سید محمد کفیل بخاری
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے صدر مارکس پلیئر نے تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر 23اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ:
’’پاکستان گرے لسٹ میں شامل رہے گا۔ ایران اور شمالی کو ریا کو بلیک لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ آئس لینڈ اور منگولیا کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ پاکستان نے 27میں سے 21نکات پر عمل کیا مثبت پیش رفت کی باوجود بائی 6نکات پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ پاکستان نے عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امتیازی سلوک نہیں کر رہے۔ آئندہ اجلاس سے پہلے چیک کریں گے کہ نکات پر عمل ہورہا ہے یا نہیں۔ جن نکات پر عمل در آمد کرنا ہے وہ بہت اہم ہیں‘‘۔ (نوائے وقت لاہور، 24اکتوبر 2020ء)
ایف اے ٹی ایف 37ارکان پر مشتمل ایک بین الاقومی تنظیم ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، بھارت، ترکی، خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔تنظیم کی بنیادی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پرمنی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کو روکنا ہے۔ پاکستان گو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لیے دو ماہ قبل پارلیمنٹ نے ایف اے ٹی بل پاس کیا جس کے تحت پاکستان کی دینی قوتوں کے گردپابندیوں کا گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ نئے قوانین کے تحت مدارس و مساجد کا قیام اور اُن کے لیے زمین وقف کرنے کااختیار تقریباً ختم کرکے بہت مشکلات پیدا کردی گئی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے عملاًیہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے سامنے بے بس ولاچار ہیں۔
طاقت ورتو وہی ہیں جو ہماری ’’آزاد‘‘ پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کے قوانین بنوا رہے ہیں۔ کیا مدارس و مساجد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت میں ملوث ہیں؟ دینی قوتوں کو بیرونی دباؤ پر پاکستان سے وفاداری کی سزادی جارہی ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنادیا۔ اس فیصلے کے بعد صدر مملکت اور وزیراعظم اپنے عہدوں پر رہنے کا جواز کھوبیٹھے ہیں۔ نیب کے بارے میں عدالتی ریمارکس سے اس ادارے کے متعلق مولانا فضل الرحمن اور پوری اپوزیشن کے مؤقف کی تائید ہوئی ہے۔
پی ڈی ایم کے کراچی جلسے کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے جو بداخلاقی کی گئی وہ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ بدتمیزی وبد اخلاقی کا یہ آموختہ، ریاست کے کسی بھی شہری کے ساتھ کسی بھی وقت دہرایا جاسکتا ہے۔ آئی جی سندھ کا اغواء، کیپٹن صفدر کی گرفتاری، آئی جی سندھ، تین ایڈیشنل آئی جیز، 25ڈی آئی جیز،30ایس ایس پیز اورکئی ایس ایچ اوز کی احتجاجاً چھٹی کی درخواستیں، آرمی چیف کا نوٹس اورواقعے کی تحقیقات کا حکم، پاکستان کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ادھر پشاور میں پولیس افسر سے بدسلوکی کے حوالے سے سینٹ میں مولانا عطاء الرحمن کی زبانی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، نہایت غیر معمولی، فکر انگیز اور پریشان کن ہیں۔ ریاستی ادارے آمنے سامنے ہیں اور وزیر اعظم اس خوفناک صورت حال کو ’’کامیڈی‘‘ کہہ کر قہقہے لگارہے ہیں، غیر سنجیدگی اور نالائقی کی انتہا ہے۔ موصوف اڑھائی سال سے قوم کو مشورہ دے رہے ہیں کہ’’ گھبرانا نہیں‘‘ لیکن خود شدید گھبرائے ہوئے ہیں۔
غیر منتخب مشیروں پر حکومت چل رہی ہے۔ کابینہ اجلاس میں وزرا ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنا کر سب خرابیوں کا ملبہ بھی ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ جہانگیر ترین کب کے جاچکے، زلفی بخاری فرار کے بعد خاموش اور شہزاد اکبر بھاگنے کا موقع تلاش کر رہے ہیں۔ ’’بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔‘‘ وطن عزیز پاکستان گندم میں خود کفیل تھا لیکن خان صاحب نے کسانوں کے لیے ایسی ’’شاندار‘‘ پالیسی بنائی کہ روس سے پاکستان کے لیے گندم امپورٹ کی گئی ہے۔ سرمایہ کار اور صنعت کار خاموش، جبکہ چھوٹا تاجر ہاتھ پہ ہاتھ رکھے خان صاحب کو ’’دعائیں‘‘ دے رہا ہے۔ دوائیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب علاج سے محروم ہوگیا ہے۔ خان صاحب پھر کہے جارہے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان سے بھی ’’کامیڈی‘‘ ہونے والی ہے۔ بادشاہ گر اور حکومت ساز آخر کب تک اپنی غلط چوائس کا بھگتان کرتے رہیں گے۔ شاید وہ دن قریب ہے جب عمران خان کے کان میں کوئی آکر کہہ دے گا: ’’خان صاحب! گھبرانا نہیں‘‘
مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید رحمۃ اﷲ علیہ
جامعہ فاروقیہ (حب کراچی) کے مہتمم مولانا ڈاکٹر محمدعادل خان 10اکتوبر 2020ء کو کراچی میں شہید کردیے گئے۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون۔ مولانا محمد عادل شہید رحمۃ اﷲ سے میری پہلی اورآخری ملاقات جامعہ خیر المدارس ملتان میں مولانا محمد حنیف جالندھری کی ہاں ہوئی۔ وہ 24ستمبر 2020ء کو ملتان میں منعقد ہونے والی ’’عظمت صحابہ واہل بیت ریلی‘‘ میں شرکت وخطاب کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے میرا دل موہ لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اﷲ قدیم وجدید علوم پر گہری نظری رکھنے والے بیدار مغز عالم دین تھے۔ محرم الحرام میں اسلام آباد اور کراچی میں بعض بدبختوں نے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنھم خصوصاً خلیفۂ بلا فصل رسول سیدنا ابوبکر صدیق اور خلیفۂ راشد سیدنا معاویہ وسیدنا ابو سفیان رضی اﷲ عنھم کی کھلے عام توہین وگستاخی کی تو ملک بھرمیں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکرنے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ کراچی میں مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید رحمہ اﷲ نے اہل سنت کا سب سے بڑا اجتماع منعقد کرکے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنھم سے اپنی اعتقادی وابستگی کا بھر پور اظہار کیا۔ یہی اجتماع ملک بھر میں اہل سنت کے اتحاد اور بیداری کا سبب بنا۔ ڈاکٹر صاحب شہید اتحاد امت کے داعی، امن پسند اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے امین تھے۔ دشمن نے تاک کر وار کیا اور ایک ایسی شخصیت سے ہمیں محروم کردیا جس کے وجود سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچ رہا تھا۔ ملتان کی عظمتِ صحابہ ریلی میں انہوں نے انگریزی زبان میں بہت جامع اور فکر انگیز خطاب کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب وقت کے پابندوقدر دان، خوش مزاج اوراعلیٰ اخلاق والے انسان تھے۔ برادر مکرم مولانا طلحہ رحمانی مدظلہ اُن کے رفیق سفر تھے۔ اُن کی روایت ہے کہ قیام ملتان کے دوران میرے متعلق فرمایا کہ ’’بھائی! یہ شاہ صاحب کراچی آئیں تو ان سے ضرور ملاقات کرانا۔ ملتان کی ریلی میں میری مختصر ترین تقریر سنا کر بہت خوش ہوئے اورمجھے تھپکی دیتے ہوئے فرمایا۔ آپ نے مختصر وقت میں خوب باتیں کہہ دی ہیں۔‘‘ آہ ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدا پنے پیش رو علماء، شہداء کے قافلے میں شامل ہوکر ہمیشہ کے لیے زندۂ وجاوید ہوگئے۔ اُن کے سفاک قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے۔ اُن کا خون حکمرانوں کے سر ہے۔ اور انہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اﷲ تعالیٰ، مولانا شہید کے درجات بلند فرما کر انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء فرمائے (آمین)
مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی رحمۃ اﷲ علیہ
12؍اکتوبر 2020ء کوملک کی عظیم علمی ودینی شخصیت مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی انتقال فرماگئے۔ انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون۔ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اﷲ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ الرشید کراچی میں استاذ حدیث تھے۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ علیہ کے تلمیذ رشید تھے۔ دو سال قبل ملتان تشریف لائے تو ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم سے ملاقات کے لیے بھی تشریف لائے۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اﷲ، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری نور اﷲ مرقدہ کے فیض یافتہ تھے اور حضرت شاہ جی بھی حضرت رائے پوری سے بیعت ہیں۔ دوران ملاقات وہ حضرت رائے پوری کی لاہور کی مجالس کاذکر فرماتے رہے جس میں حضرت شاہ جی بھی حاضر رہتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اﷲ سے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی لیکن ان کے تبحر علمی اور تقویٰ و تدیّن کے پاکیزہ نقوش دل ودماغ پر مرتسم ہیں۔ ایک باوقار اور متاثر کرنے والی شخصیت، جن کی علمی ودینی اور تدریسی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے جامعۃ العلوم الا سلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حدیث کے منتہی طلبہ کی ایک پوری جماعت کی تربیت کا حق ادا کیا، ہزاروں مسلمانوں کے قلوب کو علم دین کی روشنی سے منور کیا اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اُن کا فیض جاری ہے اور مدتوں جاری رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ اُن کے حسنات اور علمی ودینی خدمات قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے (آمین)