حضرت علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
حجۃ الوداع کے موقع پر بیمار ہو کر بظاہر قریب المرگ ہوگئے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مزاج پر سی کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے حق میں شفایابی کی دعا فرماتے ہوئے تسلی دلائی اور فرمایا:
امید ہے کہ تم اپنے ساتھیوں کے بعد زندہ رہو گے اور تم اﷲ کی خوشنودی کے لیے جو بھی کام کرو گے، اس سے تمہارے درجات بلند ہوں گے اور امید ہے کہ تم اس وقت تک زندہ رہ جاؤگے جب کہ کچھ لوگوں کو تم سے نفع پہنچے گا۔ اور کچھ کو نقصان (مسلم شریف ص ۴۰ج ۲)
یہ الفاظ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ سے فرمائے تھے۔ وہ رشتے میں آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے۔ ماموں بھی کیسے؟ قابل فخر اور مایۂ ناز۔ تفاخر بالا نساب (اپنے خاندان پر فخر کرنا) محض اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے جائز نہیں ہے، لیکن دینی مصلحت سے جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ حنین کے موقعہ پر خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ رجز پڑھا تھا۔
’’انا النبی لا کذب
#انا ابن عبدالمطلب
m(میں نبی ہوں، کچھ شک نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں)
اسی قبیل سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ہیں جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمائے تھے:’’ ھذا خالی فلیرنی امرؤ خالہ‘‘یہ میرے ماموں ہیں کوئی مجھے ان جیسا اپنا ماموں تو دکھائے۔ (ترمذی ص: ۲۱۶، ج: ۲)
حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ان چند افراد میں سے ہیں جو شروع شروع میں اسلام لے آئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد دوسرے حضرات کی طرح انہیں بھی سخت آزمائشوں سے گذرنا پڑا، مگر پائے استقلال میں کوئی جنبش نہ آئی۔ ہجرت کے بعد عموماً انہیں قریش کے حالات دریافت کرنے کی مہم سونپی جاتی رہی۔ غزوۂ احدکے موقعہ پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان الفاظ سے انہیں خطاب فرمایا: ’’ارم یا سعد فداک ابی وامی‘‘ سعد! تم تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔
بخاری شریف میں روایت ہے، حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے رہے۔ بعض سفروں میں تو ہمیں کھانے کو صرف درختوں کے پتے ملتے رہے اور پتے کھا کھا کر ہمارے جبڑے چھل گئے تھے۔
حضرت سعد رضی اﷲ عنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی غزوہ سے واپس تشریف لائے، آرام فرمانا چاہتے تھے۔ خواہش ظاہر فرمائی کہ کوئی شخص آج رات پہرہ دیتا۔ اتنے میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی۔ پوچھا: کون؟ جو اب ملا: سعد! (بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ)پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا: میرے دل میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کے متعلق اندیشہ گذرا تھا، اس لیے چوکیداری کو حاضر ہوگیا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور سو گئے۔
اوپر حضور صلی اﷲ علیہ کی جس پیشین گوئی کا ذکر آیا ہے کہ کچھ لوگوں کو تم سے نفع پہنچے گا اور کچھ کو نقصان۔ وہ اس طرح پوری ہوئی کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت میں عراق کی مہم انہیں سونپی۔ قادسیہ کی مشہور جنگ، آپ ہی کی کمان میں فتح ہوئی۔ یہی وہ جنگ ہے جس کے بعد ایرانیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے مختصر سے عرصے میں ایران کا دارا لسلطنت مدائن کا شہر فتح ہوگیا۔
قادسیہ کی لڑائی کے موقعہ پر حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو سخت تشویش رہتی تھی۔ روزانہ مدینہ سے باہر نکل کر عراق کے راستے پر قاصد کا انتظار فرماتے، دھوپ تیز ہو جانے پر واپس ہوتے۔ جس روز حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کا ایلچی خوش خبری لے کر آیا، تو مدینہ سے باہر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسے دیکھ لیا وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہچانتا نہیں تھا۔ فتح کا مژدہ سناتا ہوا، اونٹ دو ڑائے چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے جنگ کی خبریں معلوم کرتے رہے۔ جب آبادی میں پہنچے اور عام لوگوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ’’السلام علیکم یا امیر المومنین!‘‘ کہنا شروع کیا تو ایلچی کو پتہ چلا۔ پھر جب مدائن کا شہر فتح ہوا اور حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے خوشخبری کے ساتھ مال غنیمت کا پانچواں حصہ دربار خلافت کو بھجوایا تو اس میں شاہ ایران کے سونے کے کنگن بھی تھے، جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق تھوڑی دیر کے لیے حضرت سراقہ بن مالک رضی اﷲ کو پہنائے گئے۔ (۱)
ان تمام فتوحات کا سہرا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ کے سر ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کے گونا گوں اوصاف اور کمالات تھے، جن کی بناء پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: سعد بن ابی وقاص فی الجنۃ۔ (سعد بن ابی وقاص جنت میں ہوں گے)
ابن عبدالبر رحمہ اﷲ تحریر فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کی وفات کا وقت آیا ، تو آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک پرانا اونی جبہ طلب فرمایا اور کہا: مجھے اس میں کفن دینا، بدر کے روز میں نے اسی کو پہن کر لڑائی میں حصہ لیا تھا، اور آج ہی کے لیے اسے چھپا رکھا تھا۔
٭……٭……٭
حواشی
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کے موقع پر سراقہ بن مالک نے قریش کے اعلان کردہ انعام کے لالچ میں پیچھا کیا۔ قریب آیا تو معجزانہ طور پر اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ معافی مانگی اور واپس چلے جانے کا وعدہ کیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا سے گھوڑا باہر نکل آیا۔ اس کی نیت پھر خراب ہوگئی، گھوڑے کی ٹانگیں پھر دھنس گئیں۔ تین مرتبہ ایسا ہوا۔ جب آخری مرتبہ صدق دل سے تائب ہوئے تو گھوڑا باہر نکلا۔ حضور نے انھیں ایک مژدہ سنایا: سراقہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جبکہ شاہ ایران کے سونے کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہوں گے؟ جس وقت سراقہ کو یہ خبردی جارہی تھی، اس وقت کوئی سوچ بھی نہ سکتا ہوگا کہ دشمن کی سختیوں سے تنگ آکر گھر بار کو چھوڑ کر جانے والے کی یہ بات کبھی پوری ہوگی۔ لیکن جب نبی الصادق المصدوق صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی تو امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا اور حاضرین مجلس نے بھی۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے کہا: ’’اﷲ کا شکر ہے ، جس نے خدائی کے دعوے دار کسری کے ہاتھوں سے یہ کنگن اتار کر ایک مدلجی بدوی کو پہنائے۔ سراقہ ! آؤ، سونا مردوں کے لیے حرام ہے، مگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی تکمیل کے لیے تم تھوڑی دیر کے لیے یہ کنگن پہن لو۔
من الظلمٰت الی النور
پروفیسر Nagel Axworthy کا قبول اسلام!
سعودی یونیورسٹی میں انگلش کے برطانوی پروفیسر ڈاکٹر نیجل ایکسورتھی (Nagel Axworthy) نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے اعزاز میں بطحاء میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کے شرکا نے ڈاکٹر ایکسورتھی کو گلے لگایا اور انہیں دعائیں دیں۔ اس موقع پر نو مسلم پروفیسر کا کہنا تھا کہ کلمہ پڑھنے کے بعد مجھے جو روحانی مسرت نصیب ہوئی ہے، اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں اس وقت سے اسلام کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا کہ جب سے برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ میں نے اسے قریب سے دیکھنے کے لیے سعودی عرب آنے کا ارادہ کیا۔ سعودیہ آکر اسلام کو قریب سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا کہ یہی وہ متاع ہے جسے میری روح عرصے سے تلاش کر رہی تھی اور میں نے خود سرکاری دفتر میں آکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ صرف گزشتہ دس برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد برطانوی شہری اسلام قبول کر چکے ہیں، جبکہ سالانہ 5200 برطانوی حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی معاشرے میں پھیلی بے راہ روی اور فحاشی سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے سامنے اسلام کا نقشہ اور دعوت مؤثر طریقے سے پیش کی جائے۔ اگر اس حوالے سے بھرپور محنت کی جائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ ایک عشرے کے دوران پورا یورپ مسلمان ہو جائے گا۔ (بحوالہ السبق سعودیہ)