پر اعتراض اور زبان طعن دراز کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ بندہ تو برا ہے، پھر اﷲ نے اسے جنتی کیسے بنا دیا۔ اور ظاہر ہے کہ اﷲ رب العزت پر اعتراض کفرہے۔ ‘‘الی آخرہ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ نے ’’الصارم المسلول‘‘ میں قاضی ابو یعلیٰ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ: ’’رضا‘‘ اﷲ تعالیٰ کی صفتِ قدیم ہے، وہ اپنی رضا کا اعلان صرف اُنھیں کے لیے فرماتا ہے، جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات اسباب رضا پر ہوگی۔
علامہ موصوف ہی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
ماذ کر عن الصحابۃ من السیئات کثیر منہ کذب، وکثیر منہ کانوا مجتھدین فیہ لکن لا یعلم کثیر من الناس وجہ اجتھادھم، وما قدر انہ کان فیہ ذنب من الذنوب لھم فھو مغفورلھم اما بتوبۃ، واما بحسنات ماحیۃ واما بمصائب مکفرۃ، واما بغیر ذلک، فانہ قد قام الدلیل الذی یجب القول بموجبہ انھم من اھل الجنۃ، فامتنع ان فعلوا مایوجب النار لا محالۃ، واذا لم یمت احدھم علی موجب النار لم یقدح ذلک فی استحقاقھم الجنۃ (المنتقیٰ)
صحابہ کی جانب جو سیئات منسوب کی گئی ہیں ان میں بیشتر جھوٹی ہیں اور ان میں بہت سی وہ ہیں، جن کو انھوں نے اپنے اجتہاد سے حکم شرعی سمجھ کر کیا ہے؛ مگر لوگوں کو ان کے اجتہاد کی دلیل معلوم نہیں ہوسکی اور جنھیں گناہ ہی مان لیا جائے، تو وہ گناہ معاف ہوگیا ہے، یہ عفوو مغفرت یا تو توبہ کی بناء پر ہے یا ان کی نیکیوں کی کثرت نے ان گناہوں کو مٹادیا، یا دنیاوی مصیبتیں کفارہ بن گئیں اور دیگر اسباب مغفرت بھی ہوسکتے ہیں۔کیونکہ دلیل قرآن وحدیث سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ اس لیے نا ممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل ان کے نامہ اعمال میں باقی رہے جو جہنم کا سبب بنے، تو جب صحابہ رضوان اﷲ علہیم اجمعین میں سے کوئی ایسی حالت میں وفات نہیں پائے گا، جو دخولِ دوزخ کا سبب بنے، تو اب کوئی چیز ان کے مستحق جنت ہونے میں مانع نہیں ہوگی!
اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے حاصل اس مقام بلند کی بنا پر اہل سنت الجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین عادل، قابلِ اعتماد اور جنتی ہیں اور ان کی شان میں زبان طعن دراز کرنا فسق وفجور ہے۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ۔ إنک أنت الوہاب۔